"KMK" (space) message & send to 7575

احساس کیسے ہو سکتا ہے؟

سات معصوم جانوں کی قربانی بالآخر رنگ لائی اور سرکار کو اپنا بھولا ہوا بلکہ ازخود بھلا دیا ہوا وعدہ یاد آ گیا۔ لودھراں میں ریلوے انڈر پاس اور ایک فلائی اوور بنانے کے لیے ایک ارب روپے کی رقم منظور کر لی گئی۔ ابھی اس رقم کی باقاعدہ وصولی اور منصوبہ پر خرچ ہونے کے درمیان بھی کئی سخت مقامات کا آنا امر واقعہ ہے مگر خوش گمانی بہرحال بدگمانی سے بدرجہا بہتر ہے۔ یہ عاجز گمان کرتا ہے کہ سب کچھ ویسے ہی بن جائے گا جیسا کہ ایک بار پھر وعدہ کیا گیا ہے۔
6جنوری کو جلالپور موڑ ریلوے پھاٹک لودھراں پر ایک المناک حادثے میں دو موٹر سائیکل رکشہ عرف چنگ چی پر سوار سکول کے سات بچوں اور ڈرائیور سمیت آٹھ افراد جاں بحق ہو گئے۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد چھوٹے بڑے ملا کر یہ تقریباً 300 واں حادثہ تھا۔ یہ اعدادو شمار موجودہ حکومت کی عمومی اور وزیر ریلوے کی خصوصی نااہلی کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ شہر میں ہی واقع اس ریلوے پھاٹک پر نہ کوئی مواصلاتی نظام ہے اور نہ ہی کوئی اور جدید سسٹم حتیٰ کہ فون تک موجود نہیں۔ 21ویں صدی میں اس ریلوے پھاٹک پر جو نظام چل رہا ہے وہ دنیا بھر میں عشروں پہلے متروک ہو چکا ہے۔ اس ریلوے پھاٹک سے ڈیڑھ کلو میٹر پہلے ایک بورڈ لگا ہوا ہے جسے ''وسل بورڈ‘‘ کہا جاتا ہے اس پر بہت بڑا سا ڈبلیو(W) لکھا ہوا ہے۔ ٹرین کا ڈرائیور یہ بورڈ دیکھ کر وسل بجاتا ہے جسے سن کر ریلوے پھاٹک کا گیٹ کیپر پھاٹک بند کر دیتا ہے۔ اس ریلوے پھاٹک سے تقریباً ساڑھے چار سو میٹر پہلے ایک سگنل ہے اگر وہ اپ ہو گا تو ٹرین رک جائے گی اور اگر وہ ڈائون ہو گا تو ٹرین گزر جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں اگر ڈرائیور وسل بورڈ پر وسل دینا بھول جائے یا بورڈ کو کسی وجہ سے نہ دیکھ سکے تو وہ وسل دیئے بغیر 
گزر جائے گا،جب وسل ہی نہیں بجے گی تو پھاٹک بھی بند نہیں ہو گا۔ اگر سگنل ڈائون ہے تو ٹرین پھاٹک کو کراس کر جائے گی خواہ وہ کھلا ہو یا بند۔ اب یہ کسی کا مقدر کہ وہ اس وقت پھاٹک کے عین درمیان ریلوے لائن کے اوپر ہے یا وہاں سے گزر چکا ہے۔ اس روز ان دو بدقسمت موٹر سائیکل رکشوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ٹرین نے ہارن نہ دیا، پھاٹک والے نے پھاٹک بند نہ کیا۔ سکول کے بچوں سے بھرے ہوئے دو موٹر سائیکل رکشہ اس وقت پھاٹک کے عین درمیان ریلوے ٹریک پر تھے، جب لاہور سے کراچی جانے والی ہزارہ ایکسپریس نے صبح آٹھ بج کر دس منٹ پر انہیں کچل دیا۔ جاں بحق ہونے والے بچوں کی عمریں آٹھ سے پندرہ سال تھیں۔ ان میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تیرہ سالہ محمد سجاد اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ حسب معمول رات گئے بزنس ٹرین پر وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق لودھراں آن پہنچے موصوف پچھلے ایک عرصہ سے حکومت بچائو مہم میں بری طرح مصروف تھے اور پاناما لیکس کے بعد ان کی ان ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ پاناما کیس پر اپنی بے پناہ زبانی جنگ کی مصروفیات چھوڑ کر لودھراں آئے اور ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا کر واپس عازم لاہور ہوئے ۔ گمان غالب ہے کہ وہ حکومت کے خلاف تحریک انصاف کی کارروائیوں کے سدباب کے لیے اپنا فریضہ وہیں سے دوبارہ سرانجام دینا شروع کر دیں گے جہاں انہوں نے اس المناک حادثے کے وقت چھوڑا تھا۔ انہیں بھی اچھی طرح پتہ ہے کہ ان کی وزارت کا دارو مدار ریلوے کی کارکردگی پر نہیں بلکہ حکومتی پالیسیوں کے دفاع میں ان کی پرفارمنس پر منحصر ہے۔ 
اس بدقسمت پھاٹک کی بھی عجیب کہانی ہے۔ جب بینظیر بھٹو کی حکومت تھی انہوں نے 1989ء میں اس ریلوے پھاٹک کی جگہ انڈر پاس بنانے کی منظوری دی اور اس منصوبے کا افتتاح اس وقت لودھراں سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے اور وفاقی وزیر کھیل و سیاحت مرزا ناصر بیگ نے کیا۔ یہ افتتاحی تختی صرف تختی تک ہی محدود رہی اور ابھی منصوبہ صرف اعلان کی حد تک ہی تھا کہ اگست 1990ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کا دھڑن تختہ ہو گیا۔ پھر 2001ء میں جب وزیر اعظم شوکت عزیز نے لودھراں لاہور ریلوے ٹریک کو ڈبل کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تو اس پھاٹک کی پھر لاٹری نکل آئی اور اس پھاٹک کی جگہ انڈر پاس بنانے کا اعلان ہوا۔ اس بار اس کی افتتاحی تختی کی تنصیب کا قرعہ لودھراں سے ق لیگ کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ایم این اے نواب امان اللہ خان کے نام نکلا۔ انہوں نے بھی اپنے دست مبارک سے اس منصوبے کا افتتاح فرمایا اور پھر وہی ہوا جو سدا سے ہمارے ساتھ ہوتا آ رہا ہے۔ ایسی ہی بے شمار لاوارث اور بے شناخت تختیوں کی یہ تختی بھی وقت کی دھول تلے دب گئی۔
لودھراں کے حلقہ این اے 153سے آزاد جیت کر مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والے ایم این اے صدیق بلوچ بعدازاں جعلی ڈگری کے سلسلے میں میں نااہل قرار پائے اور اس حلقے میں ضمنی الیکشن کا اعلان ہوا۔ جونہی اس حلقے میں دوبارہ انتخابی مہم کا غلغلہ اٹھا وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جھٹ سے لودھراں میں ایک جلسہ کھڑکایا اور لودھراں کے لیے اڑھائی ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان فرما دیا۔ ایک طرف اڑھائی ارب کے پیکیج کا اعلان ہوا تودوسری طرف تحریک انصاف نے اس اڑھائی ارب کے جواب میں اپنا ارب پتی امیدوار میدان میں اتار دیا۔ ایک طرف اعلان کردہ اڑھائی ارب تھے تو دوسری طرف بھی باقاعدہ ارب پتی جہانگیر ترین امیدوار تھا،پھر جو ہوا وہ ایک علیحدہ داستان ہے جو میں تب لکھ چکا ہوں؛ تاہم ہوا یہ کہ مسلم لیگ اپنے تمام تر وعدوں‘ لاروں اور اعلانوں کے باوجود بری طرح ناکام ہوئی۔ اس ناکامی کے بعد وہی ہوا جو ہوتا ہے یعنی تم کون‘ ہم کون‘‘ والا معاملہ آن پڑا۔ جونہی مسلم لیگ کو اس حلقے میں شکست فاش ہوئی حکمران بھول گئے کہ انہوں نے اہل لودھراں سے کوئی وعدہ کیا تھا۔ انہیں کوئی سبز باغ دکھائے تھے اور انہیں ترقی کی نوید سنائی تھی۔ سب حکومتی وعدے ہوا ہو گئے۔ لودھراں میں وزیر اعظم کے وعدے کا بھی وہی حال ہوا جو ان کے اہل ملتان سے کئے گئے وعدوں کا ہوا تھا۔ اہل ملتان اور ان سے کئے وعدوں پر تفصیلی کالم پھر سہی فی الحال تو لودھراں کا قصہ ہی کافی ہے۔
جہانگیر ترین جیت گیا اور مسلم لیگی امیدوار صدیق خان بلوچ ہار گیا۔ مسلم لیگ والوں نے اہل لودھراں کو سزا دینے کی غرض سے جو انہوں نے مسلم لیگ کے امیدوار کو ووٹ نہ دے کر کیا تھا یہ پیکیج گول مول کر دیا، پیکیج میں پھاٹک کو انڈر پاس بنانے کا اعلان بھی شامل تھا۔ پھرپنجابی محاورے کے مطابق ''جہاں کشتیاں گئیں ‘ ملاح بھی وہیں گئے‘‘ جب سارا پیکیج ہی منسوخ(غیر اعلان شدہ منسوخ) ہو گیا ہو بھلا اس ایک انڈر پاس کی کیا مجال تھی کہ پایہ تکمیل کو پہنچتا؟
کیا عجب حکومت ہے اور کیا عجب سیاست ہے؟۔ ایک طرف لاہور میں بڑے بڑے انڈر پاس اور فلائی اوور چند ماہ میں بن جاتے ہیں تو دوسری طرف یہ عالم ہے کہ 1989ء میں اعلان کیا جانے والا انڈر پاس ستائیس سال میں بھی نہیں بن پایا۔ بننا تو ایک طرف، شروع تک نہیں ہو سکا۔ چلیں1989ء میں منصوبے کا اعلان ہوا اور 1990ء میں بے نظیر حکومت ختم ہو گئی لیکن دوبارہ پھر وہ 1997ء میں برسر اقتدار آئیں اور اڑھائی سال دوبارہ وزیر اعظم رہیں مگر یہ انڈر پاس نہ بن سکا۔ شوکت عزیز نے 2004ء میں اس ریلوے پھاٹک کو انڈر پاس بنا دینے کا اعلان کیا مگر تین سال تک مزید برسر اقتدار رہنے کے باوجود وہ اپنا وعدہ وفا نہ کر سکے۔
موجودہ حکمران چاہیں تو اپنے دور اقتدار میں لاہور اسلام آباد موٹر وے تعمیر کر لیں۔ چاہیں تو لاہور میں میٹرو مکمل کر لیں، چاہیں تو راولپنڈی اسلام آباد کی میٹرو بنا کر دکھا دیں۔ دل کرے تو اورنج ٹرین دھڑا دھڑ بنا کر سب کو اپنی تعمیراتی رفتار سے متاثر کر لیں۔ مہینوں میں سالوں کا کام مکمل کروا کر خوشی سے پھولے نہ سمائیں۔ لاہور میں درجنوں انڈر پاس اور فلائی اوور مہینوں میں مکمل کروا کر داد سمیٹ لیں لیکن لودھراں جیسے درجنوں نہیں سینکڑوں پھاٹک لاوارث ہیں اور موت منہ کھولے عام آدمی کا انتظار کر رہی ہے۔
ابھی عرصہ نہیں گزرا میاں چنوں کے نزدیک موسیٰ ورک کے ریلوے پھاٹک پر ایسا ہی حادثہ ہوا تھا جس میں دس سے زائد سکول کے بچے جاں بحق ہوئے تھے۔ تب بھی وزیر ریلوے نے تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی جس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ہمارے ہاں حادثہ ہوتا ہے متعلقہ وزیر گرجتا برستا ہے۔ ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا دعویٰ کرتا ہے۔ انکوائری کمیٹی بناتا ہے اور پھر بھول جاتا ہے۔ کبھی کبھار ایک آدھ گیٹ کیپر‘ کوئی کانٹے والا‘ کوئی فائر مین‘ کوئی ڈرائیور یا اسی قبیل کا کوئی اور ''اعلیٰ افسر‘‘ معطل ہو جاتا ہے کسی وزیر کو شرم نہیں آتی کوئی وزیر اپنی اخلاقی ذمہ داری نہیں نبھاتا، کوئی مستعفی نہیں ہوتا۔
ساڑھے تین سال میں تین سو کے لگ بھگ چھوٹے بڑے حادثے، ریلوے کی کارکردگی پر صرف سوالیہ نشان نہیں، متعلقہ وزیر کے منہ پر طمانچہ ہے۔ لیکن وزیر کو اپنے منہ پر پڑنے والے اس طمانچے کا رتی برابر احساس نہیں کہ ان کا یہ منہ فی الحال حکومت کی صفائی دینے‘ عمران خان کے لتے لینے اور نواز شریف فیملی کی جائیدادوں کے تحفظ میں مصروف ہے۔ بھلا اتنے مصروف منہ کو کسی طمانچے کا احساس کیسے ہو سکتا ہے؟۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں