"KMK" (space) message & send to 7575

حلقہ این اے 154 اور پیروں کی بددعا

شکر الحمدللہ میں نے بھی عمومی اندازوں کو سامنے رکھتے ہوئے حسب عادت علی ترین کی حلقہ این اے 154 سے جیت پر شرط نہیں لگائی‘ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اس میں میری ذاتی عقل وغیرہ کا کوئی عمل دخل نہیں تھا‘ بلکہ میں اس شرط سے محض اس لئے بچ گیا کہ کسی نے علی ترین کی شکست یا سید اقبال شاہ کی جیت کا ذکر ہی نہیں کیا تھا۔ ایسے میں شرط کیسے لگتی اور کس سے لگتی؟ جب تک فریقِ ثانی موجود ہی نہ ہو بھلا شرط کیسے لگ سکتی ہے؟
سید اقبال شاہ کی جیت بالکل ویسی ہی ہے جیسی ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی تھی۔ ساری دنیا میں اور میڈیا میں ہلری کلنٹن کی متوقع جیت کی ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ صرف ایک شفیق تھا جو بڑی شدومد کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کی پیش گوئی کر رہا تھا‘ مگر اس کی سنتا کون تھا؟ میں نے بھی بڑی مشکل سے اس کی بات کا یقین کیا کہ اس کی امریکی سیاست پر نہ صرف یہ کہ خاصی نظر ہے بلکہ وہ اندازے اور قیافے بھی خوب لگاتا ہے۔ میں نے اس کی بات سنی بھی اور تھوڑا بہت یقین بھی کر لیا‘ اور اسی بنیاد پر ٹرمپ کی جیت کے امکانات پر روشنی بھی ڈالی (شرطیہ جیت کی بات میں نے بھی نہیں کی تھی) اور وہی ہوا۔ ساری دنیا کے اندازے ایک طرف رہے اور ہلری کلنٹن کو ناقابل یقین قسم کی شکست ہوئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ بالکل غیر متوقع طور پر امریکہ کا صدر منتخب ہو گیا۔ اب لودھراں میں بھی یہی ہوا۔ تمام تجزیہ کاروں کے اندازوں کا بری طرح دھڑن تختہ ہوا اور سید اقبال شاہ نے علی ترین کو پچیس‘ چھبیس ہزار ووٹوں سے شکست فاش دے کر صرف لودھراں سے دور بیٹھے ہوئے تجزیہ کاروں کے تمام تر اندازوں کو ہی غلط ثابت نہیں کیا بلکہ لودھراں والوں کو حیران بھی کر دیا۔ حیران ہونے والوں میں پی ٹی آئی کے خوش فہمی کی حد تک خود اعتماد ورکر بھی تھے‘ اور اپنی ہار پر مارجن کم کرنے کی تگ و دو میں مصروف مسلم لیگی کارکن بھی۔ 
کسی نے اقبال شاہ سے پوچھا: شاہ جی الیکشن کیسے جا رہا ہے؟ آگے سے شاہ جی نے روایتی انداز میں جواب دیا: میاں صاحب نے ٹکٹ دے چھوڑی اے۔ مڑ ہن اساں گڈیاں بھجائی ودے آں۔ (میاں صاحب نے ٹکٹ دیدی ہے‘ سو اب ہم گاڑیاں بھگائے پھر رہے ہیں) پی ٹی آئی والوں سے حالات پوچھے تو جواب ملا کہ جیت تو رہے ہیں لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ جیت کا مارجن جہانگیر ترین والے چالیس ہزار کے مارجن سے کم ہوتا ہے یا بڑھتا ہے‘ ہماری پوری کوشش ہے کہ اگر یہ مارجن زیادہ نہ بھی ہو تو کم نہ ہو۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) والوں سے بات ہوئی تو جواب ملا کہ مقابلہ سخت ہے‘ جہانگیر ترین والا الیکشن نتیجہ بہرحال نہیں ہو گا‘ اگر ہم ہارے بھی تو پانچ تا دس ہزار سے زیادہ کا فرق نہیں ہوگا۔ اب اس الیکشن کے نتیجے کے بعد کوئی اندازوں کا چودھری بنتا ہے تو اس کا کیا کیا جا سکتا ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھے مسلم لیگ (ن) کا ایک بھی ورکر یا ہمدرد نہیں ملا جس نے یقین کے ساتھ حلقہ این اے 154 میں جیتنے کی بات کی ہو۔ دوسری طرف وہ درمیانی فرق‘ جو گزشتہ ضمنی الیکشن میں چالیس ہزار تھا‘ کم کرکے پانچ سات ہزار پر لانے کی بات کرتے تھے۔ ہر دو پارٹیوں کے ہمدرد اور ورکر علی ترین کی جیت پر تقریباً متفق تھے‘ جھگڑا صرف ہار جیت کے درمیان دونوں کے فرق پر تھا‘ لیکن لودھراں سے دور بیٹھے ہوئے تجزیہ کاروں اور لودھراں میں باہم برسرِ پیکار پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور ووٹروں کے سارے اندازے یکسر غلط ثابت ہوئے اور پی ٹی آئی تھوڑا عرصہ پہلے چالیس ہزار کے مارجن سے جیتی ہوئی سیٹ چھبیس ہزار کے مارجن سے ہار گئی۔ پی ٹی آئی والے عموماً اور عمران خان خصوصاً یہ بات مانیں یا نہ مانیں لیکن اس شکست کے دور رس نتائج اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہوں گے‘ جتنا وہ اندازہ لگا رہے ہیں۔
اس غیر متوقع شکست کی بے شمار وجوہات تلاش بھی کی جا رہی ہیں اور بیان بھی کی جا رہی ہیں۔ مسلم لیگی قیادت سے پوچھا جائے تو وہ اپنی اس جیت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی عوامی نفی قرار دے رہے ہیں اور پی ٹی آئی سے پوچھا جائے تو وہ اپنی شکست کو حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی قرار دیتے ہیں‘ لیکن معاملہ اس سے تھوڑا ہٹ کر ہے۔ این اے 154 میں کل 238 پولنگ سٹیشن ہیں اور ان میں سے لودھراں شہر میں صرف 31 پولنگ سٹیشن ہیں۔ یعنی 301 پولنگ سٹیشن دیہی علاقے میں ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سال گنے کی کرشنگ کے سیزن میں ہونے والے اس الیکشن میں گنے کی فصل نے بھی اہم رول ادا کیا ہے‘ حالانکہ جہانگیر ترین نے اس علاقے میں گنے کے کاشتکاروں کو سب سے اچھا ریٹ دیا اور گزشتہ دو سال سے بند کچا کھوہ میں واقع شوگر مل کو خرید کر اس علاقے کے گنے کے کاشتکار کو بہت بڑی سہولت دی ہے‘ مگر سارے کاشتکاروں کی فصل کو بروقت خریدنا بھی ممکن نہیں اور جہانگیر ترین کے مقدمے کی بدولت علی پور وغیرہ میں اتفاق گروپ کی ملوں کی بندش کے باعث گنے کی ملوں کو سپلائی کے معاملے میں مشکل پیش آ رہی ہے لیکن یہ باتیں بالکل جزوی اور شاید کسی حد تک غیر متعلق بھی ہیں۔ 
لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے تجزیہ کار سید اقبال شاہ کو غیر معروف شخصیت قرار دے رہے ہیں‘ جو حقائق کے سراسر برعکس ہے۔ اگر لودھراں سے دور بیٹھے ہوئے دانشور سید اقبال شاہ کو نہیں جانتے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اقبال شاہ لودھراں میں غیر معروف شخص ہے۔ سید اقبال شاہ کا بیٹا اس وقت پی پی 207 سے منتخب ایم پی اے ہے۔ سید عامر اقبال 2002 ء کے الیکشن میں اسی حلقہ پی پی 207 سے مسلم لیگ ق کی طرف سے ایم پی اے منتخب ہوا تھا۔ عامر اقبال 2008ء میں پیپلز پارٹی کے شفیق آرائیں سے الیکشن ہار گیا اور 2013ء میں اسی صوبائی حلقہ سے آزاد حیثیت میں ایم پی اے بن گیا تھا؛ تاہم بعد ازاں یہ سارے آزاد ارکان اسمبلی کا گروپ‘ جو عبدالرحمن کانجو ایم این اے، صدیق بلوچ ایم این اے، پیرزادہ جہانگیر سلطان ایم پی اے حلقہ پی پی 208، ملک سجاد حسین جوئیہ ایم پی اے پی پی 209، احمد خان بلوچ ایم پی اے حلقہ پی پی 211 پر مشتمل تھا‘ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گیا تھا۔ سید اقبال شاہ کا بیٹا اس وقت رکن صوبائی اسمبلی ہے، ایک بھائی مدثر اقبال ضلع لودھراں کا نائب ضلع ناظم ہے۔ خود اقبال شاہ تحصیل ناظم رہا ہے اور اب بھی یونین کونسل کا چیئرمین تھا۔ دور بیٹھے لوگوں کے حوالے سے اقبال شاہ غیر معروف ہوگا مگر جس جگہ وہ الیکشن لڑ رہا تھا وہاں وہ کسی حوالے سے غیر معروف نہیں تھا۔ ہاں اگر اس کا موازنہ جہانگیر ترین اور اس کے بیٹے سے کیا جائے تو وہ ملکی سطح پر یقینا ایک غیر معروف شخص قرار دیا جا سکتا ہے۔ 
علی ترین کی شکست اور اقبال شاہ کی جیت بنیادی طور پر حاضر اور غیر حاضر امیدوار کے باہمی فرق کا نتیجہ ہے۔ دیہاتوں میں تھانہ کچہری کلچر بھی اہم رول ادا کرتا ہے اور غیر حاضر رکن اسمبلی اگلی بار چاروں شانے چت گرتا ہے۔ آپ ایک بار الیکشن پیسے کے زور پر جیت سکتے ہیں لیکن ہر بار نہیں۔ علی ترین کی شکست بڑی واضح تھی۔ جہانگیر ترین کا فرزند اپنے گھر یعنی گیلے وال میں بھی ہارا اور پی ٹی آئی کے حامی سمجھے جانے والے شہری علاقوں سے بھی۔ اسے صرف ایک یونین کونسل میں برتری رہی باقی ہر جگہ حساب الٹا تھا۔
یہ صرف ایک حلقے کا معاملہ نہیں تھا‘ الیکشن سر پر ہیں اور اس نتیجے کا اثر بڑا بُرا نکلے گا۔ اگر کوئی غیبی مدد نہیں ملتی تو اب معاملہ عمران خان کیلئے زیادہ خوشگوار دکھائی نہیں دیتا۔ اب صرف بدعنوانی اور کرپشن کے بیانیے سے بات نہیں بنے گی کہ عمران کی پارٹی کرپٹ لوگوں کے حساب سے خاصی خود کفیل ہو چکی ہے۔
بقول شوکت گجر، علی ترین کی پیر اقبال شاہ کے ہاتھوں ہونے والی شکست عمران خان کو ''پیروں‘‘ کی طرف سے دی جانے والی بددعائوں کا نتیجہ ہے۔ واللہ اعلم کیا حقیقت ہے اور کیا نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں