"KMK" (space) message & send to 7575

ایک شرط اور انور مسعود کا قطعہ

مسلسل سفر میں سب سے بڑی دافع تھکاوٹ چیز انور مسعود صاحب کی کمپنی تھی۔ ہر روز سفر کے اختتام پر لگتا تھا کہ '' ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘‘ لندن سے لیوٹن، سلائو، لندن ، برمنگھم، ہنسلو، کارڈف اور وہاں سے مانچسٹر تک فیصل ہمارے ساتھ تھا۔ فیصل مانچسٹر سے واپس آگیا۔ مانچسٹر سے نیوکاسل، یارک، بریڈ فورڈ، دوبارہ مانچسٹر ، گلاسگو، ڈنڈی اور پھر واپس مانچسٹر تک کمپنی مزید دلچسپ ہوگئی۔ دو بھائی ہمارے ہمراہ تھے ایک جماعت اسلامی سے اور دوسرا تحریک انصاف سے۔ کراچی کا ضمنی الیکشن ہماری گاڑی میں پوری شدت سے جاری رہا۔
اس دوران میری تحریک انصاف والے بھائی سے کراچی کے حلقہ این اے 246کے نتائج پر شرط لگ گئی۔ جماعت اسلامی والے بھائی نے اپنے بڑے بھائی کو جب تک یہ بتایا کہ خالد مسعود سے شرط نہیں لگانی چاہیے، تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا اور مبلغ سو پونڈ کی شرط لگ چکی تھی۔ انور مسعود صاحب نے بھی اکبر کو بتایا کہ ہم دوران سفر شرطوں کی کثرت کی وجہ سے خالد کو خالد شرطیہ بھی کہتے ہیں مگر اب کیا ہوسکتا تھا شرط لگ چکی تھی۔ شرط بھی اس طرح لگی کہ ابھی ہم ان کے گھر میں پوری طرح بیٹھے بھی نہ تھے کہ کراچی کے حلقہ 246کے ضمنی الیکشن کے حوالے سے بات چیت شروع ہوگئی۔ ابھی ایک دو منٹ ہی گزرے تھے کہ میں نے کہا فلاں پارٹی اور فلاں پارٹی کے درمیان ووٹوں کا باہمی فرق اتنا ہوگا۔ اکبر کہنے لگا اتنا ہوگا۔ میں نے کہا شرط لگا لیتے ہیں۔ اکبر نے سوچے سمجھے بغیر جوش میں آکر شرط لگالی۔ میں نے کہا سو پونڈ ہوگی ۔اس نے کہا ٹھیک ہے۔ میں نے کہا ہاتھ ملاتے ہیں۔ سو ہم نے شرط لگا کر ہاتھ ملالیا۔ اسی اثنا میں چھوٹا بھائی اصغر آگیا۔ وہ میرا پرانا دوست تھا اور اسے اس بارے میں علم تھا۔ اسے جب پتہ چلا کہ شرط لگ گئی ہے تو اس نے بڑے بھائی سے ہمدردی کااظہار کیا۔اب اصل پریشانی شروع ہوئی۔ اکبر کہنے لگا کہ شرط واپس کرتے ہیں۔میں نے کہا اب تو لگ چکی ہے۔ انور مسعود صاحب نے کہا کہ شرط سو پونڈ سے کم کرکے ایک '' چھلی‘‘ (مکئی کا بھٹہ) کرلیتے ہیں۔ اکبر جو ایک منٹ پہلے شرط کو حرام قرار دے چکا تھا چھلی کی شرط پر راضی ہوگیا۔ میں نے کہا اگر چھلی کی شرط حرام نہیں تو سو پونڈ کی کیسے حرام ہوسکتی ہے؟ اکبر کہنے لگا بڑی شرط حرام ہے۔ میں نے کہا جوا حرام ہے مگر شرط حرام نہیں۔ پانسہ پھینکنا ، تاش پر شرط لگانا یا اسی نوع کی دیگر مشینوں پر پیسے لگانا ناجائز ہیں مگر الیکشن وغیرہ کی ہار جیت پر شرط لگانا ویسا ہی ہے جیسے حضرت ابوبکر صدیق ؓنے ابی بن خلف سے رومیوں اور ایرانیوں کے درمیان جنگ میں فتح اور شکست پر شرط لگائی تھی۔
613ء میں ایران اور سلطنت روما کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔614ء تک یعنی محض ایک سال میں ایرانی بادشاہ خسرو دوم نے روم کے بادشاہ ہرقل کو جنگ میں بدترین شکست سے دو چار کردیا اور پورے شام، فلسطین اور یروشلم پر قبضہ کرلیا۔ چھبیس ہزار سے زائد یہودی اور ساٹھ ہزار سے زائد عیسائی اس جنگ میں ایرانیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ مفتوحہ علاقے کے سارے گرجے اور مذہبی عمارات صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں۔ ایرانیوں نے بھاگتے ہوئے رومیوں کا دور تک پیچھا کیا اور تاریخ کہتی ہے کہ ایرانی بادشاہ کے محل کے سامنے تیس ہزار سے زائد مقتولین کی کھوپڑیاں سجائی گئیں۔ یہ طوفانی ریلا یہیں ختم نہ ہوا۔ 616ء تک ایرانی افواج مصر میں داخل ہوگئیں اور سکندریہ فتح کرلیا۔ ادھر ایرانی افواج دریائے نیل کو پار کرتے ہوئے مصر کے اندر تک پہنچیں تو دوسری طرف انا طولیہ کو روندتے ہوئے آبنائے باسفورس تک پہنچ گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایرانیوں نے مشرقی رومن ایمپائر کے پایۂ تخت قسطنطنیہ کو روند کر رکھ دیا اور اس طرح 616ء میں مشرقی سلطنت روما کا خاتمہ ہوگیا۔
مسلمانوں کواس جنگ سے متعلق بڑی تشویش تھی اور ایرانی فتوحات پر ان کو فکر لاحق تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان آتش پرست ایرانیوں کے مقابلے میں اہل کتاب عیسائیوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔ جب ایرانی فتوحات کی خبریں مکہ پہنچیں تو کفار مکہ بڑے خوش ہوئے اور مسلمانوں کو طعنے مارتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم اور ایرانی (آتش پرست) تمہیں (مسلمانوں کو) اورتمہارے اہل کتاب بھائیوں کو (عیسائیوں کو) شکست فاش دیں گے۔ ایرانی عیسائیوں کو اور ہم تمہیں جنگ میں شکست سے دو چار کریں گے۔ مسلمان اس صورتحال میں تھوڑے مایوس تھے کہ اسی اثنا میں سورہ روم نازل ہوئی۔ '' اہل روم مغلوب ہوگئے۔ نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے۔ چند ہی سال میں پہلے بھی اور پیچھے بھی خدا ہی کا حکم ہے اور اس روز حومن خوش ہوجائیں گے۔(یعنی) خدا کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب (اور)مہربان ہے۔ (یہ) خدا کا وعدہ (ہے) خدا اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘(سورہ روم آیت 2تا 6) ۔جب یہ آیات نازل ہوئیں تو اس میں اہل روم یعنی عیسائیوں کی مستقبل میں فتح کی پیش گوئی تھی۔ مسلمانوں کو اس پیش گوئی پر پورا اعتماد تھا کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل ہوئی تھی۔ اسی قرآنی پیش گوئی پر ایمان رکھتے ہوئے حضرت ابوبکر ؓ نے رومیوں کی فتح پر اپنے یقین کا اظہار کیا تو کفار مکہ میں سے ایک شخص ابی بن خلف نے حضرت ابوبکر ؓ سے ایرانیوں کی فتح اور رومیوں کی شکست پر شرط لگانے کا کہا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے ابی بن خلف سے شرط لگالی۔
شرط میں حضرت ابوبکر ؓ نے دس اونٹ لگائے اور مدت شرط تین سال مقرر کی۔جب حضور اکرم ؐ کو اس شرط کا علم ہوا تو انہوں نے ناراضگی فرمانے کے بجائے حضرت ابوبکر ؓ سے کہا کہ شرط بڑھائو اور اسی کے ساتھ مدت شرط میں بھی اضافہ کرتے ہوئے اسے نو سال کرلو۔ حضرت ابوبکر ؓ نے ابی بن خلف سے شرط سو اونٹ تک بڑھانے کا کہا اور مدت شرط بھی نو سال کرنے کا کہا جس پر ابی بن خلف راضی ہوگیا۔ جب ہجرت کی صورتحال پیدا ہوئی تو ابی بن خلف حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ لوگ مکہ چھوڑ کر جانے والے ہیں۔ جب تک شرط پوری نہیں ہوتی آپ جانہیں سکتے۔ حضرت ابوبکر ؓاپنے صاحبزادے جناب عبدالرحمان بن ابوبکر ؓ کو بطور ضامن مدینہ میں چھوڑ آئے۔ جب جنگ بدر کا وقت آیا اور ابی بن خلف اس جنگ میں شرکت کے لیے کفار کے لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے روانہ ہونے لگا تو جناب عبدالرحمان بن ابوبکر ؓ نے ابی بن خلف کو کہا کہ وہ جنگ میں شرکت سے پہلے اپنی جگہ پر کوئی ضامن دے جو اس شرط کو اس کے مارے جانے کی صور ت میں پورا کرے۔ ابی بن خلف نے اپنا ضامن دیا اور جنگ میں شریک ہوگیا۔ ابی بن خلف جنگ بدر میں قیدی بنا اور فدیہ دے کر رہا ہوا۔ بعدازاں وہ جنگ احد میں شریک ہوا اور 
حضرت محمد ؐ کی تلوار کے زخم سے شدید گھائل ہوا اور اسی زخم کے باعث ہلاک ہوا۔ اس کے ضامن نے 625ء میں رومنوں کی فتح اور ایرانیوں کی شکست پر سو اونٹ حضرت ابوبکر ؓ کو بطور شرط مدینہ بھجوا دیے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے یہ اونٹ حضور اکرم ؐ کی خدمت میں پیش کیے۔ آپ ؐ نے یہ اونٹ خیرات کردیے۔
میں نے اکبر کو کہا کہ ہم بھی یہ سو پونڈ ''مستحقین‘‘ پر خرچ کریں گے۔ مگر اکبر بضد تھا کہ شرط لگانا ٹھیک کام نہیں۔ تنگ آکر میں نے کہا وہ حلفیہ بیان دے کہ اس نے آج تک شرط لگانے سے زیادہ نا مناسب کام کبھی نہیں کیا۔ اکبر اس پر بھی راضی نہ ہوا۔ یہ قصہ کئی دن چلتا رہا۔ اس دوران میں نے اسے آفر دی کہ وہ پچاس پونڈ ادا کرکے شرط سے دستبردار ہوسکتا ہے۔ جس روز ہم مانچسٹر سے گلاسگو روانہ ہوئے اور اس شرط کا ذکر ہوا تو ڈرائیور انعام اللہ خان ایک دم جوش میں آکر کہنے لگا کہ وہ بھی مجھ سے سو پونڈ کی شرط لگانے پر تیار ہے۔ میں نے اس سے ہاتھ ملاکر شرط پکی کی ہی تھی کہ پچھلی سیٹ سے انور مسعود صاحب ، اکبر، اصغر اور عامر جعفری نے اسے روکنے کی کوشش کی مگر خان اس وقت جوش میں تھا۔ لہٰذا شرط پکی ہوگئی۔ ایک گھنٹے بعد خان نے شرط سے دستبرداری کا اعلان کیا تو میں نے اسے یاد دلایا کہ وہ اس مسئلے پر ہاتھ ملا چکا ہے۔ اب خان کے پچھتانے کا آغاز ہوا۔ گلاسگو سے واپسی پر اکبر نے پچیس پونڈ جرمانہ دے کر شرط سے دستبرداری کااعلان کردیا۔ انعام اللہ خان سے 30مئی کے بعد بات ہوگی۔ انور مسعود صاحب نے اس سلسلے میں ایک قطعہ کہا ہے جو حسب ذیل ہے۔
یقین اس کو حاصل ہے غضب کا اپنی رائے پر
وہ اپنے اس تیقن کو برابر آزماتا ہے
یہی دیکھا ہے ہم نے خالدِ مسعود کا شیوہ
بہت شرطیں لگاتا ہے اور اکثر جیت جاتا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں