"KMK" (space) message & send to 7575

ہانگ کانگ کی مچھلی منڈی اور مولانا کا تفریحی دورہ

میں تین دن سے مسلسل کوشش کر رہا تھا کہ جس بلڈنگ میں قیام پذیر ہوں اس کے آخری سرے کو دیکھ سکوں یا کم ازکم پوری بلڈنگ کو ہی دیکھ سکوں، مگر مسلسل ناکام ہو رہا تھا۔ باہر نکل کر جب بھی اوپر منہ اٹھا کے اسے دیکھنے کی کوشش کی ناکامی ہوئی۔ بلڈنگ اس طرح تعمیر ہوئی ہے کہ نیچے کھڑے ہوں تو اوپر سے پوری نظر نہیں آتی۔ تھوڑی دور جا کر دیکھنے کی کوشش بھی اس لیے ناکام ہو گئی کہ درمیان میں دوسری اونچی اونچی عمارتیں حائل ہو گئیں۔ لیکن آج اپنی بلڈنگ کو دیکھنے کی حسرت پوری ہوئی۔ ہانگ کانگ کے ساحل پرکھڑے ہو کر 'لوکون‘ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ قیصر نے بتایا کہ وہ سامنے آئی سی سی ٹاور ہے۔۔۔۔۔ ہانگ کانگ کی بلند ترین عمارت‘ اور دائیں طرف ایک سرخی مائل عمارت نظر آ رہی ہے،اسی ٹاور میں آپ لوگ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یہ عمارت آئی سی سی ٹاورکے مقابلے میں بچہ لگ رہی تھی۔
میں گزشتہ تین دن سے اس کی مختصر سی بالکونی میں سے باہر جھانکتا ہوں تو بائیں ہاتھ نیچے ایک سکول پر نظر پڑتی ہے۔ صبح جب میں اٹھتا ہوں تو اس پر نظر ڈالتا ہوں۔ آج پہلا دن تھا کہ اس میں بچے نظر آئے۔ کل اور پرسوں یعنی ہفتہ اور اتوارکوچھٹی تھی۔ یہ ''سرایلس کدوری سیکنڈری سکول‘‘ ہے۔ یہ سکول آٹھ منزلہ ہے مگر اٹھاون منزلہ ٹاورکے سامنے چوزہ سا لگتا ہے۔ اس سکول کو روزانہ دیکھنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر اسی سکول میں پڑھتے رہے۔ عزیز بھٹی شہید 1928ء میں ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے۔ صرف چودہ سال کی عمر میں جاپان کی شاہی بحری فوج میں بھرتی ہوئے۔ تب ہانگ کانگ پر جاپان کا قبضہ تھا۔ 1947ء یعنی قیام پاکستان تک رائل انڈین ایئرفورس میں بطورکارپول فرائض ادا کیے اور پاکستان بننے کے بعد پاکستان آرمی میں آ گئے۔ 1965ء میں سینتیس سال کی عمر میں شہید ہوئے اور پاکستان فوج میں بہادری کا اعلیٰ ترین اعزاز ''نشان حیدر‘‘ کا اعزاز پایا۔ برکی کے محاذ پر شہید ہونے والے میجر عزیز بھٹی یہ اعزاز حاصل کرنے والے تیسرے پاکستانی فوجی تھے۔
آج 23 مارچ کی تقریب تھی جس کا اہتمام پاکستانی قونصلیٹ ہانگ کانگ نے کیا تھا۔ تقریب ہانگ کانگ میری ٹائم میوزیم کے ہال میں تھی۔ پتا چلاکہ ہانگ کانگ میں یہ تقریب کئی عشروں کے بعد ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف پاکستانی تنظیموں نے بھی تعاون کیا تھا۔ میں اور عباس تابش مشاعرے کے سلسلے میں ہانگ کانگ آئے ہوئے ہیں جس کا اہتمام بزم سخن ہانگ کانگ نے کیا ہے ۔ بزم سخن کے صدر گلزار حسین ساگر اور نائب صدر محمد لیاقت نے ادب کی ترویج کا بیڑہ اٹھارکھا ہے۔ گلزار حسین ساگر نے یہاں ایک لائبریری بھی بنا رکھی ہے جس میں سات ہزار کے لگ بھگ اردو کتابیں ہیں۔ محمد لیاقت ہانگ کانگ میں سرکاری طور پر تسلیم شدہ پاکستانی تنظیم اسلامک ویلفیئر یونین کا صدر ہے اور پاکستانی کمیونٹی اورادبی سرگرمیوں کے حوالے سے خاصا متحرک ہے۔ بزم سخن اس سے قبل بھی مشاعرے کروا چکی ہے اور اس حوالے سے جناب انور مسعود اور امجد اسلام امجد بھی ہانگ کانگ میں پاکستانی کمیونٹی کو اپنے شعروں سے مستفیدکر چکے ہیں۔
ہانگ کانگ میں مسلمانوں کی تعداد تین لاکھ کے لگ بھگ ہے‘ جس میں سے دو لاکھ کا تعلق صرف انڈونیشیا سے ہے۔ پاکستانیوں کی تعداد بیس ہزارکے قریب ہے۔ ہانگ کانگ میں پاکستانیوںکی مختلف تنظیمیں فعال ہیں۔ ان میں پاکستان ایسوسی ایشن ہانگ کانگ کے علاوہ حال ہی میں بننے والا پاکستان چیمبر آف کامرس ہانگ کانگ میں مقیم پاکستانی تاجر حضرات کی ایک اچھی کاوش ہے۔ اس تنظیم کا صدر نوجوان تاجر جاوید اقبال ہے۔گزشتہ سال بننے والی پاکستانی تاجروںکی اس نمائندہ تنظیم کا افتتاح ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو C.Y.Leung نے کیا تھا۔ آج قونصلیٹ کی جانب سے یوم پاکستان کے سلسلے میں ہونے والی تقریب کا مہمان خصوصی ہانگ کانگ کا سیکرٹری فنانس جوہن چانگ تھا۔ چھوٹی سی اس باوقار تقریب کا آغاز پاکستان کے قومی ترانے سے ہوا‘ جو قونصل جنرل پاکستان اور فنانشل سیکرٹری ہانگ کانگ کے مختصر سے خطاب کے بعد اختتام پذیر ہوگئی۔
مشاعرہ زور دار تھا اور رات گئے تک جاری رہا۔ مشاعرے کے بعدکھانے کی میز پر خوب گپ شپ ہوئی۔ پاکستان ایسوسی ایشن ہانگ کے سابق صدر شہزادہ سلیم کا تعلق ملتان سے ہے۔ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن چھوڑکر شپنگ کا اپنا بزنس کرنے والا شہزادہ سلیم ہانگ کانگ میں رہنے والے پاکستانیوں کے مسائل کے حوالے سے بہت متحرک ہے۔ تقریباً سات سال تک ایسوسی ایشن کا صدر رہنے کے بعد آج کل ذمہ داریوں سے فارغ ہے مگرکام سے فارغ نہیں ہے۔ ہم دونوں نے اتنی سرائیکی بولی کہ بقول شہزادہ سلیم ''دل کی حسرت پوری ہوگئی‘‘۔ میرے کچھ ٹھیٹھ سرائیکی الفاظ سن کر کہنے لگا، یہ لفظ کم از کم بارہ پندرہ سال بعد سننے نصیب ہوئے ہیں۔ مشاعرے کے بعد فراغت تھی لہٰذا دوستوں نے محفلیں لگانی شروع کردیں۔ ہانگ کانگ میں دنیا نیوز کے نمائندے طاہر اقبال چودھری نے ''بیٹرمنٹ یوتھ ایسوسی ایشن آف ہانگ کانگ‘‘ کے نوجوانوں کے ساتھ مکالمے کا اہتمام کیا۔ اس میں تنظیم کے سربراہ محمد عرفان کے علاوہ محمد ناصر‘ قیصر قیوم‘ حامد صدیقی‘ محمد امتیاز اور چاچا راجہ موجود تھے۔ پاکستانی قونصلیٹ میں پریس کونسلر علی نواز ملک نے دفتری اوقات کے بعد بھی بہت خیال رکھا۔ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے علی نوازکے بقول یہ اس کی جرنلزم سے محبت کا اظہار ہے نہ کہ سرکاری ڈیوٹی۔ مجھ سے اس کی محبت صحافت کے طفیل اور عباس تابش سے اس کی شاگردی کی وجہ سے تھی۔
پاکستانی کمیونٹی ملکی حالات سے بڑی پریشان تھی۔ ویسے تو دیار غیر میں ہر پاکستانی پاکستان کے بارے میں فکرمند نظر آتا ہے مگر ہانگ کانگ میں مقیم پاکستانی جب پاکستان اور ہانگ کانگ کا موازنہ کرتے ہیں تو ساتھ ہی یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ آخر پاکستان میں کس چیز کی کمی ہے؟ ہانگ کانگ میں کوئی فصل پیدا نہیں ہوتی، گیس نہیں ہے، تیل نہیں ہے، کوئی خام مال نہیں ہے حتیٰ کہ پانی تک نہیں ہے؛ پینے کا پانی کنٹینروں میں چین سے آتا ہے، گائے اور بکرے کے گوشت سے لے کر پیاز‘ ٹماٹر‘ سبزیاں اور دھنیا تک درآمد ہوتا ہے لیکن ایک سیکنڈ کے لیے بجلی نہیں جاتی۔ زرمبادلہ کے ذخائر تین سو پچیس ارب ڈالر ہیں جو بھارت کے برابر ہیں۔ ہانگ کانگ اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے دنیا میں دسویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان اڑسٹھویں نمبر پر۔ رقبے کے اعتبار سے پاکستان دنیا بھر میں چونتیسویں نمبر پر ہے جبکہ ہانگ کانگ ایک سو تراسیویں نمبر پر ہے۔ آبادی کے اعتبار سے پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر جبکہ ہانگ کانگ سوویں نمبر پر ہے۔ گنجان ترین آبادی کے لحاظ سے ہانگ کانگ دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، یہاں فی مربع کلو میٹر آبادی 6400 کے لگ بھگ ہے جبکہ پاکستان اس سلسلے میں پہلے دس ممالک میں شامل نہیں ہے۔ جی ڈی پی کے اعتبار سے ہانگ کانگ دنیا میں چالیسویں اور پاکستان چھیالیسویں نمبر پر ہے۔ 73 لاکھ آبادی والے ہانگ کانگ کا جی ڈی پی 274 ارب ڈالر جبکہ اٹھارہ کروڑ والے پاکستان کا جی ڈی پی 225 ارب ڈالر ہے۔ ہانگ کانگ میں ہر پانچواں شخص خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے مگر یہاں خط غربت سے مراد ہے کہ جو شخص3275ہانگ کانگ ڈالر فی مہینہ کماتا ہے ۔ اس حساب سے اس کی روزانہ آمدنی پاکستانی غریب کی دو امریکی ڈالر فی یوم کے مقابلے میں چودہ امریکی ڈالر فی یوم بنتی ہے۔
باقی باتیں چھوڑیں، ہانگ کانگ میں ایک اردو محاورے کا دھڑن تختہ ہوتے دیکھا۔ ہم افراتفری‘ ہنگامہ خیزی‘ بدتہذیبی اور گالم گلوچ ٹائپ والی صورت حال پر ایک اردو محاورہ سنتے تھے کہ فلاں جگہ مچھلی منڈی بنی ہوئی تھی۔ اس محاورے کا سب سے مناسب استعمال ہمیشہ اسمبلی وغیرہ کی اندرونی صورت حال پر ہوتے دیکھاکہ فلاں ممبر نے یہ کہا اور پھر اسمبلی مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگی یا فلاں ممبر نے فلاں پارٹی کے لیڈر کے بارے میں ریمارکس دیے تو اسمبلی مچھلی منڈی بن گئی۔ ہانگ کانگ میں مچھلی منڈی دیکھی۔ اتنی صفائی‘ ترتیب‘ تہذیب‘ نظم و ضبط اور خاموشی دیکھی کہ عشروں سے سنا ہوا محاورہ ''مچھلی منڈی بننا‘‘ ذہن میں بالکل تباہ و برباد ہو کر رہ گیا۔ مچھلی منڈی میں کھڑے ہوکر دعاکی کہ اللہ میاں! ہماری اسمبلیوںکو ہانگ کانگ جیسی مچھلی منڈی بنا دے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ اس دعا پر صبح صبح آمین کہیں، کیا پتا ہماری سنی جائے۔
جاتے جاتے یاد آیا، کل کولون کے ساحل پر ''ریونیو آف سٹارز‘‘ کے ایک بنچ پر مولانا فضل الرحمن کو بیٹھے ''سمندر‘‘ کا نظارہ کرتے دیکھا۔ چین کے پانچ روزہ سرکاری دورے کے بعد انہیں ہانگ کانگ کے تین روزہ غیر سرکاری دورے کے دوسرے روز عوامی مصروفیات میں غلطاں دیکھ کر ازحد خوشی ہوئی۔ سینیٹ کی ڈپٹی چیئرمینی لے اڑنے کے بعد یہ تفریحی دورہ ان کا حق بنتا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں