"KMK" (space) message & send to 7575

لوئی ویل میںآسودئہ خاک میراہیرو

محمد علی کلے میری زندگی کا پہلا ہیرو تھا۔ عموماً بچپن کے ہیرو لڑکپن گزرتے ہی اپنا مقام کھو دیتے ہیں اور ان کی جگہ کوئی اور‘ اورپھرکوئی اور لے لیتا ہے مگرمیرے ہیرو کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میں تب شاید پانچ چھ سال کا تھا جب مجھے محمد علی سے محبت ہوئی اور میں پچاس سال بعدگزشتہ سال لوئی ویل، کنٹیکی، امریکہ میں تلاش کرتارہا۔ وہ کل بھی میرا ہیرو تھا، آج بھی میرا ہیرو ہے اورمجھے یقین ہے کہ تا زندگی رہے گا۔
ہمارے گھر تب مرحوم کوہستان اخبار آتا تھا۔ مجھے بچوں کے اخبار کے علاوہ تصویریں دیکھنے کی حد تک اخبار سے دلچسپی تھی۔ جب کبھی محمد علی کلے کی کوئی تصویر آتی اس دن اخبار کی شامت آ جاتی۔ میں صبح ہی صبح قینچی سے وہ تصویر کاٹ کر بھائی طارق مرحوم کے ایک پرانے رجسٹر میں چپکا دیتا۔ یہ رجسٹر محمد علی کی باکسنگ سے ریٹائرمنٹ کے بھی کئی سال بعد تک میری الماری میں محفوظ رہا۔ پھر گھر شفٹ کیا تو یہ رجسٹر بڑی احتیاط سے نئے گھرکی الماری کے نیچے والے خانے میں محفوظ رہا۔ والدہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری گھرخالی کیا تو باقی کتابوں کے ساتھ اسے بھی بوری میں بھر کر عثمان آباد والے گھر لایا۔ یہاںجب دیمک نچلے خانے سے اوپر والے خانوں میں پہنچی‘ درجنوں کتابیں اس حادثے کی نذر ہو گئیں۔ ان میں سے دو تین کتابیں ایسی تھیں جو نہ تو دوبارہ مل سکیں، یہ رجسٹر ان میں سے ایک تھا۔ 
یہ میں بار بار محمد علی کے ساتھ کلے جو لکھ رہا ہوں تو یہ میں نہیں میرابچپن ہے جو یہ لکھ رہا ہے۔ ہمارے بچپن میں سب چھوٹے بڑے اسے محمد علی کلے ہی کہتے تھے۔ خالی محمد علی کہنے سے بات نہیں بنتی تھی۔ اسلام قبول کرنے کے بعداس نے اپنا نام کاسیس مارسیلس کلے جونئیر سے محمد علی رکھ لیا۔ باقی سارا سابقہ نام تو کسی کو یاد نہ رہا البتہ اس کا فیملی نام ''کلے‘‘ ہمارے ہاں اس کے نام کا لازمی جزو بن کر رہ گیا۔ پہلے پہل اس سے سارا تعلق اخبار کے ذریعے تھا یا ریڈیو کے ذریعے۔ جس دن ان کی فائٹ ہوتی، اس دن بار بار ریڈیو لگایا جاتا اور خبریں سنی جاتیں۔ تب یہ علم نہیں تھاکہ پاکستان اور امریکہ یا یورپ کے ممالک کے درمیان کتنے گھنٹے کا فرق ہے۔ تاہم اصل چین اگلے روز پڑتا جب اخبار میں اس کی تصویر نظرآتی۔ کبھی دستانے پہنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے‘ کبھی منہ کو پورا کھولے ہوئے اور کبھی ایک مکہ ہوا میں لہراتے ہوئے۔بلاشبہ وہ باکسنگ کی تاریخ کا سب سے خوبصورت باکسر تھا۔ دنیاکو باکسنگ سے متعارف کروانے میں جتنا کردارمحمد علی کا ہے۔ اتنا شاید کسی ایک باکسر کا نہ ہوگا۔ 
میرے خیال میں محمد علی کلے دنیا کا دوسرا طاقتور ترین آدمی تھا۔ پہلا نمبر ابا جی کا تھا۔ مجھے صرف گمان نہیں بلکہ یقین تھاکہ محمد علی کلے کو صرف ایک ہی شخص دنیا میں ہرا سکتا تھا۔ بشرطیکہ وہ باکسنگ سیکھ لیتا اور وہ ابا جی تھے۔ جب ابا جی مجھے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر بٹھا کر ہوا میں گھماتے تھے تو وہ میرے نزدیک ایسے طاقتور شخص تھے کہ دنیا میں ان جیسا کوئی اورنہیںتھا۔ میں نے ایک دن صبح محمد علی کی کسی مقابلے میں فتح کے بعدحاجی بٹے کے باغ میں سیر کے دوران اباجی سے پوچھا کہ کیا وہ محمد علی کو ہرا سکتے ہیں؟ اباجی نے کہا نہیں! وہ محمد علی کو نہیں ہراسکتے۔ میں نے پھر پوچھا کہ اگر آپ باکسنگ سیکھ لیں تب بھی نہیں؟ ابا جی نے کہا نہیں۔ تب بھی نہیں۔ مجھے گمان ہوا کہ ابا جی مذاق کر رہے ہیں۔ ابا جی نے میرے چہرے پر چھائی بے یقینی دیکھ کر کہا۔ ہر آدمی ہرکام نہیں کرسکتا۔ میں لائبریری میں جس طرح کتابوں کی کلاسی فیکیشن کرسکتا ہوں محمد علی نہیںکرسکتا۔ مگر میں باکسنگ سیکھ بھی لوں تو شاید ایک مکہ بھی نہ مار سکوں اور وہ مجھے ناک آئوٹ کردے۔ ابا جی نے یہ بات اتنی سنجیدگی سے کہی کہ مجھے یقین آ گیا مگر ایمانداری کی بات ہے کہ میں یہ بات سن کر نہ صرف یہ کہ دکھی ہوا بلکہ یہ آزردگی کئی دن تک دل پر چھائی رہی، تاہم اس کے بعد محمد علی دوسرے نمبر پر سے اٹھ کر پہلے نمبر پر آ گیا۔ اس کا یہ درجہ پھرکبھی کم نہ ہوا۔
اس دوران میں نے یہ ٹھانی کہ محمد علی کو خط لکھا جائے اور اس سے کہا جائے کہ وہ اپنی دستخط شدہ تصویر مجھے بھجوائے۔ اب مسئلہ یہ آن پڑا کہ محمد علی کا پتہ کہاں سے حاصل کیا جائے۔ کئی لوگوں سے پتہ کیا مگر کسی سے بھی علم نہ ہو سکا کہ محمد علی امریکہ میں رہتا کہاں ہے۔ بھائی طارق سے پوچھا، تب بھائی غالباً میٹرک میں پڑھتے تھے یا شاید گیارہویں جماعت میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ محمد علی دنیا میں صرف ایک ہی ہے اور بہت مشہور ہے۔ تم صرف اس کا نام لکھ کر امریکہ لکھ دو خط اسے مل جائے گا۔ بات تو دل کو لگتی تھی مگر تسلی نہیں ہوئی کہ اگر خط اسے نہ ملا تو کیا ہوگا؟ پھر یہ وہم ہواکہ وہ تو ہر وقت ادھرادھر گھومتا رہتا ہے، ڈاکیا اسے کہاں تلاش کرے گا؟ کسی نے کہا کہ دفتر معلومات سے پتہ کرو۔ اب کیا پتہ کہ دفترمعلومات کیا بلا ہے اور کہاں ہے؟ بڑی بہن سے پوچھا اس نے نہایت اعتماد سے بتایا کہ معلومات والوں کا فون نمبر17 ہے اور وہاں سے سب کا فون نمبر تک مل جاتا ہے۔ گھر کا پتہ کیا چیز ہے؟اب فون کا مسئلہ آن پڑا۔ فون صرف ماں جی کے دفتر میں تھا اور ان کے سامنے میز پر دھرا ہوتا تھا۔ ماں جی کے دفتر میں جانا کوئی مسئلہ نہ تھا مگر وہاں سے 17 پر فون کرنا اور متعلقہ آدمی سے گفتگو کرنا مشکل کام تھا۔ خیراگلے دن دفتر گئے اور ون سیون پر فون کیا۔ میں نے فون اٹھانے والے کو بتایا کہ مجھے محمد علی باکسر کا پتہ چاہئے۔ مجھے کسی نے بتایا 
ہے کہ اس کا پتہ آپ سے ملے گا۔ میں آج بھی اس ٹیلی فون آپریٹر کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں کہ اس نے انکار کرنے کے بجائے یا اپنی لاعلمی ظاہر کرکے جان چھڑوانے کے بجائے نہایت ہی مہربان انداز میں کہا کہ اس کے گھر کا پتہ تو ہمارے پاس کہیں درج نہیں ہے البتہ اس کے دفتر کا پتہ ہے جہاں آپ اسے خط لکھیں تو اسے مل جائے گا۔ پھر اس نے پتہ بتایا جو آج تک مجھے یاد ہے۔ امچور باکسنگ ایسوسی ایشن آف امریکہ، نیویارک، یونائیٹڈ سٹیٹ آف امریکہ۔ میں نے اردو میں نہایت خوشخط بنا کرایک صفحے کا خط لکھا ساتھ احتیاطاً اس کا انگریزی ترجمہ اپنی بڑی بہن مرحومہ سے کروایا اور ساتھ رکھ کر خط میں ڈالا۔ اپنے مٹی کے گلے سے پیسے نکالے اور بابا فقیر محمد کے ساتھ جا کر شاہین مارکیٹ کے ڈاکخانے سے خط پر ٹکٹیں لگائیں اوررجسٹرڈ پوسٹ کردیا۔ روزانہ ڈاکیے سے پوچھا جاتا کہ کوئی خط آیا ہے؟ مہینے دو مہینے بعد میں خط کے جواب سے مایوس ہوگیا اور محمد علی کو دل ہی دل میںدوچار بار کوسا مگر پھر سوچا کہ اسے دراصل خط ملا ہی نہیں ہوگا۔ اس کے دفتر کے لوگوں نے میرا خط ہی گم کردیا ہوگا۔ پھرمیں نے خط بارے سوچنا ہی بندکردیا۔ چھ سات ماہ بعد ایک بڑے سائز کا سفید لفافہ آیا جس پر امریکی ٹکٹ لگے ہوئے تھے۔ لفافہ کھولا۔ اندرمحمد علی کی تصویر تھی۔ بلیک اینڈ وائٹ، گول گلے کی ٹی شرٹ پہنے مسکراتے ہوئے محمد علی کی جس کے نیچے ایک کونے پر اس کے دستخط تھے۔ مجھے بہت بعد میں پتہ چلا کہ امریکہ میں محمد علی کو خط بھجوانے کے لیے یہ والا پتہ بالکل غلط تھا مگر دو مہربان آدمیوں کے طفیل محمد علی کی دستخط شدہ فوٹومل گئی۔ پہلا مہربان ون سیون والا ٹیلی فون آپریٹر تھا اور دوسرا وہ امریکی مہربان جس نے امریکہ میں میرے خط پر لکھے پتے کو کاٹ کر درست پتہ لکھا ہوگا۔ یہ تصویر شاہ فیصل اور شاہ حسین (اردن) کی تصویروں کے ساتھ رکھی ہوئی تھی۔ بہت عرصہ بعد جب تلاش کرنے لگا تو تینوں تصویریں نہ ملیں۔ خداجانے کہاں گئیں؟ باہر والے کمرے کی الماری میں پڑی ہوئی تھیں جہاں لوگوں کا آنا جانا عام تھا۔ کوئی لے گیا ہوگا۔ مجھے ان تینوں تصویروں میں صرف ایک تصویر کے گم ہونے کا ملال تھا اور وہ محمد علی کی تھی۔
محمد علی اگر صرف ایک باکسر ہوتا تو وہ جب گیارہ دسمبر 1981ء کو ٹریوربربک سے دس رائونڈ کی فائٹ پوائنٹس پر ہار کر ریٹائر ہوا تھا تو اس دن سے ہیرو کے درجے سے نیچے آ جاتا۔ بلکہ اس سے بھی پہلے جب وہ دو اکتوبر1980ء میں لیری ہومز سے ناک آئوٹ پر ہارا تھا۔ یہ محمد علی کی اپنے تیس سالہ پیشہ ورانہ کیریئر میں پہلی اور آخری ناک آئوٹ شکست تھی۔ اس روز اس فائٹ کے دوران میں کئی بار رویا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کروں؟ محمد علی کو لگنے والا ہر مکہ میرے دل پر لگ رہا تھا۔ دل کہتا تھا کہ اب محمد علی کارنر سے تتلی کی طرح رقص کرتا ہوا نکلے گا اور شہد کی مکھی کی طرح ڈنگ مار کر اسی طرح لیری ہومز کو ناک آئوٹ کردیگا جس طرح اس نے کنساشا، زائرے میںتیس اکتوبر1974ء کی رات جارج فورمین کو ناک آئوٹ کر دیا تھا۔ اس رات پہلے آٹھ رائونڈز میں محمد علی نے اس وقت دنیا کے سب سے زوردار مکے مارنے والے باکسر سے آٹھ رائونڈ تک دفاعی مقابلہ کرنے کے بعد اچانک تین چارمکوں کا سیشن لگایا۔ سارا مجمع اس وقت Ali,Bomaye (علی، اسے قتل کردو) کے نعرے لگا رہا تھا۔ اس فائٹ سے پہلے تمام ماہرین نے جارج فورمین کو فیورٹ قراردیا تھا مگر علی نے اپنی بڑھتی عمر کے باوجود اپنے اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس مقابلے کیلئے کچھ ہٹ کر کیا ہے، میں مگرمچھ سے کشتی جیتاہوں، وہیل سے گتھم گتھا ہوا ہوں، بجلی کو پابند کیا ہے، طوفان کو قید کیا ہے، صرف گزشتہ ہفتے میں نے ایک چٹان کو قتل کیا ہے، ایک پتھرکو گھائل کیا ہے، ایک اینٹ کو ہسپتال کی راہ دکھائی ہے اور میں نے دوا کو بیمار کیا ہے۔
ویسا خوبصورت، پھرتیلا، حاضر جواب اوربڑبولا باکسر نہ دھرتی نے پہلے کبھی دیکھا اور نہ اسے آئندہ ہی دیکھنا نصیب ہوگا۔ علی نے کہا ''میں اتنا پھرتیلا ہوں کہ رات سونے سے قبل اپنے کمرے کی بجلی بند کرتا ہوں۔ سوئچ کو آف کرکے اپنے بستر پر چھلانگ لگاتا ہوں اور اندھیرا ہونے سے پہلے سو چکا ہوتا ہوں۔ 1984ء سے اسے پارکنسن کا مرض تشخیص ہوا لیکن اس سے پہلے ایک اور محمد علی دنیا کے سامنے آ چکا تھا۔ ایک مفکر اور مصلح کے طور پر۔
شروع میں وہ عالی جاہ محمد کی ''نیشن آف اسلام‘‘ سے وابستہ رہا مگر بعدازاں روایتی سنی مسلم عقیدے سے جڑا اور اسلام کی حقانیت اور آفاقیت کا علمبردار رہا۔ وہ بتیس سال پارکنسن سے نبرد آزما رہا لیکن بیماری اس کے اندروالے محمد علی کو کبھی شکست نہ دے سکی۔ موت کی بات اور ہے کہ اس کے سامنے کبھی کسی کی نہیں چلی۔ لوئی ویل سے اٹھی آندھی کی خاک بالآخر لوئی ویل میں تہہ خاک ہوئی۔
میں 2015ء میں لوئی ویل گیا تو علی سے ملنے کی کوشش کی، تب پتہ چلا کہ وہ ایریزونا جا چکا ہے۔ شفیق کے ذمے لگایا کہ وہ محمد علی اورکریم عبدالجبار کا پتہ کرے کہ وہ کہاں ہوتے ہیں؟ شفیق نے وعدہ کیا کہ جب اگلی بارآئو تب محمد علی اور کریم عبدالجبار کوملیں گے۔ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ اگلی بار وہ امریکہ چھوڑ کر دنیا ہی میں نہیں ہوگا تو میں تبھی اپنی بچپن کی حسرت مٹا لیتا۔ مگر یہ جو ملال ہیں ناں! یہ سدا ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور ہمارے مرنے پر بھی ختم نہیںہوتے، منتقل ہو جاتے ہیں۔ زندگی رہی تو اس سال ڈاکٹر بابر چیمہ، ڈاکٹر جبار اور ڈاکٹر اسد اسماعیل کے ساتھ اپنے ہیرو کی قبر پر فاتحہ کے لیے جائوںگا۔ شاید اس ملال میں کچھ کمی ہو جائے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں