"KMK" (space) message & send to 7575

تازہ ٹیکنیکل جھوٹ

جھوٹ کی بے شمار قسمیں ہیں تاہم ان میں سب سے اعلیٰ قسم ''ٹیکنیکل جھوٹ‘‘ ہوتا ہے عموماً جھوٹ کے درجہ عرفان پر فائز لوگ اسے اپنے استعمال میں لاتے ہیں اور سرخرو ٹھہرتے ہیں۔ عام تام جھوٹا اس اعلیٰ درجے کے جھوٹ پر قادر نہیں ہو سکتا۔ ٹیکنیکل جھوٹ بولنے والوں کے بارے میں کچھ لوگوں کو گمان ہے کہ وہ ذہین یا عقل مند ہوتے ہیں، لیکن ان کا یہ گمان سو فیصد غلط فہمی پر مبنی ہے۔ ایسا جھوٹ بولنے والے ایسے چالاک اور مکار ہوتے ہیں جو جھوٹ کو باقاعدہ آرٹ کے درجے پر فائز کر دیتے ہیں۔
بچپن میں جب کبھی ایسے ٹیکنیکل جھوٹ کے بارے میں کوئی بتاتا تھا تو دل نہیں مانتا تھا کہ ایسا ممکن ہو اور خیال آتا تھا کہ لوگ محض کہانی گھڑ کر سنا رہے ہیں کہ حقیقت میں ایسا ہونا ممکن نہیں، مگر وقت کے ساتھ ساتھ معلوم ہوا کہ بچپن سے سنے سنائے قصے تو بڑے معصومانہ اور بے ضرر سے ہوتے تھے‘ اب تو دنیا کہیں کی کہیں پہنچ گئی ہے۔ پہلے ٹیکنیکل جھوٹ بولنے والے لوگ شاید اتنے بڑے ایکسپوژر کے مالک نہیں ہوتے تھے اور اتنی تکنیکی باریکیوں سے واقف نہیں تھے جتنے واقف چارٹرڈ اکائونٹنٹ ٹائپ لوگ ہوتے ہیں، جن کا کام ہی اعداد و شمار کا الٹ پھیر‘ دائیں کو بائیں کرنا‘ کم کو زیادہ کرنا اور زیادہ کو کم کرنا۔ ٹیکس کے وقت نفع کو نقصان میں بدلنا اور بینک سے قرض لیتے وقت نقصان کو نفع میں تبدیل کر دینا۔ یہ سب کام جن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو بھلا ان کے سامنے عام تام جھوٹ کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے؟ ٹیکنیکل جھوٹ کی معراج ملاحظہ کرنا ہو تو ایسے لوگوں کی مہارت پر نظر دوڑائیں‘ آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ ٹیکنیکل جھوٹ کیا ہوتا ہے۔
اللہ بخشے چاچا محمد دین پٹواری ایک بار ایک ایسے ہی ٹیکنیکل دروغ گوکا قصہ سنا رہے تھے۔ میں چھوٹا سا تھا لیکن چاچا محمد دین پٹواری کا قصہ سنانے کا انداز خاصا دلچسپ ہوتا تھا۔ بعد میں ان سے بھی بڑے بڑے قصہ گو دیکھے اور سنے مگر چاچا محمد دین ہی ہماری نظر میں سب سے مزیدار واقعات سنانے والے تھے۔ انہوں نے
بتایا کہ ایک شخص لوگوں سے رقم ادھار لے کر کھا پی جاتا تھا اور واپسی کے تقاضے پر قسم اٹھا لیتا تھا کہ اس نے رقم واپس کر دی ہے۔ ضرورت پڑنے پر وہ قسم وغیرہ بھی اٹھا لیتا تھا۔ وہ شخص ہمہ وقت اپنے ہاتھ میں مددگار چھڑی رکھتا تھا اور اسی کی مدد سے چلتا پھرتا تھا۔ جب بھی رقم کی واپسی کا قضیہ اٹھتا اور چار بندے اکٹھے ہوتے تو وہ اپنی چھڑی قرض خواہ کو پکڑاتا اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر قسم کھاتاکہ اس نے قرضے کی پوری رقم قرض خواہ کے ہاتھ میں دی تھی اور اگر وہ جھوٹ بولے تو اپنی جان سے جائے‘ ایمان سے محروم ہو جائے اور دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ہو جائے۔ اتنی شدید قسم کی بد دعائیں سن کر سب لوگ دہل سے جاتے۔ پرانا زمانہ تھا تب جھوٹ اتنی فراوانی اور آسانی سے نہیں بولا جاتا تھا کجا کہ کوئی شخص اتنی خوفناک قسم کی بد دعائیں دے کر اتنی صفائی اور بریت کی بات کر رہا ہو۔ لوگ قرض خواہ کو شرمندہ کرتے اور کہتے کہ وہ ایک شریف آدمی پر بہتان لگا رہا ہے۔ الٹا قرض خواہ جھوٹا ہوتا اور قرضدار صاحب بڑے فخر سے اپنی چھڑی واپس پکڑتے اور نہایت فاتحانہ انداز میں گھر کو چل پڑتے۔ ایک بار پھر ایسا ہوا کہ ایک اور قرض خواہ ان صاحب سے اپنے قرض کی واپسی کا تقاضا کرنے لگا۔ معاملہ پھر دوچار لوگوں کے درمیان طے ہونا پایا۔ قرضدار صاحب نے حسب معمول اپنی چھڑی قرض خواہ کو پکڑائی اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر حسب سابق قسمیں کھانی شروع کر دیں کہ اس نے قرض کی پائی پائی واپس کر دی ہے اور نقد رقم کی صورت میں قرض خواہ کے ہاتھ میں دی تھی۔ اسی دوران پریشانی میں مبتلا قرض خواہ نے حالت اضطرار میں اضطراری طور پر چھڑی کی مٹھی کو گھمانا شروع کر دیا۔ چار چھ چکروں کے بعد مٹھی کھل کر اس کے ہاتھ میں آ گئی۔کیا دیکھتا ہے کہ چھڑی اندر سے کھوکھلی
تھی اور اس کھوکھلی جگہ میں نو ٹ بھرے ہوئے تھے۔ نکال کر نوٹ گنے گئے تو وہ عین اتنی ہی رقم تھی جتنی اس نے قرض خواہ کو ادا کرنی تھی۔ پتا چلا کہ وہ ہر بار قرض کی رقم کے برابر کرنسی نوٹ اس کھوکھلی جگہ میں ڈال کر چھڑی قرض دار کے ہاتھ میں پکڑا دیتا اور اپنی جان و ایمان کی قسمیں کھا کھا کر یقین دلاتا تھا کہ اس نے قرض کی پائی پائی کیش کی صورت میں بذات خود قرض خواہ کے ہاتھ میں پکڑائی تھی۔ یہ وہی رقم ہوتی تھی جو چھڑی کے کھوکھلے حصے میں چھپائی گئی ہوتی تھی۔ قسم وغیرہ کھا کر اور صاف بری ہو کر وہ اپنی چھڑی واپس پکڑتا اور گھر کی راہ لیتا۔
ایک بار ایک اور قصہ سنایا کہ ایک کپڑے کا تاجر تھوک میں کپڑا خرید کر لاتا۔ اب مثال کے طور پر وہ یہ کپڑا دس روپے گز لاتا تھا۔ گھر میں اس کا بیٹا اس سے یہ کپڑا بارہ روپے گز خرید لیتا۔ بیٹے سے اس کی ماں یہ کپڑا چودہ روپے گز خرید لیتی اور کپڑے کا تاجر اپنی زوجہ سے یہی کپڑا دوبارہ سولہ روپے خرید لیتا۔ اب دوکان پر گاہک سے تول مول کرتے ہوئے خدا کی قسم کھا کر کہتا کہ بھائی جان‘ سولہ روپے گز کی خود اپنی خرید ہے۔ اگر جھوٹ بولوں تو برباد ہو جائوں۔ بچوں کا مرا منہ دیکھوں۔ پھر کہتا سولہ روپے پر دو روپے کا منافع بھی نہ لوں؟ دوکان چلا رہا ہوں اللہ واسطے کی سبیل تو نہیں لگا رکھی۔ دکان کا کرایہ ہے‘ بجلی کا بل ہے‘ ملازموں کی تنخواہیں ہیں‘ سرکار کا ٹیکس ہے‘ اب بھلا آپ خود بتائو دو روپے گز کا منافع بھی کوئی منافع ہے؟ میں تو صرف خرچہ لے رہا ہوں۔ اب آپ مجھے یہ بھی نہ دیں گے؟ گاہک نہایت شرمندہ ہوتا اور خاموشی سے اٹھارہ روپے گز کے حساب سے کپڑا خرید کر خوشی خوشی گھر کو چل پڑتا۔ اس طرح دوکاندار اپنا حقیقی طور پر دس روپے گز خریدا ہوا کپڑا ٹیکنیکل جھوٹ کی بنیاد پر اٹھارہ روپے گز بیچ دیتا کہ وہ قسم کھا کر ثابت کر چکا ہوتا تھا کہ اس نے یہ کپڑا خود سولہ روپے گز کے حساب سے خریدا ہے۔
قارئین! آپ سوچ رہے ہوںگے کہ میں آخر یہ قصے کیوں لے بیٹھا ہوں؟ اور میرا ٹیکنیکل جھوٹوں پر مبنی ان قصوں سے کیا تعلق ہے اور کیا مقصد ہے؟ دراصل مجھے یہ قصے گزشتہ چار پانچ دن سے بڑی شدت سے یاد آ رہے ہیںجب وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے فرمایا کہ میرا بیرون ملک ایک روپے کا کاروبار ہے اور نہ ہی کوئی جائیداد ہے۔
اس سے پہلے ان کے عزیزان حسن نواز‘ حسین نواز اور مریم نواز وغیرہ پاناما لیکس کے بعد آف شور کمپنیوں‘ جدہ کی سٹیل ملز اور لندن کے فلیٹس اور پراپرٹی کے بارے میں بھی اسی قسم کے ٹیکنیکل جھوٹ مارتے ہوئے ٹیکنیکل ناک آئوٹ ہو چکے ہیں کہ فریقین نے ان ٹیکنیکل جھوٹوں کی ریہرسل بھی نہیں کی تھی اور اپنے نوٹس بھی نہیں ملائے تھے۔ ہر ایک نے علیحدہ علیحدہ بیان بنایا اور ایک دوسرے کے بیانات کو اپنے بیانات سے رد کرتے ہوئے سارا معاملہ مشکوک ہی نہیں بنایا سرے سے خراب کر دیا۔
تاہم اپنے وزیر خزانہ کیونکہ اکائونٹنٹ ٹائپ آدمی ہیں اور بہی کھاتے برابر کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں کہ اکائونٹنگ سسٹم میں ''ٹرائل بیلنس‘‘ ملانا ہی وہ بنیادی اکائی ہے جس پر سارے اکائونٹنگ سسٹم کی بنیاد رکھی ہوئی ہے۔ ایک پیشہ ور اکائونٹنٹ ہونے کے ناتے جناب اسحاق ڈار نے سارا ٹرائل بیلنس ملا کر اسمبلی میں بیان دیا ہے اور سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے بچوں کو سختی سے منع کر دیا ہے کہ وہ الحمد للہ کہتے ہوئے اپنی سمجھداریاں نہ ماریں اور منہ بند رکھیں۔ سارا معاملہ میں خود دیکھ لوںگا۔
اب صورت حال یہ ہے جناب اسحاق ڈار کے بچے ان کے کروڑوں کے مقروض ہیں اور جناب والا محترم کے انہی کروڑوں روپے والے قرضے پر انہوں نے دبئی میں کاروبار بھی جمایا ہوا ہے اور جائیداد بھی خریدی ہوئی ہے۔ اب یہ جائیداد ان کے اپنے نام پر تو ہے نہیں اور نہ ہی بزنس ان کے نام پر ہے۔ ساری جائیداد اور کاروبار ان کے بچوں کے نام ہے اور یہ بچے ان کے کروڑوں روپے کے قرضدار ہیں۔ ظاہر ہے قرض دینے کے لیے اپنے بیٹوں سے زیادہ مستحق شخص بھلا کون ہو سکتا ہے؟
پیسہ ابا جی کا ہے۔ بچے قرضدار بھی ہیں اور صاحب جائیداد و کاروبار بھی ہیں۔ اباجی کے نام پر بیرون ملک نہ کوئی کاروبار ہے اور نہ ہی جائیداد ہے۔ کپڑے کے تاجر نے اپنے گھر میں ہی ایک دوسرے سے کپڑا خرید کر قیمت خرید طے کر لی تھی‘ اسی طرح جناب اسحاق ڈار اور ان کے بیٹوں نے گھر میں ہی ایک دوسرے کو قرض دے کر اپنی جان چھڑوا لی ہے اور اسی قرض سے بچے دبئی میں بزنس چلا رہے ہیں‘ جائیدادیں خرید رہے ہیں اور موج میلا کر رہے ہیں۔ بچوں کو سارے کاموں کے لیے قرض دینے والے وزیر خزانہ اسمبلی کے فلور پر فرماتے ہیں کہ ان کی بیرون ملک نہ کوئی جائیداد ہے اور نہ ہی کوئی کاروبار۔
میں نے کہا ہے کہ اب ٹیکنیکل جھوٹ زیادہ ٹیکنیکل انداز میں بولا جا رہا ہے۔ چاچا محمد دین پٹواری کے قصے تو ان قصوں کا عشر عشیر بھی نہیں کہ وہ بمشکل ہزاروں روپے کے معاملات ہوتے تھے‘ یہاں کروڑوں اربوں کا معاملہ ہے۔ ملک عزیز کی روایت ہے کہ معاملہ جتنا بڑا ہو اس کے دبنے اور ختم ہونے کے امکانات اتنے ہی زیادہ روشن ہوتے ہیں۔ اس معاملے کو بھی آپ ختم ہی سمجھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں