"KMK" (space) message & send to 7575

خیرات کے طلبگار اور خادم اعلیٰ کا فیصلہ

قارئین! یہ جو میں ہر دوسرے چوتھے دن ملتان کے بارے میں لکھتا ہوں تو یہ میں صرف اپنے ملتان کے بارے میں نہیں لکھتا۔ سب کے ملتان کے بارے میں لکھتا ہوں کہ ہر شخص کا اپنا اپنا ملتان ہے۔ ایک ایسا شہر جہاں اس کا سب کچھ ہے۔ بچپن‘ جوانی‘ یادیں‘ حسرتیں اور تمنائیں۔ کون بدقسمت ہو گا جس کے دل میں ایک ملتان نہ بستا ہو؟ سو اس ملتان کو دل میں‘ دل کے نہاں خانے میں زندہ رکھیے۔ بس یوں سمجھیں کہ کسی یاد میں دھڑکنے والے دل کا درجہ خالی پیلی دھڑکنے والے دل کے مقابلے میں ویسا ہی ہے جیسا گناہ گار اور عارف کا مقام۔ کبھی کبھار کوئی قاری تائو کھا جاتا ہے کہ مجھے صرف ملتان ہی کیوں سوجھتا ہے؟ اس عاجز کی عرضی ہے کہ آپ لوگ اس میں اپنا اپنا ملتان تلاش کر لیا کریں، آپ کسی اور دنیا میں پہنچ جائیں گے۔ میرے والے ملتان کو چھوڑیں‘ میرا ملتان تو ؎
چہار چیزاست‘ تحفہء ملتان
گردو گرما‘ گداو گورستان
والا ملتان ہے۔ آپ سب اپنا اپنا ملتان اس شعر میں دیکھا کریں ؎
ملتان ما بہ جنت اعلیٰ برابر است
آہستہ پا بنہ کہ ملک سجدہ می کنند
اب آپ حالیہ بلدیاتی الیکشن کو اسی تناظر میں دیکھیں۔ حلقہ نمبر‘ شہر اور امیدوار کا نام تبدیل کر دیں۔ باقی سب کچھ وہی ہے۔ ووٹروں کی خریدوفروخت‘ گروپ بندی‘ برادری ازم‘ پیسے کا بے دریغ استعمال‘ زورزبردستی‘ دھاندلی‘ الیکشن والے دن اور خصوصاً رات کے اندھیرے والی‘ انفرادی سطح پر ووٹ خریدنے سے لے کر مجاز افسر کو خریدنے تک‘ بیلٹ پیپر کھسکانے سے لے کر نتیجہ کھسکانے تک‘ امیدواروں کی چالاکیوں سے لے کر الیکشن پر مامور سرکاری افسروں کی معصومیت تک، امیدواروں کی تیزیوں سے لے کر سرکاری افسروں کی غنودگیوں تک‘ سب جگہ ایک سی داستان ہے۔ سو، ملتان کی کہانی کوئی منفرد کہانی نہیں۔ پورا پاکستان ہی ملتان ہے۔ یہ بات صرف الیکشن کی حد تک تو سو فیصد درست ہے البتہ اگر تعمیر و ترقی وغیرہ کا معاملہ ہو تو لاہور کے علاوہ باقی سارے پنجاب کو ''ملتان‘‘ ہی سمجھیں۔
ملتان میں فی الوقت تین چار گروپ ضلع کونسل کی امیدواری کی دوڑ میں ہیں اور وہ اس دوڑ میں ایک دوسرے کو حتی الامکان حد تک غچے دے رہے ہیں ''اڑنگیاں‘‘ اور ''ٹھبیاں‘‘ مار رہے ہیں۔ سمجھدار امیدواروں نے اپنی جیت کے محض ووٹوں پر بھروسہ کرنے کی حماقت نہیں کی تھی اور اپنا دیگر بندوبست بھی کر رکھا تھا، بلکہ صرف بندوبست ہی نہیں بلکہ کئی متبادل بندوبست بھی کر رکھے تھے۔ پلان اے‘ پلان بی‘ پلان سی اور اسی طرح مزید اور کئی متبادل... کچھ سمجھداروں نے اپنے سابقہ تجربات سے سبق حاصل کیا تھا اور کچھ نابغہ قسم کے امیدواروں نے دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کر رکھا تھا۔ سو سب نے اپنا اپنا زور لگایا۔ کہیں کہیں تو ایسا ہوا کہ ایک امیدوار نے اپنا ''کھڑپینچ‘‘ لگایا اور سوچا کہ اپنا کام بن گیا ہے۔ پتہ چلا کہ مخالف نے اس کے کھڑپینچ سے زیادہ تگڑا تگڑم فٹ کر رکھا تھا جو اس کے کھڑپینچ کو ہضم کر گیا اور ڈکار بھی نہیں مارا۔ 
ملتان میں صورتحال یہ ہے کہ سکندر بوسن جو وفاقی وزیر ہیں کا بھانجا ملک حسنین بوسن ضلع کونسل کی چیئرمینی کا امیدوار ہے۔ ملک حسنین بوسن بذات خود اپنے گھر والی سیٹ سے بمشکل جیتا ہے۔ حالانکہ ملک سکندر بوسن کا ڈیرہ ہمیشہ آباد رہتا ہے اور خود سکندر بوسن اپنی وزارت کے باوجود ہر ہفتے بلاناغہ اپنے حلقے میں آتا ہے اور عوام سے رابطے میں رہتا ہے لیکن اس کا امیدوار بڑے تھوڑے مارجن سے جیتا ہے اور اس کی واحد وجہ صرف یہی ہے کہ حلقے کے عوام اور خاص طور پر گھر والی یونین کونسل کو سکندر بوسن تک براہ راست رسائی بھی ہے اور رابطہ بھی وگرنہ حسنین بوسن پہلے مرحلے پر ہی فارغ ہو جاتا۔ دوسری امیدوار پارٹی جلال پور پیروالہ کے دیوان ہیں۔ دیوا ن عاشق بخاری جو خود قومی اسمبلی کا ممبر تھا، ڈگری کے ''رولے‘‘ میں فارغ ہو چکا ہے، کا بیٹا بھی چیئرمینی کا امیدوار ہے اور میدان میں ہے۔ تیسرا امیدوار رانا شوکت نون ہے جو شجاعبادسے ہی ہے اور بلامقابلہ یوسی چیئرمین منتخب ہو چکا ہے۔ رانا شوکت نون سابق ایم این اے ہے اور شجاعبادسے منتخب ہونے والے ایم پی اے رانا اعجاز نون کا والد ہے۔ رانا اعجاز نون کو پتہ تھا کہ اس کے بلا مقابلہ یونین کونسل کے چیئرمین منتخب ہونے والے والد کے مقابلے میں شجاعبادہی کے شاہ صاحبان یعنی جاوید علی شاہ اور مجاہد علی شاہ وغیرہ آئیں گے۔ جاوید علی شاہ ایم این اے کا بھائی واجد علی شاہ نائب ضلع ناظم ملتان رہا ہے، تاہم اس بار سابق چیئرمین ضلع کونسل ملتان مجاہد علی شاہ جو جاوید علی شاہ ایم این اے کا کزن ہے چیئرمین ضلع کونسل ملتان کی دوڑ میں شامل ہے۔ شجاع عبادی بڑے عجیب و غریب سیاسی کلچر کے موجد ہیں۔ وعدہ کسی سے‘ 
حلف کسی اور سے‘ انتخابی مہم کسی تیسرے کی‘ جلسے میں شرکت کسی اور کے‘ اور ووٹ کسی اور کو دے دیتے ہیں۔ رانا اعجاز نون نے مستقبل کا سارا نقشہ بھانپ رکھا تھا اور اسے پتہ تھا کہ شاہ صاحبان نے ضلع کونسل کی چیئرمینی کا ''لُچ‘‘ ہر حال میں تلنا ہے لہٰذا اعجاز نون نے پیش بندی کرتے ہوئے یہ منصوبہ بنایا کہ شاہ صاحبان کی امید کی کشتی یعنی مجاہد علی شاہ کی یونین کونسل کی چیئرمینی کو کنارے لگنے سے پہلے ڈبو دیا جائے۔ رانا اعجاز نون نے اس سلسلے میں یہ کیا کہ مجاہد علی شاہ کو ''ڈکا‘‘ لگانے کے لیے اس نے اس کے مخالف امیدوار میاں حسنین عبداللہ بھٹی کی حمایت میں زور لگا دیا۔ ویسے تو سید جاوید علی شاہ نے ''کورنگ امیدوار‘‘ کے طور پر اپنے بھائی واجد علی شاہ کو بھی میدان میں اتارا ہوا تھا مگر اسے پتہ تھا کہ شاید اوپر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ کسی رکن اسمبلی کے بھائی‘ بیٹے‘ بیٹی وغیرہ کو ضلع کونسل کی چیئرمینی یا میئر شپ کے لیے ٹکٹ نہیں ملے گا لہٰذا سب نے اس کا توڑ کرتے ہوئے اپنے بہنوئی‘ سالے‘ کزن‘ بھانجے اور بھتیجے کھڑے کر دیے۔ سکندر بوسن نے اپنا بھانجا‘ جاوید علی شاہ نے کزن‘ طارق رشید نے اپنے سالے اور رائے منصب نے بیٹے کے ساتھ ساتھ داماد کو بھی ٹکٹ دلوا رکھا تھا۔ خیر بات ہو رہی تھی شجاعبادکی۔ رانا اعجاز نون کی کوششیں کامیاب ہوئیں اور جاوید علی شاہ کا کزن سید مجاہد علی شاہ ساٹھ سے زائد ووٹوں سے ہار گیا۔ صبح اخبارات میں اس ''اپ سیٹ شکست‘‘ کی خبر بھی لگ گئی۔ 
جیتنے والا امیدوار حسنین عبداللہ بھٹی خوشی میں جشن مناتا رہا اور انتخابی سیاست کے ہر دائو پیچ سے آگاہ جاوید علی شاہ اینڈ کمپنی نے (اس بات کا کوئی دستاویزی ثبوت تو نہیں مگر جس طرح اللہ تعالی کو دیکھے بغیر اس کی قدرتوں کے طفیل اس کی ذات کی گواہی ملتی ہے اسی طرح کا یہی سارا معاملہ ہے کہ ہر چیز واضح ہے) تھیلوں کے اندر سارا کام راتوں رات مکمل کر لیا ۔سو سے زائد ووٹوں پر جہاں حسنین عبداللہ بھٹی کے آگے مہر لگی ہوئی تھی ایک مہر اور لگوائی اور تھیلے بند کروا دیے۔ اللہ اللہ خیر سلاّ ...صبح انہوں نے دوبارہ گنتی کی درخواست دے دی۔ اپنی فتح کے یقین میں شاداں و فرحاں عبداللہ بھٹی نے کوئی اعتراض نہ کیا کہ اسے اپنی جیت کا یقین تھا کہ اس کے پاس سارا رزلٹ موجود تھا۔ اگلے روز گنتی ہوئی ۔سو کے لگ بھگ ڈبل مہر والے بیلٹ پیپر جو پہلے حسنین عبداللہ بھٹی کے کھاتے میں گنے گئے تھے کینسل قرار پائے۔ 65 ووٹوں سے جیتنے والا امیدوار چالیس سے زائد ووٹوں سے ہار گیا۔ اگلے روز شاہ صاحبان نے اپنی جیت کا نوٹیفکیشن کروا لیا۔ حسنین عبداللہ بھٹی کے پاس خالی رزلٹ رہ گیا ہے جو کسی کام کا نہیں۔ بہت سے دیگر شہروں میں بھی بہت سے امیدوار اس قسم کا ''بیکار‘‘ اور ناکارہ نتیجہ ہاتھ میں لیے حیران و پریشان پھر رہے ہیں۔
ملک خالد نے پوچھا کہ چیئرمین ضلع کونسل کے لیے کون کون سے امیدوار ہیں۔ میں نے کہا حسنین بوسن‘ رانا شوکت نون اور مجاہد علی شاہ۔ ملک خالد ہنسا اور کہنے لگا، اصل امیدوار تمہارے خادم اعلیٰ ہیں۔ اب میں زور سے ہنسا اور ملک کو کہا۔ تم اپنی تصحیح کر لو‘ خادم اعلیٰ امیدوار نہیں‘ امیدوار تو یہی ہیں جو میں نے بتایا ہے۔ خادم اعلیٰ تو حاکم اعلیٰ ہیں۔ فیصلہ صادر فرمائیں گے۔ خواہ راہ چلتے کو پکڑ کر مخصوص نشست پر منتخب کروائیں اور چیئرمین ضلع کونسل لگا دیں یا شہر کا میئر بنوا دیں۔ جو اس طرح سے آئے گا وہ امیدوار نہیں‘ سکائی لیب ہو گا۔ امیدوار تو یہی ہیں۔ بھلے خیرات ملے یا نہ ملے ،فقیروں کا کام صدا بلند کرنا ہے۔ جو دے اس کا بھی بھلا‘ جو نہ دے اس کا بھی بھلا...کسی نے چوں بھی نہیں کرنی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں