"KMK" (space) message & send to 7575

روہی ‘قلعہ دراوڑ‘ جیپ ریلی اور بدانتظامی…(2)

خرابی کی ابتدا قلعہ دراوڑ پہنچنے سے قبل ہی ہو گئی۔ قلعہ سے ایک ڈیڑھ کلومیٹر پہلے ایک پل ہے‘ اس پل پر ٹریفک پھنسی ہوئی تھی اور اس پھنسی ہوئی ٹریفک کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ جوں کی رفتار سے رینگتے ہوئے ہم قلعہ کی جانب رواں تھے۔ یہ ڈیڑھ کلومیٹر کا راستہ تقریباً پون گھنٹے میں طے ہوا۔ جہاں سے قصبہ شروع ہوا ایک نئی مصیبت سامنے آ گئی‘ اس ریلی کے لیے لگنے والی دکانیں‘ پھٹے‘ ریڑھیاں وغیرہ لگانے والے اپنا سامان اسی طرح پھیلائے بیٹھے تھے جس طرح انارکلی لاہور میں یا حسین آگاہی ملتان میں پھیلایا ہوتا ہے۔ پہلے سے تنگ سڑک مزید تنگ ہو گئی تھی۔ اوپر سے ستم یہ کہ اول تو کوئی ٹریفک پولیس والا موجود نہیں تھا‘ اگر تھا بھی تو موبائل فون پر ازحد مصروف تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ شتر بے مہار ٹریفک جگہ جگہ پھنسی ہوئی تھی۔ ہمارا کیمپ قلعہ سے تقریباً چھ کلومیٹر ہٹ کر صحرا کے اندر تھا کہ گزشتہ سالوں میں یہ تجربہ ہوا کہ قلعہ کے جتنا قریب ہونگے مسائل زیادہ ہونگے اور آسانیاں کم ہونگی۔ شور شرابا‘ صفائی کا ناقص انتظام اور بے تحاشا رش جبکہ سہولتوں کا یہ عالم کہ نہ پانی میسر ہے اور نہ ٹوائلٹ۔ سو ہر سال قلعہ سے دور جاتے جاتے اس سال چھ کلومیٹر دور پہنچ گئے تھے۔ یہاں نسبتاً سکون تھا۔ سوائے آدھ کلومیٹر پر لگے ہوئے ایک کیمپ کے جہاں ساری رات لائوڈسپیکر پر گانے لگے رہتے تھے۔ خان کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ گانے لگے ہوئے ہیں‘ اصل مسئلہ یہ ہے کہ گانے نہایت فضول اور واہیات ہیں۔ ہوا موافق چلتی تو تھی تو گانوں کا شور آتا تھا‘ اگر ہوا مخالف ہوتی تو سکون تھا۔ کمانڈر نے ریکی کی اور آکر اطلاع دی کہ صرف گانے ہی نہیں چل رہے ‘باقاعدہ مجرا بھی ہو رہا ہے۔ حافظ صاحب نے یہ خبر سنتے ہی اعلان کیا کہ صفیں بچھائی جائیں عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا ہے۔
ٹی ڈی سی پی نے اس ریلی کا انتظام و انصرام 2005ء میں سنبھالا اور تین سال تک اس کے چیئرمین یا ایم ڈی‘ عرفان علی نے اے ڈی سی جی بہاولپور ڈاکٹر راحیل صدیقی کے ساتھ مل کر بڑے احسن طریقے سے چلایا۔ اس کے بعد ان کا ٹرانسفر ہو گیا اور ریلی کے معاملات میں انحطاط شروع ہو گیا۔2011ء میں ریلی بعض وجوہ کی بنا پر منعقد نہ ہو سکی؛ تاہم 2012ء سے پھر باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس حساب سے 2016ء والی حالیہ ریلی ٹی ڈی سی پی کی جانب سے منعقد ہونے والی گیارہویں اور مجموعی طور پر تیرہویں ریلی تھی۔ اس بار اس میں نو مختلف کیٹیگریز تھیں۔ چار کیٹیگریز سٹاک میں اور چار پری پیئرڈ میں اور ایک خواتین کے لیے جو اوپن تھی۔ ان کیٹیگریز کی تفصیل کچھ اس طرح تھی۔ پری پیئرڈ اور سٹاک میں چار چار کیٹیگریز اے‘ بی‘ سی اور ڈی تھیں۔ ڈی کیٹیگری میں ریس لگانے والی گاڑیوں کے انجن کی طاقت کی حد پٹرول گاڑیوں کے لیے 1600CC اور ڈیزل کے لیے 1800CC تھی۔ سی کیٹیگری کی گاڑیوں کے انجن کی طاقت ڈی کیٹیگری کی حد ختم ہونے سے شروع ہو کر پٹرول کے لیے 2700CC اور ڈیزل کے لیے 2900CC تھی۔ بی کیٹیگری کے لیے یہ حد پٹرول گاڑیوں کے لیے 3400CC اور ڈیزل گاڑیاں 3500CC سے اوپر طاقت کی تھیں۔ گزشتہ دس ریلیوں میں اے کیٹیگری میں سب سے زیادہ بار یعنی پانچ بار نادر مگسی اول آیا تھا۔ بقیہ پانچ بار بھی اس کے ساتھ یہ ہوا کہ دوران ریس اس کی گاڑی خراب ہو گئی۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ شائقین میں نادر مگسی کی مقبولیت اسی طرح ہے جس طرح کرکٹ میں شاہد آفریدی کی۔ اس بار بھی نادر مگسی کی گاڑی خراب ہو گئی۔ ریس ختم ہونے سے چند کلومیٹر پہلے اگر اس کی گاڑی خراب نہ ہوتی تو جس رفتار سے اس نے اپنا طے شدہ راستہ طے کیا تھا بقیہ فاصلہ طے کر لیتا تو پھر اول پوزیشن حاصل کر لیتا۔
لوگوں میں اس دوڑ کی ہر سال بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اسی طرح بڑھتی ہوئی شائقین کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامات اور سہولیات میں بہتری آنی چاہیے تھی مگر ہوا اس کے بالکل برعکس اور ہر سال مسائل اور مشکلات بڑھتے بڑھتے اس سال یہ نوبت آ گئی کہ ایک مرحلے پر لگتا تھا کہ شاید یہ ریس ہو ہی نہ پائے۔ ہزاروں لوگ تو جو ذلیل و خوار ہو رہے تھے علیحدہ باب ہے‘ ریس میں حصہ لینے والے بھی اس سارے ہنگامے سے تنگ و پریشان تھے۔ گزشتہ سالوں میں ٹریک کے انتظامات رینجرز کے سپرد تھے اور پولیس دیگر معاملات از قسم ٹریفک وغیرہ کو دیکھتی تھی۔ 
فوج کا ہیلی کاپٹر فضا سے نگرانی کرتا تھا اور کسی حادثے یا ٹریک پر کسی سیریس مسئلے کی صورت میں فوری اطلاع دے کر ایمرجنسی مدد کا بندوبست کرتا تھا۔ اس بار فوج اور رینجرز کم از کم فیلڈ یا ٹریک پر تو قطعاً نظر نہ آئی۔ سکیورٹی کا نظام ایک پرائیویٹ سکیورٹی کے ذمے تھا۔ پرائیویٹ سکیورٹی والوں کو کچھ علم نہیں تھا کہ مجمع سے کیسے نمٹنا ہے‘ ہجوم سے کس طرح پیش آنا ہے اور لوگوں کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ دوسری طرف عوام بھی الاّ ماشاء اللہ ہے۔ وہ بھی ان بے چارے کرائے کے سپاہیوں کی رتی برابر نہیں سن رہی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سکیورٹی کا ہونا نہ ہونا برابر ہو کر رہ گیا تھا اور ہر دو فریقین بے چارگی کی تصویر بنے پھرتے تھے۔
ٹریک کا برا حال تھا۔ پرائیویٹ گاڑیوں نے اس کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا تھا۔ ہر سال ٹریک بدلا جاتا تھا اور نیا روٹ جو کم و بیش پرانے روٹ کے ساتھ ساتھ ہی ہوتا تھا بنایا جاتا تھا۔ ٹریکٹر کا بلیڈ پھیر کر ٹھیک اور صاف کیا جاتا تھا۔ جھنڈیاں لگائی جاتی تھیں۔ اس بار وہی گزشتہ سال والا ٹریک تھا اور برباد شدہ تھا۔ بہت سے ایسے شوقین جو ریس میں حصہ تو نہیں لیتے مگر اپنی فور ویل گاڑیاں لے کر یہاں آتے ہیں‘ دن رات اس ٹریک پر اپنی گاڑیاں بھگا کر اپنا شوق پورا کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ریس والے دن تک ٹریک کا بھرتہ بن چکا تھا۔
خرابی کا نقطہ آغاز کوالی فائنگ رائونڈ کو دیکھنے میں آیا جب صرف ڈیڑھ دو کلومیٹر پر مشتمل اس ٹریک پر بار بار آنے والی عام لوگوں کی گاڑیوں نے ریس میں بھاگنے والی گاڑیوں کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ کئی ریس ڈرائیوروں نے ان رکاوٹوں کے باعث دو دو بار 
کوالی فائنگ رائونڈ میں گاڑی بھگائی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ جونہی ریس والی گاڑی سٹارٹنگ پوائنٹ سے روانہ ہو کر فنشنگ پوائنٹ کی طرف روانہ ہوئی اچانک سائڈ سے کوئی پرائیویٹ گاڑی نکلی اور اس نے ریس والی گاڑی سے اپنے تئیں دوڑ لگانی شروع کر دی۔ ہر تین منٹ بعد روانہ ہونے والی ریس کی گاڑی کے گزرتے ہی اگلے تین منٹ کے لیے یہ ٹریک موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی گزر گاہ بن جاتا تھا اور دور سے آتی ہوئی ریس کی گاڑی دیکھ کر کناروں پر کھڑے شائقین ہاتھ ہلا کر اور شور مچا کر ان موٹر سائیکل سواروں اور کار ڈرائیوروں کو ٹریک سے بمشکل نکالتے تھے۔ سرکاری سطح پر ایسا کوئی بندوبست نہ تھا۔ اس سے نہ صرف ریس میں مشکل پیش آ رہی تھی بلکہ جانی نقصان کا بھی شدید اندیشہ تھا کہ ڈیڑھ سو کلومیٹر کی رفتار سے بھاگتی ہوئی گاڑی کو ریتلے اور اونچے نیچے راستے پر بریک لگائیں تو گاڑی الٹنے کا پورا پورا خطرہ ہوتا ہے اور اگر بریک نہ لگائیں تو سامنے والا مرتا ہے۔ کوالی فائنگ رائونڈ والا ڈیڑھ دو کلومیٹر کا ٹریک بدانتظامی‘ نااہلی اور کسمپرسی کا ایسا منظر پیش کر رہا تھا کہ اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
یہ کوالی فائنگ رائونڈ کیا ہے؟ اس چھوٹی ریس سے اصل ریس کے لیے روانہ ہونے والے ڈرائیوروں کی روانگی کی ترتیب بنائی جاتی ہے۔ ریس سے دو دن پہلے تمام شرکت کرنے والے ڈرائیوروں کو قرعہ اندازی کے ذریعے روانگی کا نمبر الاٹ ہوتا ہے۔ ریس سے ایک روز قبل تمام ڈرائیور اس قرعہ اندازی کے ذریعے ملنے والے نمبر کی ترتیب سے کوالی فائنگ رائونڈ میں گاڑی بھگاتے ہیں اور اس ڈیڑھ دو کلومیٹر کی دوڑ میں حاصل ہونے والے ٹائم کے مطابق ان کی ترتیب بنائی جاتی ہے۔ سب سے کم وقت میں کوالی فائنگ ریس مکمل کرنے والے ڈرائیور کو اگلے روز اصل ریس میں پہلا نمبر ملتا ہے اور اسی طرح دوسرا تیسرا چوتھا اور آخری۔ اس سال کوالی فائنگ رائونڈ میں نادر مگسی اول آیا اور اگلے روز اس ریس میں گاڑی بھگانے کا پہلا نمبر تھا۔
ریس شروع ہونے کا وقت آٹھ بجے تھا اور ہم پونے آٹھ بجے ٹریک پر آ گئے مگر وہاں ایک عجیب بدنظمی اور بدانتظامی تھی۔ جہاں سے دوڑ شروع ہوتی ہے وہاں ہزاروں کا مجمع تھا اور ٹریک پر تھا‘ ریس شروع ہونا اس صورت میں ممکن ہی نہ تھی۔ ریس کے ڈرائیوروں نے اس صورتحال میں ریس شروع کرنے سے انکار کر دیا کہ اگر کوئی حادثہ ہو گیا تو نہ صرف یہ کہ یہ ریس ختم ہو جائے گی بلکہ اس ریس کا آئندہ منعقد ہونے کا امکان بھی معدوم ہو جائے گا۔ بعدازاں آرمی کنٹرول روم میں ایک میٹنگ ہوئی اور یہ طے پایا کہ اصل ریس سی پی ون سے شروع ہو گی۔ دو سو کلومیٹر سے زیادہ لمبے اس ٹریک پر ''مڈ بریک پوائنٹ‘‘ کے سمیت تیرہ سی پی یعنی ''چیک پوائنٹ‘‘ تھے جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی ڈرائیور صحرا میں شارٹ کٹ مار کر آگے نہ نکل جائے اور اصل ٹریک پر ہی رہے۔ ہزاروں کا مجمع کسی سے کنٹرول نہیں ہو رہا تھا اور ہوتا بھی کیسے؟ دھول بھرے میدان میں ہر شخص کی خواہش تھی کہ وہ ریس میں حصہ لینے والی گاڑیوں کو ریس شروع کرتا دیکھے۔ ہر پیچھے کھڑا شخص آگے والے کو دھکے دے کر خود آگے آنا چاہتا تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ سب لوگ ٹریک کے درمیان آ گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ سٹارٹنگ پوائنٹ سے بظاہر شروع ہونے والی ریس جعلی تھی اور ساری گاڑیاں جو یہاں سے روانہ ہوئیں دوبارہ سی پی ون پر لائن اپ ہوتی تھیں اور وہاں سے اصل ریس کا آغاز کرتی تھیں۔ اگر سٹارٹنگ اور فنشنگ پوائنٹ پر ایک آدھ کلومیٹر تک ٹریک کے دونوں طرف سیڑھیاں بنا دی جائیں اور ٹریک پر ٹف ٹائلز لگا کر دھول مٹی کا بندوبست کر دیا جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے مگر ٹی ڈی سی پی کے کارپردازان کا مسئلہ ریس نہیں مال کمانا ہے جو پرائیویٹ سکیورٹی سے لے کر بینروں تک اور آتشبازی سے لے کر پی ٹی ڈی سی کے لگائے گئے ٹینٹوں تک میں بنایا گیا۔ خراب ہونے والی گاڑیوں کو لوگ اپنے ذاتی بندوبست پر کھینچ کر واپس لائے۔ ٹی ڈی سی کے خیموں میں رہنے والے تکیوں اور پانی کے لیے خوار ہوتے رہے۔ انتظامیہ نے ہر گاڑی سے پچیس ہزار روپے رجسٹریشن کے لیے اور انڈس موٹرز اور مائونٹین ڈپو سے کروڑوں روپے سپانسرشپ میں حاصل کئے۔ ان سارے پیسوں کا استعمال کم از کم اس عاجز کو کسی عام آدمی کی سہولت کے لیے خرچ ہوتا نظر نہیں آیا۔ اگر کسی کو نظر آیا ہو تو وہ اس عاجز کی معلومات میں اضافے کی غرض سے بتا کر شکریہ کا موقع عطا کرے۔ لکھنے کو ابھی بہت کچھ ہے مگر کسی کو تو شرم آنی چاہیے‘ لکھنے والے کو‘ یا انتظامیہ کو‘ سو یہ اعزاز میں حاصل کر لیتا ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں