"KMK" (space) message & send to 7575

لائل پوری شاعروں کی شاعری اور ’’دریاواں دا ہانی‘‘

کئی دن سے جی کر رہا تھا کہ کچھ شاعری پر لکھا جائے کہ ملکی سیاست تو سٹار پلس ڈرامہ بن گئی ہے۔ نہ آگے بڑھ رہا ہے اور نہ ختم ہو رہا ہے۔ ابھی ارادہ باندھا ہی تھا کہ برادر عزیز ہارون الرشید نے ہمارے عزیز دوست اور شاندار حاضر سروس شاعر میجر شہزاد نیّر کی شاعری پر ایک مرصع کالم لکھ دیا۔ اب تو معاملہ مشکل آن ٹھہرا کہ کہاں برادر عزیز جیسا صاحبِ ذوق اور کہاں میرے جیسا کور ذوق۔ سو دبک کر بیٹھ گیا۔ حالانکہ اس کالم نے دل میں چھپی چنگاری کو پھونک مار کر شعلہ بنا دیا تھا‘ پھر بھی ہمت نہ پڑی۔ اللہ بھلا کرے مولانا فضل الرحمان اور مشاہداللہ خان کا جنہوں نے نہ صرف یہ کہ میاں نواز شریف کو شاعری سنائی بلکہ داد بھی وصول کی۔ اس افراتفری کے عالم میں جہاں سامع میاں نواز شریف اور ان کے ہمنوا ہوں‘ اور داد کے ڈونگرے برسیں‘ وہاں مجھ جیسے عاجز کو بھی حوصلہ ہوا کہ شاعری پر قلم اٹھا لوں۔
ایمانداری کی بات ہے کہ میرا پکا خیال ہے کہ میاں صاحب کا حال شاعری میں تو سیاست سے بھی پتلا ہے اور وہ شاعری سے میل دو میل کی دوری پر نہیں بلکہ کئی ''لائٹ ایئرز‘‘ کے فاصلے پر ہیں۔ مزید ستم یہ کہ مولانا فضل الرحمان نے میاں صاحب کو سیدھی سادی شاعری سنانے کے بجائے مرحوم سید حنیف اخگر ملیح آبادی جیسے پختہ کار اور روایتی شاعری کرنے والے استاد شاعر کی غزل سنائی۔ استاد کی پختگی کا یہ عالم ہے کہ خود مولانا فضل الرحمان جیسے ہر فن مولا نے ان کا شعر غلط پڑھا (ممکن ہے رپورٹر نے غلطی کر دی ہو حالانکہ کسی بھی رپورٹر کی سخن فہمی بہرحال میاں نواز شریف سے بدرجہا بہتر ہی ہو گی) مولانا کا پڑھا ہوا جو شعر اخبار میں لکھا گیا ہے‘ وہ غلط بھی ہے اور الحمدللہ وزن سے بھی خارج ہے۔ اللہ جانے کس کی غلطی ہے۔ مولانا کی یا رپورٹر کی‘ بہرحال اخبار کے مطابق مولانا نے جو شعر پڑھا وہ اس طرح تھا:
دل پہ جو گزرنا ہے گزر جائے مگر
آپ یونہی زلفِ برہم کو سنوارا جائیے
اصل شعر یوں ہے: 
آئینہ پر جو گزرنا ہو گزر جائے مگر
آپ یونہی زلفِ برہم کو سنوارے جائیے
اس غزل کا مقطع ہے:
کچھ تو لطفِ لمسِ آغوشِ تلاطم چاہیے
تا کجا اخگر کنارے ہی کنارے جائیے
اگر اس مقطع کا مطلب میاں صاحب اپنی ایم اے اردو (پی ایچ ڈی کرنے کی افواہ بھی سنی گئی ہے) زوجہ محترمہ سے پوچھے بغیر بتا دیں تو یہ عاجز بطور جرمانہ ان کی سخن فہمی پر پورا ایک کالم لکھنے کا وعدہ کرتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی پذیرائی دیکھ کر مشاہداللہ خان بھی میدان میں آ گئے (حالانکہ مولانا فضل الرحمن کی پذیرائی کی وجوہات بالکل مختلف ہیں) اور آغا حشر کی غزل کے اشعار میاں صاحب پر لادنے شروع کر دیے۔ اتنی ثقیل شاعری اور میاں صاحب۔ میں اس موقع پر اور کچھ نہیں تو میاں صاحب کی ذہنی کوفت کا اندازہ کر سکتا ہوں‘ جو انہیں اس قسم کے ثقیل اشعار سن کر ہوئی ہو گی اور اوپر سے داد دینا الگ سے مصیبت تھی‘ جو بہرحال انہوں نے بھگتائی۔ اس سارے المیے کو مدِنظر رکھتے ہوئے میرا حوصلہ بھی بڑھ گیا ہے‘ اور میں بھی شاعری کے ''چھابے‘‘ میں اپنا ہاتھ مار رہا ہوں۔ آج صرف اور صرف لائل پوری شاعروں کی شاعری۔ پھر کسی دن کسی اور کی شاعری بارے لکھنے کی جرات کریں گے۔ اور سب سے پہلے فیضی کی ایک غزل۔ امید ہی نہیں یقین ہے کہ صرف اس غزل کے طفیل برادر عزیز ہارون الرشید اس عاجز سے رعایت کریں گے۔
پڑے ہوئے تھے شامل قطار کیسے ہو گئے
اے کارِ زندگی تیرے شکار کیسے ہو گئے
یہ خاک گمشدہ تمہارے ہاتھ کس طرح لگی
تمہاری انگلیوں پہ ہم شمار کیسے ہو گئے
تو کیا بہت کشش ہے اس جہانِ رنگ و موج میں
قرارِ دل ہم اتنے بے قرار کیسے ہو گئے
ہمیں تو اپنی خاکساریاں بہت عزیز تھیں
نگار سیم و زر پہ ہم نثار کیسے ہو گئے
یہ عمر تو کسی عجیب واقعے کی عمر تھی
یہ دن فقط سپردِ روزگار کیسے ہو گئے
.........
انجم سلیمی کے دو شعر:
میں پلٹ آیا تھا دیوار پہ دستک دے کر
اب سنا ہے وہاں دروازہ نکل آیا ہے
اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو
پھر ایک دن یونہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے
مقصود وفا کا ایک شعر:
ایک غم میں نہال تھا کہ مجھے
اک خوشی نے بہت اداس کیا
اور اب مقصود وفا کی دو تین غزلیں
یوں بھی خاصیت اشیاء کا پتا چلتا ہے
ریت پر چلتا ہوں دریا کا پتا چلتا ہے
جینے لگتا ہوں تو مرنے کی خبر ملتی ہے
اسی دوران میں احیاء کا پتا چلتا ہے
گھر میں ترتیب سے رکھی ہوئی چیزوں سے مجھے
اپنی برباد تمنا کا پتا چلتا ہے
ہوتے ہوتے تیرے رازوں کی خبر ہوتی ہے
چلتے چلتے تیری دنیا کا پتا چلتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی تنہائی کہ دل جھومنے گانے لگا ہے
اب کہیں جا کے تیرا ہجر ٹھکانے لگا ہے
تو بھی موجود ہے اطراف میں لیکن میرا دل
تیرے کوچے میں کسی اور بہانے لگا ہے
بے نیازی ذرا بڑھتی تو وہ بے حوصلہ شخص
اب میرا وعدہ مجھے یاد دلانے لگا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
کار بے کار سے آگے کا قدم لیتا ہوں
جو بناتا ہوں اسے توڑ کے دم لیتا ہوں
اس محبت کو بہت دیر سہا ہے میں نے
اب اسے دے کے کوئی دوسرا غم لیتا ہوں
خاک میں ملتا ہوا‘ دادِ فنا دیتا ہوا
بعض اوقات تو میں راہِ عدم لیتا ہوں
ایک دیوار پہ لٹکی ہوئی تصویروں کو
ایسے تکتا ہوں کہ پھر سانس بھی کم لیتا ہوں
.........
آج کے دن اتنا ہی۔ لیکن لائل پوریوں کی توانا شاعری کے سامنے ایک کالم کی بھلا حقیقت ہی کیا ہے۔ کم از کم ایک اور کالم تو ہو جس کا آغاز ریاض مجید اور اختتام افضل احسن رندھاوا کی غزل سے کیا جائے وگرنہ تو سب کچھ نامکمل ہے۔ سو اسے مکمل کرنا فرض ہے۔ اور ہاں یاد آیا۔ مولانا کے بے وزن شعر پر میاں صاحب کی داد ان کی سخن شناسی کا زندہ ثبوت ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں