"KMK" (space) message & send to 7575

صوبہ جنوبی پنجاب سیاسی نہیں انتظامی ضرورت ہے!

برادر بزرگ پوچھنے لگے صوبہ پنجاب کا کیا مستقبل ہے؟ میں کہا کوئی پٹواری یہ قبول نہیں کرتا کہ اس کے پٹوار کا حلقہ یا موضع چھوٹا کر دیا جائے‘ یہ تو صوبے کا معاملہ ہے۔ کوئی شخص جو حکومت کر رہا ہے بھلا یہ کیوں چاہے گا کہ اس کی ''سلطنت‘‘ مختصر ہو جائے؟ کوٹ سبزل سے اٹک کے پُل تک کی حکومت کو اپنے ہاتھوں کون تقسیم کرنا چاہے گا؟ برادر بزرگ کہنے لگے ‘اور وہ جو قرارداد پاس ہوئی تھی جنوبی پنجاب میں دو صوبے بنانے کی‘ اُس کا کیا بنا؟ میں نے کہا وہ پی پی پی نے جو جنوبی پنجاب صوبے کا غلغلہ مچایا تھا‘ اس کا دھڑن تختہ کرنے کی غرض سے ایک سیاسی چال چلی گئی تھی۔ اس کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں کہ وہ سارا معاملہ غتربود کرنے کی غرض سے ایک چالاکی کی گئی تھی اور کچھ نہیں تھا۔ نہ پیپلز پارٹی صوبہ پنجاب کو تقسیم کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی مسلم لیگ (ن)‘ دونوں ڈرامہ کر رہے تھے اور جنوبی پنجاب کی عوام کو گولی دے رہے تھے۔
جب پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دن تھے اور ان کی کرپشن کی کہانیاں گزشتہ سارے ریکارڈ توڑ رہی تھیں‘ انہوں نے اچانک صوبہ جنوبی پنجاب کا شوشہ چھوڑ دیا۔ مقصد صرف اور صرف عوام کی توجہ دوسری طرف لگانا اور مسلم لیگ (ن) کو زچ کرنا تھا۔ سید یوسف رضا گیلانی پر جیسے ہی مختلف قسم کے دبائو بڑھے‘ ان پر کرپشن کے الزامات کی صدائیں جب گلی کوچوں میں ہر خاص و عام کے زبان سے اٹھنے لگیں اور سوئس حکومت کو خط لکھنے کے مسئلے پر سپریم کورٹ کا دبائو بڑھا تو انہوں نے یہ شوشہ چھوڑ کر اچانک یہ کہنا شروع کر دیا کہ ان کو صوبہ جنوبی پنجاب کی آواز بلند کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ وہ اس نام نہاد ڈرامے کی آڑ میں اپنے دیگر سارے معاملات کو دفن کرنا چاہتے تھے۔ وہ دراصل جنوبی پنجاب کے ہیرو بننا چاہتے تھے مگر عوام اتنے بے وقوف نہیں کہ دم آخر والے اس دھوکے میں آ جاتی ۔لہٰذا اپنی بدنیتی کے باعث وہ یہ کریڈٹ نہ لے سکے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی نیت یوسف رضا گیلانی سے بھی زیادہ بری تھی‘ انہوں نے صوبہ بہاولپور اور ملتان کا بے تکا سا ڈول ڈال دیا۔ یہ چیزیں ممکن العمل تھیں ہی نہیں۔
آپ پرویزالٰہی صاحب کو دیکھیں۔ پانچ سال پنجاب میں بلاشرکت غیرے حکمران رہے۔ مرکز میں ان کے مربّی اپنی تمام تر مطلق العنانیت کے ساتھ جلوہ افروز تھے۔ تب صوبہ پنجاب‘ بآسانی علیحدہ صوبہ بنانے کی قرارداد منظور کر سکتا تھا اور مرکز اور سینیٹ سے اس کی منظوری بھی بلادقت لی جا سکتی تھی مگر تب چودھری پرویزالہٰی کو صوبہ جنوبی پنجاب کا رتی برابر خیال نہ آیا اور جونہی حکومت سے فراغت ہوئی انہیں اچانک صوبہ جنوبی پنجاب کے مروڑ اٹھنا شروع ہو گئے۔ ان کا مقصد تو صرف اور صرف یہ تھا کہ شریف برادران کی پنجاب میں حکومت سکڑ جائے‘ میاں شہبازشریف کا دائرہ اختیار مختصر ہو جائے۔ صدر پرویزمشرف کو دس بار وردی میں صدر بنوانے کے دعویدار جونہی حکومت سے محروم ہوئے انہیں صوبہ جنوبی پنجاب کا بخار چڑھ گیا۔ اپنے پانچ سالہ دور میں انہیں اس چیز کا خیال شاید خواب میں بھی نہ آیا ہو گا‘ جونہی واپس گھر پہنچے‘ انہیں جنوبی پنجاب کی محبت کا بخار چڑھ گیا۔ انہیں علیحدہ انتظامی یونٹ سے کوئی غرض نہیں تھی‘ وہ صرف میاں شہبازشریف کی حکومت کا دائرہ کار کم کرنے کے جنون میں مبتلا تھے۔
صوبہ جنوبی پنجاب تب تک نہیں بن سکتا‘ بلکہ ملک میں کوئی بھی نیا صوبہ تب تک نہیں بن سکتا جب تک اس صوبے کی اسمبلی یہ قرارداد منظور نہ کر دے‘ یعنی صوبہ کراچی بنانے کے لیے سندھ اسمبلی کی قرارداد‘ صوبہ ہزارہ بنانے کے لیے خیبرپختون خوا اسمبلی اور جنوبی پنجاب پر مشتمل علیحدہ صوبہ بنانے کے لیے پنجاب اسمبلی کی قرارداد بنیادی چیز ہے‘ اس کے بغیر نئے صوبے کی تشکیل موجودہ آئینی تناظر میں تو ممکن نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو بڑے دور بین شخص تھے۔ انہیں ایک نہ ایک دن اردو بولنے والوں کی طرف سے ایک علیحدہ صوبے کے مطالبے کا اندازہ تھا۔ انہوں نے مستقبل میں اٹھنے والے اس معاملے کو آئین بناتے وقت ہی اتنا مشکل اور پیچیدہ بنا دیا کہ اکثریتی پارٹی اور حکمران جماعت کی مرضی کے خلاف صوبے کی تقسیم ناممکن ہو گئی۔ انہیں علم تھا کہ کراچی کے علاوہ سندھ کے رہائشی ایسا نہیں چاہیں گے اور ان کی مرضی کے بغیر صوبہ بننا ممکن نہیں ہو گا‘ لہٰذا انہوں نے دوسرے لفظوں میں کسی نئے صوبے کے قیام کا پیشگی قلع قمع کر دیا۔ جلسوں میں 
تقریریں کرنا‘ گلیوں میں نعرے لگانا‘ سڑکوں پر جلوس نکالنا ایک علیحدہ بات ہے اور نئے صوبے کے لیے قدم اٹھانا ایک اور بات ہے اور اس سلسلے میں کوئی پارٹی سنجیدہ نہیں۔
تب پنجاب میں میاں شہباز کی حکومت تھی اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی۔ اب پنجاب اور مرکز دونوں میں میاں برادران حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں‘ اگر اب وہ چاہیں تو صوبہ پنجاب کی انتظامی تقسیم بڑی آسانی سے ہو سکتی ہے۔ ان کی اپنی قرارداد کے مطابق صوبہ ملتان اور بہاولپور دو صوبے بن سکتے ہیں۔ گو کہ اس قرارداد کے پیچھے ایک بدنیتی تو یہ تھی کہ منقسم جنوبی پنجاب مالی طور پر مستحکم نہیں ہو سکتا یعنی صوبہ ملتان اور بہاولپور علیحدہ علیحدہ بنا دیے جائیں تو انہیں کبھی بھی مالی استحکام حاصل نہ ہو سکے گا اور یہاں کے عوام انہیں یاد کر کے روئیں گے۔ یہ مسلسل بدانتظامی اور حکومتی نااہلی کا نتیجہ ہے کہ اب زرعی طور پر پاکستان کا سب سے خوشحال علاقہ غربت اور محرومیوں کا شکار ہے‘ وگرنہ یہی ریاست بہاولپور تھی جس کے سربراہ صادق محمد خان خامس نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے سات کروڑ روپے کا عطیہ دیا اور پاکستان بھر کے سرکاری ملازمین کو ایک ماہ کی تنخواہ اپنے خزانے سے دی تھی۔ تب بہاولپور برصغیر کی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک تھی۔ 1955ء میں ریاست بہاولپور کے آخری بجٹ میں تمام اخراجات کے بعد مبلغ 4,09,20,612 روپے موجود تھے۔صوبہ بہاولپور کی بحالی کے لیے 1970ء میں بہاولپور کے عوام نے ''تحریک بحالی صوبہ بہاولپور‘‘ کے نام پر ایک متحدہ محاذ بنایا۔ الیکشن میں بہاولپور کے رجسٹرڈ دس لاکھ تیس ہزار ووٹوں میں سے سات لاکھ چودہ ہزار ووٹ متحدہ محاذ کے امیدواروں نے حاصل کئے اور مخالفین محض ایک لاکھ کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرسکے۔ علیحدہ صوبہ کی بحالی کے نام پر ووٹ لینے والوں نے اسمبلی میں جا کر اپنے سارے وعدے فراموش کر دیے۔ اس تحریک کے دوران گولی چلی‘ کرفیو لگا‘ لوگ شہید ہوئے‘ گرفتاریاں ہوئیں؛ سیٹھ عبیدالرحمان‘ مولانا غلام مصطفی‘ الطاف قریشی‘ علامہ رحمت اللہ ارشد‘ سید احمد نواز گردیزی اور بیگم طاہرہ مسعود کو بہاولپور بدر کیا گیا۔ ریاست بہاولپور کے آخری وزیراعظم میاں نظام الدین کی صاحبزادی بیگم طاہرہ مسعود نے بہاولپور کی صدیوں پرانی روایات کو توڑتے ہوئے سڑکوں پر تحریک کی قیادت کی مگر اسمبلی میں جانے والے منتخب ارکان نے ساری جدوجہد پر پانی پھیر دیا اور ذاتی مفادات کے پیش نظر تحریک سے غداری کی۔
گزشتہ الیکشن سے قبل ہمارے پرانے دوست محمد علی درانی نے دوبارہ اس مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کی اور صوبہ بہاولپور کی بحالی کا سویا ہوا معاملہ ایک بار پھر زندہ کیا۔ محمد علی درانی کا موقف وہی تھا جو سابقہ متحدہ محاذ کا تھا کہ تیس اپریل 1951ء میں حکومت پاکستان اور نواب بہاولپور کے درمیان معاہدے کے تحت بہاولپور کو صوبے کی حیثیت دی گئی‘ تب یہ مکمل خودمختار صوبہ تھا اور اس میں صوبائی الیکشن ہوئے۔ انچاس رکنی صوبائی اسمبلی نے 1952ء میں کام شروع کیا اور ون یونٹ بننے تک کام کرتی رہی۔ تاہم دیگر صوبوں کی طرح اس کی صوبائی حیثیت ختم کر کے ون یونٹ میں مدغم کر دیا گیا۔ 30 مارچ 1970ء کو ون یونٹ ختم ہوا۔ سابقہ تمام صوبے بحال ہوئے مگر بہاولپور کے ساتھ ناانصافی کرتے ہوئے اسے پنجاب کا حصہ بنا دیا گیا۔ نواب سے معاہدہ کرتے وقت بہاولپور کی علیحدہ صوبائی حیثیت تسلیم کی گئی تھی مگر ''دھکا شاہی‘‘ کرتے ہوئے 1970ء میں بہاولپور کی صوبائی حیثیت دیگر صوبوں کی طرح بحال نہ کی گئی۔ محمد علی درانی نے الیکشن سے پہلے خاصا شور مچایا مگر بہاولپور کے عوام نے سابقہ تجربے کی روشنی میں صوبہ بحالی تحریک کے برعکس اس بار کسی پر اعتماد نہ کیا۔ الیکشن تک تو محمد علی درانی خوب نظر آیا مگر اس کے بعد حسب معمول ان چراغوں میں بھی روشنی نہ رہی۔ 
اسلام آباد میں تحریک انصاف کے بے مقصد اور لاحاصل دھرنے کے دوران جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف چھوڑ دی اور اس کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 149 سے استعفیٰ دے دیا۔ 16 اکتوبر 2014ء کو اس خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخاب ہوا تو جاوید ہاشمی اس میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہو گئے۔ میں نے تب جاوید ہاشمی سے کہا کہ آپ نے جمہوریت کے استحکام کے لیے جو بڑی قربانی دی ہے اس کے بعد آپ کو الیکشن کی سیاست سے اوپر اٹھ جانا چاہیے۔ جاوید ہاشمی نے پوچھا کہ تمہارا کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا آپ بطور پہلوان اکھاڑے میں اترنے کے بجائے پرانے ریٹائرڈ پہلوان کی طرح خلیفہ بن جائیں اور جنوبی پنجاب کے صوبہ کے حصول کی تحریک چلائیں‘ لوگ آپ پر اعتماد کریں گے۔ جمہوریت کے لیے آپ نے جو جدوجہد کی ہے وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا انمٹ حصہ ہے۔ آپ اس تحریک کو زندہ بھی کر سکتے ہیں اور کامیابی کے نزدیک بھی لا سکتے ہیں مگر یہ ''بڑا سیاستدان‘‘ چھوٹے سے حلقے میں الیکشن ہار کر ضائع ہو گیا۔
موجودہ سیاسی صورتحال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی ساری عوامی قیادت چھوٹے چھوٹے مفادات کی غلام ہے اور پارٹی لیڈر سے رتی برابر اختلاف کی جرأت سے مکمل طور پر محروم۔ جو لوگ میٹرو کے مسئلے پر اپنے دل کی بات کہنے اور عوام کی نمائندگی کرنے کے بجائے خادم اعلیٰ کے ابرو کے اشارے کے غلام ہوں بھلا وہ اتنے بڑے معاملے پر اپنی رائے کیسے دے سکتے ہیں۔ موجودہ قیادت سے رتی برابر امید بھی ایک حماقت ہے۔ سرائیکی قوم پرستوں کو دھیلے کی عوامی تائید حاصل نہیں۔ جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کے بارے میں راوی فی الحال چین لکھتا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اب دس کروڑ سے زائد آبادی والے صوبے کا انتظام چلانا کسی کے بس کی بات نہیں اور خادم اعلیٰ کے بس کی تو بالکل بھی نہیں۔ معاملات کو ہاتھ سے مکمل طور پر نکلنے سے پہلے کوئی سمجھداری کا فیصلہ کر لیا جائے تو اسی میں بہتری ہے۔ حالات جلد نہ سہی مگر بدیر ضرور ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں