"KMK" (space) message & send to 7575

اڑھائی گھنٹے ....(1)

حادثہ یہ نہیں کہ حادثہ ہوا ہے بلکہ حادثہ یہ ہے کہ ہم نے کسی حادثے سے سبق حاصل نہیں کیا۔ حادثہ ہوتا ہے۔ شور مچتا ہے۔ انکوائری کمیٹی بنتی ہے۔ اوّل تو اس کی رپورٹ کبھی مکمل نہیں ہوتی اور ہوتی ہے تو محض خانہ پری کے لیے۔ تب تک ہم اس حادثے کو فراموش کرچکے ہوتے ہیں۔ رپورٹ فائلوں کے انبار تلے دب جاتی ہے۔ اس دوران چند محکمے ذمہ داران کو ڈرا دھمکا کر اپنا الو سیدھا کر چکے ہوتے ہیں۔ عموماً متاثرین کو یعنی ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو سرکار علی الترتیب پانچ لاکھ اور ایک لاکھ فی کس دے دیتی ہے۔ لواحقین صبر کرتے ہیں اور اس دوران متعلقہ محکموں کے افسران شکر کرتے ہیں کہ اس حادثے کے طفیل انہیں مال پانی بنانے کا موقعہ مل گیا ہے۔ چار دن اخبارات بھی خبر لگاتے ہیں پھر ان کو نئی خبر مل جاتی ہے۔ وقت کی گرد تلے سب کچھ دب جاتا ہے۔ متعلقہ محکموں کی کوئی بازپرس نہیں ہوتی۔ پھر ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے‘ تا وقتیکہ کوئی نیا حادثہ نہ ہو جائے۔ پھرکسی دن یہی کچھ دوبارہ اُسی ترتیب سے دہرایا جاتا ہے‘ ایک چکر ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔
میں چار تاریخ کو شام ساڑھے چھ بجے ملتان سے کراچی پہنچا۔ ایئرپورٹ سے مجھے برادرم رستم لغاری نے لیا اور شہر سے باہر ایک شنواری ریسٹورنٹ میں لے گیا۔ کھلے صحن میں خالص پشتون انداز میں بیسیوں لکڑی کے تخت‘ ان پر قالین اور گاؤ تکیے۔ ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کے بعد دنبے کے گوشت کے نمکین تکے اور کڑاہی‘ لذیذ اور عمدہ ایسے کہ انتظار کی ساری کلفت دور ہو گئی۔ واپسی پر ٹریفک جام میں پھنستے پھنساتے بارہ بجے کے لگ بھگ ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں چیک ان کیا۔ اس دوران فون پر احمد بلال کا اصرار تھا کہ میں اس کے پاس آ جاؤں اور رستم لغاری کا زور اس بات پر کہ میں اس کے گھر چلوں۔ میں بضد تھا کہ میں ہوٹل میں خود کو زیادہ سہولت میں پاتا ہوں۔ کمرے میں جا کر میں نے استری اورسٹینڈ منگوایا اور رات گئے اپنی شرٹ استری کرنا شروع کر دی۔ میرا خیال تھا کہ اس طرح صبح یہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ آنکھوں میں دوائی ڈالنے کے بعد میں نے نماز پڑھی اور صبح جلد اُٹھنے کا الازم لگایا اور سو گیا۔ جس وقت الارم لگایا تب رات ایک بجنے میں پانچ چھ منٹ رہتے تھے۔
رات اچانک جب میری آنکھ کھلی تو باہر سے شور سنائی دے رہا تھا۔ پانچویں منزل پر میرے کمرے کی کھڑکیاں شاہراہ فیصل کی جانب تھیں۔ باہر سائرن بج رہے تھے اور غیر معمولی آوازیں آرہی تھیں۔ میں نے سڑک کی جانب کمرہ لینے پر خود کو ملامت کی۔ کھڑکی سے پردہ ہٹا کر باہر دیکھا‘ نیچے ٹریفک جام تھی۔ ایک دو ایمبولنسیں سائرن بجا رہی تھیں‘ ان کی سرخ بتیاں گھوم رہی تھیں۔ کمرے میں جلنے کی بو سی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ باہر نیچے سڑک پر کوئی ہنگامہ بپا ہے۔ میں نے گمان کیا کہ شاید کسی گاڑی کو آگ لگا دی گئی ہے۔ کراچی میں ایسا ہونا بہرحال کوئی اچنبھے کی بات تو ہر گز نہیں۔ میں نے پردہ برابر کیا اور دوبارہ سو گیا۔
مجھے صحیح اندازہ نہیں دوبارہ آنکھ کب کھلی‘ دس منٹ بعد، پندرہ یا بیس منٹ بعد‘ میں کچھ کہہ نہیں سکتا‘ فون پر ٹائم دیکھا‘ رات تین بج کر بیس منٹ کا وقت تھا۔ اب شور بہت زیادہ تھا‘ لوگوں کے چلانے کی، شیشے ٹوٹنے کی، ایمبولنسوں کے سائرنوں کی اور عورتوں کی چیخوں کی ملی جلی آوازیں خاصی زیادہ تھیں۔ مجھے لگا کہ شاید باہر کا ہنگامہ ہوٹل کے اندر آچکا ہے اور توڑ پھوڑ ہوٹل میں ہو رہی ہے۔ میں نے اُٹھ کر باہر جائزہ لینے کے لئے کمرے کا دروازہ کھولا تو دھوئیں کا مرغولہ کمرے میں آگیا۔ باہر ساری راہداری دھوئیں سے بھری ہوئی تھی اور دھواں بھی ایسا کہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا مجھے پہلی بار حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ ہوٹل میں آگ لگ چکی تھی۔
میں واپس کمرے میں آیا اور اپنے حواس کو یکجا کیا اور دروازے کے پیچھے ایمرجنسی اخراج کا راستہ دیکھنا چاہا۔ دروازے پر کچھ بھی نہیں تھا۔ میں عادی مسافر ہوں اور دنیا بھر کے ہوٹلوں میں قیام کر چکا ہوں۔ ہمیشہ دروازے کے اندر والی طرف اس منزل کا نقشہ لگا ہوتا ہے جس میں یہ نشاندہی کی گئی ہوتی ہے آپ اس وقت جس کمرے میں رہائش پذیر ہیں وہ کونسا ہے اور ایمرجنسی اخراج کے راستے کس کس طرف ہیں۔ یہ نقشہ سرے سے ہی غائب تھا۔ میں نے راستہ خود تلاش کرنے کی ٹھانی۔ غسل خانے میں جا کر چھوٹا تولیہ اُٹھایا۔ اسے پانی میں بھگویا اور اپنے منہ اور ناک پر رکھ کر کمرے سے باہر نکل کر بائیں طرف مڑ گیا اور اپنے دائیں طرف ہنگامی حالت میں استعمال کی جانے والی سیڑھیوں کو تلاش کرنا شروع کیا تا وقتیکہ میں لفٹوں کے پاس پہنچ گیا تین لفٹیں بند تھیں۔ ایک کی بجلی جل رہی تھی مگر میں نے ایسی حالت میں لفٹ کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ مجھے لگا کہ مجھے سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے۔ میں فوری طور پر زمین پر بیٹھ گیا اور بالکل جھک کر اپنے کمرے کی طرف بھاگا۔ دھواں ہمیشہ دو تین فٹ سے اوپر گاڑھا ہوتا ہے۔ نیچے حالات نسبتاً بہتر ہوتے ہیں۔ واپس کمرے میں آکر دروازہ بند کیا۔ کھڑکی کا شیشہ کھولنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ شیشہ فکس ہے اسے کھولنا ممکن نہیں۔ اب سمجھ آیا کہ شیشے ٹوٹنے کی آوازیں کیا تھیں۔ لوگ اپنے کمروں کے شیشے توڑ رہے تھے۔
میں نے شیشے کو ہلایا جلایا۔ موٹا اور مضبوط شیشہ کسی پتھر کی طرح جما ہوا تھا۔ میں اس دوران خلاف معمول بالکل نارمل ہو چکا تھا۔ مجھے حالات کی سنگینی کا شاید تب تک صحیح اندازہ بھی نہیں تھا تاہم میں نے سوچا کہ اگر یہ رات میری آخری رات ہے تو اسے کسی طور ٹالا نہیں جا سکتا اور اگر ابھی میرا وقت نہیں آیا تو بھی یہی حقیقت ہے کہ موت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔ میں نے باتھ روم میں جا کر وضو کیا‘ باہر آکر کپڑے تبدیل کئے‘ جرابیں پہنیں‘ بوٹ چڑھائے‘ سامان سمیٹا‘ پاجامہ، ٹی شرٹ اور دوائیاں بیگ میں ڈالیں‘ الماری سے کوٹ نکال کر پیک کیا‘ دونوں فون اُٹھا کر جیب میں ڈالے ‘ چارجر بھی پینٹ کی جیب میں رکھا۔ بیگ کو ایک طرف رکھا۔ باہر نکل کر کمرہ لاک کیا اور باہر نکل کر دوبارہ بائیں طرف چل پڑا۔
اُدھر سے کسی کمرے میں سے شور سنائی دے رہا تھا‘ یہ میرے کمرے سے چوتھا کمرہ نمبر 505 تھا۔ کمرے کے باہر کھڑے ہو کر مجھے اپنا چاردن پہلے والا ایک سوال یاد آ گیا۔ یہ سوال میں نے ایک دوست سے کیا تھا۔ اس دوست کا جواب کبھی پھر سہی‘ فی الحال تو مجھے خود اپنے سوال کا جواب درکار تھا۔
سوال دراصل ایپل فون، کمپیوٹر اور آئی پیڈ کے موجد ''سٹیوجابز‘‘ کا ایک جملہ تھا جو وہ روز صبح چھ بجے اپنے آپ سے سوال کی صورت کرتا تھا۔ کہ ''اگر یہ دن میری زندگی کا آخری دن ہے تو کیا میں یہی کچھ کرنا چاہوں گا جو مجھے کرنا چاہیے؟‘‘۔ میں نے خود سے پوچھا کہ اگر یہ میری زندگی کا آخری دن ہے تو مجھے وہی کچھ کرنا چاہیے جو میں کرنا چاہتا ہوں۔ اور میں کیا کرنا چاہتا ہوں؟ مرا دم گھٹ رہا تھا مگر میں وہی کرنا چاہتا تھا جو مجھے کرنا چاہئے تھا۔ میں نے فون نکالا اور سارہ کو فون کیا‘ سارہ نے دوسری گھنٹی پر ہی فون اُٹھا لیا۔ میں نے اسے کہا میری بات غور سے سنو‘ میرے پاس وقت کم ہے‘ تسلی سے سنو اور ہاں! پریشان نہ ہونا۔ تم سارے بہن بھائیوں میں زیادہ حوصلے والی ہو( اور سب سے کم حوصلہ بھی) میرے ہوٹل میں آگ لگ چکی ہے۔ میں پانچویں فلور پر ہوں اورفی الوقت نیچے جانے کا کوئی راستہ ہے اور نہ ہی صورت‘ اگر اللہ نے چاہا تو سلامتی ہو گی۔ تاہم دوسری صورت میں انعم اور اسد کا خیال رکھنا۔ اس وقت آدھی رات کو کسی کو نہ اُٹھانا اور نہ فون کرنا۔ کومل اور اسد کو بھی نہیں بتانا‘ جس کو جو بھی بتانا ہو صبح بتانا کسی کی رات خراب نہ کرنا۔ اس سے پہلے کہ وہ سوال کرتی یا اس کا حوصلہ جواب دیتا میں نے فون بند کیا اور کمرہ نمبر 505 کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے کوئی دروازہ نہیں کھول رہا تھا۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں