"KMK" (space) message & send to 7575

طرز حکومت کا اچار اور ہانگ کانگ

میں جس عمارت میں ٹھہرا ہوا ہوں وہ اٹھاون منزلہ ہے۔ یہ شہر کی بلند ترین عمارت کے نصف کے برابر ہے۔ سب سے بلند عمارت آئی سی سی ٹاور ہے جوایک سو اٹھارہ منزلہ ہے۔ شہر کیا ہے کنکریٹ کی بلند و بالا عمارات کا ایک جنگل ہے۔ میں نے بے شمار شہر اور ان گنت جگہیں دیکھی ہیں یہ شہر ان سے مختلف نہ ہوتے ہوئے بھی مختلف ہے۔ اس کا موازنہ صرف نیویارک کے مین ہٹن سے کیا جاسکتا ہے۔ مگر صرف موازنہ۔ وگرنہ یہ شہر میرا مطلب ہے اس شہر کی عمارتوں کا جنگل مین ہٹن سے کہیں زیادہ گھنا اور بڑا ہے۔ ٹھیک ہے مین ہٹن میں اب ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ ہے۔ کبھی ٹوئن ٹاورز ہوا کرتے تھے مگر ان ایک دو بلند ترین عمارات سے قطع نظر جتنی بلند عمارات اس جگہ ہیں دنیا میں اور کسی شہر میں نہیں ہیں۔ اگر بلند عمارت کا معیار یہ طے کرلیا جائے کہ اس سے مراد ہر وہ عمارت ہے جو تیس منزلہ یا اس سے بلند ہو تو اس شہر میں ایسی عمارتوں کی تعداد ساڑھے آٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ پوری دنیا میں اتنی تعداد میں بلند عمارتیں کسی ایک شہر میں نہیں ہیں ۔ کبھی یہ گوروں کے زیر نگیں تھا اب یہ چین کا حصہ ہے اور مصنوعی سٹیٹس کا حامل ہے۔ ہانگ کانگ کو ''سپیشل ایڈمنسٹریٹوریجن‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ تھوڑی دور واقع جزیرہ مکائو بھی اسی سٹیٹس کا حامل ہے۔
ہانگ کانگ دراصل چھوٹے بڑے 263جزائر کا مجموعہ ہے۔ ایک جزیرہ ہانگ کانگ ہے اور دوسرا بڑا جزیرہ کولون ہے۔ دونوں کے درمیان پل بھی ہیں اور سرنگیں بھی۔ زمین پتھریلی ہے اور بلند عمارات کے لیے موزوں۔ لیکن یہاں بلند عمارتیں شوقیہ نہیں بنائی گئیں۔ زمین کم ہے اور آبادی زیادہ۔ دفاتر اور گھر جس حساب سے چاہئیں اس کے لیے اور کوئی چارہ ہی نہیں۔ آبادی تہتر لاکھ ہے اور رقبہ محض گیارہ سو چار مربع کلومیٹر۔ ایک مربع کلومیٹر میں آباد لوگوں کی تعداد 6612ہے۔ کولون کے علاقے کارقبہ نکال دیں جو بڑا ہے تو ہانگ کانگ چھوٹا سا ہے۔ جتنے مربع فٹ کا فلیٹ کراچی میں ستر اسی لاکھ میں دستیاب ہے اسی قسم کا فلیٹ ہانگ کانگ میں کم ازکم دس کروڑ روپے میں ملتا ہے۔ زمین تو خیر سے مہنگی ہے ہی۔ یہاں آسمان بھی مہنگا ہے۔ چھپنویں منزل پر تیئس فٹ لمبا اور بیس فٹ چوڑا ڈیڑھ کمرے کا فلیٹ ، جس میں ڈیڑھ کمرے بذات خود کمرے کے نام پر تہمت ہیں۔ سامنے دو فٹ چوڑی اور سات فٹ لمبی بالکنی ہے جس میں کپڑے سکھانے کے لیے ہینگر لٹکانے کی غرض سے دو سٹیل راڈز لگی ہوئی ہیں۔ تقریباً آسمان پر واقع ہے اور اس ڈربہ نما فلیٹ کی قیمت دس کروڑ پاکستان روپوں کے برابر ہے۔ ابھی یہ رہائشی ٹاور مین شہر سے تھوڑا ہٹ کر واقع ہوا ہے اور نسبتاً کافی سستا ہے۔ شہر میں اس سے بھی چھوٹے تقریباً کبوتروں کے ڈربوں جیسے فلیٹ اس سے کہیں مہنگے ہیں۔ دفتر اتنے چھوٹے چھوٹے ہیں کہ دم گھٹتا ہے۔ میں نے ایک دفتر میں دو تین پارٹیشنز کو حیرانی سے دیکھا تو دفتر کے مالک نے میری آنکھوں میں درآئی حیر ت کو بھانپ لیا اور کہنے لگا کہ یہ دفتر یہاں کے حساب سے خاصا بڑا اور کھلا ہے۔ بلکہ آپ اسے وسیع و عریض بھی کہہ سکتے ہیں۔
ہانگ کانگ ایئرپورٹ جزیرہ لان تائو پر ہے۔ یہ چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ لان تائو آئی لینڈ اور کولوں کے درمیان ہمہ وقت ہزاروں گاڑیاں رواں دواں رہتی ہیں۔ اس ٹریفک کو رواں رکھنے کی غرض سے درمیان میں پل ہیں۔ دونوں جزائر کے درمیان ایک اور چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ دو پل درمیان میں ہیں اور دونوں ہی انجینئرنگ کے شاہکار ہیں۔ایک پل دونوں طرف دو بلند و بالا کھمبوں سے منسلک سٹیل کے رسوں سے لٹکا ہوا ہے،جس کا نام چھنگ ما (Tsing ma)ہے،یہ دنیا کے طویل ٹرین سسپنشن پلوں میں شمار ہوتا ہے۔ ایک صاحب کا دعویٰ تھا کہ یہ دنیا کا طویل ترین Suspension Bridgeیعنی معلق پل ہے جبکہ میرا خیال تھا کہ یہ آٹھویں دسویں نمبر پرہوسکتا ہے مگر پہلے نمبر پر نہیں ہے ؛تاہم یہ بحث دو منٹ بھی نہ چل سکی اور ہم دیگر معاملات میں مصروف ہوگئے۔ دوسرا پل ایک دیوہیکل اور سر بفلک کنکریٹ کے کھمبے سے لٹکا ہوا ہے۔ درمیان میں یہ کھمبا ہے اور دونوں طرف اس کھمبے کے ساتھ سٹیل کے رسے لگے ہوئے ہیں اور اس پر یہ سارا پل لٹکا ہوا ہے۔ اس نوعیت کا اتنا بڑا پل میں نے پہلے کہیں نہیں دیکھا تھا۔ اس قسم کا ایک بہت چھوٹا سا پل مانچسٹر کے قریب سڑک کے اوپر پیدل لوگوں کے گزرنے کے واسطے بنا ہوا ہے۔ہر طرف عمارتیں ہیں اور جہاں کہیں عمارتیں نہیں ہیں وہاں سبزہ ہے اور درخت ہیں۔ سنگ وخشت کے اس گھنے جنگل میں درخت بھی بے شمار ہیں اور سبزہ بھی باافراط ہے۔ جہاں ایک بالشت بھی زمین بچی ہے وہاں روئیدگی ہے، سبزہ ہے اور پودے ہیں۔ اس نے ماحول کو متوازن رکھنے میں اپنی سی سعی کی ہے وگرنہ ماحولیاتی آلودگی جو پہلے ہی عروج پر ہے تباہ کن حد تک پہنچ جاتی۔ ابھی بھی صورتحال یہ تھی کہ سارا منظر دھندلا دھندلا نظر آرہا تھا۔ میں نے پوچھا کیا یہ دھند ہے؟ جواب ملا نہیں یہ فضائی آلودگی ہے اور جب تک بارش نہیں ہوگی یہ کم نہیں ہوگی۔ گزشتہ ایک ماہ سے بارش نہیں ہوئی اسی لیے برا حال ہے۔
ہانگ کانگ پر انگریز نے سو سال حکومت کی ہے۔ ہانگ کانگ بنیادی طور پر چین کا ہی حصہ ہے جس پر برطانیہ نے چین کے ساتھ ہونے والی پہلی جنگ افیون (First Opium War)جیتنے کے بعد 1842ء میں قبضہ کیا تھا۔ اس قبضے کے دوران ہانگ کانگ ایک اقتصادی مرکز کے طور پر سامنے آیا۔ نیویارک اور لندن کے بعد ہانگ کانگ دنیا کا تیسرا بڑا اقتصادی مرکز ہے۔ ہانگ کانگ کسی زمانے میں صنعتی حوالے سے بھی شہرت رکھتا تھا مگر 1997ء میں دوبارہ چین کے زیر قبضہ آجانے کے بعد اس کی تقریباً ساری انڈسٹری چین منتقل ہوگئی ہے اور اب ہانگ کانگ میں صرف درآمد ، برآمد ، خرید و فروخت کے سودے اور اقتصادی لین دین ہوتا ہے۔ پورے ایشیا کے لیے قائم بین الاقوامی تجارتی
کمپنیوں ، بینکوں ، بزنس ہائوسز، پیداواری کمپنیوں ، سروس انڈسٹریز اور الیکٹرانک میڈیا وغیرہ کے نوے فیصد سے زائد ہیڈ کوارٹرز صرف ہانگ کانگ میں ہیں۔ ایک عرصے تک ہانگ کانگ چین اور باقی دنیا کے درمیان تجارتی واسطے کا سب سے بڑا مرکز تھا ۔آج وہ چین کی تجارت کا براہ راست سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس وقت ہانگ کانگ کا سب سے بڑا مسئلہ روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی ہے اور اس کا سب سے بڑا حصہ چین سے آنے والے وہ امیر لوگ ہیں جو اپنے کاروبار اور پیداوار کو مزید بڑھانے کی غرض سے ہانگ کانگ میں بیٹھ کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہانگ کانگ کے مقامی لوگ ان آنے والے چینیوں سے تنگ بھی ہیں اور پریشان بھی۔ ان آنے والے چینیوں کے پاس پیسہ ہے اور پیسہ بھی اتنا کہ جس کا کوئی شمار نہیں۔ ان کے لیے مکان ، دفتر ، دکان، کاروبار یا زمین خریدنا کوئی مسئلہ نہیں ۔ پیسے کی اس افراط نے پہلے سے ہی مہنگے ہانگ کانگ کو مزید مہنگائی میں دھکیل دیا ہے اور مقامی لوگوں کی قوت خرید کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اب فلیٹ ، مکان ، اپارٹمنٹ ، دکانیں اور دفاتر انتہائی مہنگے ہوگئے ہیں ۔ ابھی یہاں فی کس آمدنی اتنی ہے کہ اس مہنگائی کے باوجود خوشحالی نظر آتی ہے۔ ہانگ کانگ میں سالانہ فی کس آمدنی تقریباً پچپن ہزار ایک سو سڑسٹھ ڈالر ہے۔ جو دنیا میں نویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں اقتصادی ماہرین کے مطابق فی کس اوسط سالانہ آمدنی ایک ہزار تین سو سات ڈالر ہے۔ اس حساب سے پاکستان دنیا میں ایک سو پینتالیسویں نمبر پر ہے۔ تاہم اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اوسط بالکل ویسا ہی ہے جیسے آپ اپنا ایک پائوں سو ڈگری سینٹی گریڈ کے جلتے ہوئے توے پر اور دوسرا پائوں زیرو ڈگری والے یخ بستہ برف کے بلاک پر رکھ دیں اور کہا جائے کہ آپ اس وقت پچاس ڈگری کے قابل برداشت اوسط درجہ حرارت پر پائوں ٹکائے بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں اقتصادی ماہرین کا جائزہ بھی اسی قسم کی فی کس اوسط
آمدنی کا حساب سناتا ہے۔ اس تیرہ سو سات ڈالر سالانہ والی آمدنی میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد کل آبادی کے نصف سے زیادہ ہے۔ ویسے تو یہ تعداد دو تہائی آبادی کے لگ بھگ ہے مگر ہم نصف والی بات ہی مان لیتے ہیں کہ یہ تعداد ہمارے ماہر اقتصادیات اکائونٹنٹ وزیر خزانہ نے کہی ہے۔ یاد رہے کہ خط غربت کا معیار دو ڈالر یومیہ سے کم آمدنی والے پر لاگو ہوتا ہے۔ اس حساب سے روزانہ دو سو روپے سے کم آمدنی والا خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بے شمار گھروں میں یہ آمدنی فی کس نہیں ، فی خاندان ہے بلکہ فی خاندان اس سے بھی کم ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے ایک سوستاسی ممالک میں پاکستان کا نمبر ایک سو چھپالیسواں ہے۔ پاکستان کا جی این آئی فی کس چار ہزار آٹھ سو چالیس ڈالر ہے جبکہ بھارت کا پانچ ہزار تین سو پچاس ڈالر اور سری لنکا کا نو ہزار چار سو ستر ڈالر سالانہ ہے۔
گاڑی میں ہانگ کانگ سے کولون جاتے ہوئے سمندر کے نیچے سے گزرنے والی سرنگ میں سفر کے دوران کسی نے پوچھا ہانگ کانگ میں طرز حکومت کیا ہے؟ جواب ملا کنٹرولڈ ڈیمو کریسی۔ سوال ہوا ،اس سے کیا مراد ہے؟ جواب آیا کہ لوگوں کو طرز حکومت سے تب تک زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی جب تک خوشحالی ہو اور یہاں خوشحالی ہے۔ اگر بدحالی ہوتو ہر طرز حکومت ناکام ہوجاتا ہے۔ پیٹ میں روٹی نہ ہو ، تن پر کپڑا نہ ہواور رہنے کے لیے مکان نہ ہوتو بھلا طرز حکومت کو چاٹنا ہے؟ تُف ہے ایسی جمہوریت پر جس میں بندہ بھوکا سوئے ، مائیں غربت سے تنگ آکر بچوں سمیت نہر میں کودیں اور چار چھ فیصد نام نہاد معززین پورے ملک کی دولت پر سانپ بن کر بیٹھے ہوں۔
ہمیں کوئی غرض نہیں کہ یہاں کون سا طرز حکومت ہے۔ لوگ خوشحال ہیں۔ روزگار لگا ہوا ہے۔ چھوٹے سے ملک کے پاس چھ سو ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ ہم نے طرز حکومت سے کیا لینا ہے؟ یہاں کبھی بجلی نہیں جاتی۔ کاروبار بند نہیں ہوتے۔ کم از کم غربت اور بھوک سے کوئی خودکشی نہیں کرتا۔ ہم نے طرز حکومت کا اچار ڈالنا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں