"KMK" (space) message & send to 7575

دعا بہرحال کرنی چاہیے‘ شاید کبھی!

ابھی قدم زمین پر پوری طرح لگے بھی نہیں تھے کہ پھر سفر درپیش تھا... ہانگ کانگ سے لاہور‘ لاہور سے ملتان اور پھر اسلام آباد۔ رات اسلام آباد سے دوبارہ لاہور آیا اور اب صبح کی پرواز سے لندن روانگی ہے۔ کسی دوست نے کہا کہ غور سے دیکھنا تمہارے پائوں پر ضرور کوئی تل ہوگا۔ میں ہنسا اور کہا کہ اگر سفر کا باعث کوئی تل ہے تو اب تک پورا پائوں سیاہ تل میں تبدیل ہو جانا چاہیے تھا۔ اتنا سفر صرف ایک معمولی سے تل کے زور پر نہیں کیا جا سکتا۔
خدا کا شکر ہے کہ ابھی لندن پی آئی اے کی پرواز جاتی ہے وگرنہ یہ سفر بھی ایک اور طرح کی خواری میں طے ہوتا۔ عموماً بیرون ملک رہنے والے پاکستانی حضرات اور کثرت سے سفر کرنے والے مقامی رہائش پذیر مسافر‘ قومی ایئرلائن کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں۔ میں دو سال پہلے پاکستان سے برطانیہ پہنچا تو ایک دوست نے پوچھا کہ کس ایئر لائن سے آئے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ پی آئی اے سے۔ وہ دوست پوچھنے لگا‘ پھر آپ راستے میں پریشان تو ہوئے ہوں گے؟ میں نے ہنس کر کہا کہ چلتے جہاز میں آٹھ گھنٹوں کے دوران آپ کو کتنا پریشان کیا جا سکتا ہے؟ بات آئی گئی ہو گئی مگر قومی ایئر لائن کی تمام تر خرابیوں کے باوجود جتنی آسانیاں اور سہولتیں پی آئی اے کے سفر میں ہیں ابھی کسی دوسری ایئر لائن کے سفر میں ان کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
میں اکثر سفر کرنے والے دوستوں سے پوچھتا ہوں کہ ایک اچھی ایئر لائن میں کون سی خوبیاں ہونی چاہئیں؟ وہ کون سی چیزیں ہیں جو کسی ایئرلائن کو مسافروں کے لیے اچھی ہوائی کمپنی بناتی ہیں؟ ایمانداری کی بات ہے‘ مجھے کبھی اس کا خاطر خواہ جواب نہیں مل سکا۔ میں کہتا ہوں مجھے نمبروار خوبیاں بتائی جائیں۔ دوست جو تھوڑی دیر پہلے بڑھ چڑھ کر بول رہے ہوتے ہیں‘ آئیں بائیں شائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں... دراصل بات یوں ہے یا ہمارا مطلب یہ ہے کہ... وغیرہ وغیرہ۔ اسی قسم کی گول مول باتیں اور
بس۔ جی جہاز لیٹ ہو جاتے ہیں۔ کھانا اچھا نہیں ملتا۔ فضائی میزبان بات نہیں سنتے۔ جہازوں کی حالت پتلی ہے۔ دوران سفر انٹرٹینمنٹ سسٹم اکثر خراب ملتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ان میں سے کچھ باتیں درست ہیں؛ تاہم کئی معاملات میں آپ بات بڑھا چڑھا کر بتا رہے ہیں۔ جہاز کا لیٹ ہونا ایک شکایت ہے اور میں مانتا ہوں کہ یہ عام بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسری ایئر لائنز بھی لیٹ ہوتی ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں میں ایک خلیجی ایئر لائن کے ذریعے اسلام آباد سے دوحہ اور وہاں سے جدہ گیا۔ دوحہ سے جدہ پرواز کے درمیان سات گھنٹے کا کنکشن ٹائم تھا‘ یہ سات گھنٹے بیزاری اور اوازاری میں گزرے۔ اب بھلا یہ فضول انتظار کس مد میں جائے گا؟ پھر یہ ہوا کہ یہ پرواز مزید ایک گھنٹہ لیٹ ہوئی۔ مزید یہ ہوا کہ ہمیں آٹھ گھنٹے بعد جہاز میں بٹھا کر یہ اعلان کیا گیا کہ ایک کنکشن پرواز تاخیر سے پہنچ رہی ہے‘ اس کا انتظار کیا جائے گا‘ اس کام میں چالیس منٹ لگیں گے‘ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ معذرت ہو گئی اور معاملہ ختم ہو گیا۔ اسی سفر میں واپسی پر جدہ والی فلائٹ لیٹ ہو گئی۔ آگے دوحہ والا کنکشن مس ہو گیا۔ وہ پرواز بروقت روانہ ہو گئی۔ ہمیں اگلے جہاز پر چڑھانے کی خوشخبری سنائی گئی۔ شکر خدا کا کہ اگلی پرواز صرف چار گھنٹے بعد تھی۔ اس طرح یہ سفر اختتام پذیر ہوا۔ میں نے واپس آ کر برادرم طارق حسن کی بڑی مذمت کی۔ وہ اس ایئر لائن کا بہت بڑا مداح تھا۔ کہنے لگا یہ اتفاق ہوگا یا تمہاری قسمت خراب ہے۔ میں نے اسے دیگر کئی اسی قسم کے ''اتفاقات‘‘ سنائے۔ قسمت کے معاملے پر اس سے بحث نہ کی کہ کیا خبر اس روز بھی قسمت خراب ہوتی۔
کھانے کا مسئلہ بہرحال اپنی جگہ درست ہے۔ میں چکن نہیں کھاتا مگر ایک عرصے سے قومی ایئر لائن نے شاید اس جاندار کے علاوہ اور کسی گوشت کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ دوران سفر دال سبزی کھا کر گزارا کرتا ہوں اور دل کو تسلی دیتا ہوں کہ میں پاکستان کی قومی ایئر لائن پر نہیں بھارت کی قومی ایئر لائن پر سفر کر رہا ہوں۔ بقول ہمارے ایک دوست کے‘ ہمارا ہندو سے بنیادی جھگڑا ہی گوشت پر تھا۔ ہم نے صرف گوشت کھانے کے لیے الگ ملک بنایا تھا اور اب عالم یہ ہے کہ یہاں گوشت ہی کھانے کے لیے نہیں ملتا۔ خیر یہ تو مذاق کی بات تھی مگر یہ بات طے ہے کہ کھانے کا معیار ناقص بلکہ خراب ہے۔ اگر ایئر لائن کی ویب سائٹ پر جا کر کھانے کی سلیکشن پر جائیں تو ایسا شاندار مینو ملتا ہے کہ منہ میں پانی بھر آتا ہے مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے؛ تاہم اس خراب کھانے میں بھی ایک مثبت بات یہ ہے کہ بہرحال ذائقہ تقریباً ویسا ملتا ہے جس قسم کے کھانے کے ذائقے کے ہم عادی ہیں۔ غیر ملکی ایئر لائنز پر بڑے بڑے ناموں والے کھانے ملتے ہیں مگر ذائقہ ایسا اجنبی کہ صرف پیٹ بھرنے کے کام ہی آتا ہے۔
اسی بحث کے دوران ایک صاحب کہنے لگے کہ پی آئی اے بڑی خشک ایئر لائن ہے۔ دوران پرواز پینے کے لیے ''مشروبات‘‘ نہیں ملتے۔ میں نے کہا آپ کی یہ شکایت آپ کی ذات کی حد تک بالکل ٹھیک ہے لیکن آٹھ دس گھنٹے اس کے بغیر گزار لیں تو اس میں کوئی خاص قباحت بھی نہیں۔ جواباً وہ کہنے لگا‘ اگر پائلٹ اتنا صبر نہیں کر سکتے تو ہم مسافروں پر یہ پابندی کیوں؟ میرے پاس ایسے نامعقول مگر درست سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ پتا نہیں‘ قومی ایئرلائن کے اس ٹُن پائلٹ کا کیا بنا؟ برطانوی پولیس نے پکڑ کر اندر کر دیا تھا۔ اللہ جانے اب وہ جہاز اُڑاتا ہے یا جہاز بنتا ہے؟ خبر نہیں۔
میں نے اپنے آپ کو سفر کے لیے ٹیون اپ (Tune up) کر لیا ہے۔ فضائی میزبان بات نہیں سنتے۔ کال لائٹ جلائیں تو کوئی توجہ نہیں دیتا۔ آپ لائٹ جلا کر منتظر ہیں کہ کوئی آئے گا‘ کوئی بات سنے گا‘ کوئی شنوائی ہوگی مگر تھوڑی دیر بعد آپ کو پتا چلتا ہے کہ فضائی میزبان تو نہیں آیا؛ تاہم لائٹ جادوئی زور پر بند ہو چکی ہے۔ ایک بار نہیں‘ بارہا ایسا ہوا کہ آپ کی آنکھ لگ گئی اور ایئر ہوسٹس نے چپکے سے آ کر لائٹ آف کردی۔ ایک بار تو میں نے ایک سٹیورڈ کو رنگے ہاتھ پکڑ لیا کہ وہ خاموشی سے میرے سر پر جلنے والی کال لائٹ کو آف کر کے نکل رہا تھا‘ لیکن کیا مجال ہے کہ وہ شرمندہ ہوا ہو۔ کہنے لگا میں نے گمان کیا ہے کہ آپ کا ہاتھ سوتے میں لائٹ کے بٹن کو ٹچ کر گیا ہے۔ میں نے اب یہ کیا ہے کہ جہاز کو اپنا گھر سمجھ لیا ہے۔ پیاس لگتی ہے تو گھنٹی بجانے کے بجائے پیچھے جا کر پانی مانگ لیتا ہوں۔ کافی پینی ہو تو بھی یہی کرتا ہوں اور اگر کمبل یا تکیہ درکار ہو تب بھی خود جا کر مانگ لیتا ہوں۔ ان کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں پڑتا۔ اپنی زندگی میں ہم بے شمار مسائل خود پیدا کرتے ہیں اور اپنے لیے آسانیاں بھی خود ہی تلاش کر سکتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ کام ہم اپنے گھر میں بھی خود ہی کرتے ہیں۔ آٹھ دس گھنٹے کے سفر کو آرام دہ اور خوش گوار بنانے کے لیے فضائی میزبان پر پیچ و تاب کھانے کے بجائے خود اٹھ کر یہ کام کر لیں تو کیا حرج ہے؟ کڑھنے اور دل جلانے کے بجائے اگر اپنی آسانی کے لیے چار قدم چل لیے جائیں تو کیا حرج ہے؟ ویسے بھی لمبی پرواز میں مسلسل بیٹھے رہنے سے میرے پائوں سوج جاتے ہیں۔
مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ جہاز کے ایک دو گھنٹے لیٹ ہو جانے پر شور مچانے والے دوبئی‘ ابوظہبی‘ دوحہ‘ بنکاک اور دیگر شہروں میں اگلے کنکشن کے انتظار میں آٹھ دس گھنٹے تک لائونج میں بیٹھنے والے اچھی ایئر لائن کا کیا معیار رکھتے ہیں؟ راستے میں ذلیل ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ بندہ آغاز میں ہی تھوڑی مشکل برداشت کر لے۔ رہ گئی بات دوران سفر کمی کوتاہی کی‘ تو سفر کٹ رہا ہو تو کمی کوتاہی کی اہمیت کم ہو جاتی ہے‘ کم از کم تسلی تو رہتی ہے کہ سفر کٹ رہا ہے۔ منزل نزدیک آ رہی ہے اور مشکل وقت ختم ہونے کے قریب ہے۔ میری پہلی ترجیح ہمیشہ قومی ایئرلائن رہی ہے اور ا یمانداری کی بات ہے کہ میں نے یہ ترجیح جذبہ حب الوطنی سے ہٹ کر مجموعی آسانیوں کے طفیل قائم کی ہے۔ کنکشن‘ ٹرانزٹ اور دوران سفر درمیان میں کسی ایئرپورٹ پر گھنٹوں انتظار کی ذلت سے کہیں بہتر ہے کہ ایک آدھ گھنٹہ تاخیر سے ہی سہی مگر روانہ ہونے کے بعد سفر کی آسانیاں ایک نعمت ہیں۔ میری ذاتی پسند اور ترجیح ایک چیز ہے اور حقائق دوسری چیز ہیں۔ نفع بخش سیکٹر بند کر کے اور سیاسی بھرتیوں کے کوہ ہمالیہ تلے دبی ہوئی یہ ا یئر لائن موجودہ حالات میں تادیر چلتی نظر نہیں آتی۔
گلاسگو کا سٹیشن نفع بخش تھا‘ بند پڑا ہے۔ شگاگو براستہ بارسلونا بند ہو چکا ہے۔ یورپ کی فلائٹس ختم ہو چکی ہیں۔ بنکاک کا سیکٹر ختم ہو چکا ہے۔ ہانگ کانگ کی سروس منسوخ ہو چکی؛ تاہم سنا ہے کہ عملہ وہیں تنخواہیں وصول کر رہا ہے۔ ایسے میں کمپنی زیادہ دیر چلتی نہیں ہے۔ میری دعائیں اپنی جگہ‘ مگر مجھے یہ بھی پتا ہے کہ اگر میری دعائوں میں اتنا اثر ہوتا تو میری زندگی میں خوشیوں کا حصہ تھوڑا سا تو زیادہ ہوتا‘ لیکن محض اس وجہ سے کہ دعا قبول نہیں ہو رہی دعا کرنا تو بند نہیں کیا جا سکتا۔ شاید کبھی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں