"KMK" (space) message & send to 7575

ایک اور لاحاصل معاملہ

ملک خالد تقریباً ہر روز صبح ساڑھے آٹھ اور نو بجے کے لگ بھگ مجھے فون کرتا ہے۔ اگر ملک سے باہر ہو اور پاکستان کے وقت کا فرق غیر مناسب ہو تو اور بات ہے وگرنہ وہ لندن سے بھی عموماً پاکستان کے وقت کے مطابق صبح سویرے ہی فون کرتا ہے۔ فون کے دورانیے کا کچھ طے نہیں۔ آدھ منٹ سے آدھ گھنٹہ‘ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ عموماً صبح کا اخبار زیر بحث ہوتا ہے۔ پرسوں صبح فون آیا تو چھوٹتے ہی کہنے لگا‘ یہ پانامہ لیکس والا کیا معاملہ ہے؟ تب تک میں اخبار پڑھ چکا تھا مگر اس روز کے اخبار میں کچھ تفصیل نہیں تھی کہ معاملہ دراصل ہے کتنا بڑا۔ ملک خالد اس دوران نہ صرف مختلف انٹرنیشنل ٹی وی چینلز دیکھ چکا تھا بلکہ نیٹ پر گارڈین‘ فنانشل ٹائمز اور دیگر اخبارات پر نظر مار چکا تھا۔ کہنے لگا‘یہ رولا بہت بڑھے گا اور آگے تک جائے گا۔ میں ہنسا اور کہا‘یہاں ووٹر بے حس ہیں‘ سیاستدان بے حیا اور حکمران ڈھیٹ ہیں۔ پوچھنے لگا یہاں سے تمہاری مراد کیا ہے؟ میں نے کہا ''پورا برصغیر بالعموم اور پاکستان بالخصوص! یہ ایک اور لاحاصل قسم کا معاملہ ہے جس کا کچھ نہیں بنے گا۔
وہ کہنے لگا بھارت میں تو رولا شروع ہو چکا ہے۔ میں نے کہا چائے والے کا نام کیونکہ اس سلسلے میں نہیں ہے‘ لہٰذا وہ شور مچا سکتا ہے ‘اگر اس کا نام بھی ہوتا تو وہ بھی ڈھیٹ بن جاتا۔ ہمارے ہاں ایسے معاملات میں نام آنے سے بعض لوگوں کی تو عزت میں اضافہ ہوتا ہے کہ ان کا نام دولت مندوں کی فہرست میں آ گیا ہے۔ ہمارے ہاں عزت وہ چیز ہے جو خاصی مہنگی ہے اور عام آدمی اسے خرید ہی نہیں سکتا۔ امیر کبیر ‘رئیس زادے‘ جاگیردار‘ سیاستدان‘ افسر اور سرمایہ دار اسے نسبتاً آسانی سے اور بہ افراط خرید سکتے ہیں اور فی الوقت خرید بھی رہے ہیں۔ عزت اب کوئی ایسی چیز نہیں رہی کہ محنت کر کے کمائی جائے۔ کبھی زمانہ تھا کہ یہ کمائی جاتی تھی ‘اب خریدی جاتی ہے۔ پیسے جیب میں ہوں اور دل تھوڑا سا سخی ہو تو یہ راستہ اور بھی آسان اور مختصر ہو جاتا ہے ‘وگرنہ تھوڑا طویل ہو جاتا ہے مگر عزت بہرحال حاصل ضرور ہو جاتی ہے۔ مارکیٹ کی چیز ہے اور پیسے سے دستیاب ہے!
آج صبح پھر ملک خالد کا فون آیا تو پوچھنے لگا کہ یہاں کیا بن رہا ہے؟ آئس لینڈ کا وزیراعظم تو مستعفی ہو گیا ہے۔ یہ پانامہ 
لیکس کی پہلی Casuality ہے۔ ابھی اور بھی کئی مستعفی ہوں گے۔ پیپلز پارٹی نے وزیراعظم نوازشریف کے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے؟میں نے کہا ‘اس معاملے میں میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ چوہدری بھکن کو ہی بالآخر مستعفی ہونا پڑے گا۔ یہاں کبھی کوئی پٹواری مستعفی نہیں ہوا ‘وزیراعظم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا بندہ مستعفی ہونے کے لیے اتنے پاپڑ بیلتا ہے؟ اٹھارہویں ترمیم میں تیسری دفعہ وزارت عظمیٰ کے عوض پنجاب کے عوام کو گیس سے محروم کر کے موج میلا کرنے والے مستعفی ہونگے؟ یہاں رانا مشہود اپنی ویڈیو کے چلنے کے بعد مستعفی نہیں ہوتا ‘تم میاں صاحب کی بات کر رہے ہو۔ رہ گئی پیپلز پارٹی تو وہ اب میاں نوازشریف کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے‘وجہ پانامہ لیکس والے کاغذات ہیں۔ اسی پانامہ لیکس میں بے نظیر بھٹو کے بارے میں بھی درج ہے کہ کس طرح بے نظیر بھٹو کی تیل کمپنی نے 2000ء میں عراقی صدر صدام حسین کو بھاری رشوت کے بدلے خوراک کے عوض تیل والی ڈیل حاصل کی۔ اس وقت بے نظیر بھٹو کی شارجہ میں رجسٹرڈ پیٹروفائن ایف زیڈ سی کمپنی تھی جس میں ان کے حصہ دار اعلیٰ حضرت رحمان ملک بھی تھے۔ اب رحمان ملک اس بات پر تو بڑے گرمی اور تائو کھا رہے کہ ان کا اور بے نظیر بھٹو کا نام پانامہ لیکس میں آ گیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ ''را‘‘ کی سازش ہے جبکہ اسی سورس سے آنے والی معلومات کی بنیاد پر میاں نوازشریف سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوغلا پن جتنا ہمارے ہاں ہے دنیا میں شاید ہی کہیں اور ہو گا۔
حسین نواز کا کہنا ہے کہ اس نے اپنا کاروبار اس پیسے سے شروع کیا تھا جو جدہ والی سٹیل مل بیچ کر ملا تھا۔ اب بندہ پوچھے‘ آپ نے پہلی آف شور کمپنی 1993ء یا 1994ء میں بنائی تھی جبکہ جدہ والی مل غالباً 2006ء میں بیچی ۔ میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ لندن میں کاروبار کے لیے تو چلیں پیسہ جدہ والی مل بیچ کر پیدا کیا گیا‘جدہ والی مل کیسے لگا لی تھی؟ شاہ جی ہنس کر کہنے لگے‘ جدہ والی مل کے لیے ملک سے جاتے ہوئے میاں صاحب اپنے ساتھ صدیق پہلوان کے علاوہ سو صندوق بھی لے کر گئے تھے۔ ممکن ہے ان سو صندوقوں میں سے دو چار میں ڈالر وغیرہ ہوں۔ میں نے پوچھا ‘یہ صندوقوں والے ڈالر کہاں سے آئے ہونگے؟ جواب ملا کہ اپنے ذاتی کاروبار سے آئے ہوں گے اور کہاں سے آنے ہیں؟ میں نے پوچھا کہ ان ڈالروں یا نوٹوں پر ٹیکس دیا گیا ہو گا؟ شاہ جی کہنے لگے ٹیکس وغیرہ دینا تم جیسے ملازم پیشہ لوگوں کا کام ہے۔ میں نے پوچھا ‘جدہ والی مل کے لیے جو پیسہ بھی باہر گیا وہ سفید پیسہ تھا؟ میرا مطلب ہے وائٹ منی تھی؟ اگر تھی تو کیا قانونی طریقے سے گئی تھی؟شاہ جی کو جلال آ گیا اور کہنے لگے‘عزیزم اسحاق ڈار نے ڈر کے مارے ایک بار بتایا تھا کہ غیر قانونی طریقے سے رقم باہر بھجوائی تھی۔ تم بار بار اس کا ذکر کیوں کر رہے ہو؟ میں نے کہا شاہ جی میں دراصل اس پیسے کے آخری ماخذ تک جانا چاہتا ہوں۔ شاہ جی کہنے لگے ایک واقعہ سنو:
ایک بادشاہ کے پاس اس کے بچپن کا دوست آیا اور عرض کی کہ اس کا بیٹا بیروزگار ہے ‘لہٰذا اسے نوکری عطا فرمائی جائے۔ بادشاہ نے اپنے بچپن کے دوست سے پوچھا کہ بیٹے نے کیا کیا ہے؟ اس نے کہا کہ گریجوایٹ ہے۔ بادشاہ نے جھنجھلا کر کہا کہ صاف صاف بتائو کتنی جماعتیں پڑھا ہوا ہے۔ مجھے الٹی سیدھی ڈگریاں نہ سنائو۔ دوست نے کہا کہ آپ کے بھتیجے نے چودہ جماعتیں پاس کی ہوئی ہیں۔ بادشاہ نے وزیر کی طرف دیکھ کر حکم سنایا کہ سول سرجن کو ہسپتال میں نوکری کرتے بڑے سال ہو گئے ہیں ‘ اس کی جگہ پر اس بچے کو سول سرجن لگا دیا جائے۔ وزیر نے پوچھا حضور! سول سرجن کا کیا کروں؟ کہا اسے مارکیٹ کمیٹی کا چیئرمین لگا دو۔ پوچھا مارکیٹ کمیٹی کے چیئرمین کا کیا کروں؟ حکم ہوا اسے چیف انجینئر لگا دو۔ پوچھا چیف انجینئر کا کیا کروں؟ جواب ملا اسے مجسٹریٹ لگا دو۔ عرض کی کہ مجسٹریٹ کا کیا کریں؟ جواب ملا اسے ہیڈ ماسٹر لگا دیں۔ وزیر نے پھر پوچھا کہ حضور ہیڈ ماسٹر کا کیا کروں؟ بادشاہ کو اب جلال آنا شروع ہو چکا تھا‘کہنے لگا اسے سپرنٹنڈنٹ جیل لگا دو۔ پوچھا اور اس موجودہ سپرنٹنڈنٹ جیل کا کیا کریں؟بادشاہ نے کہا اسے جیل کی کسی مناسب سی خالی بیرک میں بند کر دیا جائے۔ میں دراصل اس رقم کو اسی طرح کسی مقام اختتام پر لے جانا چاہتا ہوں۔ شاہ جی کا موڈ واقعہ سنانے کے بعد خوشگوار ہو چکا تھا ۔کہنے لگے‘پاکستان میں کبھی آج تک کسی پیسے کا ''کھرا‘‘ ملا ہے، جواب ملے گا؟ یہاں تو ایان علی سے پکڑے گئے کروڑوں روپے بارے کچھ ثابت نہیں ہوا کہ اس کے پاس کیسے آئے؟ اگر آئے تو کیا اس نے کبھی اس رقم پر ٹیکس دیا تھا؟ کیا اس نے اپنی آمدنی کبھی اتنی بتائی ہے کہ وہ کروڑوں روپے کے پلاٹ خرید سکتی ہے؟ کبھی اس کے بیچنے کی کوئی دستاویز ملی ہے؟یہاں ایک معمولی سی چھوکری کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ‘کجا کہ وزیراعظم اور اس کی اولاد کا معاملہ ہو۔
میں نے ملک خالد سے پوچھا کہ اصل رولا کیا ہے؟ ملک خالد بتانے لگا کہ ایک لاء کمپنی ہے ''موزیک فونیسکا‘‘ یہ دنیا کی چوتھی بڑی لاء فرم ہے جو پانامہ میں قائم ہوئی۔ اس کے پاس دنیا کی بڑی بڑی شخصیات اپنے کاروباری اور مالی معاملات وغیرہ کو ہینڈل کروانے کے لیے رجوع کرتی تھیں اور یہ فرم ان کے اثاثے اور ٹیکس وغیرہ چھپانے میں قانونی مدد فراہم کرتی ہے۔ ایک سال پہلے ایک جرمن اخبار سے ایک نامعلوم شخص نے رابطہ کیا اور اسی فرم یعنی موزیک فونیسکا کے انتہائی خفیہ کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس دینے کی پیشکش کی۔ فرم نے یہ کاغذات جو لمبی چوڑی بلکہ بہت ہی لمبی چوڑی تفصیلات پر مشتمل تھے‘ لے کر ''انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹو جرنلسٹس‘‘ کے حوالے کر دیے۔ دنیا کی اسّی صحافتی تنظیموں کے 107 نمائندوں نے پورا ایک سال ان کاغذات پر تحقیق کرنے کے بعد بتایا کہ کاغذات اصلی‘ ٹھیک اور سچے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسی بات ہوتی تو ٹی وی آدھی رات کو ہی بریکنگ نیوز چلا دیتے‘ مگر وہاں ایک سال صبر کیا گیا اور سچائی کی تہہ تک پہنچنے کے بعد ان کو آئوٹ کیا گیا۔
ابھی ان کاغذات کی تلخیص یعنی سمری اخبارات میں آئی ہے۔ مکمل تفصیلات تو اتنی طویل ہیں کہ کئی ماہ تو صرف پڑھنے میں لگ جائیں گے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس کا انکشاف ہے۔ اس میں ایک کروڑ سے زائد ڈاکومنٹس ہیں اور اڑھائی ٹیرا بائٹس سے زیادہ کا ڈیٹا ہے۔ اس میں پاکستان کے کئی افراد کا نام ہے۔ تاہم زیادہ شور فی الوقت میاں نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں اور لندن میں پراپرٹی والے معاملے پر ہے۔ مسلسل اور پرمشقت صفائی پر مامور پرویز رشید پر ایک اور معاملہ آن پڑا ہے کہ وہ اس کی بھی صفائی دے۔ صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم نے ایک جوڈیشل کمشن بنانے کا اعلان کیا ہے مگر اس پر کسی کو اعتبار نہیں کہ آج تک کسی جوڈیشل کمشن نے کوئی فیصلہ کر کے معاملہ تکمیل تک نہیں پہنچایا۔ یہاں نیب اگر حکمرانوں کے بارے میں کارروائی کا سوچے تو حکمران دھمکانے پر آ جاتے ہیں ‘یہ تو محض ایک ریٹائرڈ جج یعنی چلے ہوئے کارتوس پر مشتمل دھنیا کمشن ہو گا۔ کیا الیکشن کمشن کی جرأت ہے کہ وہ پوچھے کہ میاں صاحب آپ کے کاغذات نامزدگی میں درج اثاثوں میں لندن والی اربوں‘ کھربوں کی پراپرٹی کا کوئی ذکر نہیں۔ ایف بی آر میں اتنی ہمت کہاں کہ وہ اس آمدنی کو گوشوارے میں چیک کرے۔ 
چند برس ہوتے ہیں مجھے ایک مسلم لیگی ذمہ دار نے جواب ایک بڑے عہدے پر متمکن ہے، کہا کہ حسن نواز شریف نے لندن میں پراپرٹی کا کاروبار محض چند لاکھ روپے سے صرف ایک فلیٹ کی خریدوفروخت سے شروع کیا تھا اور اللہ نے اس کی محنت کا اجر دیا۔ اللہ جانے اب اس کاروبار کی کل مالیت کیا ہے ‘البتہ چند سال پہلے ایک معتبر دوست نے بتایا کہ یہاں ان کی پراپرٹی کا کام پانچ سو ملین برطانوی پائونڈ سے زیادہ ہے ۔یہ رقم پاکستانی روپوں میں 80 ارب روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ پراپرٹی کے کام میں اگر ایک اوسط درجے کی فہم و فراست کا مالک لڑکا چند لاکھ روپوں کو پانچ سات سالوں میں 80 ارب روپے میں بدل سکتا ہے تو باقی ساری فیملی کیوں انڈے‘ مرغیاں اور دودھ دہی بیچنے جیسے گھٹیا کام میں اپنی صلاحیتیں ضائع کر رہی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں