"KMK" (space) message & send to 7575

یوسفِ بے کارواں

ایک ہفتے سے زیادہ ہونے والا ہے لیکن جاوید ہاشمی اور عمران خان کی جھڑپ کی گرد بیٹھنے میں نہیں آ رہی۔ شوکت پوچھنے لگا کیا میڈیا کو اس کے علاوہ اور کوئی موضوع نہیں مل رہا۔ میں نے کہا اگر مل گیا ہوتا تو میڈیا اس کو زیرِ بحث لا چکا ہوتا۔ میڈیا وہی کچھ دکھاتا ہے جو بک ر ہا ہو، جسے عوام خواہ اپنی جہالت کے طفیل ہی سہی پذیرائی دیتے رہیں گے میڈیا دکھاتا رہے گا۔ میڈیا کمرشل انڈسٹری ہے۔ وہ دن گئے جب اس کے پیشِ نظر بے لوث خدمت وغیرہ کا کوئی نظریہ کار فرما تھا۔ اب یہ بزنس ہے اور اس میں سپلائی اور ڈیمانڈ کا آفاقی قانون اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ کار فرما ہے۔
شوکت کہنے لگا تم نے اس بارے کچھ نہیں لکھا۔ میں نے کہا ابھی تم خود کہہ رہے ہو کہ میڈیا اس موضوع کی جان نہیں چھوڑ رہا اور اب تم مجھے لکھنے پر اکسا رہے ہو۔ جس کام پر تم مجھے میڈیا سے متعلق ہونے کے باعث مطعون کر رہے ہو اب اسی کی ترغیب دے رہے ہو۔ شوکت کہنے لگا دراصل میں چاہتا ہوں کہ اس صورتحال میں جب ہرآدمی محض اپنی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر اس موضوع پر اظہارِ خیال کر رہا ہے، تم بھی کچھ روشنی ڈالو۔ تم جاوید ہاشمی کو بہت سے لوگوں کی نسبت زیادہ اچھی طرح جانتے ہو۔ تم اس کے بارے میں کافی بہتر اور متوازن تجزیہ پیش کر سکتے ہو۔ مجھے یہ بھی بخوبی علم ہے کہ تم دوستی وغیرہ کو بالائے طاق رکھ کر لکھتے ہو اور اس حو الے سے تم حقیقت حال کے قریب رہتے ہوئے جاوید ہاشمی کے تازہ ترین بیانات کی روشنی میں اپنا تجزیہ بیان کر سکتے ہو۔ آخر تم جاوید ہاشمی کے دوست ہو۔
میں نے کہا شوکت میاں! پہلی بات تو تم یہ درست کر لو کہ میں جاوید ہاشمی کا یا جاوید ہاشمی میرا دوست نہیں ہے۔ میں یہ بات مجموعی تناظر میں نہیں کر رہا کہ سیاستد ان کسی کا دوست نہیں ہوتا، بلکہ میں یہ بات خاص طور پر جاوید ہاشمی کے بارے میں کر رہا ہوں۔ جاوید ہاشمی بوجوہ میرا دوست نہیں ہو سکتا۔ نہ صرف یہ کہ وہ میرا دوست نہیں ہے بلکہ وہ آئندہ بھی کبھی میرا دوست نہیں ہو سکتا۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ جاوید ہاشمی کا چھوٹا بھائی مختار ہاشمی مرحوم میرا دوست تھا۔ میں روائتی طور پر اس آخری جنریشن کا حصہ ہوں جو ان چیزوں کا خیال کرتی تھی۔ میرے بڑے بھائی طارق خان مرحوم کے دوست میرے دوست نہیں ہو سکتے۔ وہ میرے بڑے بھائی کی جگہ ہیں اور یہی حال میرے دوستوں کے بڑے بھائیوں کا ہے۔ وہ بھی میرے دوست نہیں ہو سکتے۔ ہاں وہ میرے بڑے بھائی کی جگہ پر ہیں۔ آئندہ آنے والی نسل یعنی ہماری اگلی جنریشن شاید ان تعلقات اور رشتوں کو اس طرح نہ دیکھے جس طرح ہم دیکھتے ہیں مگر کیا کہا جا سکتا ہے؟ زیادہ گزر گئی ہے تھوڑی رہ گئی ہے، بھلا اس تھوڑی کو اپنی تربیت سے ہٹ کر کیسے گزارا جا سکتا ہے؟ سو برادرِ عزیز! ہمارے جیسے لوگ دوستوں کے بڑے بھائیوں سے دوستی نہیںکر سکتے۔ مجبوری ہے۔
جاوید ہاشمی بارے لکھتے ہوئے مجھے بہت زیادہ مشکل پیش آتی ہے۔ قلم کی حرمت اور مرحوم دوست مختار ہاشمی کے رشتے سے قائم ہونے والے تعلق کا احترام۔ اب ان دونوں کو نبھانا کتنا مشکل ہے، صرف وہی جان سکتا ہے جو میری جنریشن سے تعلق رکھتا ہو۔ محلے میں پلا بڑھا ہو اور بچپن سے ہی ابا کے دوستوں کو چچا، ماں جی کی ملنے والیوں کو خالہ، بڑی بہنوں کی سہیلیوں کو باجی، بڑے بھائی کے دوستوں کو اور اپنے دوستوں کے بڑے بھائیوں کو بھائی جان کہہ کر نہ صرف مخاطب کرتا ہو بلکہ اسی طرح احترام بھی کرتا ہو۔ ایسے میں مشکل تو پیش آئے گی۔ میں کبھی کبھی جاوید ہاشمی کو ہنس کر کہتا ہوں کہ میرا اور اس کا تعلق اس کے لئے باعث مسرت ہو یا نہ ہو لیکن میرے لیے بعض اوقات بڑی مشکل پیدا کر دیتا ہے۔ تاہم میرے رب کا احسان ہے کہ اس تعلق کے باوجود میں نے سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور جو کچھ شرح صدر سے درست جانا لکھ دیا۔ ہاں، لکھتے ہوئے اس احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جس کی مجھے بچپن سے تربیت دی گئی ہے۔
میں نے ایک بار جاوید ہاشمی سے اپنے پُرانے تعلق کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار لکھا کہ میں جاوید ہاشمی کو عشروں سے جانتا ہوں۔ تب سے، جب وہ ایمرسن کالج کا صدر بھی نہیں بنا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کا صدر بھی وہ میرے سامنے بنا۔ ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کا ممبر وہ میرے سامنے بنا۔ اس نے پہلا قومی الیکشن میرے سامنے لڑا۔ وہ نوجوانوں کے امور کا وزیر میرے سامنے بنا۔ وفاقی وزیر صحت کے عہدے پر میرے سامنے متمکن ہوا۔ وہ مسلم لیگ کا صدر میرے سامنے بنا، حتیٰ کہ وہ ''مخدوم‘‘ بھی میری آنکھوں کے سامنے بنا۔
جب یہ کالم چھپا تو میری اہلیہ نے اس آخری جملے پر بڑا احتجاج کیا اور کہا کہ وہ آپ کے دوست کا بڑا بھائی ہے، آپ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ میں نے کہا خیال ہی تو کیا ہے وگرنہ میں اس بات کو اس دوسرے طریقے سے بھی لکھ سکتا تھا جس طرح اوروں کے بارے میں لکھتا ہوں۔ میری اہلیہ نے زیرِ لب کہا کہ آپ ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ میں نے کہا شکر ہے تم یہ بات نہ صرف جان گئی ہو بلکہ سمجھ بھی گئی ہو۔
دراصل آج کل جاوید ہاشمی منتشر ہوا ہوا ہے۔ اسے آپ انگریزی میں Desperate کہہ سکتے ہیں۔ اسے مستقبل میں کچھ نظر نہیں آرہا۔ مسلم لیگ وہ چھوڑ چکا ہے اور تحریکِ انصاف بھی۔ پیپلز پارٹی میں اس کی نہ تو سیاسی گنجائش ہے اور نہ ہی نظریاتی۔ بڑے شہروں میں آزاد اُمیدواروں کا رواج بھی ختم ہو چکا ہے۔ اس کے سامنے کا سیاسی منظر نامہ بظاہر تاریک ہے۔ وہ پیدائشی سیاستدان ہے اور سیاست کے بغیر وہ رہ بھی نہیں سکتا۔ جس طرح مچھلی کی زندگی پانی کی مرہون منت ہے جاوید ہاشمی کے لیے سیاست ہی زندگی کی علامت ہے۔ اگر وہ سیاست چھوڑ دے تو جو اس کی صحت کا حال ہے وہ شاید چار دن بھی نہ نکال سکے۔
دراصل جاوید ہاشمی میاں نواز شریف کے لیے تو اسی روز ناقابلِ برداشت ہو گیا تھا جب میاں صاحب اپنی جدہ والی آٹھ سالہ جلاوطنی کاٹ کر لاہور واپس آئے تو ایک ہجوم نے ان کا استقبال کیا اور راستے میں جلوس کے شرکا بجائے میاں نواز شریف کی بہادری کے گن گانے کے ''ایک بہادر آدمی، ہاشمی ہاشمی‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ راوی بیان کرتا ہے کہ میاں نواز شریف کے چہرے کا رنگ ہر نعرے پر تبدیل ہو رہا تھا۔ ہمارے عدم تحفظ کے مارے ہوئے سیاسی رہنماؤں کو اپنی پارٹی میں کسی متبادل (غیر خاندانی) قیادت کا تصور ہی خوفزدہ کر دیتا ہے۔ اٹھارہ لوگوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں اپوزیشن چلانے والے جاوید ہاشمی کے متعلق میاں نواز شریف نے شاید اسی روز فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اس سے جان چھڑوانی ہے۔ لیکن انہیں تب اندازہ نہیں تھا کہ عمران خان ان کے لیے اتنی بڑی مصیبت بن کر اُبھرے گا۔
جاوید ہاشمی کو مسلم لیگ ن کے اندر جہاں ایک طرف بہت ہی عزت و احترام حاصل تھا، دوسری طرف میاں صاحب کے ایک دو ذاتی وفادار رہنما جاوید ہاشمی کی تذلیل میں مصروف تھے۔ بقول راوی خواجہ آصف نے جاوید ہاشمی کو باقاعدہ گالیاں دیں اور میاں صاحب کی خاموشی نے ان کی آشیر باد ثابت کر دی۔ بعد میں جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ چھوڑی۔ ایک بار اس نے مجھ سے پوچھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے؟ میں نے کہا اسے انتظار کرنا چاہیے تا وقتیکہ میاں صاحب اسے خود مسلم لیگ سے نکال دیں۔ تب تک وہ مسلم لیگ ن کے اندر ''باغی‘‘ کا کردار سر انجام دیتا رہے مگر وہ ایک غیر جمہوری لیڈر کو چھوڑ کر دوسرے غیر جمہوری لیڈر کی جماعت میں آگیا اور انجام کار وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سیاسی سمجھ بوجھ سے عاری عمران خان اور اس کی غیر جمہوری سوچ ایک وجہ تھے، لیکن جمہوریت کا بستر گول کرنے کے لیے اختیار کی جانے والی حکمت سے یکسر عاری ''حکمت عملی‘‘ جو دھرنے کے ڈی گراؤنڈ سے ریڈ زون میں داخلے پر منتج ہوئی اور ٹی وی سٹیشن پر حملے اور امپائر کی انگلی کی اصطلاح نے جمہوریت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا، تب جاوید ہاشمی نے جو کیا اس پر اعتراض کرنے والوں کے پاس اپنے دلائل ہیں اور حامیوں کے پاس اپنے۔ لیکن میرا خیال تھا کہ جاوید ہاشمی کو وہاں سے اُٹھ آنا چاہیے تھا اور ایک بیان کے بعد خاموشی اختیار کر لینی چاہیے تھی۔ 
ایمانداری کی بات ہے کہ اب جاوید ہاشمی کنفیوژ ہے۔ میرا یقین ہے کہ جاوید ہاشمی مسلم لیگ میں باعزت واپسی چاہتا ہے اور دوسری طرف میاں صاحب محض عمران کے خوف سے اس کی واپسی تو چاہتے ہیں مگر اپنی شرائط پر۔ یعنی بے عزت ہو کر۔
میاں صاحب کی اہلیہ کے فرسٹ کزن یٰسین پہلوان کے جنازے پر جاوید ہاشمی نے میاں صاحب سے ہاتھ ملانے کی غرض سے ہاتھ آگے بڑھایا۔ بڑے عہدے پر فائز چھوٹے دل کے شخص نے یہ ہاتھ تھامنے کے بجائے منہ دوسری طرف کر لیا۔ اگر اس جگہ چوہدری شجاعت کی فیملی کا کوئی فرد ہوتا تو آگے بڑھ کر گلے لگا لیتا کہ خوشی اور غمی کے موقع پر بڑے لوگوں کا دل بڑا ہوتا ہے۔ مگر میاں نواز شریف اس وصف سے محروم ہیں۔
میاں نواز شریف کی خواہش ہے کہ جاوید ہاشمی اسی طرح مسلم لیگ میں واپس آئے جس طرح ایک بار سردار ذوالفقار کھوسہ واپس آیا تھا۔ جاوید ہاشمی ملتان کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 149 سے 2018ء کے الیکشن کا اُمیدوار ہے جہاں سے وہ 2013ء میں جیتا تھا اور 2014ء کے ضمنی الیکشن میں ہار گیا۔ وہ اب اگلا الیکشن اسی حلقے سے لڑنے کا اُمیدوار اور طلب گار ہے۔ اسی حلقے سے گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ اپنے بیٹے کو تیار کر رہا ہے اور طاہر رشید بھی حسبِ سابق اُمیدوار ہے۔ اگر 2014ء کے ضمنی الیکشن کی طرح مسلم لیگ ن نے یہاں سے اپنا کوئی اُمیدوار کھڑا نہ کیا تو گمان غالب ہے کہ جاوید ہاشمی یہاں سے اس بار بھی جیت جائے گا، لیکن یہ سب کچھ مسلم لیگ ن پر منحصر ہے کہ وہ کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ چند مہینے گزرے جاوید ہاشمی نے پوچھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ میں نے کہا ملک میں نوابزادہ نصر اللہ خان کے بعد ایک چھوٹی سی پارٹی والے بڑے لیڈر کی کرسی خالی ہے اور جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی تحریک بھی۔ لیکن ایک بات سمجھ لیں کہ عزت دار لوگ بیوی کو طلاق دینے کے بعد عائلی زندگی کا یہ باب لوگوں میں ڈسکس نہیں کرتے بلکہ بند کر دیتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کو یہ بات شاید سمجھ نہیں آئی تھی یا شاید وہ اپنی سیاست کے کھڑے پانی میں پتھر مار کر لہریں پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ بری طرح کنفیوژ اور Desperate ہے۔ عمران خان کی طرح۔ لیکن عمران خان کی Desperation اور طرح کی ہے اور جاوید ہاشمی کی اور طرح کی۔ جاوید ہاشمی کی Desperation یہ ہے کہ وہ ''یوسفِ بے کاروان‘‘ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں