"KMK" (space) message & send to 7575

عزت و آبرو کا تصور

گزشتہ بائیس تئیس دن سے امریکہ میں ہوں اور تقریباً ہر شام کسی نئے شہر میں گزرتی ہے۔ شاید ایک یا دو شہر ایسے ہوں گے جن میں ایک دن سے زیادہ قیام ہوا؛ تاہم تین دن کسی شہر میں نہیں گزرے‘ حتیٰ کہ برادر بزرگ کے پاس اٹلانٹا میں بھی دو دن ہی گزرے۔ یہ واحد دو دن تھے جو کسی بھاگ دوڑ کے بغیر گزرے۔ سمودی کنگ کی سمودی‘ سرسوں کا ساگ‘ کشمیری چائے‘ خلیفہ کی ختائیاں اور موج میلا۔ میرے دوست میرے اس لفظ ''موج میلا‘‘ پر بڑا ہنستے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تم یہ لفظ لکھتے ہو تو لوگ بڑا عجیب سا تصور کرتے ہیں کہ خدا جانے امریکہ میں موج میلا کیا ہوتا ہو گا۔ میرا موج میلا یہ ہے کہ کوئی کام نہ ہو‘ دوست ہوں اور کسی خاص موضوع کے نہ ہونے کے باوجود گفتگو بلاتعطل جاری رہے۔ اس کے ساتھ اگر کافی ہو تو کیا کہنے۔ یہ میرا موج میلا ہے اور ہاں ایک بات‘ یہ کہ دوستوں کی اس محفل میں کوئی ایسا شخص نہ ہو جس کی موجودگی اس سارے ماحول میں خلل ڈالتی ہو۔ اٹلانٹا میں صرف میں تھا اور برادر بزرگ۔ زیادہ وقت گاڑی میں گزرتا تھا اور بس۔ سارا معاملہ بالکل ٹھیک چلتا رہتا‘ ہاں تب گفتگو میں بریک لگتی‘ جب فرمائش ہوتی تھی کہ کوئی سٹوری سنائوں۔ میں برادر کو کہتا کہ کوئی سٹوری نہیں ہے‘ اس بار تو کوئی بھی نہیں۔ برادر محض تنگ کرنے کے لیے کہتا کہ میں کوئی نہ کوئی سٹوری چھپا رہا ہوں۔ پھر خود ہی ہنس پڑتا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ سٹوری تو فی الحال کوئی نہیں‘جو ہے اس کی بھی فی الوقت تصدیق نہیں ہو رہی۔ اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں سے سو کنال زمین کی الاٹمنٹ کی افواہ ہے۔ اس کہانی میں کچھ اہم لوگوں کا ذکر سننے میں آیا ہے۔ یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا‘ لیکن یقین یوں آتا ہے کہ پاکستان میں کوئی بات ناممکنات میں سے نہیں۔
پھر برادر کو بتایا کہ فی الوقت پاکستان سے کسی سٹوری کی نہ اطلاع ہے اور نہ ہی کوئی مخبری؛ تاہم ادھر امریکہ میں ایک سٹوری ہے اور کئی ایک کی توقع ہے۔ برادرم نے پوچھا سٹوری ہے کون سی اور متوقع والی کیا ہیں؟ میں نے کہا: موجود والی سٹوری تو وہی پرانی ہے یعنی واشنگٹن میں پرانے پاکستانی سفارت خانے کی فروخت کا منصوبہ‘ اور متوقع سٹوریاں جنرل راحیل شریف کے دورے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ایک سٹوری تو چل بھی چکی ہے کہ جنرل راحیل شریف کسی سے پوچھے بتائے بنا اس سرکاری دورے پر آئے ہیں۔ یہ بات کسی ایرے غیرے شخص سے منسوب نہیں بلکہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بیان دیا ہے کہ آرمی چیف کو غیرملکی دورے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس کے لیے ایک طے شدہ طریقہ کار موجود ہے۔ بات صاف ہے کہ نہ کسی اجازت کی ضرورت ہے اور نہ ہی لی گئی۔ بات طریقے سے کی گئی ہے۔ خواجہ آصف اب بات طریقے سے کرنا سیکھ گئے ہیں یا کم از کم فوج کے بارے میں وہ بات طریقے سے کہنے لگے ہیں۔ مشاہداللہ خان کی فراغت کے بعد لوگ کافی محتاط ہو گئے ہیں۔
ویسے مشاہداللہ خان کو وزارت ماحولیات سے فراغت کے عوض سرکار نے کسی حد تک عوضانہ ادا کر دیا ہے۔ ان کے تین بھائیوں کے مزے کروا دیے گئے ہیں۔ پہلے ان کو سابق تاریخوں میں ترقیاں دی گئی تھیں اور انہیں ان ترقیوں کے ساتھ پچھلے کئی سالوں کے بقایا جات بھی ادا کیے گئے تھے‘ اب ان کو وزارت سے فارغ کرنے کے بعد ان کے تین پیاروں کو غیرملکی پوسٹنگز دے کر ان کی وفاداریوں کا پورا پورا صلہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کے بھائی ساجداللہ خان کو لندن میں سٹیشن منیجر لگایا گیا ہے۔ راشداللہ نیو یارک میں اور مطیع اللہ پیرس میں سٹیشن منیجر لگا دیے گئے ہیں۔ یہ فضائی کمپنی کی تاریخ کا شاید انوکھا واقعہ ہے کہ تین سگے بھائی تین غیر ملکی سٹیشنز پر سٹیشن منیجر تعینات کئے گئے ہیں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ایف نائن پارک والی سٹوری میں گو کہ جان نہیں‘ مگر ناممکنات میں بھی بہرحال نہیں۔
واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی پرانی عمارت کو بیچ کر موج میلا کرنے کا پروگرام بن رہا ہے۔ یہ موج میلا میرے والا نہیں بلکہ اسحاق ڈار صاحب والا ہے کہ سرکاری اثاثے بیچو اور اپنی حکومت چلائو۔ پہلے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کی عمارت کی فروخت کی باتیں اڑ رہی تھیں اور پاکستانی ہائی کمیشن جو لندن کی پرائم جگہ بلگریویا میں ہے‘ برائے فروخت کی افواہوں میں تھا۔ اس کی عمارت کی مالیت کا تخمینہ تقریباً دو سو ملین پونڈ یعنی بیس کروڑ برطانوی پونڈ ہے۔ لونڈیس سکوائر پر موجود یہ عمارت لندن کے دل میں واقع ہے۔ اس کو بیچ کر بتیس ارب روپے کھرے کرنے کا پروگرام بنا تھا اور منصوبے کے پیچھے اعلیٰ حضرت سرتاج عزیز اور طارق فاطمی صاحب کا نام نامی تھا؛ تاہم یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اس سے قبل 2000ء میں جکارتا میں نہایت ہی مہنگے اور شاندار علاقے میں موجود اس پاکستانی پراپرٹی کو انڈونیشیا میں اس وقت کے پاکستانی سفیر میجر جنرل(ر) سید مصطفی انور حسین نے ایک مشکوک سودے میں بیچ کر اپنا الو سیدھا کر لیا‘ یہ معاملہ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں پڑا‘ اور نیب کی توجہ کا طالب ہے۔ کسی وجہ سے لندن والی عمارت تو بہرحال بچ گئی اب واشنگٹن میں میساچیوسٹس ایونیو والی بلڈنگ کو بیچنے کا پروگرام بن رہا ہے۔ یہ عمارت ایسی شاہراہ پر واقع ہے جو وقار کی علامت ہے اس عمارت کی چند سال پہلے آصف علی زرداری کے دور میں مبلغ 76 کروڑ روپے کی لاگت سے تزئین و آرائش کی گئی تھی۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ عمارت کی مرمت پر اس سے کہیں کم رقم خرچ ہوئی تھی اور باقی جیبوں میں ڈال لی گئی تھی۔ یہ سیدھا سادا لوٹ مار کا کیس ہے مگر اب نہ شہباز شریف صاحب کو یاد ہے کہ انہوں نے لٹیروں کو سڑکوں پر گھسیٹنا ہے اور نہ میاں نواز شریف صاحب کو کہ انہوں نے ملک کو لوٹنے والوں سے حساب لینا ہے۔
اس عمارت کی فروخت کا تخمینہ ایک کروڑ اسی لاکھ امریکی ڈالر لگایا گیا ہے یعنی اس حساب سے اس کی قیمت ایک ارب نوے کروڑ روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اس سڑک پر بھارت کا کلچرل سنٹر ہے اور بھارتی اس پر فخر کرتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ اس عمارت کو بیچ کر چار دن موج میلا کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اس عمارت میں پاکستان کا کلچر سنٹر بنایا جا سکتا ہے۔ تقریبات کا ہال بنایا جا سکتا ہے جہاں امریکہ میں موجود پاکستانی کمیونٹی تقریبات منا سکتی ہے‘ اسے کنوشن سنٹر بناکر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ‘ تہذیب اور معاشرت کی عکاسی کرنے کی غرض سے لوک ورثہ میوزیم ٹائپ کوئی چیز بنائی جا سکتی ہے۔ مگر کاروباری حکمرانوں کو ایسی چیزوں سے کوئی غرض نہیں۔ لندن میں پراپرٹی کا کام کرنے کے بعد اُنہیں پتہ چل چکا ہے کہ ریئل اسٹیٹ میں بڑی آمدنی ہے اور جائیدادوں کو سینے سے لگا کر رکھنے کے بجائے انہیں بیچتے اور خریدتے رہنا چاہیے مگر وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ قومی وقار سے جڑی عمارتوں کی بازاری قیمت کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ ان کے ساتھ ملکی عزت اور نیک نامی جڑی ہوتی ہے۔ انہیں پراپرٹی ڈیلر بن کر نہیں قومی آبرو کے محافظ بن کر دیکھنا چاہیے۔
میں یہ واقعہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہمارے ایک دوست بٹ صاحب ہیں جو ریڈنگ برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ مزے لے لے کر ایک واقعہ سناتے تھے کہ ان کے ایک بزرگ ہیں جن کی اندرون لاہور میں کافی ساری جائیداد ہے جو ان کو اپنے والد کی طرف سے ملی تھی۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ بٹ صاحب آج کل آپ کیا کر رہے ہیں؟ وہ بڑے فخر سے بتانے لگے کہ کرنا کرانا کیا ہے؟ ہر چار چھ سال بعد ایک مکان بیچتے ہیں اور عزت و آبرو سے اس پیسے کے ساتھ پائے‘ کلچہ‘ کھد اور لسی پی لیتے ہیں۔ نہ بچوں کی محتاجی ہے اور نہ ہی کام کرنے کی مشقت ہے۔ اباجی مرحوم! اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اٹھارہ مکان چھوڑ گئے تھے۔ اب تک پانچ مکان بیچ چکا ہوں۔ بیس سال آرام اور عزت کے ساتھ بسر ہو گئے ہیں‘ باقی پتہ نہیں کتنے دن اور زندگی ہے مگر ابھی گیارہ مکان موجود ہیں‘ کھانے سے ختم نہیں ہوں گے۔ اپنی زندگی تو کم از کم عزت و آبرو سے گزر رہی ہے۔
میں جب پاکستانی حکمرانوں کی حرکتیں دیکھتا ہوں تو مجھے ریڈنگ والے اپنے دوست بٹ صاحب کے بڑے بزرگ یاد آتے ہیں ان کا عزت و آبرو کا تصور بھی بالکل ہمارے حکمرانوں جیسا ہے یا شاید ہمارے حکمرانوں کا عزت و آبرو کا تصور بٹ صاحب کے بزرگ جیسا ہے۔ لیکن افسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں کا رویہ بھی پائے‘ کلچے‘ کھد اور لسی پینے کے شوقین کسی شخص جیسا ہے۔
قوموں کے لیے ایک ارب نواسی کروڑ روپے کی کیا اہمیت ہے؟ واشنگٹن کی مرکزی شاہراہ پر واقع ہیں قومی آبرو سے جڑی اس عمارت کی قیمت کا تخمینہ بھی ایک ارب نواسی کروڑ روپے لگایا گیا ہے‘ جسے بیچ کر حکمران چار دن سہولت سے گزارنا چاہتے ہیں‘ عزت و آبرو کے ساتھ۔ اللہ جانے ہمارے حکمرانوں کے ذہن میں عزت و آبرو کا کیا تصور ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں