"KMK" (space) message & send to 7575

میری وسعتوں کی ہوس کا خانہ خراب ہو… (1)

گزشتہ چند روز سے مجھے اپنے دیرینہ دوست بٹ صاحب بہت یاد آ رہے ہیں‘ بلکہ ان کے حوالے سے ان کے ایک بزرگ یاد آ رہے ہیں جنہیں نہ میں نے کبھی دیکھا اور نہ ہی کبھی ملا۔ بس ان کا قصہ سنا۔ ریڈنگ (انگلینڈ) میں ایک بار بٹ صاحب کے پاس مجلس جمی ہوئی تھی اور حسب معمول لذیذ کھانے چل رہے تھے جو بٹ صاحب نے اپنے دست مبارک سے بنائے تھے اور کھانے کے دوران گپ شپ چل رہی تھی۔ بٹ صاحب بتانے لگے کہ ان کے ایک بزرگ عزیز ہیں جن کی نسبت روڈ پر کافی جائیداد ہے۔ دس بارہ آبائی گھر ہیں‘ دکانیں ہیں جن کا کرایہ آتا ہے اور وہ بزرگ عرصہ دراز سے کوئی کام وغیرہ نہیں کرتے‘ کرایہ کھاتے ہیں اور مزے کرتے ہیں؛ تاہم پانچ سات سال بعد جب ان کے مزے تھوڑے کم ہونے لگتے ہیں وہ ایک عدد مکان فروخت کرتے ہیں اور زیادہ عمدہ قسم کے سری پائے‘ کلچے‘ ہریسہ‘ نہاری اور دیگر لذیذ کھانوں سے لطف اٹھانے لگتے ہیں۔ کسی نے اس بزرگ سے پوچھا کہ آپ یہ کیوں کر رہے ہیں؟ آپ کے والد صاحب بڑے محنتی اور جفاکش آدمی تھے‘ آپ کے لیے اتنی جائیداد چھوڑ گئے‘ آپ اپنے بچوں کے لیے کیا چھوڑ کر جائیں گے؟ کہنے لگے میں نوکری وغیرہ کی ذلالت سے بچا ہوا ہوں‘ کاروبار کی لعنت سے محفوظ ہوں‘ بچے اپنی اپنی جگہ سیٹ ہو چکے ہیں میں ان کی محتاجی سے بچا ہوا ہوں اور باعزت زندگی گزار رہا ہوں۔ پانچ سات سال بعد ایک مکان بیچتا ہوں اور گوالمنڈی میں بیٹھ کر کھا لیتا ہوں۔ میری زندگی کے لیے یہ جائیداد کافی ہے۔ زندگی بڑے لطف اور عزت سے گزر رہی ہے۔
مجھے بٹ صاحب کے بزرگ اس لیے یاد آئے کہ موجودہ حکمران بھی اسی قسم کے لطف اور عزت کی زندگی گزارنے کے در پے ہیں‘ لیکن اس کے لیے وہ اپنی ذاتی جائیداد وغیرہ فروخت کرنے کے بجائے قومی اثاثے بیچ کر موج میلا کرنا چاہتے ہیں۔ ذاتی جائیداد اور کاروبار میں اضافے کے لیے نئی نسل لوہے‘ دھاگے اور چینی کے کاروبار سے کہیں آگے جا کر دودھ‘ دہی‘ انڈے‘ مرغی اور جائیداد کی خریدو فروخت میں ایسی ترقی کر رہی ہے کہ لوگ انگشت بدنداں ہیں۔ حکمران گزشتہ حکومتوں کی بنائی ہوئی قومی جائیداد کو فروخت کر کے اقتدار کی نہاری‘ سری پائے‘ کھد‘ کلچہ اور ہریسہ سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں‘ یہ سوچے بغیر کہ آئندہ اس ملک کا کیا بنے گا؟
اسلام آباد میں راول ڈیم کے ساتھ پارک روڈ گزرتا ہے۔ سرسبز اور فضائی آلودگی سے پاک اس علاقے میں بارہ سو پچاس ایکڑ پر مشتمل ایک قومی ادارہ نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سنٹر ہے جو گزشتہ تقریباً چالیس سال سے زرعی تحقیق کے میدان میں مسلسل کام کر رہا ہے۔ پاکستان اور زراعت کا آپس میں کیا تعلق ہے‘ اس پر کچھ لکھنا فی الوقت وقت کا ضیاع ہوگا کہ یہ حقیقت سب کو معلوم ہے۔ پاکستان میں زرعی تحقیق شاید اس پائے کی نہیں جس طرح دنیا میں ہو رہی ہے۔ یہ زرعی تحقیق ہی ہے جس کے طفیل ملک کے بیس کروڑ عوام کو کھانے کی بنیادی چیزیں میسر ہیں وگرنہ اب تک ملک میں قحط پڑ چکا ہوتا۔ گندم‘ چاول‘ کپاس‘ گنا اور دوسری زرعی اجناس کی ترقی دادہ اقسام کے طفیل آج ہماری زرعی ضروریات نہ صرف پوری ہو رہی ہیں بلکہ برآمد بھی ہو رہی ہیں اور زرمبادلہ حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ عزت مآب میاں نوازشریف صاحب کی نظر اب اس ادارے کی ساڑھے بارہ سو ایکڑ زمین پر ہے۔
اسلام آباد کی سرسبز ترین زمین کے وہ پلاٹ بنا کر فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ اس فروخت سے قومی خزانے کو ڈیڑھ سو ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے‘ یہ رقم 2018ء تک کام آئے گی۔ رہ گئی زرعی تحقیق‘ قومی ادارے اور اس قسم کی دیگر چیزیں وہ بھاڑ میں جائیں۔
مجاز ادارے نے ایک خط نمبر CDA-DS2(29)/2013/315 31مارچ 2015ء کو لکھا جس میں کیبنٹ ڈویژن کو اپنی سمری جلد از جلد منظور کرنے کی استدعا کی۔ دو صفحات پر مشتمل اس خط میں نو پوائنٹس بنا کر بارہ سو پچاس ایکڑ اراضی پر ہاتھ صاف کرنے کا پورا منصوبہ بیان کیا گیا ہے؛ تاہم چالاکی کرتے ہوئے چند مبینہ خلاف ورزیوں کا بھی اشارہ کیا گیا ہے تاکہ ان کے اس گھنائونے منصوبے کے لیے قانونی جواز فراہم کیا جا سکے۔ بیوروکریسی بڑی کاریگر ہے‘ جس چیز کو جیسے چاہے استعمال کر لے۔ جس چیز کو جی چاہے خوبی بنا کر پیش کردے اور اس پر ناراضگی ہو تو خامی بنا کر رکھ دے۔ حاکم جیسا کہے ویسی رپورٹ بنا کر پیش کردے۔ اس الٹ پھیر کے دوران اپنا الو بھی ساتھ ساتھ سیدھا کرنے میں ہماری بیوروکریسی کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اسلام آباد کے نیشنل پارک ایریا میں سے 1395.2 ایکڑ زمین تب وزارت خوراک و زراعت کو 2مئی 1975ء کو الاٹ کی گئی کہ یہاں زرعی تحقیقاتی ادارہ قائم کیا جائے۔ یہ زمین دو عدد لیز ایگریمنٹ کے ذریعے این اے آر سی (نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سنٹر) کے سپرد کردی گئی۔ یہ زمین تیس سالہ پٹے یعنی لیز پر دی گئی۔ لیز میں دیگر شقوں کے علاوہ یہ بھی طے تھا کہ کتنا رقبہ عمارتوں کے لیے‘ کتنا کالونی کے لیے اور کتنا زرعی تحقیقاتی فیلڈز کی صورت میں ہوگا۔ ایسی لیز عموماً قابل توسیع ہوتی ہیں اور مدت گزرتے ہی ان میں اضافہ کر کے دوبارہ ایک لیٹر جاری کردیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ اب تقریباً ایک خودکار نظام کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ قومی تحقیقاتی اداروں کو تو چھوڑیں‘ گورنمنٹ برسوں سے سیاستدانوں کو دی گئی سرکاری زمین کی لیز کینسل نہیں کر سکی۔ شاہ جیونہ میں سرکار نے بی بی عابدہ حسین کی سرکاری زمین کی لیز مدت گزرنے کے کافی عرصہ بعد کینسل کی تھی تو لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔ سرکار نے لیز کینسل کرنے کا آرڈر واپس لیا۔ وہ سرکاری زمین آج بھی اونے پونے داموں عابدہ حسین کے زیر قبضہ ہے۔
لیز ایگریمنٹ کے مطابق این اے آر سی کی لیز کی مدت یکم مئی 2005ء کو ختم ہو گئی۔ دو طرفہ سرکاری نالائقی اور نااہلی کے باعث نہ وزارت خوراک و زراعت نے اس پر توجہ دی اور نہ ہی مجاز ادارے نے کوئی یاد دہانی کروائی۔ بہرحال یہ معاملہ چلتا رہا۔ زمین سرکار کی تھی اور محکمہ بھی سرکار کا‘ لہٰذا معاملات چلتے رہے تاوقتیکہ ایک پرائیویٹ ڈویلپر کو اس زمین کا خیال آ گیا (یہ میرا گمان نہیں حقیقت ہے۔) اس نے زمین کو جو تحقیق جیسے ناکارہ اور بے کار کام میں ضائع کی جا رہی تھی سونے کے بھائو بیچنے کا نسخہ بنا کر وزیراعظم صاحب کو پیش کیا۔ میاں نوازشریف کو یہ منصوبہ بہت زیادہ پسند آیا۔ انہوں نے ایک لمحہ سوچے بغیر ہاں کردی اور اس عظیم الشان رہائشی‘ کمرشل اور تجارتی منصوبے پر کام شروع ہو گیا۔
مجاز ادارے نے زمین خالی کروانے کے بہانے تلاش کرنے شروع کیے۔ پہلی وجہ تو بتائی کہ لیز یکم مئی 2005ء کو ختم ہو چکی ہے۔ مزید یہ بہانے بنائے کہ ابتدائی لیز ایگریمنٹ میں یہ طے پایا تھا کہ این اے آر سی کو ایک سو بیس ایکڑ پر دفاتر تعمیر کرنے اور پچیس ایکڑ میں اپنے ملازمین کی کالونی تعمیر کرنے کی اجازت ہوگی۔ اصل خاکہ بندی کے مطابق تعمیر کے لیے دو ہزار دو سو پچاس مربع فٹ جگہ مختص کی گئی جبکہ این اے آر سی نے حقیقتاً چونتیس ہزار تین سو چھ مربع فٹ جگہ پر تعمیرات کر لیں۔ یہ جانے بغیر کہ اس دوران این اے آر سی میں کتنی توسیع ہوئی‘ کتنے نئے شعبے بنے‘ افرادی قوت میں کتنا اضافہ ہوا مگر یہاں معاملہ وہی تھا جیسا کہ ہم ایک کہانی میں پڑھتے تھے کہ بھیڑیا بھیڑ کے بچے کو کھانا چاہتا تھا تو اس نے اس پر ملبہ ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ اس کا پانی گدلا کر رہا ہے۔ بھیڑ کے بچے نے کہا کہ حضور ندی کا پانی آپ کی جانب سے میری طرف آ رہا ہے‘ میں آپ کا پانی کیسے گدلا کر سکتا ہوں۔ بھیڑیا کہنے لگا: تم نے مجھے گزشتہ برس گالیاں دی تھیں۔ بھیڑ کا بچہ کہنے لگا: جناب عالی! میری عمر چار پانچ ماہ ہے‘ پچھلے سال میں اس عالم فانی میں وارد ہی نہیں ہوا تھا۔ تب تنگ آئے ہوئے بھیڑیے نے کہا کہ پھر وہ تم نہیں تو تمہارا باپ ہوگا۔ یہ کہہ کر اس نے بھیڑ کے بچے کو دبوچا اور چیرپھاڑ کر کھا گیا۔
اسی طرح مجاز ادارے کا بھیڑیا این اے آر سی کے بھیڑ کے بچے کو پلاٹوں میں تقسیم کر کے ایک سو پچاس ارب کمانا چاہتا ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں