"KMK" (space) message & send to 7575

انحطاط پذیر نظام میں جمہوریت کا حصہ

شاہ جی نے پوچھا کیا پاکستان کی ساری جامعات بڑی آئیڈیل ہیں جو تم صرف بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے پیچھے لٹھ لے کرپڑے رہتے ہو؟ میں نے کہا ‘میں نے ایسا نہ کبھی کہا ہے اور نہ لکھا ہے۔ شاہ جی پھر کہنے لگے تو پھر تمہارا زور قلم صرف زکریا یونیورسٹی پر کیوں صرف ہو رہا ہے؟ جواب دیا: اس کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی میری مادر علمی ہے۔یہاں سے ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ یہ میرا ماضی ہے‘ ایسا ماضی جس میں جب چاہتا ہوں جھانک لیتا ہوں‘ بلکہ سیر کرتا ہوں‘ گھنٹوں تک ۔ میں ان یادوں سے خود کو علیحدہ نہیں کر سکتا اور کروں بھی کیوں؟ یہ میرے ماضی کا سرمایہ ہے‘ حسین یادیں ہیں‘ یہی کچھ تو باقی بچا ہوا ہے۔ اس کو برباد ہوتے کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ میرا مستقبل ہے۔ میرے شہر کا‘ میرے وسیب کا اور میرے بچوں کا۔ میری دو بیٹیاں یہاں سے پڑھ کر فارغ ہوئی ہیں۔ جو حال وہ بتاتی تھیں وہ قابل رحم تھا۔ ان چیزوں کا تو تصور بھی ہمارے زمانے میں نہیں کیا جا سکتا تھاجواب ہیں۔ میری چھوٹی بیٹی نے چار سال کا کورس پانچ سال میں کیا ہے۔ اس کے کزن جو دوسرے اداروں میں زیر تعلیم تھے اس کے ساتھ داخل ہوئے تھے اور ایک سال پہلے فارغ ہو گئے۔ لائق نالائق میں کوئی امتیاز نہیں ۔ داخلے میرٹ پر ہیں نہ فیکلٹی معیار پر پوری اترتی ہے۔ مجھے باقی جامعات سے کیا؟ میں نے تو یہاں جینا مرنا ہے۔میرا سارا کچھ یہیں ہے‘ مجھے تو اسی سے غرض ہو گی۔ میری اگلی نسلوں نے یہاں پڑھنا ہے۔ بھلا مستقبل کی بربادی پر خاموش رہا جا سکتا ہے؟
ویسے توسارا معاشرہ ہی انحطاط کا شکار ہے مگر بعض اداروں سے ہماری توقعات ذرا مختلف ہوتی ہیں‘ جیسے تعلیمی ادارے ۔ سب جگہ بربادی نہیں ہو رہی‘ بہتری بھی ہو رہی ہے۔ مثلاً سرگودھا یونیورسٹی کو ہی لے لو۔ صرف ایک رئیسِ جامعہ کے دور میں کیسی ترقی ہوئی ہے؟ محض آٹھ سال میں یونیورسٹی کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ صرف سال 2007ء سے 2015ء تک ‘ آٹھ سالوں میں‘ ڈاکٹر اکرم چودھری نے اس یونیورسٹی کی کایا پلٹ دی‘ کسی ایک شعبے میں نہیں‘ ہر شعبے میں۔ طلبہ کی تعداد 5344 سے بڑھ کر 25500 ہو گئی ہے‘ تقریباً پانچ گنا۔ اساتذہ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد 35 سے بڑھ کر 270 ہو چکی ہے۔ ایم فل اساتذہ 16 تھے اب251 ہیں ۔ ایم اے اساتذہ کی تعداد216 سے 387 ہو چکی ہے۔ یعنی کل تعداد267 سے بڑھ کر908 ہو چکی ہے۔ چار فیکلٹیوں میں 18 شعبہ جات کے تحت بیالیس پروگرام چل رہے تھے۔ اب 9 فیکلٹیز میں34شعبہ جات ہیں اور ان میں 219 پروگرام چل رہے ہیں۔ ان میں 80 کے لگ بھگ پروگرام پی ایچ ڈی اور ایم فل پر مشتمل ہیں۔ مالی خود مختاری کا یہ عالم ہے کہ جامعہ سرگودھا اپنے وسائل سے دو ارب 23کروڑ روپے سالانہ پیدا کرنے والی پاکستان کی پہلی یونیورسٹی ہے اور اس یونیورسٹی کا سالانہ خرچہ بھی تقریباً اتنا ہی ہے۔ یعنی دیگر یونیورسٹیوں کے برعکس یہ یونیورسٹی اپنا خرچہ خود اٹھا رہی ہے۔ گھاٹے کا بجٹ پیش نہیں کر رہی۔پہلے یہ آمدن محض چھ کروڑ تھی۔
شاہ جی کہنے لگے ‘یہ کون سامشکل کام ہے۔ ہر سال فیس بڑھا کر یہ کام بآسانی کیا جا سکتا ہے‘ میں بھی کر سکتا ہوں۔ فاصلاتی تعلیم میں ڈگریاں بیچنی شروع کر دو‘ سب مالی مشکلات دور ہو جائیں گی۔میں نے کہا شاہ جی ! یہاں معاملہ مختلف ہے۔ گزشتہ آٹھ سال میں فیس کی مد میں ایک پیسے کا اضافہ نہیں ہوا‘ حفاظ کی ‘ معذوروں کی‘ مستحق غریب طلبہ و طالبات کی اور یتیموں کی فیس معاف ہے۔ اس مد میں بلا مبالغہ سینکڑوں نہیں ہزاروں بچے بغیر ٹیوشن فیس کے پڑھ رہے ہیں۔ مرکزی کیمپس میں روزانہ دوپہر کو چھ سو مستحق طلبہ کو مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی نے گزشتہ برسوں میں اپنے پیدا کردہ وسائل سے دو ارب روپے سے زائد کے منصوبے مکمل کیے ہیں۔ سرگودھا میں ایک سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال اور ٹراما سنٹر بن رہا ہے۔ یہ ہسپتال 200 بیڈز پر مشتمل ہے مگر جب یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا تو یہ ہسپتال 500 بیڈ زکا ہو گا۔ یہاں سولہ کنسلٹنٹ بیٹھتے ہیں۔ جامعہ سرگودھا کے طلبہ‘ ملازمین اور اساتذہ سو روپے فیس میں سپیشلسٹ ڈاکٹروں سے معائنہ کرواتے ہیں اور اہل سرگودھا صرف دو سو روپے میں۔ ڈائگناسٹک سنٹر ہے جس میں مختلف قسم کے617 ٹیسٹ ہوتے ہیں‘شوکت خانم وغیرہ سے تھوڑے سے کم۔ ٹیسٹوں کی فیس آدھی سے بھی کم ہے۔ ٹیسٹ صرف سستے ہی نہیں قابل اعتماد اور قابل بھروسہ بھی ہیں۔ وقتاً فوقتاً ان ٹیسٹوں کو اعلیٰ نام کی حامل لیبارٹریوں سے کائونٹر چیک کروایا گیا ہے‘ اعشاریہ تک میں نتیجہ وہی نکلا ہے۔ یہ فیس سرگودھا کے عام شہریوں کے لیے ہے۔ طلبہ‘ ملازمین اور اساتذہ اس رعایتی فیس کا بھی نصف ادا کرتے ہیں۔ جب ہسپتال بن جائے گا تو یہ ایک اعلیٰ پیمانے کا ایسا ہسپتال ہو گا جو دیگر ہسپتالوں کے مقابلے میں معیاری علاج نصف خرچے میں کرے گا۔ یہ تو صرف وہ منصوبے ہیں جو اس یونیورسٹی کے طفیل اہالیان سرگودھا کے لیے بھی باعث رحمت ہیں‘ ابھی ٹراما سنٹر کا منصوبہ زیر تکمیل ہے جس سے حادثات میں شدید زخمی ہونے والے افراد کا فوری علاج مقامی طور پر ہو سکے گا وگرنہ لاہور یا فیصل آباد منتقلی کے دوران بہت سے زخمی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جامعہ کی اپنی فارمیسی ہے جو سرگودھا کی مصروف ترین فارمیسی ہے۔
معیار تعلیم کا یہ عالم ہے کہ ایچ ای سی نے جامعہ سرگودھا کو بہترین تحقیقی اداروں بشمول پبلک و پرائیویٹ کالجز و جامعات میں نویں نمبر پر قرار دیا ہے۔ گزشتہ سال یونیورسٹی نے کل 44690 ڈگریاں جاری کیں جن میں بی اے/بی ایس سی/ایم اے/ایم ایس سی‘ بی ایڈ‘ بی کام‘ ایل ایل بی‘ ایم کام‘ ایم ایڈ‘ ایم بی اے‘ فارمیسی اور سمسٹر سسٹم وغیرہ کے طلبہ و طالبات شامل تھے۔ ان جاری شدہ ڈگریوں میں سے33797 تصدیق کے لیے مختلف اداروں کی طرف سے واپس آئی ہیں ۔ یہ وہ ڈگریاں ہیں جو ملازمت حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے اداروں نے بھجوائی ہیں۔ کئی جگہوں سے تصدیق کے لیے نہیں بھی آئی ہونگی مگر ہم صرف اسی تعداد کو مدنظر رکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ تقریباً76 فیصد فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کو نوکری مل گئی تھی۔ یہ ایک محیر العقول شرح فیصد ہے اور جامعہ کے فارغ التحصیل طلبہ کی مارکیٹ میں نیک نامی ظاہر کرتی ہے۔
دنیا بھر میں جامعات اپنے تحقیقی کاموں کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔ ریسرچ کا جتنا کام مغرب میں یونیورسٹیاں کرتی ہیں اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ادھر ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ ہماری جامعات میں بذات خود ریسرچ کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری وظیفوں پر پی ایچ ڈی کر کے آنے والے ایسے ایسے میدان میں پی ایچ ڈی کر کے آتے ہیں جن کا پاکستان میں نہ کوئی مصرف ہے اور نہ کام کرنے کی سہولت ۔ سرگودھا یونیورسٹی میں 2007 ء میں ایمپکٹ فیکٹرپر مبنی مقالہ جات کی تعداد 38 تھی جبکہ کل 116 اشاعتیں عمل میںآئیں۔ 2014ء میں یہ تعداد بڑھ کر511 ہو گئی جن میں 239 مقالہ جات ایمپکٹ فیکٹر پر مبنی تھے۔ یہاں پر ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں ایسی پیرا سیٹامول بنائی گئی ہے جو جگراور گردوں کے لیے غیر ضرر رساں ہے۔ اس فارمولے کو یونائیٹڈ سٹیٹس پیٹنٹ اینڈ ٹریڈ آفس نے رجسٹر
کر کے پیٹنٹ کر لیا ہے۔اسی طرح خوردنی تیل کو محفوظ کرنے کا نباتاتی نظام اور چیونگ گم کو محفوظ کرنے کا دافع تکسیدی نظام بھی پیٹنٹ ہو چکا ہے۔ کئی دیگر تحقیقات کو پیٹنٹ کے لیے بھیجا جا چکا ہے اور وہ رجسٹریشن کے مراحل میں ہیں۔ ایک لاکھ لٹر روزانہ کی پیداواری استعداد کا منرل واٹر یونٹ ہے جو علاقے میں پینے کے لیے معیاری پانی نہایت ارزاں نرخوں پر فراہم کر رہا ہے۔ غرض ایک ایسا ادارہ تخلیق پا چکا ہے جو ہر پہلو سے ایک نیا رنگ منعکس کر رہا ہے۔
رئیس جامعہ ڈاکٹر اکرم چوہدری اس کالم کی اشاعت کے اگلے روز اپنا آخری ''ورکنگ ڈے‘‘ گزار کر اور چارج اپنے پرو وائس چانسلر کو دے کر گھر چلے جائیں گے ۔ میں انہیں پچیس سال سے جانتا ہوں جب وہ جامعہ زکریا میں استاد تھے۔ عربی زبان و ادب کے عالم اکرم چوہدری قرآن پاک کی تفسیر و تفہیم پر دسترس کے حامل ہیں۔ کسی اہل زبان سے بہتر عربی بولنے پر قادر اور انتہائی اعلیٰ پیمانے کی انگریزی بولنے والے ڈاکٹر اکرم چوہدری نے اپنی ابتدائی تعلیم ویسے ہی روایتی مدرسے سے حاصل کی جہاں انگریزی کا تصور بھی محال تھا۔ اعلیٰ تعلیم ام القریٰ یونیورسٹی سے حاصل کی‘ پی ایچ ڈی کا بیشتر کام گلاسگو یونیورسٹی میں کیا اور پوسٹ ڈاکٹریٹ امریکہ سے فل برائٹ سکالر شپ پر کرنے کے بعد جامعہ اسلامیہ بہاولپور‘ جامعہ زکریا ملتان اور جامعہ پنجاب لاہور میں تدریسی فرائض سرانجام دیے۔ اپنی یونیورسٹی میں 1100 کے لگ بھگ حفاظ کو بغیر فیس اعلیٰ تعلیم سے روشناس کروانے والے مدرسے کے فارغ التحصیل وائس چانسلر صاحب لاہور کے چکر لگانے کے بجائے گھر چلے جائیں گے۔ ان کے بعد ان کے طلبہ اداس اور سارے سیاسی کھڑپینچ خوش ہونگے کہ جامعہ سرگودھا وہ واحد جگہ تھی جہاں ان کی ''کھڑپینچی‘‘ نہیں چلتی تھی۔ جمہوری نظام کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ چیزیں میرٹ نہیں‘ سیاسی نمائندوں کی خوشنودی کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے صرف تعلیمی نظام ہی نہیں ہمہ قسم کے نظام مائل بہ انحطاط ہیں اور ان میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں