"KMK" (space) message & send to 7575

فطرانہ ‘قطرانہ‘ محمد بن قاسم اور حمد بن جاسم

جج۔قتل کس نے کیا تھا؟
ملزم۔ میں نے کیا تھا۔
جج۔ لاش کہاں ہے؟
ملزم۔ جلادی تھی۔
جج۔ باقیات کہاں ہیں
ملزم۔ لاش راکھ بن گئی تھی
جج۔ راکھ کہاں گئی؟
ملزم۔ مٹی میں ملا دی تھی۔
جج۔ مٹی کہاں ہے؟
ملزم۔ اس کی اینٹیں بنا کرپکا لی تھیں۔
جج۔اینٹیں کہاں ہیں؟
ملزم۔ مکان بنا لیا تھا۔
جج۔مکان کہاں ہے؟
ملزم۔ سیلاب میں بہہ گیا تھا۔
جج۔ملبہ کہاں گیا؟
ملزم ۔ کباڑیے کو بیچ دیا تھا۔
جج۔کباڑیا کہاں ہے؟
ملزم۔اسے قتل کر دیا تھا۔
جج۔قتل کس نے کیا تھا؟
ملزم۔ میں نے کیا تھا۔جج۔لاش کہاں ہے؟
ملزم۔جلا دی تھی۔
جج۔اوئے کمبخت یہ قتل کا کیس چل رہا ہے۔ پانامہ لیکس والا کیس نہیں کہ جہاں سے بات شروع ہوئی تھی گھوم پھر کر وہیں آ گئی ہے۔
پانامہ لیکس‘آف شور کمپنیاں اور لندن میں خریدی گئی اربوں روپے کی جائیداد کے معاملے پر حکمران خاندان کے بیانات دنیا میں اپنی نوعیت کے سب سے انوکھے بیانات ہیں۔ کوئی بیان دیتا ہے کہ ہماری لندن میں جائیداد سرے سے موجود نہیں۔ دوسرا کہتا ہے یہ رقم میں نے سعودی عرب کی فیکٹری کے منافع سے کما کر بھائی کو دی تھی۔ لندن والا الحمد اللہ سے بات شروع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ ہماری جدے والی فیکٹری کو بیچ کر خریدی گئی تھی۔ درمیان میں ایک بیان دیتا ہے کہ ہم تو کرائے پر رہتے رہے ہیں اور کرایہ پاکستان سے آتا تھا۔ خود وزیر اعظم پارلیمنٹ میں‘ جیسے سارے سیاستدان خواہ چور ہوں یا ایماندار(آخری والا لفظ ازراہ مروت لکھ دیا ہے) سب اس بات پر متفق ہیں کہ پارلیمنٹ ''سپریم ہے‘‘ اور اس ایوان کو ہر رکن پارلیمنٹ بڑا مقدس گردانتا ہے۔ پارلیمنٹ میں فلور آف دی ہائوس جھوٹ بولنے کو پوری دنیا میں بڑی نفرت سے دیکھا اور تصور کیا جاتا ہے کہ یہاں جھوٹ بولنا جہاں اس ایوان کی توہین ہے وہیں جھوٹ بولنے والا اخلاقی طور پر اس ایوان کا رکن رہنے کا استحقاق کھو دیتا ہے مگر ہمارے عالی مقام وزیر اعظم صاحب نے اسی ایک ایشو پر دوبار اس ایوان میں اپنی اور اپنی فیملی کو پوزیشن کلیئر کرنے کی کوشش کی۔ تین روز قبل عدالت عظمیٰ میں پیش کیا جانے والا قطری خط اور کچھ ثابت کرے یا نہ کرے مگر یہ بات ضرور ثابت کرتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے پورے ایوان کو اور اس ایوان کی وساطت سے پوری قوم کو گمراہ کیا‘ جھوٹ بولا‘ کذب بیانی کی اور حقائق چھپائے۔
اگر یہ فلیٹس قطر کے شہزادے حمد بن جاسم کے بقول میاں شریف کی وصیت کے مطابق حسین نواز شریف کو 2006میں ‘ یعنی آج سے دس سال قبل منتقل ہوئے تھے تو یہ بات قبلہ میاں محمد نواز شریف کو‘بی بی مریم نواز کو‘ حسن نواز اور بذات خود حسین نواز شریف کو اس خط کے پیش ہونے سے دو دن پہلے تک بھی کیوں معلوم نہیں تھی؟
میاں صاحب کی علالت کے دوران سارا خاندان مل کر لندن میں میٹنگ بھی کرتا رہا اور بیانات بھی پکے کرتا رہا مگر پرانی کہاوت ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے لہٰذا میاں صاحب کے سارے خاندان نے ان فلیٹس کے بارے میں مختلف سٹوری سنائی۔ مزے کی بات ہے کہ ہر سٹوری کا آپس میں رتی برابر بھی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ کسی کے بقول جائیداد ہے ہی نہیں۔ کوئی فرماتا ہے کہ جدے کے کاروبار سے کمائی گئی رقم سے خریدے گئے ہیں۔ کوئی مل بیچ کر لگانے کی بات کرتا تھا اور کوئی کرائے دار تھا۔ یعنی اپنے ہی فلیٹس کا کرایہ پاکستان سے منگوا کر کسی ایسے فراڈیے کو ادا کرتا رہا جو ان فلیٹس کا مالک ہی نہیں تھا کیونکہ ان فلیٹس کا مالک تو عزیزم حسین نواز شریف تھا۔
قطری خط میں پیرا نمبر دو کا آغاز''مجھے بتایا گیا‘‘ سے ہوتا ہے یعنی حمد جاسم کو میاں شریف اور اپنے خاندان کے درمیان 1980ء میں ہونے والے بزنس کے بارے میں بتایا گیا۔ پھر پیرا نمبر پانچ کا آغاز کرتے ہوئے عالی جناب شہزادہ صاحب لکھتے ہیں کہ ''مجھے یاد پڑتا ہے کہ اپنی زندگی میں میاں محمد شریف نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پراپرٹی بزنس میں ان کی تمام سرمایہ کاری اور اس کے منافع کا حقدار حسین نواز شریف ہو گا۔
ایمانداری کی بات ہے کہ میں کبھی میاں شریف مرحوم سے نہیں ملا مگر جو سنا ہے اس کے مطابق یہ خود ساختہ وصیت میاں محمد شریف مرحوم پر ایک ایسا الزام ہے جس کی تردید وہ عالم بالا سے نہیں کر سکتے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ جو شخص اپنے مشترکہ کاروبار کو اپنی زندگی میں اپنے بھائیوں اور ان کی اولادوں میں ایمانداری سے تقسیم کر دے وہ اپنی ذاتی جائیداد اور کاروبار کو اپنے تینوں بیٹوں میں برابر تقسیم کرنے کے بجائے اپنے ایک پوتے کے سپرد کر جائے۔ میاں محمد شریف مرحوم کے تینوں بیٹوں میں سے میاں نواز شریف کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ میاں شہباز شریف کے چھ بچے ہیں اور میاں عباس شریف مرحوم کے بھی غالباً چار بچے ہیں۔ یعنی میاں محمد شریف مرحوم کے کل چودہ پوتے پوتیاں تھیں ان میں سے انہوں نے صرف اپنے ایک پوتے کا انتخاب کس بنیاد پر کیا؟ اگر آج میاں شریف مرحوم زندہ ہوتے تو دہائی دیتے کہ یہ میری وصیت نہیں بلکہ سیف الرحمن کی تیار کردہ وصیت ہے۔
میں نے چودھری بھکن سے پوچھا کہ یہ وصیت چلے گی؟ چوہدری ہنسا اور کہنے لگا جس ملک میں وصیت مرحومین کے ذمے لگا دی جائے وہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ اگر زرداری صاحب ایک ایسی ہی وصیت کے ذریعے پہلے پارٹی صدر اور بعدازاں ملک کا صدر بن سکتا ہے کہ بے نظیر مرحومہ اس وصیت کی تردید یا تصدیق کے لیے زندہ نہ تھیں تو عالی جناب قطری شہزادے کی گواہی والی میاں شریف مرحوم کی وصیت پر کس کو اعتراض ہو سکتا ہے؟تم مامے لگتے ہو اس وصیت کے؟ تمہارا کون سا حق مارا گیا ہے اس وصیت میں، جو تم اعتراض کر رہے ہو؟ ایسے بھی اگر حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کو اس وصیت پر کوئی اعتراض نہیں اور وہ بے چارے انڈے مرغی دودھ وغیرہ بیچ باچ کر اپنا گزارہ ہنسی خوشی چلا رہے ہیں تو بھلا عدالت کو بھی کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟۔
میں نے کہا چوہدری ! وہ جو میاں نواز شریف صاحب نے اسمبلی میں تقریر فرمائی تھی اس میں اس وصیت کا ذکر کیوں نہیں کیا تھا؟ وہ یہ بات وہیں بتا دیتے شاید اسی دن مخالفین کے منہ بند ہو جاتے۔ چوہدری کہنے لگا دراصل میاں صاحب نے یہ بات چھپانے کی کوشش کی تھی کہ یہ ساری جائیداد حسین میاں کو دادا نے دی تھی اس سے بے چارے حمزہ اور سلمان کا دل ٹوٹ جاتا اور تمہیں تو علم ہی ہے کہ دل توڑنا کتنی بری بات ہے۔ میاں صاحب نے غالباً شیخ سعدی کا قول سن رکھا تھا کہ ''جس سچ سے افترا پھیلے‘ اس سے صلح کن جھوٹ بہتر ہے‘‘۔ ویسے بھی وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ جائیداد کی اس یکطرفہ تقسیم پر خاندان میں تنازعات جنم لیں۔ سو انہوں نے وسیع تر خاندانی مفاد میں اسمبلی اور قوم سے یہ بات چھپائی۔ رہ گئے بچے تو انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ فلیٹ دراصل ہیں کس کے۔ دادا نے بھی یہی سوچ کر نہیں بتایا ہو گا کہ اتنی چھوٹی عمر میں بچے کو یہ پتہ چل گیا کہ وہ اتنی جائیداد کا مالک ہے تو کہیں بگڑ ہی نہ جائے۔ لہٰذا وہ یہی سمجھتے رہے کہ ساری جائیداد جس آف شور کمپنی کی ملکیت ہے اس کا مالک اللہ جانے کون خدا ترس ہے جس نے ان کی بہن کو ٹرسٹی بنا دیا ہے۔ کرایہ پاکستان سے آ جاتا ہے باقی سب خرچہ حسین نواز اسی طرح چلا رہا ہے جس طرح اپنے دونوں گھر چلا رہا ہے۔
میں نے کہا چوہدری! اب اپنے سیف الرحمن صاحب دوبارہ منظر نامے پر نظر آ رہے ہیں خیر تو ہے۔ چوہدری کہنے لگا۔ قطر کا معاملہ آیا ہے تو سیف الرحمن تو درمیان میں آئے گا۔ ذرا توقف کرو۔ ابھی ایل این جی کے معاملات پر اس وصیت کی طرح پردہ پڑا ہوا ہے۔ پردہ اٹھے گا تو بڑے بڑے نام آئیں گے۔ ویسے خبر یہ بھی ہے کہ ایک فلیٹ تو ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی حسین نواز شریف کے نام منتقل ہوا ہے اور وہ بھی قطر والوں کی ملکیت تھا۔ بدگمانوں کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق ایل این جی کے سودے سے ہے۔ اللہ ہی جانے کیا معاملہ ہے۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے جس طرح غریب کو فطرانے کا آسرا ہوتا ہے اسی طرح اب میاں صاحب کو سارا قطرانے کا آسرا ہے۔
چوہدری جاتے جاتے کہنے لگا۔ عزیزم ! ہم برصغیر والوں کو ہمیشہ بلاد عرب سے اسی طرح مدد آتی رہی ہے ۔دیبل سے کسی نے پکارا تو محمد بن قاسم آن پہنچا۔ جاتی عمرہ سے کسی نے دہائی دی تو حمد بن جاسم آ گیا۔ اللہ عربوں کی خیر کرے۔ ان کے طفیل اربوں کے کام چل رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں