"KMK" (space) message & send to 7575

لاہور کے PULL اور ملتان کا پُل

کل ایک دوست نے ایک فوٹو مسیج بھیجا ہے۔ اس تصویری لطیفے نے پوری کہانی بیان کر دی ہے۔فوٹو میں ایک دروازے پر انگریزی کا لفظ PULL لکھا ہوا ہے۔ نیچے ایک کیپشن ہے :میاں صاحب سے محبت کرنے والا متوالا پہلی بار لاہور آیا‘ایک پلازے میں داخل ہوا تو دروازے پر PULL لکھا دیکھ کر نہال ہو گیا اور جذباتی ہو کر کہنے لگا: ''واہ میاں صاحب واہ‘ تہاڈیاں ریساں نیئں‘ کتھے کتھے پل بنوا چھڈے ‘‘ (واہ میاں صاحب واہ‘ آپ جیسا کوئی نہیں ہو سکتا‘ کہاں کہاں پل بنوا دیئے ہیں۔) بظاہر یہ لطیفہ لگتا ہے مگر لاہور کی حد تک یہ حقیقت ہی سمجھیں۔
یہ عاجز حسد کی منزل سے آگے گزر چکا ہے لیکن رشک کے جذبے سے عاری نہیں ہوا۔ لاہور جاتا ہوں تو لاہوریوں کی خوش قسمتی پر رشک کرتا ہوں۔ جب بھی لاہور جانا ہوتا ہے کسی نئے پل‘ کسی نئے انڈر پاس‘ کسی نئے ڈیزائن کے چوک اور کسی نئے منصوبے کی اکھاڑ پچھاڑ سے پالا پڑتا ہے۔ ایک دن لاہور پہنچا اور لبرٹی چوک کے گول دائرے سے گھومنا چاہا توپتا چلا کہ رائونڈ ابائوٹ کی شکل ہی بدل چکی ہے۔ گول دائرے میں گھومنا ممکن نہیں رہا۔ ایک عدد یوٹرن مین بلیوارڈ کی طرف اور ایک عدد کلمہ چوک والی سائیڈ پر دے کر اب ٹریفک کو مزید بہتر انداز میں رواں رکھنے کا بندوبست کیا جا چکا ہے۔
تھوڑا عرصہ ہوا ایک شادی کے سلسلے میں لاہور جانا ہوا اور ہمدم دیرینہ غلام قادر کے ساتھ فیصل ٹائون کے ڈیرے سے جی او آر کلب جانے کے لیے شادمان والا راستہ اختیار کیا تو معلوم ہوا کہ غلط راستے پر آ گئے ہیں‘ شادمان سے جیل روڈ والے چوک پر انڈر پاس بن رہا ہے کہ اس چوک پر لاہوریوں کو اشارے پر دیر تک رکنا پڑتا تھا‘ان کے پائوں کلچ پر رکھے رکھے تھک جاتے تھے۔ لاہوریوں کی اس عظیم تکلیف کا ازالہ کرنیکی غرض سے اس چوک پر انڈر پاس بنانے کا منصوبہ شروع کیا گیا۔ میں غلط وقت پر ادھر سے گزرنے کی کوشش میں پھنس گیا اور تقریباً ایک گھنٹہ تک ادھر ادھر گھوم گھما کر بدقت تمام جیل روڈ پر چڑھا اور مزنگ چونگی چوک سے شارع فاطمہ جناح سے ہوتا ہوا چائنا چوک اور وہاں سے شارع صنعت و تجارت سے اندر جا کر کلب پہنچ سکا۔ اس سارے سفر میں ڈیڑھ گھنٹہ لگا۔ اب لاہور گیا تو یہ انڈر پاس مکمل ہو چکا تھا۔ لاہوری زوں زوں کر کے اس انڈر پاس کے ذریعے گزر رہے تھے۔
چند ماہ پہلے کی بات ہے‘ جیل روڈ کی طرف سے ائرپورٹ جانے کی کوشش کی تو گلبرگ والے مین بلیوارڈ اور جیل روڈ کے مقام اتصال پر پھنس گیا۔ یہاں ایک عدد فلائی اوور اور ایک عدد انڈر پاس بیک وقت بن رہا ہے۔ اس تعمیر کے بعد جیل روڈ ''سگنل فری کوریڈور‘‘ بن جائے گا۔ قریب سات کلومیٹر طویل اس کوریڈور پر دو ارب روپے کے لگ بھگ خرچہ آئے گا اور لاہور والوں کو رن وے پر کار چلانے کی سہولت میسر آ جائیگی۔
یہ وہ مقامات ہیں جو اس عاجز نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ خدا جانے اور کہاں کہاں کیا کچھ ہو رہا ہے‘ اس کا علم نہیں کہ لاہور میں اب بہت زیادہ گھومنے پھرنے کا نہ وقت ہے اور نہ کوئی حال ہے کہ لاہور پھیل ہی اتنا گیا ہے۔ پرانے شہر کی طرف جانا ہی نہیں ہوتا۔ جب سے تایا نواز کا انتقال ہوا ہے اور میرے کزن شادباغ سے اٹھ کر ٹائون شپ اور ای ایم ای کالونی وغیرہ میں آ گئے ہیں ‘دو موریے اور ایک موریے پُل کی طرف جانا ختم ہو گیا ہے۔ یہی حال کاچھوپورے اور وسن پورے کا ہے کہ سب لوگ آہستہ آہستہ جدید کالونیوں کی طرف رُخ کر گئے۔ عقیل اللہ کو پیارا ہو گیا‘ اس کے بچے امریکہ چلے گئے ‘اب ادھر جانا ہی نہیں ہوتا۔ بھائی جان جاوید عزیز جب سے انجینئرنگ یونیورسٹی سے ریٹائر ہو کر ڈیفنس گئے ہیں ‘گڑھی شاہو کا پل دیکھے عرصہ ہو گیا ہے۔ مرزا صادق صاحب کی فیملی کشمیری دروازے سے نسبت روڈ چلی گئی تو ادھر جانا بھی ختم ہو گیا۔ خلیفہ کی ختائیاں لینے کے لیے آغا نثار کے ساتھ موچی دروازے سے اندر جانا باقی رہ گیا ہے...حویلی نثار سے چوہٹہ مفتی باقر تک جانا‘ نسبت روڈ پر امرتسری کا ہریسہ اور چیمبرلین روڈ کے ساتھ والی سڑک پر فوڈ سٹریٹ سے تھوڑا آگے بٹ کا تندور جہاں سے خستہ باقرخانیوں سے سردیوں میں ناشتے کا کام چلتا ہے۔ بس اب پرانے لاہور سے اتنا ہی تعلق ہے۔ عرصہ ہوا صادق کی حلوہ پوری کھائے‘ دنیا کی شاید سب سے اعلیٰ حلوہ پوری! ایک زمانہ تھا اتوار کے اتوار تایا نواز کے گھر صبح ناشتے پرحلوہ پوری‘ قتلمے اور مال پوڑے صادق کی دوکان سے آتے تھے‘ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے عین سامنے‘ پھر یہ دوکان آگے چلی گئی۔ سال دو سال بعد بھی جانا ہوتا تو اکلوتا بیرا غلام رسول پہچان جاتا۔ آخری بار چار پانچ سال پہلے گیا تو غلام رسول پر بڑھاپا آ چکا تھا۔ ہر بار سوچتا ہوں کہ اس بار صبح جائوں گا مگر فیصل ٹائون سے صبح اٹھ کر آنے کا ارادہ خاک میں مل جاتا ہے اور باقی ملال بچتا ہے۔ خدا جانے اب کی بار غلام رسول پہچانے گا بھی کہ نہیں؟
پرانے لاہور کا تو پتا نہیں مگر باقی سارا لاہور اب ویسا نہیں رہا۔ سارے کا سارا ری کنڈیشنڈ ہو گیا ہے‘جاپانی کار کی طرح۔ ہر طرف پل ہیں اور فلائی اوور ہیں‘ کلمہ چوک پر تین منزلیں ہیں۔ لبرٹی سے آتے ہوئے انڈرپاس ہے اور قذافی سٹیڈیم کی طرف سے فلائی اوور‘ باقی ہر طرف سے زمین پر سڑکیں بھی ہیں یعنی ایک ہی چوک پر گرائونڈ لیول بھی ہے‘ انڈرپاس بھی ہے اور فلائی اوور بھی۔ ادھر ملتان میں یہ حال ہے کہ گزشتہ چار پانچ سال سے یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ چھ نمبر چونگی چوک پر فلائی اوور بنے گا یا نہیں بنے گا؟ اگر بنے گا تو کیسا ہو گا؟ سنگل لین فلائی اوور ہو گا جو بلال مسجد سے شروع ہو کر بوسن روڈ پر ایمرسن کالج کی طرف جائے گا؟ اب صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے کہ متوقع فلائی اوور کی جگہ ایلی ویٹڈ میٹرو نے لے لی ہے۔ اب دو رویہ فلائی اوور کی تو جگہ ہی نہیں بچی۔ عوامی آسانی کو خادم اعلیٰ کی خواہش ہڑپ کر گئی ہے۔ اب صرف ایک طرف جگہ بچی ہے ‘خدا جانے یہاں پل بنتا ہے یا منصوبے کا مقبرہ کہ PULL صرف لاہور میں بنتے ہیں۔
کچھ روز ہوئے ہیں ‘میں چھ نمبر چونگی کے فلائی اوور کے سلسلے میں ملتان کے ایک بڑے انتظامی افسر کو ملا اور اس کا مستقبل پوچھا‘ کم از کم ان صاحب کے پاس تو اس کا کوئی شافی جواب نہ تھا۔ گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے میں اس فلائی اوور کا مستقبل جاننے کی کوشش کر رہا ہوں مگر کچھ پتا نہیں چل رہا‘بالکل ویسے ہی جیسے پاک چائنا راہداری روٹ کا پتا نہیں چل رہا۔ مجھے گمان ہے کہ معاملات کو پردہ غیب میں رکھنے کی پریکٹس ملتان میں چھ نمبر چونگی والے فلائی اوور پر کی گئی تھی اور اب اس کی آزمودہ قسم کی آزمائش پاک چائنا راہداری پر کی جا رہی ہے کہ کسی کو پتا نہیں کہ کیا ہونے جا رہا ہے؟
گزشتہ ڈیڑھ دو سال میں اس عاجز نے بڑی کوشش کی کہ کچھ پتا چل سکے کہ کیا ہونے والا ہے؟ کیا منصوبہ ہے؟ مگر حرام ہے جو کسی نے کچھ بتایا ہو‘ اور کوئی بتاتا بھی کیسے؟ کسی کو کچھ پتا ہی نہیں‘ اور پتا اس لیے نہیں کہ فنڈز لاہور والوں نے دینے ہیں اور ان فنڈز کا ہی کسی کو کوئی پتا نہیں۔ این ایچ اے نے جتنے پیسوں کا بتایا ہے اس میں سنگل لین فلائی اوور بھی بن جائے تو بڑی بات ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میٹرو کے ایلی ویٹڈ روٹ کے ساتھ جس طرف فلائی اوور کی جگہ چھوڑی گئی ہے ادھر بننے والا فلائی اوور تقریباً بیکار ہے کہ وہ کوئی بھی ایسی مشکل کا حل نہیں ہے جو وہاں پر درپیش ہے اور اس کے بننے کے باوجود تقریباً اسی فیصد مشکلات جوں کی توں رہیں گی۔ یہ بھی میرا حسن ظن ہے وگرنہ ممکن ہے کہ اس کے بننے سے مشکلات دوچند ہو جائیں۔
جس طرف فلائی اوور کے بننے سے مشکلات کے حل ہونے کا امکان تھا اس طرف خیر سے جگہ ہی نہیں چھوڑی گئی۔ میٹرو منصوبے کے مدار المہام سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ یہ فلائی اوور بعد میں بھی بن سکتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور آپ کو خادم اعلیٰ کا مجھ سے کہیں بہتر اندازہ ہو گا‘وہ اس میٹرو کی تکمیل کی راہ میں حائل ہر مشکل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے میں ایک لمحہ بھی نہ لگاتے۔ اگر آپ اس پل کی منظوری کو میٹرو روٹ سے مشروط کر دیتے تو یہ فلائی اوور اب تک تکمیل کے قریب ہوتا کہ خادم اعلیٰ کو میٹرو روٹ کے درمیان کوئی رکاوٹ منظور نہیں تھی ‘مگر یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ وہ میٹرو بننے کے بعد اس فلائی اوور کے لیے اہل ملتان کو پیسہ چھوڑ پیسے کا پسینہ عطا کریں۔ آپ ان سے جو کچھ لے سکتے تھے میٹرو کی تکمیل سے پہلے لے سکتے تھے کہ اس کی تکمیل کے بعد وہ کہیں اور میٹرو بنانے چل پڑیں گے۔ ابھی گوجرانوالہ‘ فیصل آباد‘ سیالکوٹ وغیرہ میٹرو سے خالی پڑے ہوئے ہیں ‘وہ اپنا میٹرو سے عشق فرمانے کے لیے کوئی اور شہر تاک لیں گے۔
میری مسلسل تگ و دو سے تنگ آ کر میٹرو منصوبے کا چیف انجینئر کہنے لگا ‘ہمارے پاس ایسا منصوبہ ہے کہ ہم فلائی اوور بنائے بغیر زمین پر ہی ٹریفک کے سارے مسائل حل کر لیں گے۔ میں بھی خاصا تنگ آ چکا تھا‘ میں نے کہا خان صاحب! آپ کے پاس اگر کوئی ایسا محیرالعقول منصوبہ ہے کہ جو فلائی اوورز یا انڈر پاسز کے بجائے ٹریفک کے سارے مسائل زمین پر ہی حل کر سکتا ہے تو آپ اس نادر منصوبے کا پہلا تجربہ لاہور کریں جہاں تین تین منزلہ سڑکوں سے یہ مسائل حل کئے جا رہے ہیں۔ چیف انجینئر صاحب حسب توقع خاموش ہو گئے‘لیکن ان کی خاموشی بتا رہی تھی کہ وہ یہ فارمولا ملتان والوں پر ہی آزمائیں گے کہ خادم اعلی ملتان پر صرف میٹرو کی صورت میں خرچ کر سکتے ہیں اور کسی کام پر نہیں۔اور لاہور میں اس منصوبے کی آزمائش کرنے کی کسی میں جرأت ہی نہیں‘ایسی آزمائش کے لیے اہل ملتان جو موجود ہیں‘ بالکل ویسے ہی جیسے نئی دوائی کی آزمائش چوہوں پر کی جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں