"KMK" (space) message & send to 7575

میٹرو‘ وزیراعظم کا دورہ ملتان اور مقامی سیاسی قیادت

میں جہالت سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ جہالت گمراہی کی طرف اور گمراہی تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ جہالت تعلیم سے محرومی کا نہیں علم سے محرومی کا نام ہے۔ روشنی سے انکار کا نام ہے اور سیکھنے سے دستبردار ہونے کا نام ہے۔ تعلیم سے محروم شخص ان پڑھ ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ جاہل بھی ہو۔ میں نے بے شمار ان پڑھوں کو دانش کے خزانے سے مالا مال پایا۔ جہالت کی جہتوں کا احاطہ کرنا مجھ جیسے کم علم شخص کی بساط سے باہر ہے؛ تاہم اس ذات باری تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اس عاجز پر اپنی رحمت کا دروازہ سدا کھولے رکھا ہے اور اس کی بخششوں کے طفیل اس فقیر نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے اور اپنے موقف سے رجوع کیا ہے۔ اس نے مجھے یہ بھی توفیق بخشی کہ میں نے اپنے موقف کے درست ہونے کے باوجود جب آگے بڑھنے کا ہر راستہ بند پایا تو اپنی منزل کا دوبارہ تعین کیا اور نئے راستے کا انتخاب کیا کہ بند گلی میں دیوار سے مسلسل سر ٹکرانا بھی ایک جہالت ہے۔
مجھے اس بات سے قطعاً انکار نہیں کہ میں ملتان میٹرو پراجیکٹ کا مخالف تھا۔ میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ میرے قارئین اس سے اچھی آگاہ ہیںکہ یہ مخالفت برائے مخالفت والا معاملہ نہیں تھا، صرف ترجیحی بنیادوں پر میں بحیثیت ملتان کے ایک شہری اپنی مشکلوں‘ تکلیفوں اور ضرورتوں سے بخوبی آگاہ تھا اور اس مرحلے پر میٹرو سے زیادہ ضروری سہولتوں کی ترجیحاتی بنیادوں پر فراہمی کا طالب تھا۔ لیکن جب یہ دیکھا کہ میری تمام تر کاوشیں محض سعی ناکام سے بڑھ کر کچھ نہیں تو پھر اس ملتانی نے فیصلہ کیا کہ اگر میٹرو کا بننا ٹھہر ہی گیا ہے تو پھر اس میں جتنی بہتری ممکن ہوکی جائے اور اس بہتری میں اپنا حصہ ڈالا جائے۔
میں نے کالم سے لے کر شہریوں کے احتجاج تک اور اس سلسلے میں انتظامی افسروں کو ملنے سے لے کر مختلف اجلاسوں تک‘ سب میں شرکت بھی کی اور اپنا موقف واضح طور پر بیان بھی کیا۔ تمام ضلعی افسروں نے بیشتر معاملات سے اتفاق کرنے کے باوجود جب یہ کہہ کر اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ میاں شہباز شریف نے یہ منصوبہ ہر حال میں پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے تو پھر میں نے کوشش شروع کر دی کہ یہ منصوبہ شہر کی حد تک ''جنگلہ بس‘‘ بننے کے بجائے ''ایلی ویٹڈ‘‘ بننا چاہیے کہ اس طرح شہر دو حصوں میں منقسم نہیں ہو گا اور ایک بار پھر سڑک کے کنارے زمین حاصل کرنے کے چکر میں سارے بوسن روڈ کے دوکانداروں اور کاروباری اداروں کو جو دو سال کی کاروباری بربادی کے بعد بمشکل دوبارہ سیٹ ہوئے ہیں، ایک بار پھر کاروباری تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس سلسلے میں کمشنر ملتان کو اپنی تجویز دی تو اس نے کہا کہ اگر اس تبدیلی سے منصوبے کی لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تو پھر یہ آپشن قابل قبول نہ ہو گا۔ میں نے عرض کی کہ جناب آپ سڑک کے کنارے زمین کی خریداری کے خرچ اور ایلی ویٹڈ تعمیر کی لاگت کا موازنہ کروا لیں، فرق بہت زیادہ نہیں نکلے گا۔ میرا کہنا درست نکلا، دونوں کا باہمی فرق دس فیصد سے بھی کم نکلا اور منصوبہ زمین سے آسمان تک چلا گیا اور اسی کے ساتھ متوقع مشکلات میں بھی زمین آسمان کا فرق پڑ گیا۔
ملتان کی سیاسی قیادت کی غالب اکثریت اس منصوبے کے خلاف تھی مگر سرکٹ ہائوس ملتان میں ہونے والی ایک میٹنگ میں جب خادم اعلیٰ نے ایسے ایک آدھے مخالف کی بھرے مجمعے میں طبیعت صاف کی تو باقی ماندہ لیڈروں نے اسے عقلمند کے لیے اشارہ سمجھا اور اچھل اچھل کر اس منصوبے کی افادیت اور شان میں قصیدہ گوئی شروع کر دی۔ کس کس کا نام لوں؟ ایک آدھ کو چھوڑ کر سارے ہی اس ''بینڈ ویگن‘‘ میں سوار ہو گئے۔ مجھے اس پر رتی برابر حیرانی نہ ہوئی، ہم ملتان والے اپنی سیاسی قیادت کی ہمت سے پوری طرح آگاہ ہیں اور ہمیں پتا ہے کہ ان کے کتنے ''تپڑ‘‘ ہیں۔
میری تب سابق صوبائی وزیر جیل خانہ جات عبدالوحید ارائیں سے شرط لگ گئی کہ ''اگر‘‘ میٹرو بنی تو پھر ایلی ویٹڈ بنے گی نہ کہ جنگلہ بس کی طرز پر زمین پر۔ بعد ازاں عبدالوحید ارائیں شرط ہار گیا اور مان بھی گیا کہ وہ شرط ہار گیا ہے مگر ماننے کے باوجود شرط پر عمل کرنے سے اسی طرح انکاری ہے جیسے تہمینہ دولتانہ دس روپے کی شرط ہار چکی ہے، مگر رقم بصورت چیک دینے سے انکاری ہے۔
اس دوران میں نے میٹرو منصوبے میں خرابیوں کی نشاندہی کا کام شروع کر دیا۔ کمشنرسے لے کر منصوبے کے عملی انچارج انجینئر صابر خان سدوزئی تک یہ تسلیم کرتے تھے کہ واقعتاً آپ کی بتائی گئی خرابیاں موجود ہیں مگر عملی طور پر ان خرابیوں کی اصلاح کی طرف کوئی قدم نہ اٹھایا گیا۔ جب ان میں سے کئی خرابیوں کا بدترین نتیجہ سامنے آیا تو ان کی درستی کی کوشش کی گئی مگر ان کا نتیجہ بھی کچھ زیادہ سودمند نہ نکلا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ میٹرو روٹ تو ٹھیک ہے یعنی جہاں میٹرو بس چلے گی وہ حصہ درست ہے مگر میٹرو روٹ کے نیچے خرابیوں اور تقائص کا ایک طومار ہے۔ سٹیشنوں کی تعمیر سے لے کر سروس روڈز تک ہر جگہ خرابیوں کے انبار ہیں۔ سائڈ روڈز میں داخل خارج ہونے سے لے کر یو ٹرن کی تعمیر تک‘ انجینئرنگ کی خرابیاں ایسی ہیں کہ شک پڑتا ہے کہ اسے کسی انجینئر کے بجائے شاید کسی درزی یا نائی نے ڈیزائن کیا ہے۔ سٹیشنز کی سیڑھیوں کی ریلنگ دنیا بھر میں سیڑھیوں کی ریلنگ کی سٹینڈرڈ اونچائی دو فٹ دس انچ کے لگ بھگ ہونے کے بجائے پونے چار فٹ کے قیب ہے اور بجائے سہولت یا آسانی کے، باقاعدہ باعث تکلیف ہے۔ آج منصوبے کے افتتاح کو دو روز ہوئے ہیں اور کل ہونے والی پہلی بارش کے طفیل سارا فلائی اوور جگہ جگہ سے ٹپک رہا ہے۔ ملتان کے شاندار آرکیٹکٹ نجیب سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگا اتنے خوبصورت منصوبے کے نیچے لٹکے ہوئے پلاسٹک کے ڈرین پائپس کوالٹی آف ورک پر بدنما داغ ہیں۔ غرض کوئی ایک خرابی ہو تو بتائوں۔
گزشتہ سے پیوستہ روز اس منصوبے کی افتتاحی تقریب تو نو نمبر چونگی پر ہوئی، تاہم بعد میں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے جناح آڈیٹوریم میں عوامی نمائندوں‘ عمائدین شہر‘ ادیبوں‘ دانشوروں‘ میڈیا اور طلبہ سے خطاب کیا۔ اس تقریب میں راقم بھی موجود تھا۔ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے اپنی تقریر میں میرا نام لیے بغیر نہایت خوشگوار انداز میں طنزیہ جملہ اچھالا کہ جنوبی پنجاب کے ایک کالم نگار‘ جن کی میں بڑی عزت کرتا ہوں نے اس منصوبے کے خلاف لکھا تھا، تاہم مجھے خوشی ہے کہ وہ آج اس منصوبے کی تکمیل کے موقع پر یہاں موجود ہیں۔
مجھے اس بات کا اقرار ہے کہ میں نہ کل اس''باجہ پارٹی‘‘ میں شامل تھا جو بھونپو لے کر اس منصوبے کی شان میں قصیدے پڑھتی تھی اور نہ ہی آج اپنے سابقہ موقف پر شرمندہ ہوں۔ تاہم اب یہ منصوبہ ہمارا ہے، اہل ملتان کا۔ اس کی حفاظت کرنا اور اس کی بہتری کا سوچنا ہمارا فرض بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ اسے بہرحال اہل ملتان نے ہی استعمال کرنا ہے، تخت لاہور نے نہیں۔ لیکن میں نے تب ایک بات اور بھی لکھی تھی جو ریکارڈ پر موجود ہے کہ تخت لاہور ہمیں اپنی مرضی سے مسلط کیے گئے اس اٹھائیس ارب کے منصوبے کو ہمارے سر تھوپنے کے بعد دیگر منصوبوں کے لیے پیسے نہیں دیں گے کہ ان کے نزدیک اس اٹھائیس ارب روپے کے خرچے کے بعد ہمارا ترقیاتی کوٹہ پورا ہو گیا ہے۔ میرا شک سچ ثابت ہوا، اس تقریب کے حوالے سے مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت بڑے شدو مد سے اعلان کر رہی تھی کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف ''اہل ملتان کے لیے کئی میگا پراجیکٹس کا اعلان کرنے آ رہے ہیں۔ ساری امیدیں اس وقت ٹھس ہو گئیں جب وزیر اعظم صرف عمران خان پر گرج برس کر تقریب سے نکلے اور ہیلی کاپٹر پر چڑھ کر واپس روانہ ہو گئے۔ ملتان اور اہل ملتان اب تک حیران و پریشان ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ تاہم مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ مجھے پتا تھا کہ ایسی ڈھیلی‘ فارغ اور کمزور مقامی قیادت کے پاس جرأت نام کی کوئی چیز نہیں۔ سنا ہے میاں صاحبان نے مقامی سیاسی سے سوائے سلام دعا کے اور کوئی بات نہیں کی۔ مقامی سیاسی قیادت اسی پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں