"KMK" (space) message & send to 7575

تاریخ کا بدترین سبق

القصبہ کو سپین والے Alkazaba لکھتے ہیں‘ یہ الحمرا کمپلیکس کا تیسرا حصہ ہے۔ جنت العریف‘ نصری محل اور القصبہ۔ سپین میں انگریزی کا حرف زیڈ دراصل ہمارے ''س‘‘ کی آواز دیتا ہے۔ مثلاً المنصور کو وہ Almazur یا Almanzoor لکھتے ہیں۔ القصبہ فوجی بیرکوں‘ حفاظتی حصار اور ایک بلندوبالا دفاعی برج پر مشتمل اس سارے کمپلیکس کا آخری سرا ہے جس کے پار دریا ہے۔ بلندوبالا برج کا نام ''برج الغفر‘‘ ہے اس پر آج کل ایک بڑی گھنٹی لگی ہوئی ہے۔ غرناطہ کی فتح کی یاد میں یہ گھنٹی ہر سال دو جنوری کو بجائی جاتی ہے۔ شکر ہے ہم دو جنوری کو غرناطہ نہیں آئے۔
واپسی کے سفر میں باقی تمام دوستوں کو‘ امجد صاحب کو‘ عامر محمود کو اور طیب میاں کو القصبہ نہ دیکھ سکنے کا ملال تھا۔ میں جب دس گیارہ سال قبل آیا تھا تو میرے داخلے کا وقت صبح دس بجے تھا اور بارہ بجے کے لگ بھگ نصری محل دیکھ کر فارغ ہو چکا تھا۔ جنت العریف اور القصبہ کے لیے میرے پاس خاصا وقت تھا۔ جولائی کا مہینہ تھا اور سخت گرمی تھی۔ میں ملتان میں رہنے کے باوجود گرمی برداشت نہیں کر سکتا مگر اس روز میں نے بڑی ہمت کی اور درجنوں سیڑھیاں چڑھ کر برج الغفر پر پہنچ گیا۔ اس وقت میں برج الغفر پر پہنچنے والا واحد شخص تھا۔ گھنٹی خاموش تھی مگر لگتا تھا کہ میرے اندر یہ زور زور سے بج رہی ہے۔ دیوار سے نیچے جھانکا سامنے دریائے شنل تھا۔ چشم تصویر میں دیکھا کہ یہیں کہیں گھوڑے پر سوار ابوموسیٰ‘ فرڈیننڈ کی فوجوں سے لڑتا ہوا‘ دشمن کے آگے بڑھتے ہوئے فوجی دستوں کے دبائو کا مقابلہ کرتے ہوئے‘ آہستہ آہستہ پیچھے جا رہا ہے۔ بلکہ وہ پیچھے جا نہیں رہا‘ دھکیلا جا رہا ہے۔ آگے فرڈیننڈ کی فوج ہے اور پیچھے دریا۔ بہادر ابوموسیٰ‘ بزدل ابوعبداللہ کی فوج کا سربراہ اور بالاخر وہ لڑتا ہوا اور مزاحمت کرتا ہوا دریا کے کنارے تک آن پہنچا اور پھر آہستہ آہستہ دریا کی موجوں میں کہیں غائب ہو گیا۔ بھاری زرہ بکتر سمیت وہ دریا میں ڈوب گیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ دریا کے پار جاتا ہوا دیکھا گیا مگر وہ اس کے بعد کہیں نظر نہ آیا۔ اسے دریا کھا گیا یا زمین نگل گئی مگر ابوعبداللہ کی طرح شکست کی ذلت کے بعد دوبارہ دیکھا نہیں گیا۔
ابوعبداللہ فرڈیننڈ سے ایک معاہدے کے بعد الحمرا سے نکل کر سیرانوادا کے پہاڑوں کے دامن میں ایک وسیع جاگیر پر چلا گیا۔ لیکن وہاں اس کا تنہائی میں دل نہ لگا تو اپنے گیارہ سو نوکروں‘ ملازموں‘ خادموں اور گھر والوں سمیت شمالی افریقہ چلا گیا۔ جہاں مراکش کے شہر ''فیض‘‘ میں اس نے ایک محل بنا لیا اور بڑے مزے سے زندگی گزاری۔ دوسری طرف اس کا چچا الزغل بھی مراکش گیا مگر اس کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر کر اندھا کر دیا گیا۔ بزدل ابوعبداللہ‘ فیض میں اپنے محل میں عیش و آرام کرتا رہا اور بہادر و جری نابینا الزغل فیض کی گلیوں میں خیرات مانگتا رہا۔ تاہم زیادہ عرصہ نہ گزرا اور ابوعبداللہ کی اولاد بھی اسی شہر میں زکوٰۃ اور خیرات مانگتی نظر آئی۔ فاعتبر ویااولی الابصار
گفتگو چل رہی تھی۔ عامر نے پوچھا کیا سقوط اندلس ہماری غلطیوں اور جیسا کہ ہم نے ڈراموں میں دیکھا ہے اور پڑھا بھی ہے‘ ہماری بزدلی اور نااہلی کا نتیجہ تھا؟ میں نے کہا ایسا کہنا مکمل درست نہیں۔ صرف اور صرف ابوعبداللہ کی بزدلی اور سازشوں کو ہی سقوط اندلس کا نتیجہ قرار دینا درست تجزیہ نہ ہو گا۔ سقوط اندلس کوئی ایک دن میں نہیں ہوا۔ اسے لگ بھگ اڑھائی سو سال لگے۔ ابوعبداللہ اکیلے کو اس کا ذمہ دار قرار دینا بہرحال ناانصافی ہو گا۔ صورتحال یوں ہے کہ جب 712ء میں موسیٰ بن نصیر سپین آیا تو تقریباً سارا سپین ہی چھوٹی چھوٹی عیسائی ریاستوں میں منقسم تھا۔ یعنی اس وقت کرسچن سپین چھوٹی چھوٹی طائفہ ریاستوں پر مشتمل تھا۔ موسیٰ بن نصیر سے لے کر عبدالرحمان اوّل یعنی عبدالرحمان الداخل تک‘ تمام مسلمان فاتحین نے اسی چیز کا فائدہ اٹھایا اور آہستہ آہستہ سپین کے ساٹھ‘ پینسٹھ فیصد علاقے پر اور پورے پرتگال پر قبضہ کر لیا۔ 1236ء کو یعنی اپنی آمد کے سوا پانچ سو سال بعد مسلمان ایسی حالت میں تھے جس حالت میں ان کی آمد کے وقت عیسائی تھے۔ لہٰذا ان کا بھی وہی حال ہوا جو عیسائیوں کا ہوا تھا۔ 1031ء میں قرطبہ میں اموی خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی اندلس یعنی ''مسلم سپین‘‘ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم ہو گیا۔ اس کی ابتدا قرطبہ سے ہی ہوئی۔ سپین میں کچھ عجیب نہیں ہوا۔ صرف تاریخ دوسری طرح دہرائی گئی۔ تاریخ کا سب سے بدترین سبق یہ ہے کہ کبھی کسی نے تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا۔
تاریخ دان لکھتے ہیں کہ عیسائیوں کو اکٹھا کرنے میں جہاں بعض عیسائی حکمرانوں اور چرچ کا ہاتھ ہے وہیں ابو عامر المنصور کی لگاتار فتوحات کا بھی بڑا دخل ہے۔ ابو عامر المنصور نے ستاون معرکوں میں‘ خود اپنی فوج کی قیادت کی اور سب میں عیسائیوں کو شکست فاش دی۔ ان ہزیمتوں نے عیسائیوں کو اکٹھا ہونے پر مجبور کر دیا۔ خاص طور پر جب ابو عامر المنصور نے لیون اورکاسٹائل (León and Castile) کی مہم میں ان دو عیسائی ریاستوں کو بری طرح پچھاڑا اور اس مہم کے دوران سانٹیاگو ڈی کمپوسٹیلا (Santiago de Compostela)کی فتح کے بعد ابو عامر نے وہاں کے کیتھڈرل کی گھنٹیوں کو قرطبہ میں لا کر پگھلایا اور ڈھلائی کر کے ان سے مسجد قرطبہ کے فانوس بنوائے۔ 1236ء میں قرطبہ کی فتح کے بعد کاسٹیلیا کے بادشاہ فرڈیننڈ سوم (یہ ابوعبداللہ والا فرڈیننڈ نہیں تھا) نے مسجد قرطبہ سے فانوس اتروائے اور انہیں واپس پانچ سو میل دور سینٹ جیمز کے مقبرہ پر لے جا کر دوبارہ پگھلایا اور ان سے ایک بار پھر سانٹیاگو ڈی کمپوسٹیلا کے چرچ کی گھنٹیاں ڈھالی گئیں۔
ہم معاملات کو حقائق کی نظر سے نہیں جذبات سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے پس منظر میں ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ آخر اندلس کے مسلمانوں کی صورتحال کیا تھی؟ چاروں طرف سے امڈتی ہوئی عیسائی افواج‘ چرچ کی طرف سے ان مقدس جنگوں میں بھرتی کے احکامات‘ عیسائی حکمرانوں کا آپس میں اتحاد‘ قرطبہ کی اموی خلافت کا خاتمہ، لیکن اس کے باوجود مسلمان ریاستوں اور حکمرانوں کی مزاحمت۔ مالاگاکے محاصرے کے بارے میں تاریخ دان لکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے ناقابل تصور مزاحمت کا مظاہرہ کیا اور پانچ ماہ تک بے یادرومددگار اور بے سروسامانی میں اس محاصرے میں رہ کر مقابلہ کیا۔
دور کیوں جائیں؟ صرف یہ دیکھیں کہ عیسائیوں کو 1236ء میں قرطبہ فتح کر لینے کے بعد غرناطہ کی نصری امارت ختم کرنے میں کتنا وقت لگا۔ کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ 1236ء میں قرطبہ فتح ہوا اور اس سے محض دوسو کلومیٹر دور غرناطہ 1492ء میں فتح ہوا۔ محض دو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں عیسائیوں کو دو سو اکسٹھ سال لگ گئے۔ یعنی ایک حساب سے ایک اعشاریہ تین کلومیٹر فی سال۔ اب اس سے بڑھ کر اور مزاحمت کیا ہوتی ہے؟ لڑکپن میں مَیں نے بھی نسیم حجازی کی کتابیں پڑھی ہیں۔ ناول لکھنا اور بات ہے اور چاروں طرف سے یلغار کرتے ہوئے عیسائیوں کا مقابلہ کرنا‘ محاصرے بھگتنا اور بے سروسامانی کے عالم میں مزاحمت کرنا بالکل مختلف بات ہے۔ ابوعبداللہ غداری نہ بھی کرتا تو غرناطہ کتنے دن اور مزاحمت کر پاتا؟ ایک سال یا مزید دو سال‘ اور بس! دراصل سقوط اندلس میں ہمارے لیے ایک سبق ہے لیکن میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ تاریخ کا سب سے بدترین سبق یہ ہے کہ کبھی کسی نے تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں