"KMK" (space) message & send to 7575

وسیب کے تاریخی اور ثقافتی ورثے کی بربادی(آخری قسط)

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قلعہ کہنہ قاسم باغ میں پرانے دمدمے کی سیڑھیوں سے پہلے بائیں ہاتھ پر ایک تہہ خانہ نمانگار خانہ تھا۔ تب اس میں داخلہ مفت ہوتا تھا۔ سیڑھیاں اتر کے نیچے جاتے تو چار میں سے تین دیواروں کے ساتھ شوکیس رکھے ہوتے تھے جن میں اونٹ کی ہڈی کے زیورات، تسبیحیں، ازار بند ڈالنے والی منقش سلائی، چھوٹے چھوٹے ہاتھی گھوڑے اور دیگر کئی آرائشی اور نمائشی چیزیں ہوتی تھیں۔ بلیوپاٹری جو بلا مبالغہ دنیا کی چند حسین ترین آرٹ کی اصناف میں سے ایک ہے کے ظروف‘اونٹ کی کھال کے ٹیبل لیمپ اور گلدان وغیرہ سجے ہوتے تھے۔ ایک دیوار کے ساتھ پتھر کی پرانی بڑی بڑی سلیں تھیں جن پر عربی، فارسی اور دیگر زبانوں میں کچھ لکھا ہوتا تھا۔ عرصہ بعد دوبارہ ایک بار نگار خانہ جانا ہوا تو وہ قدیم سلیں غائب تھیں۔ وزنی پتھر کی ان سلوں کا جو غالباً مختلف اقسام کے کتبے تھے بلا مبالغہ منوں وزن تھا۔ ان کتبوں کو کوئی جیب میں ڈال کر تو نہیں لے جا سکتا تھا مگر سب غائب تھے۔ خدا جانے کہاں گئے۔ کس نے بیچ کھائے اور کس کے پاس چلے گئے ‘کچھ معلوم نہیں۔
چیزوں کے غائب ہونے کا کیا کہیں؟ ملتان کے دو تین لینڈ مارک ہیں۔ حضرت شاہ رکن الدین ؒکا مقبرہ، باب قاسم اور ملتان کا گھنٹہ گھر۔ یہ گھنٹہ گھر 12فروری 1884ء کو ملتان کے محاصرے کے دوران تباہ ہو جانے والی احمد خان سدوزئی کی حویلی کے کھنڈرات کی جگہ پر تعمیر ہوا۔ یہ گھنٹہ گھر چار سال کی مدت میں مکمل ہوا۔ اس میں ایک ہال تھا اور عمارت اور اس کے سامنے ایک کلاک ٹاور۔ بلڈنگ اور ہال کا نام رپن ہال رکھا گیا اور کلاک ٹاور کو نارتھ بروک ٹاور کا نام دیا گیا۔ یہ دونوں نام ہندوستان کے سابقہ وائسرائے کے ناموں پر رکھے گئے تھے۔ نارتھ بروک ٹاور پر تین ڈائل والا کلاک لگایا گیا۔ یہ اس خطے کا قدیم ترین کلاک تھا۔ منوں وزنی لوہے اور پیتل کی گراریوں والا یہ کلاک ستانوے سال تک چلتا رہا۔ اس دوران کبھی کبھار بند بھی ہوا مگر مرمت کے بعد چلنا شروع ہو جاتا۔ تا ہم 1985ء میں یہ بالکل بند ہو گیا اور اس کی دیکھ بھال بھی بند ہو گئی۔ کئی سال بند رہنے کے بعد 2012ء میں ایک روز دیکھا کہ اچانک یہ کلاک چل پڑا ہے۔ غور کیا تو اِس کلاک کا بالکل نیا ڈائل لگا ہوا تھا اور اس پر ایک جدید گھڑی ساز کمپنی کا مونوگرام تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک قدیمی کلاک کے بیرونی ڈائل بدل کر اس کی ساری تاریخی اہمیت کو ملیا میٹ کر دیا جائے۔ پتا کیا تو معلوم ہوا کہ صرف ڈائل ہی نہیں ڈائل کے پیچھے لگی ہوئی مشینری جواب کے حساب سے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر مشتمل تھی اور لمبی چوڑی گراریوں کے گورکھ دھندے کے بجائے الیکٹرانک مشین اور سیلوں سے چلنے والی چھوٹی سی مشینری تھی۔ پتا کیا کہ پرانی مشینری جو باقاعدہ ایک نادر تاریخی چیز تھی کہاں گئی؟یہ سن کر بڑی حیرانی ہوئی کہ منوں وزنی یہ مشینری تو 2000ء اور 2012 ء کے درمیان کسی وقت غائب ہو چکی ہے۔ کہاں گئی ؟کسی کو پتہ نہیں۔ ذمہ دار کون ہے؟ یہ بھی ابھی تک طے نہیں ہو سکا۔ میں نے اس قدیمی ورثے کی چوری پر دو عدد کالم بھی لکھے مگر سب کچھ صدا بصحرا ثابت ہوا۔ اوپر سے خط آیا کہ گھنٹہ گھر کا گھڑیال کہاں گیا؟جواب دیا گیا کہ نشئی وغیرہ اس کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔ نشئی خود کو مشکل سے اٹھا پاتا ہے کہ دس بارہ من وزنی گھڑیال ساٹھ ستر فٹ کی بلندی سے اتار کر لے جاتا اور کسی کی نظر نہ پڑتی۔ صرف لوہے اور کباڑ کے بھاؤ بیچ کر چند ہزار روپے میں ایک ایسا نادر تاریخی گھڑیال اڑن چھو ہو گیا جو اب حاصل کرنا چاہیں تو لاکھوں میں نہ ملے۔ اس سے نو سال کم عمر کا کلاک برطانیہ کے شہر کارڈف کی ہائی سٹریٹ میں ایک شیشے کے شوکیس میں لگا ہوا ہے۔ 1897ء کا بنا ہوا یہ کلاک ابھی تک چل رہا ہے۔ اس کی مرمت پر 2008ء میں پچیس ہزار برطانوی پاؤنڈ یعنی تقریباً چالیس لاکھ لگے تھے کہ یہ شہر کا ورثہ تھا اور یہ ساری رقم سٹی کونسل نے لگائی تھی۔ ایک طرف کارڈف کی سٹی کونسل کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے شہر کے تاریخی ورثے کی حفاظت پر ایک خطیر رقم صرف کرتی ہے ‘دوسری طرف یہ عالم ہے کہ ملتان کا گھنٹہ گھر جو ایک عرصہ تک میونسپل کارپوریشن کا دفتر رہا ہے اور ملتان کا میئر یہاں بیٹھتا رہا ہے اس کے سرکاری افسران نے ملی بھگت سے شہر کا قدیمی ثقافتی اور تاریخی ورثہ چند ہزار روپے کی خاطر بیچ کر برابر کر دیا۔
کوٹلہ ٹولے خاں کی ساوی مسجد ملتان کی قدیم ترین مسجد ہے جو 1325ء میں تعمیر ہوئی۔ نیلی ٹائلوں سے مزین یہ مسجد گو کہ چھوٹی سی ہے مگر ان تمام خوبصورتیوں کو سموئے ہوئے ہیں جو ملتان کے فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہیں۔ محرابیں، طاق اور طاقچے، مخروطی کھڑکیاں، گول برجیاں اور ملتان کی پہچان نیلی ٹائلیں۔ یہ مسجد جو شہر کے وسط میں موجود ہے مگر اب تقریباً کھنڈر بن چکی ہے۔ چھت گر چکی ہے اور باقی دیواریں منتظر ہیں۔ یہی حال مائی مہربان کے مقبرے کا ہے ۔شہر کے مرکزی فوارہ چوک کے ساتھ ہی واقع صدیوں پرانا یہ مقبرہ بد ترین عدم توجہی کے طفیل نہ صرف یہ کہ تباہ و برباد ہو چکا ہے بلکہ اس کی بہت ساری زمین قبضہ مافیا نے ہتھیا لی ہے۔ مقبرے کا قدیم باغ ختم ہو چکا ہے اور دیواریں خستہ حالی کا شاہکار ہیں۔ قریب ہزار سال پرانا یہ مقبرہ زبوں حالی کاشکار ہے۔ افغان طرزِ تعمیر کا یہ نادر نمونہ جو کئی کنال پر مشتمل تھا اب چند مرلوں تک آن بچا ہے۔ اس کی مرمت میں تاخیر نہ صرف یہ کہ اس کے باقی ماندہ حقیقی حسن کو بھی برباد کر دے گی بلکہ زیادہ مشکل یہ پیش آئے گی کہ اس مقبرے کی پرانی تصاویر کسی ریکارڈ میں نہیں جس کو سامنے رکھ کر اس کی مرمت بمطابق اصل کی جا سکے۔
میں پہلے بھی اپنے کالموں میں ملتان اورگردونواح کی باقی ماندہ تاریخی عمارتوں کے بارے میں لکھ چکا مگر لاہور میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں اور متعلقہ محکموں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔ ملتان کی تحصیل شجا عباد شہر کی فصیل ختم ہو رہی ہے۔ لوگ اینٹیں اکھاڑ کر لے گئے ہیں اور جو بچی ہے وہ زیادہ دیر بچتی نظر نہیں آرہی۔ ملتان کے قریب قصبہ تلمبہ بھی بڑی تاریخ کا حامل ہے۔ یہاں فصیل کی باقیات موجود ہیں۔ ایک آدھ برج بھی بچا ہوا ہے مگر ہر بار اس فصیل کی باقیات سکڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔ چھوٹی اینٹ کی یہ فصیل اب بھی کسی حد تک بچائی جا سکتی ہے۔ منگروٹھا میں جو تونسہ کے قریب سنگھڑ کے کنارے چھوٹا سا گاؤں ہے ‘آج سے قریب چھتیس برس قبل اپنے دوست سہیل خان نتکانی کو ملنے گیا تو گاؤں کے ساتھ ہی ایک چھوٹے سے قلعہ نما عمارت کے آثار موجود تھے۔ سیلابوں نے یہ سب کچھ ختم کر دیا۔ یہی حال مظفر گڑھ کے دفتر خزانہ یعنی TREASURYکی چہار پہلو عمارات کا ہوا۔ چھوٹی سی چورس عمارت کے چاروں کونوں پر گول برجیاں تھیں اور سامنے کی سمت دروازہ۔ چھوٹی اینٹ کی اس عمارت کو ضرورت کے مطابق اس طرح تبدیل کیا گیا کہ اس کا سارا حسن اور تاریخی اہمیت بالکل ختم ہو گئی۔ لاہور سیکرٹریٹ کو اس کے پرانے نقشے پر دوبارہ تعمیر و مرمت کی غرض سے کروڑوں روپے خرچ کئے گئے تا کہ عمارت کا حقیقی حسن دوبارہ نظر آ سکے ۔ادھر یہ عالم ہے کہ چند لاکھ روپے میں کئی عمارتیں اپنی اصلی صورت میں لائی جا سکتی ہیں مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟
مظفر گڑھ کے قریب قصبہ محمود کوٹ کا قلعہ تو لاپروائی کی ایک عظیم داستان ہے۔ محمود خان کا کچا قلعہ قصبہ کی بغل میں واقع ہے اور گزشتہ کئی عشروں سے لوگ اس کی مٹی اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ اس قلعے کی مٹی نہیں علاقے کی تاریخ کھود کر لے جا رہے ہیں۔ چند سال بعد کسی کو معلوم بھی نہیں ہو گا کہ محمود خان گجر کے دو جرنیل داد خان پتافی اور باغ خان پتافی اس جگہ سکھوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے اور یہاں کوئی قلعہ بھی ہوتا تھا۔ اچھا بھلا قلعہ موجود تھا‘ پھر قبضہ گروپ نے اس جگہ پر اپنا دعویٰ کر دیا اور مٹی بیچنی شروع کر دی۔ بلندو بالا کچے قلعے کے آثار اگر اب بھی موجود ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی لوگ اس کی مٹی پوری طرح اٹھا کرلے جانے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ اتنی مٹی دنوں میں اٹھانی ممکن نہیں تھی۔ اگر ممکن ہوتا تو اب اس جگہ چٹیل میدان ہوتا۔
ملتان کے قریب کبیروالہ میں موضع سلار واہن میں ایک چھوٹا سا 
گاؤں کھتی چور ہے۔ اس گاؤں کی اہمیت یہ ہے کہ یہاں برصغیر پاک و ہند کی شاید قدیم مسجد موجود ہے۔ اس مسجد کے ساتھ ایک غیر معمولی ڈیزائن کا مقبرہ ہے۔ یہ مقبرہ محمود غزنوی کی سپاہ کے ساتھ اس علاقے میں آنے والے مبلغ خالد ولید کا ہے۔ موٹی اینٹوں سے بنا ہوا یہ مقبرہ چوکور ہے اور ڈھلوان دار موٹی دیواروں پر مشتمل ہے ۔ایک طرف سے اوپر سیڑھیاں جاتی ہیں اور بلند سطح پر مقبرے کا گنبد ہے۔ گنبد کے چاروں طرف ایک گلی سی موجود ہے۔ مقبرے کے اندر جانے کیلئے مشرقی سمت میں نیچا دروازہ ہے اور مغربی سمت ایک محراب ہے۔ اس محراب میں خط کوفی میں لکھی گئی ایک ایسی محراب تھی جو اینٹوں کو پکا کر بنائی گئی تھی۔ اس مقبرے سے ملحقہ مسجد تو بہت ہی قدیم ہے تا ہم یہ مقبرہ غوری عہد کے ملتان کے گورنر علی بن کرماخ نے 1175 ء سے 1185 ء کے درمیانی عرصہ میں بنایا۔ اس مقبرہ کی مغربی سمت میں نصب پختہ اینٹوں والی قرآنی آیات پر مشتمل محراب ایک نایاب تاریخی خزانہ تھا۔ 1989ء میں یہ محراب چوری کر لی گئی۔ پوری کی پوری محراب کوئی اتار کر لے گیا۔ اس مقبرے کے طرزِ تعمیر پر ایک جرمن خاتون کام کر رہی تھی۔ وہ آئی تو دیکھا کہ محراب غائب ہے۔ اس نے مقامی انتظامیہ کے پاس آکر دھائی دی مگر بے سود۔ پولیس سے رابطہ کیا مگر لا حاصل۔ ڈپٹی کمشنر کو فریاد گزاری مگر بے نتیجہ رہی۔ پریس میں شور مچایا تب کچھ ہلچل ہوئی مگر پھر معاملہ ٹھپ ہو گیا۔ خدا کا کرنا کہ ایک روز لاہور ایئر پورٹ پر لکڑی کے چالیس کریٹ پکڑے گئے۔ محراب ان میں موجود تھی۔ ٹکڑوں کی صورت میں۔ علیحدہ علیحدہ اینٹوں کی شکل میں۔ آج اکتیس سال ہوتے ہیں‘محراب کہاں ہے؟کم از کم مجھے پوری کوشش کے باوجود پتا نہیں چل سکا کہ یہ نایاب و نادر محراب کہاں گئی؟ مقبرہ آج بھی محراب کی خالی جگہ کے ساتھ موجود ہے اور خستہ حالی کا شکار ہے۔ ایک بار مرمت کیلئے فنڈ جاری ہوئے اور مرمت سے زیادہ جیبوں میں چلے گئے۔
یہ صرف چند مثالیں تھیں۔ ایسی سیکڑوں کہانیاں ہیں اور سیکڑوں عمارتیں مگر کیا لکھیں؟یہاں زندہ انسانوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کے بعد عمارتوں پر لکھنے کو بھی جی نہیں کرتا ‘مگر کیا کروں؟ رہ بھی نہیں سکتا کہ اپنے اردگرد اپنے وسیب کے بکھرے ہوئے ثقافتی اور تاریخی ورثے کی بربادی پر خاموش بھی تو نہیں رہا جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں