"KMK" (space) message & send to 7575

ملتان کی حالت

امریکہ میں جہاں کہیں بھی کسی ملتان سے تعلق رکھنے والے شخص سے ملاقات ہو ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوتی ہے تاہم مجھے صرف لگتا ہی نہیں بلکہ باقاعدہ محسوس ہوتا ہے کہ ملتان کے حوالے سے ملنے والا ہر شخص مجھ سے مل کر اس سے زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے جتنی کہ میں محسوس کرتا ہوں۔ دیار غیر میں کسی شہردار سے مل کر خوش ہونے کے لیے ایک دوسرے کو پہلے سے جاننا ہرگز ضروری نہیں۔ بس شہر کا نام اور اس سے تعلق ہی سب کچھ ہے۔ یہ بات صرف ملتان کے لیے ہی نہیں‘ ہر شخص کا اپنا اپنا ملتان ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے اپنے شہر میں اپنا اپنا ملتان تلاش کر لیتا ہے۔ ممکن ہے یہ ہم چھوٹے شہروں میں رہنے والوں کا کوئی کمپلیکس ہو مگر مجھے اس کمپلیکس سے بھی محبت ہے۔ میری اہلیہ مرحومہ تو خانیوال کی نمبر پلیٹ والی گاڑی دیکھ کر خوش ہو جایا کرتی تھی۔
گزشتہ دورہ امریکہ میں میرے ہمراہ برادرم سہیل وڑائچ ‘ ڈاکٹر حسین پراچہ اور وصی شاہ تھے۔ اتفاقاً تینوں اصحاب کا تعلق سرگودھا سے تھا۔ سرگودھا سے تعلق والا ہر شخص ان تینوں سے ملتے وقت اس تعلق کے حوالے سے جس گرمجوشی اور محبت سے ملتا وہ علیحدہ سے نظر آتی تھی۔ ملتان سے ملنے والا ہر شخص خواہ دو چار ماہ پہلے ہی پاکستان سے ہو کر آیا ہو چھوٹتے ہی ملتان کا حال پوچھتا ہے۔ بہت سے لوگ میرے ملتان سے متعلق لکھے گئے کالموں کے حوالے سے پوچھتے ہیں کہ میٹرو بن رہی ہے؟ میں بتاتا ہوں کہ نہ صرف بن رہی ہے بلکہ 
زور شور سے بن رہی ہے۔ کمشنر ملتان دفتری مصروفیات کے بعد اپنا سارا وقت صرف میٹرو کو دے رہا ہے۔ علی الصبح اور پھر رات گئے تک، نہایت جانفشانی اور لگن سے۔ کام کی رفتار غیر معمولی ہے۔ ممکن ہے لاہور والے اس قسم کی تعمیراتی تیز رفتاریوں سے مانوس ہو گئے ہوں، ہم ملتانیوں کے لیے تو یہ ''سپیڈیں‘‘ بڑی محیر العقول ہیں۔ ہم نے چار چار سو میٹر کے چھوٹے چھوٹے فلائی اووروں کو سالوں میں مکمل ہوتے دیکھا ہے، ہمارے لیے تو یہ تعمیراتی رفتار بڑی ناموس سی ہے۔ دنوں میں سینکڑوں ستونوں کی کئی کلو میٹر لمبی قطار کھمبیوں کی طرح اگ آئی ہے۔ یہ خادم اعلیٰ کا عشق ہے، سو سر چڑھ کر بول رہا ہے وگرنہ اسی شہر میں کمہاراں والا چوک پر بننے والے دو منزلہ فلائی اوور کے شمالی جانب ناردرن بائی پاس کی طرف جانے والی سڑک گزشتہ چار سال سے روڑی ‘ بجری اور اسفالٹ کی تہہ کی منتظر ہے۔ چوک کی قسمت میٹرو کی وجہ سے کھل رہی ہے وگرنہ یہ چوک بھی گزشتہ چھ سات سال سے ٹریفک انجینئرنگ کے ضوابط کے مطابق تعمیر کا منتظر تھا۔ چونکہ یہ سارا کام سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کروایا تھا لہٰذا خادم اعلیٰ کا اس بارے میں رویہ بڑا ٹھنڈا ٹھارتھا اور انہیں اس بارے میں رتی برابر تشویش تھی نہ فکر۔ یوسف رضا گیلانی کے شروع کیے گئے یہ تمام پراجیکٹ جو خود یوسف رضا گیلانی کے دور میں ''گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں درج کرنے کے قابل سست روی اور کاہلی سے چل رہے تھے، ان کی رخصتی کے بعد تو گویا بھولے بسرے فسانے بن گئے تھے۔ یہی حال چھ نمبر چونگی کے فلائی اوور کا ہے۔ گزشتہ چار سال سے میں جب بھی ایک ڈیڑھ ماہ پاکستان سے باہر گزار کر واپس ملتان آتا ہوں تو ایک فضول سی امید لگا لیتا ہوں کہ اب شاید اس پر کام شروع ہو گیا ہو گا، شاید کوئی تعمیراتی پیش رفت ہوئی ہوگی مگر حکومت پنجاب کی ثابت قدمی میری امیدوں سے کہیں زیادہ مستقل مزاج ثابت ہوتی ہے۔
میٹرو کی تعمیر کے حوالے سے ہی بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ملتان کو ابھی میٹرو کی ضرورت تھی؟ میں الٹا ان سے سوال کرتا ہوں کہ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ مجھے ابھی تک کوئی ایسا ملتانی نہیں ملا جو یہ کہتا کہ یہ پراجیکٹ وقت کی ضرورت تھا اور ٹھیک بن رہا ہے۔ سو فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ ابھی ملتان میں ماس ٹرانزٹ اور ٹرانسپورٹیشن کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ملتان کو اس سے کہیں زیادہ اہم مسائل کا سامنا ہے۔ میٹرو پراجیکٹ کا بنیادی مسائل سے نہیں بلکہ فالتو والے مسائل سے تعلق ہے، یعنی بلا ضرورت بنائی جانے والی چیز۔ ملتان کے بنیادی مسائل میں اندرون شہر ٹریفک کا مسئلہ ہے۔سڑکوں کی تنگی کا مسئلہ ہے۔ صاف پینے کا پانی بہت بڑا مسئلہ ہے ‘ گندے پانی کا نکاس ایک ایسا گمبھیرمسئلہ ہے کہ اس کا حل ہونا ایک مشکل امر ہے۔ سارا سیوریج سسٹم تبدیل ہونے والا ہے مگر نہ کسی کے پاس موجودہ سیوریج پائپ لائن کا نقشہ ہے اور نہ ہی کوئی فیوچرپلان ۔ صحت کا سارا نظام پورے ملک میں ہی بربادی کے کنارے نہیں کھڑا بلکہ برباد ہو چکا ہے مگر ملتان میں یہ مسئلہ باقی شہروں سے سوا ہے کہ ملتان کی آبادی پچھلے ساٹھ سال میں دس گنا بڑھ چکی ہے مگر پچاس کی دہائی میں بننے والا نشتر ہسپتال ابھی تک اس علاقے میں واحد اعلیٰ درجے کا یعنی Tertiary Care Hospitalہے۔ اڑھائی تین لاکھ کی آبادی کے لیے بھی ہزار بیڈ کا ایک ہسپتال اور پچیس تیس لاکھ کی آبادی کے لیے بھی وہی اکلوتا ہسپتال۔ ہاں ایک ترقی ضرور ہوئی ہے کہ اس ہسپتال کے ہر وارڈ میں بیڈز کی تعداد بڑھا کر اسے گیارہ سو بیڈز سے سترہ سو بیڈز کا ہسپتال بنا دیا گیا ہے مگر ڈاکٹرز‘ فنڈز‘ پیرا میڈیکل سٹاف اور دیگر سہولیات وہی ہزار گیارہ سو بیڈز والی ہیں۔ سکول برباد ہو چکے ہیں۔ سرکاری کالجوں کا برا حال ہے۔ پنجاب کا دوسرا معتبر ترین کالج گورنمنٹ ایمرسن کالج برباد ہو چکا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے بعد دوسرا پرانا اور اعلیٰ روایات کا حامل کالج بربادی کے آخری سرے پر ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور خود مختار یونیورسٹی بن چکا ہے اور اپنی پہلی سی درخشاں علمی روایات کا امین ہے، ادھر ملتان کا اسی درجے کاکالج برباد ہو چکا ہے۔ عالم یہ ہے کہ 1920ء میں قائم ہونے والے اس قدیم اور شاندار ماضی کے حامل ڈگری کالج کی لائبریری جو جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی اور قدیم کالج لائبریری تھی برباد ہو چکی ہے کہ گزشتہ دو عشروں سے یہاں کوئی لائبریرین ہی نہیں ہے۔ پوری دنیا میں نااہلی اور لاپروائی کی ایسی دوسری مثال ملنا محال ہے ۔ صحت‘ تعلیم‘ بنیادی سہولیات اور صاف پانی جیسی بنیادی چیز میسر نہیں اور خادم اعلیٰ کو میٹرو کی پڑی ہوئی ہے۔ گورنمنٹ ایمرسن ڈگری کالج کے بارے میں تو ایک علیحدہ کالم کی ضرورت ہے اور یہ عاجز اس پر بھی قلم اٹھائے گا۔ فی الحال اور مسائل درمیان آن پڑے ہیں۔
میٹرو کا روٹ ایسا عجیب و غریب ہے کہ اللہ کی پناہ۔ اگر بندے کو نونمبر چونگی سے نئے اڈے جانا ہو یا اس کا الٹ ہو یعنی نئے اڈے سے 
نو نمبر چونگی‘ بوسن روڈ وغیرہ جانا ہو تو کوئی اس روٹ کو استعمال نہیں کرے گا کیونکہ میٹرو کے ذریعے یہ فاصلہ اڑھائی گنا بڑھ گیا ہے۔ خیر یہ اہل ملتان کا مسئلہ ہے اور لاہور میں بیٹھے حکمرانوں کو اس سے کیا غرض؟ میٹرو خادم اعلیٰ کا نفسیاتی مسئلہ ہے اور نفسیاتی مسائل زندگی کے آخری لمحات تک ساتھ چلتے ہیں کہ دانائی کے خمار میں مبتلا بزعم خود عقلمند لوگ ساری زندگی یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ ان کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے۔ خادم اعلیٰ کا بھی یہی معاملہ ہے۔
ملتان کی سڑکیں کھلی ہو جاتیں تو یہاں پرائیویٹ ٹرانسپورٹ چل پڑتی۔ پرائیویٹ سیکٹر کوئی کاروبار اللہ واسطے نہیں کرتا، منافعے کے لیے کرتا ہے، اپنے فائدے کے لیے کرتا ہے۔ اس ذاتی فائدے کے ساتھ لوگوں کے مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں۔ انٹر سٹی ٹرانسپورٹ میں بڑی بہتری آئی ہے۔ مسابقت اور مقابلے کا رجحان پیدا ہوا ہے اور بہتری کی فضا بنی ہے۔ ملتان میں کچہری سے نئے اڈے تک سڑک ٹھیک ہے اور کھلی ہے لہٰذا اس اکلوتے روٹ پر ایک پرائیویٹ کمپنی نے ایئر کنڈیشنڈ بس سروس چلا رکھی ہے۔ اگر دیگر سڑکیں کھلی ہو جائیں تو ان پر بھی پرائیویٹ کمپنیاں بسیں چلا دیں گی۔ میں ڈرتا ہوں اس دن سے جب آنے والی کوئی اور حکومت میاں صاحبان کے عشق کی اس یادگار کے ساتھ وہی سلوک کرے جو میاں شہباز شریف نے چوہدری پرویز الٰہی کے منصوبوں کے ساتھ کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے شروع کئے گئے سارے منصوبے اپنی افادیت اور عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے میٹرو سے کہیں زیادہ بہتر اور دور رس نتائج کے حامل تھے مگر خادم اعلیٰ نے ان کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ میٹرو پروجیکٹ تو سراسر گھاٹے کا سودا ہے اور حکومت اس میں روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔ یہ بھی واپڈا کے سرکلر ڈیٹ والا معاملہ ہے اور ابھی تک کسی کی اس پر نظر نہیں پڑی۔ آنے والی کسی حکومت کو اگر اسحاق ڈار ٹائپ وزیر خزانہ مل گیا تو وہ دوسرے ہی دن یہ پراجیکٹ بند کروا دے گا کہ اس مسلسل گھاٹے کے کاروبار کو چلانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کوئی سمجھدار حکمران ایسے پراجیکٹ نہیں لگاتے تاہم خادم اعلیٰ کی بات دوسری ہے۔
پاکستان بنے اڑسٹھ سال ہو گئے ہیں مگر ملتان کی قسمت اس دوران صرف چوہدری پرویز الٰہی اور یوسف رضا گیلانی کے دور میں کچھ کھلی وگرنہ یہ شہر مسلسل استحصال ‘ ناانصافی اور نظر اندازی کا شکار رہا۔ سید یوسف رضا گیلانی کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اگر وہ یہی کام کمیشن وغیرہ کے چکر سے نکل کر اخلاص سے کرتے اور اپنے پیاروں کو خوش کرنے کے بجائے شہر کا فائدہ سوچتے تو ملتان کی حالت بدل سکتی تھی مگر دو میں سے کسی ایک ہی کی حالت تبدیل ہو سکتی تھی، ملتان کی یا سید یوسف رضا گیلانی کی۔ سو سید یوسف رضا گیلانی کی حالت بدل گئی۔ ملتان اب بھی تقریباً ویسا ہی ہے جیسا کہ پہلے تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں