"KMK" (space) message & send to 7575

آج کا کالم میرزا محمد جعفرز ٹلی کے نام

کالم کسی اور موضوع پر لکھنا تھا۔ مگر شعراء کی عزت کا معاملہ آن پڑا ہے۔ برادر عزیز رئوف کلاسرا نے برصغیر پاک و ہند کے تمام شعراء قلم کار اور ادیبوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا ہے۔ برادر عزیز نے لکھا ہے کہ ''ہندوستانی تاریخ میں کوئی شاعر‘ ادیب یا قلم کار نظر نہیں آتا جو ہزاروں برسوں میں اس وقت کی بادشاہت یا بادشاہوں کے خلاف لکھنے یا بولنے کی جرات کرتا۔ سینکڑوں سال پہلے امیر خسرو بادشاہوں کے دربار میں بیٹھ کر شاعری کر رہے تھے تو یہ کام بعد میں غالبؔ‘ میر تقی میرؔ‘ ذوقؔ بھی کرتے رہے‘‘۔ رئوف کلاسرا مجھے عزیز ہے اور کوئی عزیز سا عزیز؟ بطور رپورٹر بھی اور بطور کالم نگار بھی۔ بطور تجزیہ کار اور بطور اینکر بھی۔ لیکن سب سے بڑھ کر بطور برادرِ خورد۔ لیکن کیا کیا جائے؟ معاملہ برصغیر کے تمام شعراء کا آن پڑا ہے۔ برصغیر کی تاریخ میں سارے طبقات ہی حکمرانوں‘ بادشاہوں اور حملہ آوروں کے سامنے سربسجود رہے مگر سب کے سب نہیں۔ استثنائی صورت ہر طبقے میں موجود تھی۔ مخبری کرنے والا سرفراز بھی کھرلوں میں سے تھا اور سر کٹوانے والا رائے احمد خان بھی کھرل ہی تھا۔ ملتان شہر میں پل موج دریا پر بغاوت کرنے والوں کے قتل عام میں انگریزوں کا دست و بازو مخدوم شاہ محمود قریشی بھی تھا اور دمدمے پر اپنے آٹھ جوان بیٹوں کے ساتھ جان قربان کرنے والا اسّی سالہ نواب مظفر خان بھی اسی دھرتی کا فرزند تھا۔ انگریزوں کے وفاداروں میں قتال پور سید مہر شاہ اور اس کا بیٹا غلام رسول شاہ تھا تو وہیں جان قربان کرنے والے مہر بہاول فتیانہ‘ ولی داد مردانہ‘ صلابت ترہانہ‘ باہلک وٹو‘ محمد خان کاٹھیہ اور مہر مراد فتیانہ بھی اسی سرزمین کے سپوت تھے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ سرفروشوں کے مقابلے میں غداروں اور کاسہ لیسوں کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ تھی۔ یہ سب طبقات پر منطبق ہے لیکن فی الوقت معاملہ برصغیر کے ادیبوں اور شاعروں کا آن پڑا ہے۔ 
مسئلہ رئوف کلاسرا کے کالم کا جواب نہیں بلکہ محض تاریخ کو سیدھا رکھنے کا ہے اور خاص طور پر شاعروں پر لگی تہمت کا ہے کہ ہندوستان کی ہزاروں سالہ پرانی تاریخ میں ''کوئی شاعر‘ ادیب یا قلم کار نظر نہیں آتا جو ہزاروں برسوں میں اس وقت کی بادشاہت یا بادشاہوں کے خلاف لکھنے یا بولنے کی جرات کرتا‘‘ برادرِ عزیز سے محبت اپنی جگہ مگر اس دھرتی کے ''سارے شعراء کو ایک لاٹھی سے ہانک کر بزدل‘ کاسہ لیس‘ چاپلوس‘ درباری اور جرأت و حمیت سے عاری قرار دینے پر اگر میں میرزا محمد جعفر کا ذکر نہ کروں تو روز قیامت اس کو جوابدہ اٹھوں گا۔ میر میرزا جعفر ؎
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ ملت‘ ننگ دین‘ ننگ وطن
والا جعفر نہیں بلکہ نارنول کا میرزا محمد جعفرز ٹلی ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے شاعروں کی عزت بہت عزیز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ میں شاعری سے منسلک ہوں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میں شاعری سے محبت کرتا ہوں اور اس شاعری کے حوالے سے شاعروں سے محبت کرنا ایک فطری امر ہے۔ بس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ یہ معاملہ گزشتہ اتوار والے کالم کا نہیں‘ بڑا پرانا ہے اور شاعروں کی عزت و آبرو مجھے کافی عزیز ہے۔ اتنی کہ ایک بار صرف شاعروں کی عزت کی خاطر دس ڈالر کا جوا کھیلنے پر تیار ہو گیا تھا۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اس سے بچا لیا مگر میں اس کے لیے بالکل تیار ہو گیا تھا۔
کئی برس ہوتے ہیں میں لاس اینجلس ایک مشاعرے کے سلسلے میں گیا ہوا تھا۔ وہاں ناروے سے جمشید مسرور‘ برطانیہ سے فرحت زاہد‘ امارات سے ڈاکٹر عاصم واسطی‘ پاکستان سے میں اور عباس تابش اور بھارت سے خوشبیر سنگھ شاد آئے تھے۔ مشاعرے کے بعد میں شفیق کی طرف چلا گیا۔ وہاں ہمارا پروگرام لاس ویگاس جانے کا بن گیا۔ میں نے خوشبیر سنگھ سے پوچھا وہ بھی لاس ویگاس چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ خوشبیر سنگھ شاد خراٹے بڑے زور کے مارتا ہے۔ اتنے زور سے کہ سننے سے پہلے تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہم سب مشاعرے سے پہلے اور کئی دن بعد تک‘ ریحانہ قمر کے گھر رہے۔ وہاں سارا گھر رات کو خوشبیر سنگھ شاد کے خراٹوں سے گونجتا تھا۔ لاس ویگاس میں شفیق اور میں ایک کمرے میں اور اکیلا خوشبیر سنگھ ایک کمرے میں تھا۔ ہم دوپہر کو لاس ویگاس پہنچے اور میں نے اعلان کر دیا کہ اس شہر میں ساری عزت جواریوں کی ہے اور شاعروں کی عزت کی خاطر میں رات کو دس ڈالر کا جوا کھیلوں گا۔ ہم سب بذریعہ سڑک لاس اینجلس سے لاس ویگاس پہنچے تھے اور تھکے ہوئے تھے لہٰذا ہوٹل پہنچتے ہی سو گئے۔ جوا خانہ ہوٹل کی نچلی منزل پر ہی تھا۔ شام کو اٹھے تو خوشبیر سنگھ غائب تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا لیکن خاصا خاموش تھا۔ پوچھا تو پتا چلا کہ وہ ''بلیک جیک‘‘ میں ستر ڈالر ہار گیا ہے۔ میں نے زور دے کر پوچھا تو اس نے بتایا کہ ایک سو ستر ڈالر ہارے ہیں۔ میں نے گرو کی قسم دے کر پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ دوسو ستر ڈالر ہارا ہے ساتھ ہی مجھے کہا کہ میں یہ اس کی بیوی کو نہ بتائوں۔ شام کو ہم نیچے اترے تو خوشبیر نے یاد دلایا کہ میں نے دس ڈالر کا جوا کھیلنا تھا۔ میں نے کہا یہ جوا محض شاعروں کی اس شہر میں عزت کی خاطر کھیلنا چاہتا تھا ‘اب آپ نے اتنی عزت بنا دی ہے مجھے کیا ضرورت ہے؟ معاف کیجئے بات میرزا جعفرز ٹلی سے لاس ویگاس چلی گئی۔
میرزا جعفرز ٹلی کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ وہ اردو کے پہلے طنزیہ اور مزاحیہ شاعر تھے۔ وہ سترہویں صدی کے آخر میں دہلی آئے اور پھر زندگی کا بیشتر عرصہ دہلی میں ہی گزار دیا۔ یہ فرخ سیر کا دور تھا‘ ظلم و بربریت سے بھرپور۔ بے شمار لوگوں کو قتل کیا گیا، ان کی زبانیں کاٹی گئیں اور بے شمار لوگوں کو اندھا کر دیا گیا۔ ایسے میں فرخ سیر اور اس کے دور کے بارے کچھ کہنا اپنی جان سے کھیلنے کے مترادف تھالیکن میرزا جعفر نے نہ صرف اس کے دور کے بارے میں طنزیہ یہ اشعار لکھے بلکہ اسی طرح کے ایک شعر کے طفیل اپنی جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھا۔ میرزا جعفرز ٹلی نے اپنی جان دے کر یہ ثابت کیا کہ سب شاعر درباری نہیں ہوتے کچھ جان سے کھیلنے والے بھی ہوتے ہیں۔ میرزا جعفر کی جرأت‘ بے باکی اور صاف گوئی اور طنز کی اس دور میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ میرزا جعفرز ٹلی کے دو چار اشعار
ہنر مند ہرجائی پھریں در در سوالی
رذل قوموں کی بن آئی عجب یہ دور آیا ہے
نفر کی جب طلب ہووے‘ غریب عاجز کھڑا رووے
میاں گھر میں پڑا سووے عجب یہ دور آیا ہے
سپاہی حق نہیں پاویں‘ نت اٹھ اٹھ چوکیاں جاویں
قرض بینوں سے لے کھاویں عجب یہ دور آیا ہے
میرزا جعفرزٹلی اگر یہ طنزیہ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویہ چھوڑ دیتے تو ملک الشعراء بن جاتے لیکن وہ اپنی طرز کے انوکھے اور حد درجہ بے خوف شاعر تھے جب فرخ سیر کا سکہ مسکوک ہوا تو اس پر شعر کندہ ہوا۔
سکہ زداز فضل حق برسیم وزر
پادشاہ بحروبر فرخ سیر
جب یہ شعر میرزا جعفرز ٹلی کے علم میں آیا تو وہ صرف دل مسوس کر ہی نہیں رہے بلکہ فرخ سیر جیسے ظالم و جابر بادشاہ کے تمام تر خوف کو دل میں نہ لاتے ہوئے بادشاہ کی تضحیک میں ایک شعر لکھا جو عوام میں پذیرائی پاتا ہوا آخرکار بادشاہ تک پہنچ گیا۔ بادشاہ نے میرزا جعفرزٹلی کی موت کا فرمان جاری کر دیا۔ شعر تھا۔
سکہ زد برگندم و موٹھ و مٹر
بادشاہ ہے تسمہ کش فرخ سیر
سکے سونے چاندی کے بنتے ہیں لیکن اس بے حیثیت (تسمہ کش) بادشاہ فرخ سیر نے گندم‘ موٹھ اور مٹر کے سکے چلا دیئے ہیں۔ فرخ سیر نے میرزا جعفرزٹلی کی گردن کے گرد تسمہ کس کر موت کا فرمان جاری کیا۔ میرزا جعفر کی گردن کے گرد چمڑے کا تسمہ لپیٹا گیا اور اس وقت تک کسا گیا جب تک میرزا کی سانس بند نہ ہو گئی۔ 
آج کا کالم میرزا محمد جعفرز ٹلی کے نام۔ جس نے جان دے کر برصغیر کے تمام اہلِ قلم کی لاج رکھ لی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں