"KMK" (space) message & send to 7575

کتاب کلچر

تین چار روز قبل ایک ٹی وی چینل پر ''کتاب‘‘ کے بارے میں پروگرام تھا جس میں مجھے بھی شریک گفتگو کیا گیا۔ گفتگو کا بنیادی نکتہ ہمارے ہاں کتاب سے دوری تھا۔ دانشوروں اور اہل علم کی اکثریت کا خیال ہے کہ انٹر نیٹ کا بڑھتا ہوا استعمال ہماری نئی نسل کی کتاب سے دوری کا سبب ہے ؛تاہم میرا خیال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہم اجتماعی طور پر بلکہ من حیث القوم کتاب سے دور لوگ ہیں۔ کتاب کا ہمارے معاشرے میں نہ پہلے کوئی اونچا مقام تھا اور نہ ہی اب‘ بلکہ اب تو مزید انحطاط ہے۔
اگر انٹرنیٹ‘ آئی پیڈ‘ کمپیوٹر یا سوشل میڈیا کو کتاب سے دوری کا بنیادی سبب بتایا جائے تو یہ بات غلط ہے کہ ان ایجادات نے ہمیں کتاب سے دور کر دیا ہے۔ دراصل ہمارے کتاب سے تعلقات شاید کبھی بھی بہت مثالی نہ تھے اور اب کئی دیگر وجوہات نے انہیں مزید خراب کر دیا ہے۔ اگر انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولت نے کتاب کی مقبولیت کو ختم کرنا تھا تو سب سے پہلے یہ کام یورپ اور امریکہ وغیرہ میں ہوتا جہاں لوگوں کی دسترس میں یہ چیزیں ہم سے پہلے آئیں اور ہم سے کہیں زیادہ۔ یورپ‘ برطانیہ‘ امریکہ ‘ کینیڈا وغیرہ میں لوگوں کی رسائی انٹرنیٹ کے ذریعے آئی پیڈ‘ ٹیب اور لیپ ٹاپ تک ہم سے کئی گنا زیادہ ہے مگر وہاں آج بھی دوران سفر ٹرین یا بس پر مسافروں کی غالب اکثریت کتاب کا مطالعہ کر رہی ہوتی ہے۔ تقریباً پچاس ساٹھ فیصد مسافر کتاب پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ پچیس تیس فیصد مسافر اونگھ رہے ہوتے ہیں اور محض دس پندرہ فیصد کے لگ بھگ لیپ ٹاپ وغیرہ پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بزنس میٹنگ کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود وہاں آج بھی فکشن ‘ سوشل مسائل اور اہم واقعات پر چھپنے والی کتابوں کی تعداد بھی بہت ہے اور ہر کتاب بلا مبالغہ لاکھوں میں چھپتی ہے اور فروخت ہوتی ہے۔ وہاں ''بیسٹ سیلنگ‘‘ کتاب کی تعداد ہزاروں یا لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہوتی ہے۔لارڈ آف رنگز کی پندرہ کروڑ کتابیں فروخت ہوئیں۔ دی ہوبٹ کی چودہ کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ ہیری پوٹر ہمارے سامنے کی بات ہے‘ اس کی کتاب''ہیری پوٹر اینڈ دی فلاسفرز سٹون‘‘ کی دس کروڑ ستر لاکھ جلدیں فروخت ہوئیں۔ ایک کروڑ سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کی تعداد بلا مبالغہ سینکڑوں میں ہے۔ ادھر کیا حال ہے؟
اردو اور پنجابی کے نابغہ اور مقبول ترین مزاحیہ شاعر انور مسعود کی کتاب''میلہ اکھیاں دا‘‘ کے پچھتر کے لگ بھگ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں پبلشر کسی مقبول مصنف کی کتاب کا ایک ہزار کتابوں کا ایڈیشن چھاپ لے تو بڑا تیر مارتا ہے وگرنہ پانچ پانچ سو جلدوں کے ایڈیشن عام ہیں۔ اس حساب سے جناب انور مسعود کی کتاب پچھتر ہزار کے لگ بھگ شائع ہو چکی ہے۔ ہم زیادہ تیر ماریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ پبلشرز نے ڈنڈی ماری ہو گی اور اس کتاب کی اصل تعداد لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ ہو گی۔ آپ صرف ایک مقبول ترین کتاب سے اندازہ لگا لیں کہ ہمارے ہاں کتاب کی فروخت کا کیا عالم ہے۔ یاد رہے کہ انور مسعود صاحب کی یہ کتاب پہلی بار غالباً1974ء میں یعنی آج سے بیالیس سال پہلے چھپی تھی۔ بیس کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں بیسٹ سیلنگ کتاب کا یہ عالم ہے کہ اوسطاً ایک سال میں ایک ہزار سات سو پچاسی کتابیں فروخت ہوئیں۔ اس ''بیسٹ سیلنگ‘‘ کتاب کی فروخت سے آپ باقی مصنفین کی کتابوں کی فروخت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُن کا کیا حال ہو گا۔
عادت انفرادی اور کلچر اجتماعی رویے کا نام ہے۔ ہمارے ہاں کتاب پڑھنے والے موجود ہیں مگر وہ کتاب بینی کی عادت والے لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں کتاب پڑھنے کا کلچر نہیں ہے اور اس کی تین چار بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ والدین نے بچوں کو کتاب کی اہمیت سے کبھی نہ تو آگاہ کیا ہے اور نہ ہی کبھی اس سلسلے میں بچوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بچہ شروع سے ہی کتاب آشنا نہیں ہو پاتا۔ دوسری یہ کہ استاد سکول میں کتاب کے بجائے شارٹ کٹ سے آگاہ کرتا ہے اور سکولوں میں لائبریری وغیرہ سے استفادہ کرنے کی نہ تو تربیت دی جاتی ہے اور نہ حوصلہ افزائی ۔ابتدا میں ساری تعلیم کا زور اگلے داخلے پر اور بعدازاں حصول نوکری پر ہوتا ہے ‘نتیجہ یہ کہ کورس کی کتابوں کے علاوہ بچہ کسی اور کتاب سے آگاہ ہی نہیں ہو پاتا۔ تیسری وجہ نصاب بنانے والے ہیں جو اردو وغیرہ کا نصاب بناتے وقت بچوں کی نفسیات‘ پسند ناپسند اور ذہنی استعداد کو سامنے رکھے بغیر نصاب میں وہ مضامین شامل کر دیتے ہیں جو بچے کو کتاب کی طرف راغب کرنے کے بجائے دور کر دیتے ہیں۔ آخری وجہ یہ ہے کہ کتاب اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ عام آدمی کی دسترس سے دور ہو گئی ہے؛چنانچہ اب کتاب اس کی ترجیحات میں کہیں پیچھے چلی گئی ہے۔
ایک زمانہ تھا گلی محلوں میں''آنہ لائبریری‘‘ ہوتی تھی۔ روزانہ کی بنیاد پر ایک آنہ کرائے پر کتاب دی جاتی تھی۔ میرے چوک شہیداں والے آبائی گھر کے ساتھ محلہ غریب آباد میں اسی طرح کی ایک ''آنہ لائبریری‘‘ تھی جسے چاچا غفور چلاتا تھا۔ جب میں نے اس لائبریری میں اپنی پسند کی تمام کتابیں پڑھ لیں تو پھر اسی طرح کی دائرہ بستی میں قائم آنہ لائبریری کا رخ کیا۔ وہ لائبریری نسبتاً بڑی تھی اور کئی سال کام آئی‘ تب ابن صفی کی عمران سیریز اور کرنل فریدی سیریز کی کتاب چھپتی تھی تو اسی روز خریدی جاتی تھی۔ فیروز سنز کی داستان امیر حمزہ کی جلد شائع ہوتی تھی تو پاکستان بک سنٹر پر جا کر چچا عمر خان سے رعایتی قیمت پر خریدی جاتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ یہ رہا سہا کتاب کلچر بھی رخصت ہو گیا۔ آنہ لائبریریاں رفتہ رفتہ بند ہونا شروع ہوئیں‘ آج یہ قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ میں اپنے بیٹے کو ''آنہ لائبریریوں‘‘ کا قصہ سناتا ہوں تو وہ بڑا حیران ہوتا ہے۔
پبلک لائبریریاں برباد ہو گئیں۔ نئی کتاب کے لیے گرانٹ ملنا بند ہو گئی۔ پرانی کتابوں میں سے جو کتاب پڑھنے لائق تھی ضلعی انتظامیہ کے افسران گھر لے گئے اور پھر واپس نہ آئی۔ قلعہ قاسم باغ پر موجود پبلک لائبریری اسی طرح برباد ہوئی۔ گزشتہ سال اس لائبریری کو پنجاب لائبریری فائونڈیشن سے دس لاکھ روپے لے کر دیے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ تھا لیکن پھر بھی ایک طویل عرصہ کے بعد کوئی نئی کتاب اس لائبریری میں آئی۔ اس کے لیے میرے دوست اور پنجاب لائبریری فائونڈیشن کے تب کے چیئرمین اوریا مقبول جان نے بڑی مدد کی۔ اس لائبریری کی سینکڑوں کتابیں آج بھی بوریوں میں بند گھنٹہ گھر کے کسی کمرے میں دیمک کا رزق بن کر مٹی ہو رہی ہیں۔ اس لائبریری میں آخری باقاعدہ لائبریرین چچا اشرف
سیال تھے۔ تقریباً بیس سال سے زیادہ عرصہ پہلے وہ ریٹائر ہوئے۔ تب سے یہ لائبریری کسی لائبریرین کے بغیر چل رہی ہے۔ لائبریریوں کی بربادی نے رہے سہے کتاب بین کو بھی فارغ کر دیا۔
کتاب کی خرید ہماری ترجیحات میں پہلے ہی نچلے درجے پر تھی ‘ رہی سہی کسر مہنگی کتاب نے پوری کر دی اور کتاب کی فروخت جو پہلے ہی کوئی خاص حوصلہ افزانہ تھی مزید نیچے چلی گئی۔ اب بھی اگر صرف اسی ایک پہلو پر توجہ دی جائے تو بہتری لائی جا سکتی ہے۔ میں یہ بات کسی باقاعدہ ثبوت کے بغیر نہیں کہہ رہا۔ پاکستان میں ایک ادارہ ہے جو بنیادی طور پر کتاب کلچر کے فروغ کے لیے بنا تھا مگر بدقسمتی سے یہ دیگر سرکاری اداروں سے مختلف ثابت نہ ہوا اور لگے بندھے سرکاری ضابطوں کے مطابق چلتا رہا یعنی افسروں اور سٹاف کے لیے ذریعہ روزگار تو بنا رہا مگر اپنا بنیادی ہدف حاصل نہ کر سکا۔ یہ نیشنل بک فائونڈیشن تھا ۔ ایک عرصے کے بعد اسے ایک ایسا منیجنگ ڈائریکٹر ملا ہے جو نہ صرف خود کتاب دوست ہے بلکہ اس کلچر کو عام کرنا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے اس سلسلے میں صرف دو بنیادی کام کیے ہیں۔ کتاب کو سستا اور معیاری کیا ہے اور عام آدمی تک اسے پہنچانے کی سعی کی ہے۔ صرف ان دو اقدامات سے کتاب کی فروخت میں جو محیر العقول اضافہ دیکھنے میں آیا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ خاص طور پر جب میں ''بیسٹ سیلنگ‘‘ کتابوں کی پاکستان میں فروخت کو مدنظر رکھتا ہوں تو یہ بات مجھے حیران کر دیتی ہے کہ ان حالات میں کتاب کی فروخت میں کتنا اضافہ ہو سکتا ہے؟
یہ موضوع ایک علیحدہ تفصیلی کالم کا متقاضی ہے اور میں یہ کام اگلے دو چار دن میں ہی کر دوں گا۔ فی الوقت صرف اتنا کہ نیشنل بک فائونڈیشن کے زیر اہتمام بعض کتابوں کے دوسرے اور تیسرے ایڈیشن تین ہزارسے پانچ ہزار کی تعداد میں چھپے بھی ہیں اور فروخت بھی ہوئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں