"KMK" (space) message & send to 7575

استنبول کی ہوا اور کالم کے صفحات

پھر ایک لمبی غیر حاضری ...اب تو اس سلسلے میں وضاحت دیتے ہوئے بھی تھوڑی شرم سی آنے لگ گئی ہے، لیکن اس بار میں تکنیکی بنیادوں پر ناک آئوٹ ہونے کے باعث کالم نہیں لکھ سکا حالانکہ لکھنے کے لیے اتنا کچھ تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر بھی لکھا جا سکتا تھا مگر معاملہ بالکل ہی مختلف تھا۔ میں جب پاکستان سے روانہ ہوا تو نہایت اہتمام سے اپنا پچیس روپے والا پین‘ چھوٹی کالی سیاہی کی دوات اور لکھنے والا لکیر دار کاغذ اپنے بیگ میں رکھ لیا کہ پردیس میں کسی چیز کی محتاجی نہ ہو مگر وہ محتاجی پیش آئی جس کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا۔
رات قریب گیارہ بجے ہوٹل میں چیک اِن ہوا۔ سارے دن کا سفر تھا‘ بلکہ سارے دن کا بھی کہاں؟ ڈیڑھ دن کا سفر تھا۔ ملتان سے ایک دن پہلے روانہ ہوا کہ لاہور میں کچھ کام تھے۔ سو یہ کام سرانجام دیئے اور اگلے دن صبح ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ فلائٹ دوپہر بارہ بجے روانہ ہوئی اور درمیان میں دو گھنٹے کا ایک عدد سٹاپ لیتی ہوئی رات سوا نو بجے استنبول کے اتاترک ایئرپورٹ پر اتر گئی۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل جانے کا بندوبست ہوٹل والوں نے کر رکھا تھا لہٰذا کوئی دقت پیش نہ آئی۔ ہوٹل بھی دیکھا بھالا تھا۔ دو سال پہلے میں، انعم اور اسد اس ہوٹل میں قریب پانچ دن ٹھہر چکے تھے؛ تاہم اس وقت یہ مشکل درپیش نہ تھی جو آج کل ہے۔ سو تب کام چلتا رہا مگر اس بار پتا تب چلا جب اگلے روز کالم لکھنے کا ارادہ کیا۔ کمروں میں شیشوں کے دھندلے گلوبوں میں لگے ہوئے نیم مردہ سے بلب کمرے میں صرف اتنی روشنی پھیلاتے تھے کہ کارِ زندگی چلتا رہے۔ اس روشنی میں لکھنا میرے لیے ناممکن تھا۔ خیر میں نے مایوس ہونے کے بجائے ڈائنگ ٹیبل کو اٹھا کر کھڑکی کے پاس لے جانے کی کوشش کی مگر سخت ناکامی ہوئی۔ ڈائنگ ٹیبل دیوار کے ساتھ پیچوں کے ذریعے فکس کی ہوئی تھی۔ نیچے استقبالیہ پر فون کیا۔ نادر رات کی ڈیوٹی کر کے جا چکا تھا اور اب وہاں دیوران تھا۔ دیوران کا تعلق وسط ایشیائی ریاستوں سے ہے اور وہ کرغیزستان سے ترکی نوکری کرتے آیا ہے۔ اس کی انگریزی الحمد للہ میرے سے بھی خراب ہے‘ اتنی خراب کہ وہ میری انگریزی کو نہایت عمدہ اور اعلیٰ قرار دے چکا ہے۔
میں نے اس سے اپنی مشکل بیان کی‘ اس نے جواباً مجھے یہ آفر دی کہ میں ان کے کمپیوٹر ٹیبل پر آ کر اپنا کام کر سکتا ہوں۔ میں نیچے گیا۔ کمپیوٹر ٹیبل استقبالیہ کے ساتھ متصل انتظار گاہ کے کونے میں تھا اور وہاں روشنی کا معاملہ کمرے سے بھی زیادہ گڑ بڑ تھا۔ ویسے بھی کمپیوٹر پر کام کرنے کے لیے زیادہ روشنی کے بغیر بھی کام چلایا جا سکتا ہے کہ کمپیوٹر کی سکرین نہایت روشن ہوتی ہے لیکن لکھنے کے لیے یہ سارا کچھ ناکافی تھا۔ اپنا دفتر اس موقع پر بڑا یاد آیا۔ آج کل ویسے بھی یہاں شیشے کا‘ منشیوں والا ڈھلوان دار پھٹا لگوانے اور ایک عدد ٹیبل لیمپ کا بندوبست کرنے کے بعد سارا معاملہ بہت ہی اچھا چل رہا ہے اس لیے اپنا دفتر بہت یاد آیا۔ میں نے کاغذ قلم اٹھایا اور ارادہ کیا کہ کالم باہر جا کر تھوڑی دور ہی موجود سلطان احمد مسجد المعروف ''بلیو موسک‘‘ یعنی نیلی مسجد کے باہر لگے ہوئے لکڑی کے بینچوں پر بیٹھ کر لکھوں۔ باہر نکلا تو پنجابی والی ''کن من‘‘ لگی ہوئی تھی۔ ہلکی سی بارش‘ نہ بندہ پورا بھیگے اور نہ ہی خشک ہو۔ باہر جانے کا پروگرام ترک کر دیا ۔
اس بار ترکی جانے کا پروگرام بڑی افراتفری اور بھاگ دوڑ میں ہی بن گیا۔ کومل اپنے دونوں بچوں کے ہمراہ ٹرکش ایئرلائن پر پاکستان آ رہی تھی۔ سارہ پہلے ہی آسٹریلیا سے اپنے سمیسٹر بریک پر پاکستان آ چکی تھی۔ انعم نے کومل سے پروگرام بنایا کہ وہ استنبول میں چار گھنٹے کے ٹرانزٹ کے بجائے وہیں رک جائے اور ہم لوگ بھی وہیں آ جاتے ہیں۔ کومل راضی ہو گئی۔ انعم نے اسد اور سارہ سے بات کی۔ سب نے بالا بالا ہی پروگرام بنا لیا اور فائنل کر کے مجھے بتایا اور کہا کہ ایسا ممکن ہے کہ ہم استنبول اکٹھے ہو جائیں اور پھر واپس پاکستان ایک ساتھ آ جائیں۔ میں نے کہا کیا زمانہ آ گیا ہے‘ آپ لوگ پروگرام فائنل کر کے مجھے صرف اطلاع کر رہے ہیں۔ ہماری جرأت نہ تھی کہ ابا جی سے پوچھے بغیر کوئی پروگرام بنا سکتے۔ پروگرام بنانے کی بھی اجازت لی جاتی تھی۔ اگر اباجی کو محض شک پڑ جاتا کہ یہ بات اجازت نہیں بلکہ اطلاع کے طور پر بتائی جا رہی ہے تو ہماری شامت آ جاتی۔ کیا وہ زمانہ تھا اور کیا یہ زمانہ ہے۔ لیکن خیر اب یہ اجازت طلب کی جا رہی ہے یا محض اطلاع دی جا رہی ہے اس پر بحث کرنا فضول ہے، اب انتظامات شروع کئے جائیں لیکن سب سے پہلے کومل کو کہو کہ وہ اپنی ٹکٹ تبدیل کروائے‘ اپنا ویزہ لے‘ بچوں کا ویزہ تو آن لائن مل جائے گا۔ میرا‘ تمہارا (انعم) اور اسد کا ویزہ بھی آن لائن مل جائے گا، ہم تینوں کے پاس برطانیہ کا ویزہ موجود ہے۔ سارہ کو ویزہ لینا پڑے گا۔ کافی کام کرنے ہیں اور دن کم ہیں لہٰذا اب کمر باندھ لو اور اپنا اپنا کام شروع کر دو۔ جہاز اور ہوٹل کی بکنگ میں کروا لوں گا۔
رات اسد کا فون آیا کہ اگر ہوٹل کی بکنگ کروانی ہے تو صرف ''جم سلطان‘‘ میں کروانی ہے۔ گزشتہ بار اسی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ جم سطان کو انگریزی میں Cem Sultan لکھتے ہیں لیکن ترکی والے "C" کو ''ج‘‘ کی آواز میں بولتے ہیں۔ یہ تین منزلہ چھوٹا سا ہوٹل ہے۔ اس میں غالباً کل بارہ چودہ کمرے ہیں۔ چھت پر یعنی ''روف ٹاپ‘‘ پر ناشتے کا اہتمام ہے۔ سامنے خلیج مرمرہ کا نظارہ ہے۔ کھڑکیوں میں ''سیگل‘‘ ڈبل روٹی اور دیگر کھانے پینے کی چیزوں کی لالچ میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ سلطان احمد مسجد کے سامنے والا میدان ہوٹل سے محض ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر ہے۔ ایاصوفیہ دوسو میٹر، توپ کاپی محل تین سو میٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے۔ ہوٹل کا محل وقوع لاجواب ہے۔ میں نے اسد کو بتایا کہ ہوٹل کی بکنگ جم سلطان میں ہی ہو گی فکر نہ کرو پچھلی بار یہ بکنگ ''ہوٹل ڈاٹ کام‘‘ کے ذریعے کی تھی۔ اس بار کوشش کی اور دو''سی ویو‘‘ فیملی رومز کا پتا کیا تو جواب ملا کہ کمرے دستیاب نہیں۔ میں نے ہوٹل کا نمبر گھمایا دوسری طرف سے آواز آئی: ''جم سلطان‘‘۔ میں نے پوچھا: نادر ہے؟ جواب ملا: وہ رات کی شفٹ پر ہے اور ابھی اس کے آنے میں پانچ گھنٹے ہیں۔ رات گئے میں نے فون کیا۔ آگے نادر تھا۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ میں گزشتہ سال ان کے ہوٹل میں ٹھہرا تھا اور کہا تھا کہ اگلی بار ان سے براہ راست بکنگ کروائوں گا۔ اسے یاد آ گیا، میں نے بتایا کہ مجھے دو فیملی رومز سی ویو والے چاہئیں۔ اس نے تاریخیں پوچھیں‘ چیک کیا اور کہنے لگا کہ ایک کمرے سے کام چلے گا؟ میں نے کہا: پانچ لوگ اور دو چھوٹے بچے‘ کیا ایک فیملی روم میں سما سکتے ہیں؟ وہ ہنسا اور کہنے لگا کہ کل کنفرم کروں گا۔ اگلے روز اس نے دونوں کمرے کنفرم کر دیئے۔ کومل نے دو روز بعد شکاگو جا کر ''دستی‘‘ ویزہ حاصل کر لیا۔ دستی سے مراد وہ ترکی کے قونصل خانے گئی۔ اپنے ساتھ تمام ضروری کاغذات لے گئی ہوٹل بکنگ کی کنفرمیشن میں نے بھجوا دی۔ وہ گئی اور فوراً ہی ویزہ سٹیکر لگوا کر واپس ٹومیڈو آ گئی۔ اب صرف سارہ کے ویزے کا مسئلہ تھا۔ اگلے روز اس نے ملتان سے اپلائی کر دیا۔ بتایا گیا کہ ویزہ دس سے بارہ ورکنگ دنوں میں آ جاتا ہے۔
کومل کی فلائٹ سہ پہر چار بجے پہنچنا تھی۔ میری اور انعم کی فلائٹ اسی دن رات کو سوا نو بجے پہنچنا تھی۔ لیکن ٹومیڈو سے شکاگو جاتے ہوئے شدید برفباری کے باعث ٹریفک پھنس گئی اور کومل کی فلائٹ نکل گئی۔ وہ اگلے دن سہ پہر چار بجے پہنچی۔ سارہ اور اسد نے اسلام آباد سے دو دن بعد آنا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہمیں سارہ کے ویزے کا کنفرم نہ تھا لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ اسد کے پہلے سمیسٹر کے فائنل امتحان کا آخری پیپر ہی ہماری روانگی کے دو دن بعد تھا۔ رات اسد کی فلائٹ پانچ گھنٹے لیٹ ہو گئی اور ان کا اگلا کنکشن تین گھنٹے بعد تھا لہٰذا وہ بھی نکل گیا۔ اس سے اگلی فلائٹ سات گھنٹے بعد تھی۔ یعنی کل ملا کر وہ قریب گیارہ گھنٹے کی تاخیر سے پہنچے۔ میں ایئرپورٹ انہیں لینے گیا۔ رات گئے میں انہیں لے کر ہوٹل پہنچا۔ قریب دو سال بعد ساری فیملی اکٹھی ہوئی۔ رات دو بجے فیصلہ ہوا کہ سونا چاہیے۔ تینوں بہنیں ایک کمرے میں سو گئیں۔ ایک کمرے میں مَیں اور اسد تھے۔ 
اگلی صبح بارش نہیں تھی لیکن تیز ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میں کاغذ اور قلم اٹھا کر‘ احتیاطاً چھتری ساتھ لے کر دوبارہ مسجد سلطان احمد کی طرف چل پڑا۔ ابھی ہم راستے ہی میں تھے کہ دوبارہ ہلکی بارش شروع ہو گئی چھتریاں کھولیں تو وہ اگلے ہی لمحے‘ پہلے وہ الٹی ہوئیں اور پھر ان کی کمانیاں ٹوٹ گئیں اور کپڑا ہوا میں اڑ گیا۔ ساتھ ہی میرے کالم والے کاغذ بھی۔ اب بھلا کالم کیسے لکھا جا سکتا تھا؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں