"KMK" (space) message & send to 7575

دُشمن کے بچوں کو پڑھانے سے زیادہ ضروری کام

گزشتہ کئی روز سے لطیفہ نما واقعہ یاد آ رہا ہے‘ یہ بعد میں بتاتا ہوں کہ کیوں؟ پہلے آپ یہ واقعہ یا لطیفہ یا جو کُچھ بھی ہے سن لیں۔ ایک قصبے میں تھیٹر آیا ہوا تھا۔ نئی نسل اور خاص طور پر شہر میں پیدا ہونے والوں کو تو بالکل علم ہی نہیں کہ تھیٹر کیا ہوتا ہے۔ کبھی یہ قصبوں اور دیہات میں تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتا تھا۔ سال میں ایک دو بار تھیٹر والے اپنا سازوسامان لے کر آتے تھے۔ رات کو بلند آواز میں لائوڈ سپیکر پر گانے چلتے تھے‘ ٹکٹ افورڈ کرنے والے ٹکٹ لے کر مزے کرتے تھے جبکہ ٹکٹ کی استطاعت نہ رکھنے والے گھر بیٹھے ''آڈیو‘‘ پرفارمنس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ گرمیوں میں گائوں دیہات کی عورتیں چھت پر بیٹھ کر دور ''تنبو‘‘ کے اندر ہونے والی لائیو پرفارمنس کو بغیر دیکھے ہوا کی لہروں پر سنتی تھیں۔ تھیٹر سے یاد آیا کہ بہت سارے لوک فنکار تھیٹر سے ہی وابستہ ہوتے تھے۔ کیا کیا فنکار تھے۔ کس کس کا نام لیں؟ بالی جٹی‘ طفیل نیازی حتیٰ کہ عنایت حسین بھٹی بھی تھیٹر سے وابستہ تھے۔ اب پوچھیں تو لوگ تماثیل تھیٹر‘ اجوکا تھیٹر اور الحمرا کا نام لیتے ہیں۔ زمانہ تھا کہ تھیٹر بھی سرکس کی طرح سارا سال سفر میں ہوتے تھے اور میلے ٹھیلے کے علاوہ قصبوں دیہاتوں میں ہفتوں قیام پذیر رہتے تھے۔ بات ہو رہی تھی کہ ایک قصبے میں تھیٹر آیا ہوا تھا۔
ایک لوک فنکار گانے کے لیے آیا اور اس نے گانا گانا شروع کیا۔ گانا تھا ''ٹانگے والا خیر منگدا‘‘ گانا ختم ہوا۔ گلوکار اگلا سنانے ہی لگا تھا کہ مجمع سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا‘ یہ گانا دوبارہ سنائو‘ گلوکار نے اسے اپنے لیے تعریف سمجھا اور دوبارہ گانا شروع کر دیا۔ جب گانا ختم ہوا تو وہی شخص پھر کھڑا ہوا اور کہنے لگا یہی پھر سنائو۔ اب گلوکار تنگ آ گیا اور کہنے لگا کہ کوئی اور سن لیں مگر وہ شخص ضد کرنے لگا کہ نہیں یہی گانا تیسری بار سنائو۔ چارو نا چار گلوکار نے تیسری بار گانا سنا کر ختم کیا تو وہی شخص دوبارہ کھڑا ہو کر کہنے لگا چوتھی بار سنائو۔ اب گلوکار کا حوصلہ بالکل ہی جواب دے گیا کہنے لگا میں نے اور بھی بہت سے گانے گائے ہیں آپ مجھے موقع تو دیں ‘میں آپ کو اور گانے بھی سنائوں ۔بار بار فرمائش کرنے والا شخص کہنے لگا تمہارے باقی گانے بھی سن لیں گے پہلے تم یہ والا گانا تو ٹھیک طرح سے سنائو۔
یہ واقعہ بھی مجھے ایک نغمہ سن کر یاد آیا ‘آج کل ایک نغمہ چل رہا ہے ''ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘۔ مجھے اس نکتہ نظر سے بالکل اختلاف نہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ پہلے ہم اپنے بچوں کو تو پوری طرح پڑھا لیں۔ دشمن کے بچوں کو بعد میں پڑھائیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دشمن کے بچوں کو پڑھاتے پڑھاتے یہ بھول جائیں کہ تعلیم سے محروم ہمارے بچے اب ہمارے دشمن کے ساتھ کھڑے ہیں کہ ملک عزیز میں تعلیم کا معاملہ پہلے ہی اتنا زبوں حالی کا شکار ہے کہ ہمیں اپنے بچوں پر توجہ دینا ہو گی۔ اگر ملک عزیز میں صرف پرائمری تعلیم کو‘ جو تعلیمی معاملات کا آغاز ہے ‘ دیکھیں تو ایک بڑی بھیانک صورتحال نظر آتی ہے ۔اقوام متحدہ نے 2000ء کے آغاز میں ''میلینیم ڈویلپمنٹ گول‘‘ طے کرتے ہوئے آٹھ اہداف مقرر کئے جس میں دوسرے ہدف کے مطابق دنیا کو 2015ء تک یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کے سو فیصد حصول کا ٹارگٹ دیا۔ چند افریقی ممالک کے ساتھ پاکستان اس فہرست میں نچلے ترین ممالک میں شامل ہے جہاں 2015ء میں یہ ٹارگٹ حاصل کرنا تو کجا بری طرح سے ناکام ہوا۔ سرکار جو کہتی رہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک میں تعلیم کی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے اور سرکاری سکولوںکا نظام تقریباً ختم ہونے کے قریب آ لگا ہے کہ سرکار اب ازخود اس سارے جھنجھٹ سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ صرف ملتان میں پنجاب حکومت پچپن سکولوںکو پرائیویٹائز کرنے جا رہی ہے‘ یہ صرف ابتدا ہے۔
خیر سے جو سکول اس وقت سرکار کے پاس ہیں ان کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے تعلیمی حساب سے بھی اور دیگر سہولیات کے اعتبار سے بھی‘ کبھی زمانہ تھا کہ سرکاری سکولوں اور کالجوں کے بچے ٹاپ کرتے تھے۔ میٹرک میں بھی اور ایف اے‘ ایف ایس سی میں بھی۔ یہی حال گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کا تھا۔ اب الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ میٹرک سے لے کر یونیورسٹی لیول تک ہر جگہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے طلبہ پوزیشن ہولڈر ہیں۔ پہلے یونیورسٹی اور میڈیکل کالجوں میں اسی نوے فیصد سرکاری کالجوں کے طلبہ و طالبات آتے تھے اب سب کچھ الٹا ہو گیا ہے ‘وجہ صرف یہ ہے کہ اب سرکار کی توجہ دوسری چیزوں کی طرف ہے۔ لیپ ٹاپ دینے سے تعلیمی معیار بہتر نہیں ہوتا۔ سرکاری کالجوں سے ریٹائرڈ پروفیسر حضرات ان پرائیویٹ کالجوں میں سرکاری تنخواہ سے کہیں کم تنخواہ پر زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سرکار سکولوں سے جان چھڑاتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ سکولوں کی بہتری کے لیے انہیں پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ درحقیقت سرکار کی طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم اس نظام کو چلانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ یہ ہمارے بس کی بات نہیں اور ہم اس سے اپنی جان چھڑا رہے ہیں۔
اس سارے کام کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تعلیم جو کبھی سستی تھی مہنگی ہو رہی ہے۔ غربت روز بروز بڑھ رہی ہے اور تعلیم کا حصول مہنگا ہو رہا ہے۔ اس نسبتِ معکوس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ''آئوٹ آف سکول‘‘ بچوں کی تعداد تمام تر زبانی کلامی جمع خرچ کے باوجود بڑھ رہی ہے۔ اس وقت ایک محتاط اندارے کے مطابق پاکستان میں سکول جانے کی عمر کے 56 لاکھ سے زائد بچے سکول نہیں جا رہے۔ ان میں سے اٹھارہ لاکھ سندھ ‘ پانچ لاکھ چالیس ہزار بلوچستان ‘اور چار لاکھ بچوں کا تعلق خیبر پخونخوا سے ہے۔ ایسے سب سے زیادہ بچوں کی تعداد کا تعلق خادم اعلیٰ کے زیر انتظام چلنے والے صوبے پنجاب سے ہے‘ جہاںایسے بچوں کی تعداد انتیس لاکھ ہے ‘یعنی کل آئوٹ آف سکول بچوں کی تعداد کے نصف سے زائد۔ چودھری پرویز الٰہی کے زمانے میں پڑھے لکھے پنجاب کا نعرہ لگایا گیا ۔پڑھے لکھے پنجاب کی اشتہاری مہم میں جتنا پیسہ خرچ ہوا اس سے کہیں زیادہ رقم پنجاب کے تعلیمی اداروں پر خرچ ہوئی ۔نتیجہ وہی نکلا جو ایسی اشتہاری مہمات کا نکلتا ہے۔ سرکار کے خزانے سے کروڑوں بلکہ اس سے بھی زیادہ پیسہ اشتہاروں ‘ بینروں‘ میڈیا مہم اور تصویری خبرناموں پر لگ گیا اور پنجاب ویسے کا ویسا ہی رہ گیا جیسا اس مہم سے پہلے تھا۔ یہی حال موجودہ حکمرانوں کا ہے۔ اشتہاری سروس کو مدنظر رکھیں تو لگتا ہے کہ پنجاب میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ تعلیمی اہداف کا سو فیصد حاصل کر لیا گیا ہے۔ تعلیمی معیار عالمی سطح کا ہو گیا ہے اور سکول جانے والے بچوں کی تعداد شرح فیصد کے حساب سے سب سے بہتر ہے۔ حالانکہ صورتحال یہ ہے کہ پرائمری تک سکول جانے والے بچوں کے سکول جانے کی شرح فیصد پاکستان میں سب سے بہتر صوبہ خیبر پختونخوا میں ہے یعنی 83 فیصد ‘ دوسرے نمبر پر دارالحکومت اسلام آباد ہے جہاں یہ شرح اکہتر فیصد ہے اور پنجاب میں ستر فیصد کے لگ بھگ ‘ یعنی تیسرے نمبر پر۔
چوہدری بھکن کا خیال ہے کہ دشمن کے بچوں کو پڑھانے کے نظریے سے ہمارے حکمران وہی مراد لے رہے ہیں جو چک 53 کے میراثی نے لی تھی۔ بخشو میراثی بس پر چڑھا تو وہاں لکھا تھا ''سر اور بازو باہر مت نکالیں‘‘بخشو نے یہ پڑھا تو بس کی کھڑی کا شیشہ کھولا اور اپنا سب کچھ کھڑکی سے باہر نکال دیا جبکہ سر اور بازو بس کے اندر ہی رکھے۔ ہمارے حکمران بھی اس سے یہی مراد لے رہے ہیں کہ دشمن کے بچوں کو تو پڑھا نا ہے اپنے بچوں کو نہیں۔ پھر رازداری سے کہنے لگا ہمارا یہ تصور بھی پہلے ہی سے چوری ہو چکا ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ کہنے لگا ہمارے دشمن نے اسی نظریے کے تحت کہ ''ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘۔ ہمارے بچوں کو پڑھانا اور برین واشنگ کرنا شروع کر دی تھی۔ آج سیالکوٹ میں داعش کے بندے پکڑے جا رہے ہیں، کراچی میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گرفتار ہوتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں طالبان اور لشکر جھنگوی کے ہمدرد نوجوان سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ یہ سب وہ بچے ہیں جنہیں ہمارے دشمن نے پڑھایا ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو ٹھیک طرح سے پڑھا رہے ہوتے تو ہمارے دشمن ہمارے بچوں کو نہ پڑھا سکتے۔ ہم نے اپنے بچوں کو پڑھانے کے بجائے انہیں دشمن کے تعلیمی رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ سکول اور مدرسے کو بالکل دو علیحدہ قطبین بنا کر رکھ دیا۔ تعلیم میں توازن اور اعتدال ختم کر کے رکھ دیا۔ یہ جو آئوٹ آف سکول بچے ہیں، یہی بچے ہمارے وہ بچے ہیں جنہیں اگر ہم نے نہ پڑھایا تو ہمارا دشمن پڑھائے گا۔ ہمیں ان بچوں کو خود پڑھانا ہے نہ کہ دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہے۔
ان بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھانا ہو گا کہ پرائیویٹ سکول تعلیم دینے کیلئے نہیں تعلیم بیچنے کے لیے کھولے جاتے ہیں۔ سرکار کی توجہ میٹرو پر ہے، موٹروے پر ہے، آئی ایم ایف سے قرض لینے پر ہے، غیر ترقیاتی کاموں پر ہے۔ 2014-15ء میں پنجاب کا تعلیمی بجٹ تین سو سولہ ارب روپے تھا جبکہ 2015-16ء میں یہ بجٹ بڑھنے کے بجائے کم ہو کر تین سو دو ارب روپے ہو گیا ۔ ملتان میں میٹرو پراجیکٹ کا تخمینہ اکتیس ارب کے لگ بھگ ہے جو انشاء اللہ بڑھ کر ڈبل ہو جائے گا جبکہ تعلیمی بجٹ آدھا رہ جائے گا کہ تعلیمی معاملات میں بجٹ اور حقیقی خرچے میں میٹرو کے برعکس نسبت ہے۔ تعلیمی اداروں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ یہ تفصیل پھر سہی فی الحال تو یہی درخواست ہے کہ براہ کرم اپنے بچوں کو پڑھانے پر توجہ دیں ‘ورنہ یہی بچے کل کے دشمن ہوں گے۔ نظر انداز ہونے والے بچے کچھ بھی بن سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں