"KMK" (space) message & send to 7575

سبّی میلہ اور صدر پاکستان کا چوتھا کام

بلوچستان کے حالات اب کافی بہتر ہیں۔ ابھی مکمل ٹھیک ہونے کے بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس کام میں ابھی کافی مشکلات درپیش ہیں اور ان کو دور کرنے میں وقت تو خیر لگے گا ہی۔ جس لگن‘ یکسوئی‘ انتھک محنت اور سب سے بڑھ کر درست لائحہ عمل کی ضرورت ہے اس پر نئے آنے والے پورا اترتے ہیں یا نہیں؟ اس بارے میں ابھی پورے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ڈاکٹر عبدالمالک اور ناصر جنجوعہ کے جانشین اس عمل کو اسی طرح جاری رکھ پائیں گے جیسا کہ ان کے پیشرو وزیر اعلیٰ بلوچستان اور کور کمانڈر ناردرن کمانڈ نے شروع کیا تھا۔
دو سال پہلے میں سبّی میلے میں ہونے والے مشاعرے کے لیے سبّی گیا تو حالات کا اندازہ کوئٹہ ایئر پورٹ سے نکلتے ہی ہو گیا تھا۔ میری کوئٹہ ایئر پورٹ سے سیدھی سبی روانگی تھی۔ مجھے ایئر پورٹ پر عظیم انجم نے خوش آمدید کہا۔ چھوٹی چھوٹی داڑھی والا یہ نوجوان جو دیکھنے میں کسی مدرسے کا فارغ التحصیل لگتا تھا اسسٹنٹ کمشنر تھا اور مجھے سبّی پہنچانے کا ذمہ دار بھی۔ عظیم انجم ہانبھی اپنے سارے حلیے اور ظاہری شکل و صورت کے برعکس بڑا خوش مزاج اور زندہ دل نوجوان تھا اور اسے شاعری سے نہ صرف دلچسپی تھی بلکہ خود بھی شعر کہتا تھا۔ اسے دوسرے مہمانوں کو بھی دیکھنا تھا اور کوئٹہ میں دیگر کئی امور سرانجام دے کر سبّی آنا تھا۔ اب اسے میری بحفاظت سبّی پہنچانے کے بارے میں فکر تھی‘ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بذریعہ سڑک وہ کس طریقے سے سبّی بھیجے کہ راستے میں سکیورٹی کے مسائل سے بھی نمٹا جا سکے۔ پہلے اس نے کہا کہ آپ کی گاڑی کے ساتھ موبائل لگا دیتے ہیں۔ پھر خود ہی اپنا خیال رد کر دیا کہ موبائل کی موجودگی بذاتِ خود ''آ بیل مجھے مار‘‘والی صورتحال پیدا کر دیتی ہے۔ اب طے پایا کہ میں ایک بڑی گاڑی پر سبّی جائوں گا اور گاڑی کے اندر ہی بندوق بردار محافظ بٹھائے جائیں گے۔ پھر یہ کہ یہ محافظ وردی والے ہوں یا بغیر وردی؟ وردی والوں کے بارے میں بھی پہلی وجہ کے پیش نظر یہ طے پایا کہ سفید کپڑوں والے سکیورٹی اہلکار گاڑی میں ساتھ بٹھائے جائیں۔ عظیم انجم ساتھ ساتھ بندوبست کر رہا تھا اور میرے ساتھ گپ شپ بھی لگا رہا تھا۔ اس سارے معاملے کے دوران وہ بار بار مجھے بھی دیکھ رہا تھا کہ میں اس بندوبست سے پریشان تو نہیں ہو رہا ؟
مجھے نارمل دیکھ کر عظیم انجم بھی پرسکون ہو گیا اور مجھے کہنے لگا دراصل راستے میں کچھ علاقہ ایسا ہے جو سکیورٹی کے حوالے سے زیادہ محفوظ نہیں اور مسلح علیحدگی پسندوں کی طرف سے اس درمیانی علاقے میں اغوا اور اسی قسم کی دیگر وارداتیں ہو رہی ہیں اس لیے حفظ ماتقدم کے طور پر کچھ حفاظتی اقدامات کر رہا ہوں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو جائے۔ پھر مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا میں اس سے پریشان تو نہیں؟ میں نے کہا اگر پریشان ہوتا تو آتا ہی کیوں؟ مجھے کافی دوستوں اور عزیزوں نے سمجھانے اور باز رکھنے کی کوشش کی تھی مگر آپ لوگ جو ہمت کر رہے ہیں اور ان حالات میں بھی اس قدیمی میلے کی روایت جاری رکھنے کی جو سعی کر رہے ہیں ‘میں اس میں اپنا حصہ ڈالنے آیا ہوں‘ بندوق والوں کو پیغام دینے آیا ہوں کہ ہم ان سے نہ تو خوفزدہ ہیں اور نہ ہی ہمارے حوصلے پست ہیں۔ میں آپ لوگوں کو آپ کی ہمت کی داد دینے آیا ہوں۔ مجھے بہت لوگوں نے آنے سے روکا تھا ‘ ڈرایا تھا‘ حالات کی منظر کشی کر کے مجھے اس حماقت سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ اگر ڈرنا یا گھبرانا ہوتا تو یہاں کوئٹہ ہی نہ آتا۔ اب آگے کس بات کا ڈرنا اور خوفزدہ ہونا؟ عظیم انجم ایک دم پرسکون ہو گیا۔ جب ایئر پورٹ سے سبّی روانہ ہونے لگا تو عظیم انجم نے بتایا کہ اصل فکر کی بات یہ ہے کہ درمیان میں 'دشت‘‘ کا علاقہ ہی زیادہ غیر محفوظ ہے اور وہیں موبائل کے سگنل نہیں آتے۔ اس لیے بڑی پریشانی رہتی ہے کہ اس علاقے میں کسی قسم کا رابطہ نہیں رہتا۔ اُس نے مجھے ہاتھ ہلا کر رخصت کیا۔ میں نے دعائے سفر پڑھی اور سبّی کے لیے روانہ ہو گیا۔
ابھی کوئٹہ شہر کی جانب چالیس پچاس کلو میٹر ہی سفر طے کیا تھا کہ ڈرائیور نے ایک بری خبر سنائی کہ گاڑی کا اگلا ٹائر پنکچر ہو گیا ہے۔ یہ دشت کا عین وسط تھا۔ سڑک کے دائیں طرف مستونگ کا ضلع تھا اور ان دنوں اسی علاقے میں ہی سب وارداتیں ہو رہی تھیں۔ ابھی پہلی بری خبر کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ ڈرائیور نے دوسری بری خبر سنائی کہ گاڑی میں جیک نہیں ہے اور اس کی غیر موجودگی میں ٹائر تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اب ہم دشت کے عین درمیان پنکچرگاڑی کے ساتھ ''دعوت واردات کا اشتہار‘‘ بنے کھڑے تھے۔ میں پینٹ شرٹ میں تھا اور محافظوں کا اصرار تھا کہ میں اس حلیے میں باہر نہ نکلوں۔ میں نے کہا اگر کچھ ہونا ہے تو وہ اندر بیٹھے بھی ہو جائے گا ‘کم از کم بندہ چوہے کی طرح تو نہ پکڑا جائے۔ میں باہر نکل کر سڑک کے کنارے کھڑا ہو گیا۔ موبائل پر حسب توقع سگنل نہیں آ رہے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹہ گزر گیا۔ اس گھنٹے کے دوران ٹرکوں کا ایک کانوائے گزرا‘ چار چھ بڑی گاڑیاں گزریں جن میں محافظ اندرساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ انہیں رکنے کا اشارہ کیا مگر سفیدپوش کلاشنکوف برداروں کے روکنے پر انہوں نے اپنی گاڑیاں مزید تیزی سے بھگا کر نکال لیں ۔ خدا خدا کر کے ایک نیلا پک اپ ڈالا جس میں سواریاں لدی ہوئی تھیں نظر آیا۔ بندوق برداروں نے اسے رکنے کا اشارہ کیا تو اس نے پک اپ کچے میں اتار کر بھاگنے کی کوشش کی۔ اب ایک محافظ نے رائفل کندھے سے اتار کر ہاتھ میں پکڑ کر سیدھی کی تو پک اپ والے نے ڈر کر بریک لگا لی۔ گاڑی کے سارے مسافروں کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ ہمارے ڈرائیور نے کہا کہ ہمیں جیک چاہیے۔ سہمے ہوئے پک اپ ڈرائیور نے پچھلی سیٹ کے نیچے سے جیک نکال کر سڑک کنارے رکھا اور کہنے لگا‘ آپ یہ جیک کول پور میں فلاں دکان والے کو دے دینا۔ نہ دیں تو آپ کا ایمان۔ مجھے جانے دیں۔ یہ کہہ کر اس نے شوٹ لگالی۔
اس سارے کام میں تقریباً دو گھنٹے لگ گئے۔ فون بند تھا اور کسی سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ سفر کے حساب سے ہمیں اب تک سبّی پہنچ جانا چاہیے تھا۔ عظیم انجم نے سبّی فون کر کے پوچھا کہ میں پہنچ گیا ہوں؟ آگے سے انکار میں جواب ملا۔ جب میں وقت مقررہ سے ایک گھنٹہ لیٹ ہوا تب منتظمین کو پریشانی شروع ہوئی۔ مچھ میں بھی سگنل نہ آئے۔ جب رابطہ ہوا تب میں سبّی کے پاس پہنچ چکا تھا۔ میرے فون کے بعد سب کی جان میں جان آئی۔ سبی میں مشاعرہ جرگہ ہال میں تھا اور کافی بڑا ہال سارا تو نہیں بھر سکا تھا مگر کافی سامعین تھے اور زیادہ مزے کی بات تھی کہ سامعین بڑے صاحب ذوق تھے۔ دوران مشاعرہ ایک دھماکہ ہوا۔ پتہ چلا کہ پہاڑوں سے کسی نے راکٹ فائر کیا تھا جو مشاعرہ گاہ سے ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر گرا تھا۔ واپسی بریگیڈیئر سلیم گلگتی اور نوید حیدر ہاشمی کے ساتھ اس طرح ہوئی کہ آگے پیچھے حفاظتی موبائل تھیں۔
اس بار میں کوئٹہ سے اکیلے ڈرائیور کے ساتھ گاڑی میں روانہ ہوا تو نہ ہی عظیم انجم کو کوئی پریشانی لاحق تھی اور نہ ہی سرور جاوید کو کوئی فکر تھی۔ راستے میں رک کر میں نے دو تین جگہوں پر تصویریں اتاریں۔ ڈرائیور نے کہیں پہ نہ کہا کہ صاحب یہاں خطرہ ہے۔ دشت کے علاقے میں کافی سارے نئے پٹرول پمپ لگ چکے تھے۔ سڑک پر ٹریفک کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ معاملات میں بہت زیادہ بہتری تھی اور صاف نظر آ رہی تھی۔ اس بار عظیم انجم سبّی میں میرا منتظر تھا۔ وہ وہاں ایڈیشنل کمشنر تھا۔ وہیں سبّی کے کمشنر غلام علی بلوچ سے ملاقات ہوئی ۔ اس بار اس مشاعرے کی خاص بات یہ تھی کہ اردو مشاعرے سے فوراً پہلے بلوچستان کی علاقائی زبانوں میں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا اور اس کا سارا سہرہ کمشنر سبّی کے سر جاتا تھا۔ بلوچی ‘ پشتو اور براہوی مشاعروں کی ایک کہکشاں تھی جس کا منتظم پناہ بلوچ تھا ۔ اردو مشاعرے کامنتظم اور نقیبِ مشاعرہ عظیم انجم تھا جس نے اپنی شاعری سے اس مشاعرے کا آغاز کیا۔ سبّی میلے میں مشاعرہ اب ایک مضبوط روایت بنتا جا رہا ہے۔ جشن سبّی یہاں کی صدیوں پرانی روایت ہے اور اس کی تاریخ چاکر اعظم رند سے جاکر ملتی ہے۔ میر چاکر خان رند جسے بلوچ احتراماً ''چاکر اعظم‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور دیو مالائی کردارکے طور پر جانا جاتا ہے۔ میر چاکر کا تذکرہ قدیم بلوچ داستان''ہانی شاہ مراد‘‘ میں بھی ملتا ہے۔ میر چاکر 1468ء میں پیدا ہوا اور ستانوے سال کی عمر میں 1565ء میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ میر چاکر اعظم رند کا مقبرہ اوکاڑہ کے قریبی قصبے ''ست گھرا‘‘ میں خاصی خستہ حالت میں اب بھی موجود ہے۔ سبّی شہر کے ایک کنارے پر میر چاکر کے کچے قلعے کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ جشن سبّی یا سبّی میلہ تقریباً ساڑھے چار سو سال پرانی روایت ہے۔ درمیان میں یہ ختم ہو گیا تاہم انگریزوں نے 1886ء میں یہ میلہ دوبارہ شروع کر دیا جو چند ایک استثنیٰ کے ساتھ مسلسل منعقد ہو رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ اس کا افتتاح صدر پاکستان جیسی شخصیت کرتی تھی۔ چاروں صوبوں کے گورنر‘ وزرائے اعلیٰ‘ بلوچستان کے سارے وزیر اور دیگر بڑے افسران اور شخصیات اس میں شرکت کرتی تھیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ روایتی اور تاریخی میلہ کسمپرسی کا شکار ہے اور چند لوگ اپنی کاوشوں سے اس کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور محض بلوچستان تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ بھاگ ناڑی نسل کے بیل‘ نیزہ بازی‘ میلہ مویشیاں‘ لوک موسیقی‘ روایتی کھانوں کے سٹال اور ثقافتی ورثے کی نمائش ...اسلام آباد دلچسپی لے کر اسے دوبارہ ماضی کی رنگینی واپس کر سکتا ہے۔ مجھے ایک پوسٹ آئی کہ ''سال میں اس شخصیت پر ہمارے ٹیکسوں سے پچیس کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں(نیچے صدر پاکستان کی فوٹو لگی ہوئی تھی) اور اتنے خرچے کے بعد یہ شخص صرف چار کام کرتا ہے... چودہ اگست کی پریڈ میں دو گھنٹے کھڑا رہتا ہے‘ ایوان صدر میں سال میں ایک بار تمغے تقسیم کرتا ہے‘ مختلف مواقع پر تشویش کا اظہار کرتا ہے اور چوتھا کام مجھے اس وقت یاد نہیں‘‘۔ میرا خیال ہے کہ صدر پاکستان کو کم از کم چوتھا کام ضرور کرنا چاہیے اور وہ یہ کہ سبّی میلے میں شرکت کرنا چاہیے تاکہ اس کی گم گشتہ عظمت میں سے تھوڑی بہت شان و شوکت واپس آ سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں