"KMK" (space) message & send to 7575

دسواں مریض اور چوتھا مارشل لاء

پاکستان اور ترکی کی جمہوریت کا موازنہ کرنے والے صرف احمق نہیں بہت ہی بڑے احمق ہیں۔ یوں سمجھیں احمقوں کے آئی جی ہیں، جو صرف جمہوریت کے نام کو سامنے رکھ کر دونوں ملکوں کے معروضی حالات کا موازنہ کرتے ہوئے محض اس لفظ ''جمہوریت‘‘ کے طفیل سارے معاملات کو برابر قرار دے دیتے ہیں۔ پاکستان میں عملی طور پر تین مارشل لاء لگے۔ پہلا ایوب خان کا مارشل لائ، یحییٰ خان والا مارشل لاء ایوب خان والے مارشل لاء ہی کی توسیع تھی۔ دوسرا ضیاء الحق کا مارشل لاء اور تیسرا پرویز مشرف والا۔ ان تینوں مارشل لاؤں کو عوام نے دل و جان سے قبول کیا، مٹھائیاں تقسیم کیں، بھنگڑے ڈالے، سیاستدانوں نے مارشل لاء لگانے والوںکو اپنی ہر طرح کی مدد فراہم کی، مارشل لائی اقدامات کو سراہا۔ صرف وہ فریق تنگ و پریشان ہوا جس کی حکومت کا خاتمہ ہوا تا ہم اس میں ایوب خان والے مارشل لاء میں فارغ ہونے والے سکندر مرزا کی چونکہ کوئی گھر کی پارٹی نہیں تھی اور نہ ہی اس کا خاندانی جمہوری نظام تھا اس لیے اسے یاد کرنے والا نہ کوئی تب تھا اور نہ اب ہے؛ تا ہم بھٹو صاحب کی آل اولاد اور پارٹی موجود ہے، لہٰذا پانچ جولائی کو وہ یوم سیاہ منا لیتے ہیں اور میاں نواز شریف اینڈ کمپنی بارہ اکتوبر کو اپنے دل کے پھپھولے پھاڑ لیتے ہیں۔ ان مارشل لاؤں میں فارغ ہونے والی پارٹی کے سوا دیگر تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے اور مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کم ازکم آخری دونوں مارشل لاؤںکو تو بڑے جوش و خروش سے خوش آمدید کہا۔
ترکی میں فوجی حکومت اور سول حکومت میں فوجی مداخلت اور باقاعدہ حصہ داری کی تاریخ پاکستان سے زیادہ پرانی اور مضبوط ہے۔ ویسے تو کمال اتاترک کا سارا دور حکومت ہی مارشل لاء ٹائپ تھا جس میں مخالفین کو اور خصوصاً اسلام پسندوں کو قید و بند کی صعوبتوں کے لامتناہی سلسلے کا سامنا کرنا پڑا۔ ترکی میں اسلام کی ماڈرن سائنس اور جدید علوم کے تناظر میں تشریح کے حوالے سے بہت بڑا نام اور ماڈرن ترکی میں احیائے اسلام کے سب سے نمایاں نام بدیع الزمان سعید نورسی کو پہلے وزارت کی پیشکش کی گئی اور انکار پر جیل میں ڈال دیاگیا ۔ سعید نورسی کو حضرت ابراہیمؑ کے مقبرے کے احاطے میں دفن کیا گیا تو حکومتی اہلکاروں نے ان کی میت وہاں سے نکال کر کسی نا معلوم جگہ پر دفن کر دی۔ اتاترک کا سارا دور اسی طرح کا تھا؛ تاہم ترکی میں باقاعدہ پہلا مارشل لاء 1960ء میں جنرل جمال گرسل نے 
لگایا اور صدر جلال بایار کو فارغ کیا اور منتخب وزیراعظم عدنان مندریس کو پھانسی دے دی گئی۔ اسی طرح 1971ء میں صدر ڈیمرل کو فوج کے سربراہ نے مستعفی ہونے کا حکم دیا اور براہ راست مارشل لاء لگانے کے بجائے فوج کی براہ راست نگرانی میں نئی حکومت تشکیل دی گئی اور فوج اس حکومت میں باقاعدہ حصہ بن کر حکم چلاتی رہی۔ 1980ء میں صدر سلمان ڈیمرل کی نو منتخب حکومت محض پانچ دن بعد ہی فارغ کر دی گئی اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل کنعان ایورن نے عنان اقتدار سنبھال لی۔ فوج کا ترکی کی حکومت پر یہ قبضہ تین سال تک تو براہ راست رہا؛ تاہم اس کے بعد جنرل کنعان ایورن آئین میں ترمیم کر کے ترکی کے صدر بن گئے اور سات سال تک مطلق العنانی سے حکومت کرتے رہے۔ اس مارشل لاء کے دوران پانچ سو سترہ لوگوں کو سزائے موت سنائی گئی اور ان میں سے پچاس کو پھانسی دی گئی۔ پچاس ہزار کے قریب سیاسی کارکن جیلوں میں ڈالے گئے جن میں سے 299 کی موت سلاخوں کے پیچھے ہوئی۔ چار سو صحافیوں کو مجموعی طور پر تین ہزار تین سو پندرہ سال کی قید سنائی گئی۔ تین سو دن تک کوئی اخبار شائع نہ ہوا۔ چودہ لوگ جیل میں بھوک ہڑتال سے مرے۔ تینتالیس لوگوں کے بارے کہا گیا کہ انہوں نے جیل میں خودکشی کی ہے۔ دیاربکر کی جیل کو باقاعدہ مارشل لاء کی جیل قرار دیا گیا۔ آٹھ سال بعد اس جیل کو دوبارہ وزارت انصاف کے کنٹرول میں دے دیا گیا۔ اسی دوران ترکی میں جزوی طور پر مارشل لاء کا بھی اطلاق ہوتا رہا ہے۔ 1978ء میں ترکی کے تیرہ صوبوں میں مارشل لاء لگایا گیا جو نو ماہ بعد بڑھا کر بیس صوبوں میں نافذکر دیا گیا۔ ان تین مکمل اور کئی جزوی مارشل لاؤں کے دوران نہ کہیں سے عوامی احتجاج ہوا اور نہ ہی بڑے پیمانے پر کوئی مزاحمت ہوئی۔ ایک لحاظ سے ترک قوم اقتدار میں فوجی حصہ داری اور مداخلت کی عادی تھی۔ اس سلسلے میں ترکی کے آئین میں آرٹیکل 119 اور 120 آئینی طور پر ''سٹیٹ آف ایمرجنسی‘‘ اور آرٹیکل 120 مارشل لاء کے نفاذ کے بارے میں ہے، جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ فوج کی قائم کردہ نیشنل سکیورٹی کونسل کا کردار فیصلہ کن تھا۔ 1960ئ، 1971ء اور 1980ء کے مارشل لاء کے دوران کہیں 
بڑے پیمانے پر کوئی مزاحمت یا عوامی ردعمل کا مظاہرہ دیکھنے میں نہ آیا۔ آخر اچانک ترک قوم کو 2016ء میں ہی مارشل لاء کے نفاذ کے خلاف سڑکوں پر آنے کی جرأت اور ہمت کیونکر ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی بار انہیں احساس ہوا کہ فوج کی مداخلت ان کو جمہوریت سے ملنے والے فوائد، ترقی، خوشحالی اور بہتر طرز زندگی سے محروم کر دے گی۔
ترکی میں عوام نے فوجی مداخلت کے خلاف مزاحمت کیوں کی؟ وجہ یہ ہے کہ انہیں جمہوریت کے طفیل گزشتہ دس بارہ سال میں وہ کچھ ملا جو انہیں پہلے کبھی نصیب نہ ہوا تھا۔ ترکی یورپ کا ''مردِ بیمار‘‘ کہلاتا تھا، لیکن حالیہ جمہوری دور نے ترکی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ 2002ء سے 2012ء کے دوران دس سال میں ترکی کی ترقی کی رفتار محیر العقول رہی اور ملکی جی ڈی پی میں مجموعی طور پر 64 فیصد اور فی کس آمدنی میں 43 فیصد اضافہ ہوا۔ جب اردوان نے حکومت سنبھالی تو ترکی پر آئی ایم ایف کے قرض کی رقم ساڑھے تیئس ارب ڈالر تھی جو 2012ء میں محض اعشاریہ نو ارب ڈالر رہ گئی۔ ترکی نے اس دوران فیصلہ کیا کہ وہ اب آئی ایم ایف سے مزیدکوئی معاہدہ نہیں کرے گا۔ بعدازاں ترکی نے یہ بقیہ رقم بھی ادا کر دی اورکہا کہ اگر آئی ایم ایف چاہے تو ترکی سے ادھار لے سکتا ہے۔ ادھر یہ عالم ہے کہ کشکول توڑنے کے دعوے کیے، قرض اتارو ملک سنوارو کے خوشنما نعرے پر عوام سے پیسے حاصل کیے اور عالم یہ ہے کہ کشکول ٹوٹنے کے بجائے کئی گناہ بڑا ہو گیا اور صرف موجودہ حکومت کے دوران (جو گلے پھاڑ پھاڑ کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے جان چھڑاوانے کے نعرے لگاتی تھی) ملکی قرضوں کا کل حجم پینسٹھ ارب ڈالر ہے اور بقول خود اسحاق ڈار کے، گزشتہ اڑھائی سال میں موجودہ حکومت نے پندرہ ارب ڈالر سے زائد قرض لیا ہے۔ بات ہو رہی تھی ترکی کی معاشی ترقی اور قرضوں سے جان چھڑوانے کی۔ طیب اردوان نے جو کہا وہ کر کے دکھایا اور آئی ایم ایف کا کشکول نعروں کے بجائے واقعی توڑ کر دکھا دیا۔
ہم اپنے زرمبادلہ کے ذخائر تیئس ارب کر کے خوشی سے کودتے پھر رہے ہیں۔ ترکی کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 2002ء میں ساڑھے چھبیس ارب اڈلر تھے۔ 2011ء میں یہ ذخائر بیانوے ارب اور آج یہ ذخائر ایک سو تیرہ ارب ڈالر ہیں۔گزشتہ دس سال میں ترکی میں ہوائی اڈوں کی تعداد چھبیس سے پچاس ہو چکی ہے اور ادھر ہم عرصے سے بند، بنوں ائرپورٹ کو کھولنے کا اعلان کرکے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ بنوں میں نیا ائرپورٹ بنائیں گے۔ وہاں اردوان نے دس سال میں چوبیس نئے ائرپورٹ عوام کے لیے کھولے ہیں، ادھر یہ عالم ہے کہ میانوالی، بنوں، راولا کوٹ، مظفر آباد، سید و شریف، میرپورخاص اور حیدرآباد کے علاوہ بلوچستان کے کئی ایسے ائرپورٹ بند ہو چکے ہیںجو چند سال پہلے باقاعدہ پروازوں کے لیے فنکشنل تھے۔
اِدھر ہمارے حکمران فیصل آباد ملتان موٹروے گزشتہ آٹھ سال میں مکمل نہیں کروا سکے، ادھر رجب طیب اردوان کے دور حکومت میں ترکی میں تیرہ ہزار پانچ سو کلومیٹر موٹرویز تعمیر ہوئیں۔ ہم چین سے قرض لے کر لاہور میں اورنج ٹرین چلانے کا تیر مار رہے ہیں جبکہ ترکی میں ہائی سپیڈ ٹرین متعارف کروائی گئی اور نہ صرف یہ کہ پرانی ساڑھے پانچ ہزار کلومیٹر ریلوے لائن کو اپ گریڈ کر کے اسے ہائی سپیڈ ٹرین کے قابل کیا بلکہ مزید گیارہ سوکلو میٹر ریلوے لائن بچھائی۔ اس سے پورے ترکی کے عوام مستفید ہو رہے ہیں، نہ کہ اورنج ٹرین کی طرح جس سے صرف اہل لاہور کو سفری سہولت حاصل ہوگی۔
اردوان نے ترکی کے غریب عوام کے لیے مفت علاج معالجے کی غرض سے ''گرین کارڈ‘‘ کا اجرا کیا جس سے ترکی کے کم آمدنی والے ہر فرد کو مفت علاج کی سہولت میسر آ گئی۔ ادھر یہ عالم ہے کہ آج بھی سرکاری ہسپتالوں کے ایک ایک بستر پر دو دو تین تین مریض پڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ ہو رہا ہے کہ پنجاب کے سارے سرکاری سکول پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیے جا رہے ہیں جبکہ ترکی میں ملکی تعلیمی بجٹ جو 2002ء میں ساڑھے سات ارب ترکی لیرا تھا 2011ء میں چونتیس ارب لیرا ہو چکا تھا۔ اس دوران ترکی میں سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد اٹھانوے سے ایک سو چھیاسی ہو چکی ہے۔ ترکی کے عوام جمہوریت کے لیے اس کارن باہر نکلے تھے کہ وہ اس جمہوریت سے پوری طرح فیض یاب ہو رہے تھے نہ کہ ہماری طرح ذلیل و خوار لوگ پوچھتے ہیں کہ ترکی کے عوام نے یہ بہادری کیسے دکھائی؟ جب تک ترکی کی جمہوریت کے فیوض و برکات عوام تک نہیں پہنچے تھے انہیں جمہوریت کو بچانے کے لیے اپنی جان داؤ پر لگانے کی نہ تو ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی وہ پہلے کسی مارشل لاء کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے۔ ہماری جمہوریت نے زرداری کو سرے محل، گیلانی کو اربوں کا نقد کیش، میاں نواز شریف کو لندن میں اربوں کی پراپرٹی، اسحاق ڈار کے بچوں کو دبئی میں اربوں کی جائیداد اور کاروبار اور فریال تالپورکو ہر چیز میں کمیشن سے نوازا۔ یہاں کی جمہویت کے لیے کون باہر نکلے گا؟
ایک ڈاکٹر کے پاس ایک خطرناک بیماری میں مبتلا مریض آیا۔ ڈاکٹر نے اسے ہسپتال میں داخل کیا۔ اس کے وارث پوچھنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب یہ بچ تو جائے گا؟ ڈاکٹر نے نہایت یقین سے کہا کہ ضرور بچ جائے گا۔ اس مرض میں دس میں سے ایک مریض ہی بچتا ہے۔ اس سے پہلے والے نو مر چکے ہیں اس لیے یہ ضرور بچ جائے گا۔ میاں نواز شریف نے بھی حساب لگایا ہے کہ ترکی میں تین مارشل کے بعد چوتھا نا کام ہو گیا ہے لہٰذا یہاں بھی چوتھا مارشل لاء اگر لگانے کی کوشش کی گئی تو ترکی کی طرح نا کام ہو گا۔
ترکی میں مارشل لاء محض جمہوریت کے ان فوائد کے باعث نا کام ہوا ہے جس سے ترک عوام فیض یاب ہو رہے تھے۔ پاکستان کے عوام کو اور پاکستان کو آپ وہ دے دیں جو ترکی کی حکومت اور جمہوریت نے دیا ہے تو آپ کو کسی چیز کا رتی برابر خوف نہیں ہونا چاہیے۔ اوّل تو کھمبوں پر بینر اور فلیکس لگانے کی کوشش ہمت نہیں کرے گا اور اگر لگا دیں تو کوئی پروا نہیں کرے گا۔ جمہوریت کے فوائد کا بہاؤ عوام کی طرف موڑیں اور مزے کریں۔ آزمائش شرط ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں