"KMK" (space) message & send to 7575

معاملہ یہیں ختم نہیں ہونا چاہیے

تقریباً روز ایسا ہوتا ہے کہ میں کسی اور موضوع کے بارے سوچتا ہوں مگر قلم کاغذ سنبھالنے تک معاملات تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں۔ مثلاً آج کا ہی لیں‘ خیال تھا کہ ملتان کے صوبائی حلقہ پی پی 196 پر ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتیجے اور اس کے تبدیل شدہ منظرنامے پر لکھوں گا۔ دو تین روز پہلے مجھے خبر ملی کہ تحریک انصاف کی ساری تنظیمیں توڑی جا رہی ہیں اور سارے عہدیدار فارغ کیے جا رہے ہیں۔ مخبر کی اطلاع تو یہ بھی تھی کہ صوبائی آرگنائزرز کے علاوہ ایک مرکزی آرگنائزر بھی مقرر کیا جا رہا ہے اور یہ مرکزی آرگنائزر اپنے قبلہ شاہ محمود قریشی صاحب ہیں۔ اتفاقاً برادر بزرگ کا فون آ گیا۔ دوران گفتگو انہیں یہ مخبری سنائی۔ کہنے لگے عمران کی پارٹی کو برباد کرنے کے لیے اب کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ یہ کام اب اندر سے ہی احسن انداز میں سرانجام پا جائے گا۔ ارادہ تھا کہ ملتان کے حلقہ 196 میں ہارنے اور جیتنے والے رشتہ دار ''رانا‘‘ امیدواروں پر روشنی ڈالوں گا مگر ان دونوں ''رانوں‘‘ سے مجھے ملتان کی نواحی تحصیل جلالپور پیروالہ کے رانا بلند اختر یاد آ گئے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کے آئینی منصب پر فائز جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ قصبے سے تعلق رکھنے والے ''رانے‘‘ کو صدر پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 168(5) کے تحت ان کے عہدے سے برطرف کردیا ہے۔
اس خبر کو پڑھ کر میرا ارادہ تبدیل ہو گیا کہ میں ملتان کے صوبائی حلقہ پی پی 196 کے مسلم لیگی اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے بارے میں کچھ لکھوں جو دونوں رانا ہیں اور ایک دوسرے کے نہ صرف قریبی عزیز ہیں بلکہ انیس بیس کے فرق سے ملتی جلتی عادات کے مالک ہیں۔ رانا بلند اختر کی برطرفی پر ممکن ہے کچھ لوگ یہ کہیں کہ یہ جنوبی پنجاب سے زیادتی ہے۔ جنوبی پنجاب کا استحصال ہے یا
اپر پنجاب والوں کی کوئی سازش ہے تو اس عاجز کو اس سارے تھیسس سے سو فیصد اختلاف ہے۔ رانا بلند اختر نے جو کیا سو اس کا پھل پایا۔ جو بویا سو کاٹا۔ اب اس کو علاقائی رنگ دینا یا جنوبی پنجاب کا معاملہ بنانا بددیانتی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ میں ذاتی طور پر اس برطرفی کو ایک سنگ میل سمجھتا ہوں کہ کم از کم اس برطرفی سے ایک چیز تو سامنے آئے گی کہ ہر معاملے پر کلین چٹ جاری ہونے اور سب کچھ کرنے کے بعد بری ہونے کے تصور کو جھٹکا لگا ہے۔ موجودہ حکومت تو یقینی طور پر کچھ کرنے کی اہل نہیں ہے۔ جو حکومت ایک صوبے کا گورنر لگانے میں چار ماہ لگا دیتی ہو اور اداروں کے سربراہ لگانے میں سال سال لگاتی ہو بھلا وہ یہ فیصلہ کب کر سکتی تھی کہ ایک آئینی عہدے کے حامل شخص کو اس کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ پہلے فارغ کردیتی۔ یہ سارا کریڈٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو جاتا ہے جس نے اس معاملے کو سنا اور اس پر فیصلہ دیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ اور برطرفی کی سفارش ایک طویل کارروائی کے بعد صدر مملکت کو بھجوائی گئی۔ یہ سفارش گزشتہ دو تین ہفتوں سے صدر کی منظوری کی منتظر تھی۔ صدر مملکت اپنی ''عدیم الفرصتی‘‘ کی بنا پر اس پر دستخط نہ کر پا رہے تھے۔ اسی دوران چند بدخواہوں نے یہ افواہ پھیلا دی کہ یہ حکومت دیگر معاملات کی طرح اس معاملے پر بھی ہاتھ پائوں ہلانے سے اجتناب برت رہی ہے اور انتظار کر رہی ہے کہ رانا بلند اختر ریٹائر ہو جائیں‘ معاملہ گول مول ہو جائے گا۔ شاہ جی کا خیال تھا کہ حکومت یہ فیصلہ کرتے ہوئے شاید اس لیے بھی ہچکچا رہی ہے کہ
حسب معمول ایک کہرام برپا کیا جائے گا کہ سید یوسف رضا گیلانی کی برطرفی کے بعد یہ دوسرا بڑا ظلم ہے جو جنوبی پنجاب پر ڈھایا گیا ہے اور اس خالص انتظامی مسئلے کو علاقائی تعصب کی عینک سے دیکھ کر شور مچایا جائے گا۔ مجھے تو خود حیرانی ہے کہ سرکار نے یہ فیصلہ کر کیسے لیا؟ وہ تو اس سے کہیں معمولی درجے کے فیصلے کرنے کی‘ میرا مطلب ہے بروقت فیصلے کرنے کی اہلیت سے مکمل طور پر فارغ ہے۔ ویسے تو میرے اس جملے سے بھی یہی مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے کی اہلیت سے محروم حکومت نے یہ فیصلہ بھی محض اس لیے کیا کہ متاثرہ شخص جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتا ہے لیکن میرا مؤقف اس سے بالکل ہٹ کر بھی ہے اور اصولی بھی۔
اس سے ان اداروں پر‘ ان لوگوں پر‘ جو بذات خود احتساب کی ذمہ داریوں پر فائز ہیں یہ اثر پڑے گا کہ انہیں احساس ہوگا کہ وہ بھی قابل احتساب ہیں۔ ان کے خلاف بھی ایکشن لیا جا سکتا ہے۔ اب تک معاملہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو احتساب پر مقرر کیا گیا ہے وہ صرف یہی تصور لیے بیٹھے ہیں کہ وہ تو دوسروں کا احتساب کر سکتے ہیں ان کا احتساب کوئی نہیں کر سکتا۔ انہیں کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ ان کے کسی عمل پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ حالانکہ معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ جو شخص لوگوں کے احتساب پر‘ اداروں کی نگرانی پر‘ معاملات کی دیکھ بھال پر اور دوسروں کی تادیب پر فائز ہے‘ اس کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ دیگر لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے اور اس کے معاملات کو باقی لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ شفاف اور صاف ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے رانا بلند اختر ان خصوصیات سے مکمل طور پر محروم تھے۔
پاکستان میں عجیب و غریب روایات نہ صرف یہ کہ متعارف ہوئیں بلکہ انہیں معاشرے میں قبول کر لیا گیا۔ اختیارات کا ناجائز استعمال اب کوئی جرم نہیں‘ بلکہ طاقت اور ا قتدار کا حصہ ہے۔ اگر کسی بڑے عہدے یا اقتدار میں رہتے ہوئے عام آدمی سے ہٹ کر اپنے اختیارات کا استعمال نہ کیا جائے تو اس عہدے اور اقتدار کا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے کہ اگر قانون‘ قاعدے اور ضابطے کی عام آدمی کی طرح ہی پابندی کرنا ہے تو پھر اس سارے کھکھیڑ کا فائدہ؟ عہدے اور اختیار کا کیا کرنا ہے اگر باقی لوگوں کی طرح پابندیوں بھری زندگی گزارنا ہے؟
رانا بلند اختر پر بنیادی الزام تھا کہ انہوں نے گورنمنٹ کی طرف سے رائج کردہ نئی سکیم اور سابقہ روٹین کے مطابق دو سہولتوں سے بیک وقت فائدہ اٹھایا ہے۔ گورنمنٹ نے سرکاری افسروں کی طرف سے گاڑیوں کے ناجائز استعمال‘ بے جا خرچوں‘ گھپلوں‘ جعلی بلوں‘ بے تحاشا پٹرول کے استعمال اور مرمت کی مد میں ہینکی پھینکی سے جان چھڑوانے کے لیے ایک نئی سکیم متعارف کروائی۔ اس سکیم کے تحت گریڈ بیس سے لے کر گریڈ بائیس تک کے سرکاری افسر سے گاڑی‘ ڈرائیور‘ پٹرول اور مرمت وغیرہ کی سہولت واپس لے لی گئی اور انہیں یہ آپشن دی گئی کہ وہ اپنے زیر استعمال گاڑی Depreciation وغیرہ نکال کر خرید لیں۔ اس کے لیے ایک تشخیصی کمیٹی بنائی گئی جس نے ان زیر استعمال گاڑیوں کی قیمت کا تخمینہ لگایا اور افسروں کو خریدنے کی آفر کی۔ پچانوے فیصد افسروں نے یہ گاڑیاں خرید لیں۔ ان گاڑیوں کے بعد دیگر سہولتوں کے عوض گریڈز کے لحاظ سے ان کا ایک طے شدہ الائونس مقرر کردیا گیا۔ اس مقررہ الائونس کو Transport monetization allowance کا نام دیا گیا۔ گریڈ بیس کے افسر کے لیے یہ رقم پینسٹھ ہزار روپے ماہانہ‘ گریڈ اکیس کے لیے غالباً اسی ہزار روپے ماہانہ اور گریڈ بائیس کے لیے شاید ایک لاکھ روپے ماہانہ مقرر کردی گئی اور گاڑی کی سرکاری فراہمی اور اس کے دیگر اخراجات کی سہولت واپس لے لی گئی۔
رانا بلند اختر آڈیٹر جنرل پاکستان کے آئینی منصب پر فائز تھے۔ اس حوالے سے سرکاری جھنڈے والی گاڑی کے حقدار تھے۔ ان پر گریڈ بائیس کے عام افسر کے ضابطوں کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے انہیں ایک لاکھ کے طے شدہ ماہانہ الائونس کے بجائے جھنڈے والی سرکاری گاڑی بمعہ ڈرائیور و دیگر سہولیات میسر تھی۔ انہوں نے یہ سہولت بھی انجوائے کی اور ایک لاکھ روپے ماہانہ بھی وصول کیے۔ انہیں یہ ماہانہ الائونس لینے کا نہ حق تھا اور نہ کوئی منطقی جواز۔ افسروں کو یہ الائونس دیتے وقت یہ بات واضح طور پر بتائی گئی اور اس الائونس کی منظوری کے فیصلے میں بھی لکھی گئی کہ یہ الائونس گاڑی‘ پٹرول‘ ڈرائیور اور Maintenance کے عوض دیا جا رہا ہے۔ آپ اس الائونس کو لینے کے بعد گاڑی وغیرہ کی سہولت سے محروم ہو جائیں گے۔
(باقی صفحہ 13پر)
بقیہ: خالد مسعود خان
اپنے رانا صاحب جنہوں نے پاکستان بھر کے تمام محکموں کی حسابی بے ضابطگیاں پکڑنی تھیں‘ سرکاری پیسے کے غلط استعمال پر لوگوں کی گوشمالی کرنا تھی‘ سرکار کے پیسے کے محافظ کا کردار سرانجام دینا تھا اور سرکاری پیسے کی بہتی گنگا پر محتسب بن کر بیٹھنا تھا خود اس بہتی گنگا میں اشنان کرنے بیٹھ گئے۔ جھنڈے والی سرکاری گاڑی بھی اور ماہانہ الائونس بھی۔ چپڑی اور دو دو۔ اس پر ان کی طلبی ہو گئی۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے اور غلط فہمی‘ یا اس شق کو سمجھنے کے ہیر پھیر کی آڑ میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے وصول شدہ الائونس واپس کرتے انہوں نے اسے اپنی راجپوتی شان کے خلاف سمجھا اور اکڑ گئے۔ معاملہ بالکل صاف اور واضح تھا۔ جب آپ کے سامنے یہ بات بالکل کلیئر ہو کہ آپ کو یہ الائونس گاڑی کی سہولت کے عوض دیا جا رہا ہے تو گاڑی کی موجودگی میں اس الائونس کے حصول کا کوئی جواز ہی نہیں تھا مگر یہ شاید مکافات عمل کا معاملہ تھا جو ان کی احمقانہ ضد کے طفیل ان کی برطرفی پر منتج ہوا۔
بطور آڈیٹر جنرل پاکستان موصوف نے جو اصل بے ضابطگیاں کیں‘ وہ پردہ غائب میں رہیں اور سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے اس لاکھ روپے ماہانہ والے الائونس سے کہیں بڑے قصے سامنے نہ آ سکے۔ موصوف نے بطور آڈیٹر جنرل پاکستان بھر کے سرکاری اداروں اور افسروں کے حساب کتاب پر احتسابی نظر رکھنی تھی مگر موصوف نے پاکستان کے سارے آڈٹ اینڈ اکائونٹس کے نظام کا بیڑہ غرق کردیا۔ آتے ہی پنجاب کے اکائونٹنٹ جنرل ادریس تارڑ کو جو گریڈ اکیس کا ریگولر افسر تھا عہدے سے ہٹا دیا اور گریڈ انیس کے ایک افسر کو پنجاب کا اکائونٹنٹ جنرل بنا دیا۔ موصوف نے اسے گریڈ بیس میں ترقی دلوانا چاہی مگر کیس مسترد کردیا گیا۔ اس افسر پر اربوں کی کرپشن اور بے ضابطگیوں کا الزام تھا۔ معاملہ بالکل صاف تھا مگر سزا دینے کے بجائے رانا صاحب نے اسے ڈی جی ورکس آڈٹ لگا دیا۔ اکائونٹنٹ جنرل پاکستان اسلام آباد کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ گریڈ اکیس کی پوسٹ پر گریڈ بیس کا جونیئر من پسند افسر لگا دیا۔ اسی دفتر میں‘ اس جونیئر افسر کے نیچے چھ سات اکیس گریڈ کے افسر موجود تھے۔ اسلام آباد میں گریڈ اکیس کے اکائونٹس سروس کے اٹھارہ انیس افسر موجود تھے۔ یہی حال اکائونٹنٹ جنرل سندھ کا تھا۔ جہاں گریڈ بیس کا افسر تعینات کیا۔ اس کی بھی گریڈ اکیس میں ترقی مسترد کردی گئی۔ آزاد کشمیر اور کے پی کے میں بھی معاملات بالکل اسی قسم کے تھے۔ رانا بلند اختر نے پورے ڈیپارٹمنٹ کو منفی شہرت کے حامل افسروں کے حوالے کردیا تھا۔ جس دفتر نے ملک میں کرپشن‘ مالی بے ضابطگیوں اور پیسوں کے ہیرپھیر کو پکڑنا تھا انہیں اسی کام پر مامور کردیا۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔
بہرحال یہ برطرفی بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ اب جی ایچ کیو میں پڑی ہوئی بلکہ دبی ہوئی چھ سات فائلوں پر بھی ایکشن ہونا چاہیے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں