"KMK" (space) message & send to 7575

بابر غوری سے ملاقات

گزشتہ ایک ہفتے سے مسلسل سفر میں ہوں۔ ہر روز نیا شہر‘ نئے لوگ اور نیا ہوٹل۔ ایک رات نیویارک‘ ایک فلاڈلفیا‘ ایک شکاگو‘ ایک لوئی ویل اور اسی طرح ٹلسا‘ اوکلاہوماسٹی؛ تاہم ہیوسٹن پہلا شہر ہے جہاں دو دن رکنا نصیب ہوا۔ پاکستانیوں سے بھرا یہ شہر لمبائی چوڑائی میں اتنا بڑا ہے کہ بندہ سفر کرتے کرتے تنگ آ جاتا ہے مگر دوست ایسے ہیں کہ ساری تھکن اور کلفت دور ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر آصف ریاض قدیر‘ غضنفر ہاشمی‘ ڈاکٹر خالد عباداللہ‘ افضال فردوس‘ سرور بھائی اور طاہر جاوید وغیرہ۔ یہ دو دن پلک جھپکتے گزر گئے۔ ایک دن مشاعرے میں اور ایک دن ظہرانے اور عشایئے کے دوران دوستوں سے گپ شپ اور بحث مباحثے میں۔ کافی کوشش کی کہ پاکستانی سیاست پر گفتگو سے پرہیز کروں مگر میری مجبوری‘ کہ جب کوئی نیلا یا سرخ پاسپورٹ ہولڈر پاکستان سے محبت جتاتے ہوئے ہم جیسے پاکستان سے آئے لوگوں کو باقاعدہ مجرموں کی طرح لتاڑنا شروع کر دے‘ جن کے پاس پاکستان کے علاوہ نہ تو اور کوئی جائے پناہ ہے اور نہ ہی کوئی دوہری شہریت‘ تو اندر کا جنگجو سارے ارادے ملیامیٹ کرتا ہوا باہر نکل آتا ہے۔ ہیوسٹن میں بھی یہ ہوا بلکہ دوبار ہوا۔ 
دوپہر کا کھانا دوستوں کے ساتھ تھا‘ وہیں ایم کیو ایم کے بابر غوری بھی تھے۔ بابر غوری ہوں اور سیاست پر گفتگو نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں۔ لیکن مجبوری یہ آن پڑی ہے کہ جو باتیں لکھے جانے کے قابل تھیں ان کے بارے میں بابر غوری نے ''آف دی ریکارڈ‘‘ کی پخ لگا دی اور جو آن دی ریکارڈ کہیں وہ سب کو ازبر ہیں۔ پاکستان سے باہر آنے کا پوچھا تو کہا کہ وہ تو پاکستان سے باہر تھے جب صولت مرزا نے ان پر شاہد حامد کے قتل کی منصوبہ بندی کا ملبہ ڈالا۔ وہ صولت مرزا کی جیل کے اندر کی جانے والی ''ویڈیو پریس کانفرنس‘‘ سے دو دن قبل ہی پاکستان سے برطانیہ جا چکے تھے اور صولت مرزا کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ صولت مرزا نے کس کے کہنے پر ان پر ملبہ ڈالا۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے دنیا نیوز کے معوذ صدیقی نے بابر غوری سے پوچھا کہ الطاف حسین نے ان کے باہر جانے پر غصے کا اظہار کیا تھا اور ان کے بارے سخت ریمارکس بھی دیے تھے تو بابر غوری نے الطاف حسین کی باتوں کی تردید یا تصدیق کرنے کے بجائے ہنس کر بات ٹال دی اور کہا کہ میں تو تب بھی برطانیہ والے ہیڈکوارٹر میں تھا اور اب بھی چار پانچ روز بعد وہیں لندن جا رہا ہوں۔ 
بابر غوری بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ معاملات کو اب بھی سیدھا رخ دیا جا سکتا ہے۔ ہر آپریشن نے ایم کیو ایم کو مضبوط کیا‘ ہر آپریشن کے بعد ایم کیو ایم کی اردو بولنے والی کمیونٹی میں مقبولیت بڑھی ہے کم نہیں ہوئی۔ خود الطاف بھائی نے کہا کہ ایم کیو ایم میں جو لوگ جرائم‘ بھتہ خوری اور تشدد میں ملوث ہیں ہمیں ان کی لسٹ دی جائے۔ ہم خود اُن کے بارے میں تحقیقات کریں گے۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ لسٹ میں لکھ دیں کہ بابر غوری بھی مطلوب ہے اور ہم آپ سے یہ نہ پوچھیں کہ اس کے خلاف کیا ثبوت ہیں؟ ظاہر ہے جو لوگ ہمارے نزدیک بے گناہ ہیں یا کسی طور جرائم میں ملوث نہیں ان کے بارے میں تو آپ سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کے جرائم کے ثبوت دیے جائیں۔ جن کے بارے ہمیں ثبوت مل جائیں گے کہ وہ جرائم میں ملوث ہیں ہم خود انہیں جرائم پیشہ ریکارڈ کی بنیاد پر تنظیم سے خارج کردیں گے پھر آپ جانیں اور آپ کا کام‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس پر ہمارے تحفظات ہیں۔ اس بنیاد پر آپریشن کے شفاف ہونے پر شکوک و شبہات ہیں۔ آپریشن کا سارا ملبہ ہم پر ڈالا جا رہا ہے۔ وڑائچ صاحب نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں‘ آپ دیکھیں پیپلز پارٹی بھی اس 
آپریشن کی زد میں ہے۔ ڈاکٹر عاصم گرفتار ہے اور زرداری صاحب نے مفاہمت کی سیاست کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے‘ بعض اور لوگوں کے خلاف بھی اقدامات ہو رہے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ صرف ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کی بات درست نہیں۔ بابر غوری بولے کہ پیپلز پارٹی کے خلاف ایکشن تو اب کی بات ہے ہمارے خلاف تو شروع دن سے ہی یک طرفہ آپریشن چل رہا ہے۔ حالانکہ ہم سندھ میں واحد محب وطن جماعت ہیں۔ پیپلز پارٹی اور سندھی قوم پرست تو ایک پلیٹ فارم پر ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سندھی اور مہاجر کی تقسیم میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 
جب ون یونٹ توڑا گیا تب ہمارے اکابرین یعنی اردو بولنے والوں کے بڑوں کو کہا گیا کہ ون یونٹ ٹوٹ رہا ہے اور صوبائی اکائیاں بحال ہو رہی ہیں‘ سندھ کو بھی تقسیم کر دیتے ہیں تو ہمارے بڑوں نے انکار کردیا اور کہا کہ ہمیں علیحدہ صوبہ نہیں چاہیے۔ ہمیں تب ہی یہ بات قبول کر لینی چاہیے تھی۔ تب قوم پرست ہمیں خود علیحدہ کرنا چاہتے تھے مگر ہم نے انتشار سے بچنے کی غرض سے ایسی کسی تقسیم سے منع کر دیا۔ لیکن اب یہ بات طے ہے کہ پاکستان کو انتظامی اکائیوں کی تعداد بڑھا کر ہی مضبوط اور محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اگر بلوچستان تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہوتا تو سارا صوبہ شورش زدہ نہ ہوتا۔ صرف ایک حصہ مسائل کا باعث ہوتا اور اس پر نسبتاً جلد قابو پایا جا سکتا تھا۔ معاملات کو آسانی سے حل کیا جا سکتا تھا مگر صوبوں کو مزید چھوٹی انتظامی اکائیوں میں تقسیم نہ کرنے کے عمل نے سارے مسائل کو جنم دیا۔ 
ایک دوست نے سوال کیا کہ کیا ایم کیو ایم اس آپریشن کے نتیجے میں زیر زمیں سرگرمیوں کا آغاز کر سکتی ہے؟ بابر غوری نے اس امکان کو پہلے تو فوری طور پر رد کر دیا اور کہا کہ نہیں ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے؛ تاہم پھر بات کو گھما پھرا کر کہا کہ کل کے بارے میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ لیکن فی الوقت ایسا کوئی امکان یا ارادہ نہیں ہے کہ ہم سندھ کی واحد محب وطن جماعت ہیں۔ ہم فوج سے اعتماد کا رشتہ بحال کرنا چاہتے ہیں۔ چیزوں کو قانون کے دائرے میں رکھتے ہوئے حل بھی کرنا چاہتے ہیں۔ پھر بابر غوری نے فوج کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کے چند ایک پرانے واقعات بھی سنائے اور ان کے مثبت نتائج بھی؛ تاہم یہ واقعات‘ افراد کے نام اور معاملات کو آف دی ریکارڈ کہہ کر گول کردیا۔ ایک تازہ واقعہ بھی سنایا کہ کس طرح ایک نہایت ہی ذمہ دار اور اعلیٰ افسر نے (نام بتایا اور عہدہ بھی) ہمارے ایک لیڈر کو فون کر کے (لیڈر کا نام بھی لیا) کہا آپ بلاخوف و خطر دفتر کھول لیں۔ اس لیڈر نے لندن بات کر کے الطاف بھائی کو یقین دہانی کرائی کہ ادھر سے گارنٹی دی گئی ہے کہ کچھ نہیں ہوگا۔ ہم نے دفتر کھول لیا۔ جونہی دفتر کھولا چھاپہ پڑ گیا اور گرفتاریاں کی گئیں۔ اب آپ بتائیں اعتماد کہاں گیا؟ ہمارے اس لیڈر کو لندن سے خاصی ڈانٹ پڑی کہ تم نے مروا دیا۔ ہمارے اس لیڈر کا بھلا کیا قصور تھا؟ اسے تو نہایت ذمہ دار شخصیت نے یقین دہانی کرائی تھی۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن سے باہمی اعتماد میں کمی آئی۔ ہم تو اب بھی چاہتے ہیں کہ غلط فہمیاں دور کی جائیں‘ ہمارے بارے میں یک طرفہ پروپیگنڈا ختم کیا جائے‘ ہمیں اس آنکھ سے دیکھا جائے کہ ہم محب وطن ہیں۔ بابر غوری کے ساتھ آئے ایک صاحب کہنے لگے میڈیا جھوٹ لکھ رہا ہے۔ پنجابی سوچ اور اسٹیبلشمنٹ کی مکمل نمائندگی کر رہا ہے۔ غیر جانبداری کے بجائے بھرپور تعصب اور نفرت سے کام لے رہا ہے۔ میں نے پوچھا کیا سارے کا سارا میڈیا؟ ایک دم کہنے لگے نہیں سارا تو نہیں لیکن بیشتر۔ میں نے پوچھا کیا آپ سارا سچ بولتے ہیں؟ وہ صاحب کہنے لگے میں تو سچ بولتا ہوں۔ میں نے کہا جناب میں آپ کو تو نہیں جانتا اور نہ ہی آپ کی ذات کے بارے میں بات کی ہے۔ ''آپ‘‘ سے مراد غالباً آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ کہنے لگے ہاں سارا سچ تو نہیں بولتے۔ سارا سچ بولا بھی نہیں جا سکتا۔ میں نے کہا آپ نے اپنے سوال بلکہ اعتراض کا خود ہی جواب دے دیا ہے۔ 
اٹھتے اٹھتے بابر غوری کہنے لگے۔ ہم معاملات کو مفاہمت کی طرف لانا چاہتے ہیں۔ پہلے کی مانند اچھے ورکنگ ریلیشن چاہتے ہیں۔ ''کون بچائے گا پاکستان۔ مہاجر‘ پنجابی کا ایمان‘‘۔ یہ ہمارا نعرہ ہی نہیں یقین بھی ہے کہ باقی سب لوگوں کی پاکستان دوستی اور محبت کا ہم سے کوئی مقابلہ نہیں۔ الطاف بھائی کے دروازے کھلے ہیں۔ معاملات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے الطاف بھائی خود براہ راست بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ پھر ایک دوست کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے۔ بھائی! آپ یہ فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ اس دوست نے ہنس کر کہا کہ مجھے تو معاف رکھیں۔ بابر غوری کہنے لگے‘ بالآخر یہ معاملہ بات چیت سے ہی حل ہوگا۔ آپریشن اس کا حل نہیں ہے اور بات چیت کے لیے الطاف بھائی ہمہ وقت تیار ہیں۔ کسی نہ کسی کو تو آگے بڑھ کر یہ معاملہ سلجھانا ہوگا۔ ہم تو خود اس کے منتظر ہیں۔ اور ہاں! بابر غوری نے کہا کہ ڈاکٹر عشرت العباد بھلے سے خود کو ایم کیو ایم میں سمجھیں‘ تنظیم انہیں فارغ کر چکی ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں