"KMK" (space) message & send to 7575

کبیر خان کی گرفتاری اور ایم کیو ایم کے استعفے

میں بعض معاملات میں اچھا خاصا بے ایمان ہوں؛ تاہم اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس بے ایمانی میں جھوٹ یا منافقت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ میں بیرون ملک سیاست سے گفتگو کرنے سے پرہیز ہی نہیں کرتا بلکہ سختی سے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں؛ تاہم بے ایمانی یہ ہے کہ جن دو چار دوستوں سے کسی تازہ خبر کی امید ہو‘ کسی نئی بات کی توقع ہو یا کسی تشنہ سوال کا جواب ملنے کی آس ہو‘ میں ان سے سیاسی گفتگو بھی کرتا ہوں اور بحث بھی۔ پابندی ان لوگوں کے لیے ہے جن سے مجھے خود سوالات کا خوف ہو۔ اس خوف کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ پاکستان میں اس قسم کی گفتگو کر کے تنگ آئے ہوتے ہیں‘ اوپر سے جب پاکستان سے باہر جائیں تو بھی اسی قسم کی گفتگو سے پالا پڑتا ہے جس سے بمشکل جان چھڑوا کر باہر جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تمام سوالات کرنے والوں کو ہمارے مبلغ علم کے بارے میں عجب غلط فہمی سی ہوتی ہے کہ ہمیں سب باتیں معلوم ہیں۔ ہر مسئلے کا حل آتا ہے اور باوجود اس کے کہ ہم پاکستان میں سب کچھ ٹھیک کر سکتے ہیں کچھ نہیں کرتے۔ بھلا ایسے لوگوں سے سیاست پر کیا گفتگو ہو سکتی ہے؟ لہٰذا سیاسی گفتگو پر عام پابندی لگا کر اس سے کسی حد تک محفوظ ہو جاتا ہوں؛ تاہم اپنی مرضی کے لوگوں پر اس پابندی کا اطلاق نہیں کرتا۔ میرا خیال ہے کہ یہ شاید بے ایمانی بھی نہیں‘ یہ میرے صوابدیدی اختیارات ہیں جن کو میں اپنی سہولت کے لیے استعمال کرتا ہوں۔ 
برطانیہ میں فہد اور امریکہ میں شفیق اس پابندی سے مستثنیٰ لوگ ہیں۔ بابر کبھی کبھار غچہ دے کر سیاسی گفتگو کر لیتا ہے۔ درمیان میں اگر اسے روکوں تو وہ نہایت ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ وہ سیاسی گفتگو نہیں کر رہا بلکہ علمی گفتگو کر رہا ہے۔ اب بھلا ایسے شخص کا کیا کیا جا سکتا ہے؟ عابد کا معاملہ مختلف ہے۔ اسے لاکھ منع کر لوں‘ ڈانٹ ڈپٹ کر لوں مگر اس پر کچھ اثر نہیں ہوتا‘ وہ کافی دیر تک یکطرفہ گفتگو کرتا رہے گا تاوقتیکہ اسے جواب نہ مل جائے۔ وہ بالآخر بندے کو بولنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ عموماً لوگوں میں ایسا حوصلہ اور ثابت قدمی شاذ ہی ہوتی ہے۔ امریکہ میں سرور چودھری پرانا یونیورسٹی فیلو ہے۔ پیپلز پارٹی نیویارک کا صدر رہا ہے۔ جامعہ زکریا ملتان کی سٹوڈنٹس یونین کا جوائنٹ سیکرٹری رہا ہے۔ سرتاپا جیالا ہے اور انتہائی مخلص جیالا ہے مگر کیا مجال ہے کہ ہم آپس میں سیاسی گفتگو کر جائیں۔ ہاں! اگر ملک برطانیہ آیا ہو تو وہ ہر پابندی سے حسب سابق آزاد ہوتا ہے۔ 
گزشتہ کالم میں میں نے فہد کے ساتھ اپنی گفتگو کا ذکر کیا تھا۔ کالم چھپنے کے بعد پاکستان سے چودھری کا فون آ گیا۔ کہنے لگا فہد کا تھیسس دلچسپ بھی ہے اور کسی حد تک درست بھی۔ لیکن بعض اوقات حالات غیر متوقع کروٹ لے لیتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں میاں صاحب کی درگزر والی سیاست کو سامنے رکھیں تو ایم کیو ایم کے استعفوں کی سٹوری میں کوئی خاص جان معلوم نہیں پڑتی۔ پی ٹی آئی کے استعفوں پر مسلم لیگ ن کی حکمت عملی کو سامنے رکھیں اور ہر حال میں حکومت برقرار رکھنے کی خواہش کو دیکھیں تو بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ ایم کیو ایم کے استعفے کسی صورت قبول نہیں ہوں گے‘ چاہے اس کے لیے میاں صاحب کو کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے مگر ایک بات آپ بھول گئے ہیں کہ اب کی بار ایم کیو ایم نے جن وجوہ کی بنا پر یہ پانسہ پھینکا ہے وہ میاں صاحب کے نہ تو بس میں ہے اور نہ ہی اختیار میں۔ کراچی آپریشن کون سا میاں صاحب کر رہے ہیں جو وہ استعفوں کے دبائو میں آ کر روک دیں گے؟ وہ زیادہ سے زیادہ یہی یقین دہانی کروائیں گے کہ ایم کیو ایم کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی اور وہ ہو بھی نہیں رہی۔ یہ آپریشن جرائم پیشہ‘ بھتہ خوروں‘ قاتلوں اور دہشت گردی کرنے والوں یا ان کے سرپرستوں کے خلاف ہو رہا ہے۔ اب بدقسمتی سے ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ایم کیو ایم کی صفوں میں پناہ لیے بیٹھی تھی تو ظاہر ہے یہیں سے زیادہ مطلوب لوگ ملیں گے۔ مال پانی بنانے والوں کی زیادہ تعداد کا تعلق حکمران پارٹی سے ہوتا ہے لہٰذا ایسے لوگوں کی غالب اکثریت کا تعلق کراچی کی حکمران جماعت سے ہوگا۔ وزیراعلیٰ سندھ کا مال پانی بنانے والوں کی گرفتاری پر شور مچانا اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ کرپٹ افسروں اور اعلیٰ سیاسی قیادت کی اکثریت کا تعلق پیپلز پارٹی کی حکومت سے ہے۔ جو جو جہاں جہاں زیادہ ہوگا وزن بھی اسی پر زیادہ پڑے گا۔ اب بھلا مولانا فضل الرحمن اور اسحاق ڈار ایم کیو ایم کو کیا رعایت دے سکتے ہیں؟ ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟ اب یا تو ایم کیو ایم کسی جھوٹی تسلی کے عوض ہی سہی مگر اپنی عزت بچانے کی غرض سے کسی ایسی ڈھیلی ڈھالی حکومتی تسلی پر اپنے استعفے واپس لے لے گی جس تسلی کا نہ تو کوئی عملی فائدہ ہو نہ کوئی حقیقی وجود۔ یا پھر دوسری صورت یہ ہوگی کہ اس کے استعفے منظور ہو جائیں گے اور وہ اس دن کو پچھتائیں گے جس دن انہوں نے استعفے دینے کی سوچی تھی۔ ویسے الطاف حسین دونوں طرح فائدے میں رہیں گے۔ اگر استعفے نامنظور ہو گئے تو وہ اسے اپنے مؤقف کی اخلاقی فتح قرار دیں گے اور اگر منظور ہو گئے تو انہیں اس متوقع بغاوت سے وقتی طور پر نجات مل جائے گی جس کا ذکر وہ خود بھی کر چکے ہیں۔ اگر ان کے استعفے قبول ہو گئے تو یہ بالکل ویسی ہی صورتحال ہوگی جیسی تمہارے دوست کبیر خان کے ساتھ 1977ء میں ہوئی تھی۔ 
قارئین! میں آپ کو کبیر خان والا واقعہ بھی سنا دوں۔ 1977ء میں تحریک نظام مصطفی زوروں پر تھی۔ ملتان میں اور خاص طور پر اندرون شہر تحریک کا بڑا زور تھا۔ مولانا حامد علی خان تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ جلسے‘ جلوس اور گرفتاریاں معمول کی بات تھی۔ روزانہ بعد نماز عصر چوک بازار کی مسجد پھول ہٹ سے جلوس نکلتا تھا اور حسین آگاہی تک جاتا تھا جہاں سامنے پولیس کھڑی ہوتی تھی۔ پتھرائو ہوتا تھا‘ لاٹھی چارج ہوتا تھا‘ آنسو گیس چلتی تھی‘ گرفتاریاں ہوتی تھیں اور بات کل پر ٹل جاتی تھی۔ کل پھر یہی کچھ ہوتا تھا۔ تحریک طوالت پکڑتی گئی۔ گرفتار شدگان کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی۔ اب پولیس نے اندھا دھند پکڑ دھکڑ بند کردی۔ جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی آ چکے تھے لہٰذا اب گرفتاریوں میں بھی احتیاط کی جا رہی تھی۔ دوسری طرف اب جلوس والوں نے بھی طریقہ کار میں تبدیلی کر لی تھی۔ جلوس والوں نے بھی اندھا دھند گرفتاریاں دینے کے بجائے طے شدہ گرفتاریاں دینی شروع کردیں۔ روزانہ بعد نماز عصر جلوس نکلنے سے پہلے یہ طے کر لیا جاتا تھا کہ آج کون گرفتاری دیں گے۔ اب روزانہ دو لوگ گرفتاری دینے جاتے تھے۔ جلوس نکلتا تو یہ دونوں لوگ جنہوں نے گرفتاری دینی ہوتی تھی جلوس کے آگے چلتے۔ لوگ ان کو ہار پہنائے نعرے مارتے چل پڑتے۔ سارا جلوس چوک بازار کے آخری سرے پر ریواڑی سویٹ مارٹ کے سامنے رُک جاتا۔ سڑک کی دوسری طرف سٹیٹ بینک کی عمارت تھی‘ اس کے نیچے پولیس کھڑی ہوتی تھی۔ بڑی صلح صفائی اور بھائی چارے سے یہ سارا عمل مکمل ہوتا۔ جلوس نعرے مارتا ہوا پیچھے رُک جاتا۔ ہار پہنے دونوں رضاکارانہ گرفتاری دینے والے اصحاب پولیس کی طرف چل پڑتے۔ اسی دوران پولیس والے بھی بڑی شرافت سے آگے آ کر انہیں گرفتار کر لیتے۔ اس موقعہ پر اخباری فوٹوگرافر اس گرفتاری کی تصویریں کھینچتے۔ جلوس والے پرجوش نعرے لگاتے۔ چند ایک جوشیلے مظاہرین پتھرائو بھی کرتے مگر مجموعی طور پر سارا عمل بڑے پرامن اور مکینیکل طریقے سے مکمل ہو جاتا۔ صبح کے اخبارات میں ان پھولوں کے ہاروں سے لدے ہوئے دونوں اصحاب کی گرفتاری کی فوٹو چھپتی اور اگلے روز پھر یہی سارا کام اسی ترتیب سے وقوع پذیر ہوتا مگر کب تک؟ 
پھر یہ ہوا کہ پولیس نے ان دو اصحاب کو بھی گرفتار کرنا بند کر دیا۔ جیلوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں بچی تھی۔ ان گرفتار شدگان کو کہاں رکھا جاتا۔ اب یہ ہوا کہ سارا معاملہ تو اسی طرح چلتا۔ دونوں گرفتاری دینے والے رضاکار پھولوں کے ہار پہنے گرفتاری دینے کے لیے پولیس کی طرف بڑھتے۔ نعرے لگاتے ہوئے پولیس کے عین سامنے بلکہ ان کے درمیان چلے جاتے مگر پولیس والے کوئی لفٹ ہی نہ کرواتے۔ تھوڑی دیر بعد وہ نعرے لگاتے ہوئے واپس آ جاتے۔ اسی دوران فوٹوگرافر ان کی تصویریں بناتے۔ صبح یہ تصویریں اخبارات میں چھپ جاتیں۔ جب کئی دن گرفتاریاں نہ ہوئیں تو کبیر خان نے سوچا کہ آج وہ گرفتاری کے لیے جائے گا۔ پھولوں کے ہار پہنے گا۔ نعرے لگائے گا۔ پولیس کو للکارے گا اور واپس آ جائے گا۔ صبح اس کی تصویر اخبارات میں آئے گی۔ وہ ہیرو بن جائے گا۔ 
بعد نماز عصر جلوس نکلا۔ کبیر خان نے ہار پہنے۔ چوک بازار کے اختتام پر جلوس والے رُک گئے۔ کبیر خان نعرے مارتا‘ پولیس کو للکارتا‘ حکمرانوں کو بُرا بھلا کہتا ہوا آگے بڑھا۔ خدا جانے اس روز کیا ہوا۔ اچانک پولیس والوں نے کبیر خان پکڑ کر ساتھ کھڑی پولیس کی گاڑی میں ڈالا اور ڈسٹرکٹ جیل بھجوا دیا۔ کبیر خان کی جیل سے واپسی تب ہوئی جب مارشل لاء لگا اور سارے قیدی رہا ہوئے۔ وہ قریب ڈیڑھ دو ماہ جیل کی ہوا کھاتا رہا۔ 
چودھری کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کے استعفوں کے ساتھ کبیر خان والا حال ہو سکتا ہے مگر میرا خیال مختلف ہے۔ کبیر خان پہلوان آدمی تھا اور تھوڑی موٹی عقل کا مالک تھا۔ ادھر معاملہ مختلف ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں