"KMK" (space) message & send to 7575

ایک شرپسند کے سوالات اور اصولوں کی پاسداری

سفرکا معاملہ ایسا ہے کہ جان سے چمٹ کر رہ گیا ہے۔ اس کار مسلسل کے دوران بے شمار کام کرنے کا ہنر بھی آ گیا ہے بلکہ کرنے سے زیادہ کروانے کا ہنر۔ تاہم کالم لکھنا اب بھی ایک مشکل مرحلہ ہے جو حسب منشا طے ہونے میں نہیں آ رہا۔ اسلام آباد میں امل کی شادی کے دوران گھر میں بیٹھ کر لکھنے کی جگہ میسر نہ تھی کہ ایسی ہرجگہ کو سونے والی جگہ میں تبدیل کیا جا چکا تھا۔ واپسی پر مسلسل ڈرائیونگ، قریب آٹھ گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد رات دواڑھائی بجے ملتان پہنچا۔ اگلے روز سارا قت سامان اکٹھا کرنے اور باندھنے میں لگ گیا۔ پھر ملتان سے لاہور کا سفر اور لاہور سے مانچسٹر اور یہاں صبح سے رات گئے تک کی مصروفیات، نیند بھی بمشکل پوری ہو رہی ہے۔
سوالات کا یہ عالم ہے کہ صبح سے رات گئے تک ہرملنے والا صرف اور صرف سوالات کرتا ہے۔ دل کرتا ہے کہ لاعلمی کا ایک بورڈ لکھ کر گلے میں لٹکا لوں کہ شاید اس طرح سوالات سے نجات مل جائے مگر گمان غالب ہے کہ دوست اس بورڈ کے بارے میں اتنے سوالات کریں گے کہ ایک اور نئی مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔ ہم پاکستانی کہیں بھی ہوں پاکستان کے بارے میں فکرمند ضرور رہتے ہیں۔ چاہے پاکستان کے لیے کچھ نہ کریں، کرائیں پاکستان کے بارے متفکر ضرور رہتے ہیں۔ سوالات کرنے والوں کی دوبنیادی اقسام ہیں۔ ایک وہ جن کو واقعی سوالات کے جوابات درکار ہوتے ہیں اور دوسری قسم وہ ہے جو سوال محض اس لیے کرتے ہیں کہ آپ کے جواب کو غلط قراردے کر اور مسترد کرکے اپنا جواب آپ پر مسلط کرسکیں۔ سوال کرنے والوں کہ یہ والی قسم خاصی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ پہلے سوال کریں گے، پھر آپ کا جواب سن کر انکار میں سر ہلائیں گے اور پھر فتویٰ لگائیں گے کہ آپ کو اصل بات کا تو پتا ہی نہیں ہے، درحقیقت معاملہ ویسا نہیں جیسا آپ سمجھ رہے ہیں۔ پھراس کے بعد اپنا طویل تھیسس پیش کریں گے اور آخر میں آپ کو داد طلب نظروں سے دیکھیں گے۔
میں نے برسوں پہلے یہ بات پلے باندھ لی تھی کہ بیرون پاکستان چند ایک دوستوں کوچھوڑ کر نہ تو سوالات کے غچے میں آ کر بات کو بڑھانا ہے نہ بحث کرنی ہے اور نہ ہی اپنے تبحر علمی کا کوئی الٹا سیدھا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ امریکہ میں شفیق اور برادرم اعجاز اسی قبیل کے دو دوست ہیں جن سے پاکستان کے حالات پر، سیاست پر اور دیگر معاملات پر سیر حاصل گفتگو ہوتی ہے۔ باقی دوستوں اور جاننے والوں سے کسی نہ کسی طور پر جان بچانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں اوراکثر کامیاب رہتا ہوں، تاہم کبھی کبھار مخاطب اپنی خداداد صلاحتیوں کے طفیل میرے ارادے کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ ایسے میں نوے فیصد گفتگو کا انجام فساد پر ختم ہوتا ہے۔ ایسے ہرفساد کے بعد میں دوبارہ نئے سرے سے اور زیادہ پختہ ارادے کے ساتھ بحث نہ کرنے کا تہیہ کرتا ہوں مگر اندر کا جنگجو، جسے کافی محنت سے اور منت ترلے سے ایک نُکّر میں لگایا ہوتا ہے اپنی اصل پر آ جاتا ہے اوراس عاجزکے تمام تر ارادوں کو روند کر رکھ دیتا ہے۔ میں ہر بار اپنے رب سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اپنے ارادوں پرقائم رکھے مگر شاید ابھی قبولیت کا وقت نہیں آیا۔
مانچسٹر میں بھی میرا یہ ارادہ پہلے پہلے کوئی خاص کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتا تھا اور بڑے والا کسی نہ کسی طرح گھیر گھار کر مجھے بحث پر مجبور کر دیتا تھا۔ میں آپ کو بتاتا چلوںکہ مانچسٹر میں، بلکہ مانچسٹر کے قریبی ٹائون آشٹن انڈرلائن میں میری دو بھائیوں سے پرانی یاری ہے۔ ابتدا تو بڑے والے سے ہوئی تھی مگر پھر آہستہ آہستہ چھوٹے والے سے زیادہ یاری ہوگئی، ایسی کہ اب بڑے والا اپنی بات منوانے کے لیے چھوٹے والے کو استعمال کرتا ہے۔ بڑے والا بنیادی طور پر شرپسند اور پنگے باز ہے۔ کسی نہ کسی بہانے کوئی بحث چھیڑ لے گا۔ اگر آپ ارادہ کرلیں کہ بحث نہیں کرنی تو وہ آپ کے اس ارادے کو ملیا میٹ کرنے کے سوگر جانتا ہے۔ کبھی معصوم بن کر، کبھی چیلنج دے کر، کبھی حقیقی علم کا متلاشی بن کر، کبھی آپ کو غصہ دلا کر اور کبھی اتنے احمقانہ سوالات کے ذریعے آپ کے ارادے کا بیڑا غرق کرے گا کہ آپ کو اس کے فریب میں آنے کے کافی دیر بعد پتا چلے گا کہ آپ کس طرح ٹریپ ہو گئے ہیں۔ میں کئی سال تک اس کے ہتھکنڈوں اور چالاکیوں کا شکار ہونے کے بعد اب کافی حد تک اس کے طریقہ واردات سے واقف ہوگیا ہوں اور اب اس کی فریب کاریوں سے خاصا محفوظ ہوں۔
یہاں دن کا بیشتر حصہ ان دونوں بھائیوں کے ساتھ ہی گزارنا ہوتا ہے۔ لہٰذا گفتگو تو لازمی امر ہے، تاہم پاکستان کی سیاست پر گفتگو تقریباً ممنوع ہے اوربڑے والے کو اسی موضوع پر گفتگوکا چسکا ہے۔ پہلے وہ جیالا تھا، پھرمیاں صاحب کے ساتھ ہوگیا۔ میاں نوازشریف کا حمایتی ہونے میں اس کے پاس کوئی خاص دلیل یا وجہ نہیں تھی۔ بس اس کے بڑے بھائی صاحب کیونکہ میاں نوازشریف کے سخت خلاف تھے، لہٰذا وہ محض ان کو ہمہ وقت بحث میں مصروف رکھنے کی غرض سے میاں صاحب کا حامی بن گیا تھا۔ پھر وہ عمران خان کے ساتھ مل گیا لیکن جیسے ہی اسے محسوس ہوا کہ برطانیہ میں عموماً اور اس کے ملنے جلنے والوں میں خصوصاً عمران خان خاصا مقبول ہے تو وہ بحث کی علت کو پورا کرنے کی غرض سے عمران کا مخالف ہوگیا کہ اس کے بغیر بحث مباحثے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ آج کل وہ کسی کے ساتھ نہیں۔ بس وہ ہر اس شخص کا مخالف ہے آپ جس کے حامی ہوں۔
جنرل راحیل شریف کو توسیع مل رہی ہے؟ بڑے والے نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے سوال کیا۔ ابھی جنرل صاحب کی ایکسٹینشن کے کاغذات مرے پاس منظوری کے لیے نہیں آئے، جب آئیں گے تب فیصلہ کروں گا کہ کیا کرنا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اس کی سب سے پہلی اطلاع تمہیں دوںگا۔ میری بات سن کر وہ مسکرایا اور کہنے لگا، ایمانداری کی بات ہے کہ میں یہ سوال بحث برائے بحث کے لیے نہیں کر رہا، خالص علمی حوالے سے کر رہا ہوں۔ میں نے کہا یہ حربہ بہت پرانا ہوگیا ہے۔ تم اپنے اس علمی حوالے کو درجنوں بار''مس یوز‘‘کرچکے ہو اور میں اب اس جھانسے میں آنے والا نہیں ہوں اور آخری بات یہ کہ مجھے واقعتاً کچھ پتہ نہیں، بلکہ میں ہی کیا؟ کسی کو کچھ پتا نہیں۔ سب لوگ ''ٹیوے‘‘ لگا رہے ہیں۔ وہ پوچھنے لگا، کیا ''ٹیوے‘‘ لگا رہے ہیں۔ میں مسکرا دیا۔ کہنے لگا، آپ مسکرائے کیوں ہیں؟ میں نے کہا تم بڑے غیر محسوس انداز میں مجھے ادھر گھسیٹنا چاہ رہے ہو جدھر میں جانا نہیں چاہتا۔ دو بھائی تھے جو پڑھائی سے بھاگتے تھے اور ہر استاد سے کسی نہ کسی طرح اپنی جان چھڑوا لیتے تھے۔ ان کے والدین نے بیسیوں استاد بدلے اور درجنوں حربے آزمائے مگر وہ بچے بڑے کائیاں تھے، ہر بار سرخرو ہو جاتے۔ ایک استاد آیا اور اس نے سوچا کہ ان بچوں کو غیر روایتی انداز میں اس طرح پڑھایا جائے کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہ ہوسکے کہ انہیں تعلیم دی جا رہی ہے۔ استاد پہلے ہی دن آیا تو اس کے پاس کتابوں کے بجائے ایک بڑا سا تھیلا تھا۔ اس نے گھر کے لان میں بیٹھ کر بچوں کو بلایا اور تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ایک خرگوش کا بچہ نکالا اور بچوں سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ چھوٹے بچے نے کہا خرگوش کا بچہ ہے۔ استاد نے شاباش دی اور پوچھا یہ کتنے ہیں۔ بچے نے کہا ایک۔ استاد نے تھیلے سے ایک اور خرگوش کا بچہ نکالا اور بڑے والے سے پوچھا یہ کیا ہے۔ اس نے کہا یہ بھی خرگوش کا بچہ ہے۔ استاد نے اسے لان میں چھوڑا اور پوچھا اب لان میں کتنے خرگوش کے بچے ہیں؟ چھوٹا بولا دو۔ استاد نے ایک اور خرگوش کا بچہ تھیلے سے نکالا اور پوچھا کتنے بچے ہوگئے؟ بڑا بولا تین۔ پھر استاد نے ایک اور خرگوش کا بچہ تھیلے سے نکالا اور پوچھا اب کتنے ہوگئے؟ بڑے بچے نے جواب دیا چار۔ استاد نے ان چار خرگوش کے بچوں میں سے دو اٹھا کر واپس تھیلے میں ڈالے اور پوچھا اب باقی کتنے رہ گئے؟ چھوٹا بچہ بڑے بھائی کو کہنے لگا، نہ بتانا، یہ بہانے بہانے سے ہمیں ریاضی پڑھا رہا ہے۔
سٹنگ روم میں کافی پینے کے دوران بڑے والا مجھ سے پوچھنے لگا، عمران کی ریلی کا کیا بنا؟ میں نے کہا تم ٹی وی لگا کر خود بھی دیکھ لو اور مجھے بھی بتادو۔ پھر پوچھنے لگا یہ نثار علی خان کی پریس کانفرنس کا کیا مقصد تھا؟ میں نے کہا، نثار علی خان کو ہی پتا ہوگا، میرا تو چودھری نثار علی خان سے نہ پہلے کبھی کوئی واسطہ تھا اور نہ اب ہے۔ وہ پھر پوچھنے لگا، یہ بلاول اور ایان کی ٹکٹیں کس اکائونٹ سے خریدی جاتی تھیں؟ میں نے کہا کم از کم میرے اکائونٹ سے تو نہیں خریدی جا رہی تھیں۔ پھر وہ پوچھنے لگا کہ نثار علی نے پریس کانفرنس نواز شریف کے ایما پر کی ہے؟ میںنے کہا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ وہ پوچھنے لگا کیا سردار لطیف کھوسہ نے ایان علی سے فیس لی ہے یا مفت کیس لڑا ہے؟ میں نے کہا آپ لطیف کو اگر رتی برابر بھی جانتے ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ وہ بغیر وصولی کوئی کام نہیں کرتا۔ ادائیگی ایان علی نے نہ کی ہوگی تو کسی اور صورت میں کر دی گئی ہوگی۔ بہرحال وہ مفتے میں کام نہیں کرتا۔ وہ جب گورنرپنجاب تھا ایچی سن کالج میں داخلے کی سیٹیں تک بیچنے کی خبریںگرم تھیں۔ تب وہ بطور گورنر پنجاب ایچی سن کالج کے بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین تھا۔
اس نے کہا یہ جو لطیف کھوسہ نے چودھری نثار علی خان پر ہتک عزت کا کیس دائر کرنے کا اعلان کیا ہے، اس کا کیا بنے گا؟ میں نے کہا اگر کسی نے اس کو اس کیس کی فیس دے دی توکرے گا وگرنہ مفت میں وہ اپنا کیس بھی نہیں لڑے گا۔ رہ گئی بات ہتک عزت کی تو عزیزم! ہتک ہوتی ہے عزت والے کی اور موصوف کے بارے میں ہائی کورٹ کی رولنگ ہے کہ سردار لطیف خان کھوسہ یا اس کے چیمبرکی طرف سے پیش کی گئی کوئی فوٹو کاپی اگر مصدقہ نہیں تو ہرگز قبول نہ کی جائے کیونکہ موصوف ہائی کورٹ میں تحریف شدہ فوٹو کاپی دینے کے جرم میں وارننگ یافتہ ہیں۔ انہوں نے یہ حرکت ایک بار نہیں بلکہ دوبار کی تھی۔ موصوف کے بارے میں ہائی کورٹ کے یہ ریمارکس باقاعدہ اس سال کی قانونی فیصلوں کی کتاب میں درج ہیں اور ہائی کورٹ کے اس حکم نامے کی نقل پاکستان بھر کی عدالتوں کو بھی بھیجی گئی تھی۔ موصوف کی عزت افزائی تو عدالتیں بذات خود کر چکی ہیں۔ اب کون سی ہتک عزت ہو گئی ہے جس پر اتنے سیخ پا ہو رہے ہیں؟ پھر مجھے احساس ہوا کہ میں بلا وجہ بڑے والے کے چکر میں آ کر اپنے ارادے کا ستیاناس کر رہا ہوں۔ میں خاموش ہوگیا حالانکہ اس موضوع پر کہنے کے لیے ابھی بہت کچھ باقی تھا لیکن اصول بھی کوئی چیز ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں