"KMK" (space) message & send to 7575

راجہ ہوا بیوپاری، تو پر جاہوئی بھکاری

گزشتہ روز حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی تازہ ترین کاروائیوں کے خلاف سرکاری سطح پر ''یوم سیاہ‘‘ منا کر پاکستان سے مایوس ہوتے کشمیریوں کو تھوڑا دلاسہ دیا ہے۔ پوری وادی میں ایک بوڑھا ہم سب کی غیرت کو اپنی ثابت قدمی سے کچو کے نہیں جوتے مار رہا ہے۔ ستاسی سالہ سید علی گیلانی جبرواستبداد کے کربلا میں حسینؓ کی سنت ادا کر رہا ہے اور عالم یہ ہے کہ اس کے بعد دور دور تک کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو اس کے اُٹھائے ہوئے پرچم کو اس کے بعد اُٹھانے کی ہمت رکھتا ہو۔ مایوسی گناہ ہے اور قادر مطلق کی طاقت بے انداز۔ جہاں آہستہ آہستہ دبتی ہوئی تحریکِ آزادی کشمیر کو برہان مظفر وانی جیسا نوجوان اپنی جان دے کر ایک بار پھر زندہ کر دیتا ہو بھلا وہاں مالک کائنات سے کیا بعید ہے؟۔
صرف اکیس سالہ برہان مظفر وانی نے تحریک آزادی کشمیر میں نہ صرف یہ کہ ایک بار جان ڈال دی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھارتی مظالم کو اس طرح بے نقاب کیا ہے کہ سوشل میڈیا کی منافقت کو بھی سب پر آشکار کر دیا ہے۔ بھارت کے زیر اثر سوشل میڈیا جس میں ٹوئیٹر، واٹس ایپ اور دوسرے کئی سوشل میڈیا گروپس شامل ہیں وانی سے متعلق پوسٹیں بلاگ کر رہے ہیں اور ایسی تصویریں یا پیغامات لگانے والوں کے اکاؤنٹ بلاک کر رہے ہیں۔ آزادی اظہار کے دعویدار جو حضور اکرم ﷺ کے بارے میں گستاخانہ خاکے اور تحریریں تو اس نام نہاد آزادی اظہار کے نام پر نہیں اُتارتے تھے مگر اب بھارت کی ناراضگی کا خوف پیدا ہوا ہے تو آزادی اظہار کے غبارے سے ساری ہوا نکل گئی ہے۔ ہمارے نوجوان لبرلز جو یہ دلیل دیتے تھے کہ گستاخانہ خاکوں کا مسئلہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور سوشل میڈیا مذہب، ذات پات، رنگ و نسل اور قومیت کے بجائے انسانیت پر یقین رکھتا ہے اور محض ایک مذہب کے ماننے والوں کے خلاف یا حق میں نہیں بلکہ غیر جانبدار ہے۔ اور یہ لبرلز معاملات پر احتجاج کرنے والوں کو تمسخر سے مشورہ دیتے تھے کہ اگر آپ کو اتنا ہی اعتراض ہے تو آپ سوشل میڈیا پر یہ چیزیں دیکھنا بند کر دیں، آپ فیس بک وغیرہ کا استعمال بند کردیں۔ صرف آپ کی وجہ سے ملک میں یوٹیوب اتنا عرصہ بند رہا ہے اب محض بنیاد پرست مسلمانوں کی خاطر سارا سوشل میڈیا بلاک تو نہیں کیا جا سکتا۔ اب سوشل میڈیا کے مالکان کی ساری منافقت، بے ایمانی اور جانبداری کھل کر سامنے آ گئی ہے اب آزادیٔ اظہار کے سارے دعویدار اور علمبردار خاموش ہیں کہ یہ بھی اتنے ہی منافق، جھوٹے، بے ایمان اور جانبدار ہیں جتنا کہ عالمی سوشل میڈیا اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا۔
محض اکیس سالہ برہان مظفر وانی نے وادی میں ایک بار پھر آزادی کی جوت جگا دی ہے اور اب اس کی حمایت وہ لوگ بھی کر رہے ہیں جو مسلح مزاحمت کے حامی نہ تھے۔ برہان وانی ضلع پلوامہ کے علاقہ ترال کے ایک چھوٹے سے گاؤں دادسرہ میں پیدا ہوا۔ پندرہ سال کی عمر میں حزب المجاہدین میں شامل ہوا اور وہاں بھی اس کی شہرت بطور جنگجو کمانڈر نہ تھی بلکہ وہ کشمیر کی آزادی کی ساری جنگ سوشل میڈیا پر لڑ رہا تھا۔ بھارتی مظالم کی تصویریں، ویڈیوز اور پیغامات اس کا ہتھیار تھے۔ وہ پوری دنیا کو عموماً اور مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں بالخصوص متاثر کر رہا تھا۔ وہ بھارت کو شدت سے مطلوب تھا مگر وہ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ سرکار نے اس کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے رکھی ہوئی تھی مگر وہ زیادہ باہر نکلتا ہی نہیں تھا کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں اسے تلاش کر پاتیں۔ تنگ آکر بھارتی سیکورٹی اداروں نے اس کے بڑے بھائی خالد مظفر وانی کو اس کے تین دوستوں کے ہمراہ پکڑ لیا اور خالد وانی کو تیرہ اپریل 2015ء کو شہید کر دیا۔ بھارتی فوج کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے ان تینوں دوستوں کو حزب المجاہدین میں بھرتی کروانے کی غرض سے اپنے چھوٹے بھائی برہان وانی کے پاس لے جا رہا تھا کہ راستے میں فوج کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا تھا تا ہم علاقے کے لوگوں اور خالد وانی کے گھروالوں نے اس الزام کی تردید کی کہ وہ حزب المجاہدین میں دوستوں کو بھرتی کروانے جا رہا تھا۔ بھارتی فوج سے جھڑپ میں مارے جانے کی ساری کہانی یکسر غلط تھی کہ خالدوانی کے جسم پر گولی لگنے کا یا اس نوعیت کا کوئی زخم نہ تھا البتہ سارے جسم پر تشدد کے نشانات ضرور تھے۔ خالد وانی شہید کو ترال میں سپردخاک کر دیا گیا۔
آٹھ جولائی 2016ء کو برہان وانی کو ایک پلاننگ کے تحت شہید کیا گیا۔ وہ اپنے دو ساتھیوں سرتاج احمد شیخ اور پرویز احمد لشکری کے ہمراہ کو کرناگ کے علاقے میں موجود تھا۔ بھارتی سپیشل آپریشن گروپ اور راجستھان رائفلز نے اطلاع ملنے پر ایک مکان کا محاصرہ کیا اور بقول ان کے مکان کے اندر سے دو گھنٹے تک مزاحمت ہوتی رہی اور آخر کار برہان وانی اپنے دونوں ہمراہیوں سمیت مقابلے میں مارا گیا۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ساری کہانی جھوٹ پر مبنی ہے۔ انہیں یہاں برہان وانی کی موجودگی کا کوئی علم نہ تھا۔ سیکورٹی ایجنسیز کے لوگ یہاں آئے اور کہا کہ وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر محبوبہ مفتی نے یہاں کوئی افتتاح کرنا ہے اس لیے ہم اس کا جائزہ لینے آئے ہیں۔ انہوں نے سارے علاقے کو اپنے گھیرے میں لے لیا جس میں یہ مکان بھی شامل تھا۔ اس مکان میں موجود تینوں نوجوانوں نے فرار ہونے کی کوشش کی مگر فائرنگ سے موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ 
نوجولائی کو برہان مظفر وانی کی نماز جنازہ تھی۔ یہ نماز جنازہ ہی دراصل اس ساری تحریک کا نقطہ آغاز تھا جس نے ایک بار پھر عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کی سنگینی کا احساس دلایا ہے۔ ترال میں برہان کی نماز جنازہ میں اندازاً دو لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ یہ کسی جنازے پر آج تک سب سے زیادہ تعداد میں شرکت تھی۔ اس نماز جنازہ میں پوری وادی سے لوگوں نے شرکت کی اور اس میں ہر مکتب فکر کے لوگ شامل تھے۔ حزب المجاہدین کے عسکری ونگ کے لوگوں نے برہان مظفر وانی کو اکیس فائر کر کے سلامی دی۔ برہان وانی کی میت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر اس کے شہید بھائی خالد وانی کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔ برہان وانی کی شہادت کی خبر پورے کشمیر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور وادی میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ یہ بے چینی پورے مقبوضہ کشمیر میں پھیل گئی۔ علیحدگی پسند جماعتوں نے ہڑتال اور مکمل شٹر ڈاؤن کی اپیل کی اور یہ آگ مزید علاقوں میں پھیلتی گئی۔
آج کشمیر ایک بار پھر اسی مقام پر کھڑا ہے جس پر ہمارے حکمرانوں کی بزدلی کی داستان شروع ہونے سے پہلے کھڑا تھا۔ صرف ایک بوڑھا شیر ہے جو آج بھی ستاسی سال کی عمر میں ثابت قدمی کی اسی منزل پر ہے جس پر دو عشروں پہلے کھڑا تھا۔ نہ اس کے پائے استقامت میں کوئی لغزش آئی ہے اور نہ ہی پاکستانی حکمرانوں کی بزدلی کے باوجود ر وہ اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹا ہے۔ کبھی ہمارے حکمران بیک ڈور ڈپلومیسی کے نام پر کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر ایک بالکل مختلف معاملہ ہے اور بھارت سے تعلقات ایک دوسرا معاملہ ہے۔ کشمیر پر اگر بھارت ہم سے مذاکرات کی میز پر نہیں آتا تو یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے اور بھارت سے تجارت ایک مختلف مسئلہ ہے اور مذاکرات میں تعطل کے باوجود تجارت بحال رہنی چاہیے۔ وہ تو شکر ہے پنڈی والوں کے طفیل معاملہ رک گیا وگرنہ میاں صاحب کو تو بھارت کو پسندیدہ ترین قوم یعنی موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کی اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی اس کی تیاری شروع کر دی تھی۔ پنڈی والوں سے زیادہ میں تو شکر گزار ہوں بھارتی قوم پرستوں کا جنہوں نے حالات ہی اتنے بگاڑ دیے کہ حکمرانوں کو بھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ اپنی خواہش کو عملی جامہ پہناتے۔ وگرنہ آج بھارت ہمارا سرکاری طور پر پسندیدہ ترین ملک ہوتا۔ ایک طرف وہ ہماری شاہ رگ کاٹ رہا ہے، ہمارا پانی بند کر رہا ہے، بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو مالی، مادی اور افرادی طاقت فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان میں را کے زیر انتظام جاسوسی نیٹ ورک اور علیحدگی کی تحریکوں کے علاوہ براہ راست دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ ڈیمز کی تعمیر سے لے کر گوادر پورٹ اور سی پیک سے لے کر دریاؤں کے پانی تک۔ بھارت ہر جگہ ہمیں نقصان پہنچانے کے درپے ہے اور ہماری یہ حالت ہے کہ ہمارے حکمران آج بھی بھارت کی محبت میں بچھے جا رہے ہیں۔ اس کی واحد وجہ صرف یہ ہے کہ تاجر اور کاروباری اگر حکمران بھی بن جائے تو بنیادی طور پر وہ تاجر اور کاروباری ہی رہتا ہے اور اپنی حکمرانی کو ملک و قوم کی بہتری اور ترقی کے بجائے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنے ذاتی کاروبار کو ترقی دینے کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ ایک قدیم مقولہ ہے کہ ''راجہ ہوا بیوپاری، تو پرجا ہوئی بھکاری‘‘آج ہمارے حکمران امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور عوام سے لے کر ملک تک غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ ملک ہر روز قرضے کے نئے بوجھ تلے دب رہا ہے اور حکمرانوں کی دولت پر روز دن دوگنی رات چوگنی کے بجائے دن آٹھ گنی اور رات سولہ گنی بڑھتی جا رہی ہے۔
میں مایوس نہیں مگر سوچتا ہوں کہ کشمیر میں اس ایک بوڑھے کی تواتا آواز اگر اس جہان سے رخصت ہو گئی تو کون ہے جو اس آواز کو جاری رکھے گا اور اس پرچم کو تھامے گا؟ کون ہو گا جو الحاق پاکستان کا نعرہ مستانہ لگائے گا اور ''کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کی آواز بلند کرے گا؟ رہ گئے ہمارے حکمران تو وہ محض ہوا کا رُخ دیکھ کر مجبوراً یوم سیاہ بھی مناتے ہیں اور مارے پھنسے تقریر بھی فرماتے ہیں مگر ان کی اصل نیت ان کے کالے کوٹ والے مجبوری مارے بیان سے نہیں بلکہ کالی واسکٹ والی تقریر سے اخذ کی جانی چاہیے۔ کالی واسکٹ والی تقریر کا کچھ حصہ اگلے کالم میں۔ فی الحال آپ پرسوں رات والے بیان سے لطف لیں جو کالا کوٹ پہن کر دیا گیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں