"KMK" (space) message & send to 7575

عمران خان کی کچھوڑی اور شفیق کی پیشین گوئی

سینیٹ کے الیکشن ہو گئے، تمام شکوک و شبہات‘ بعض اینکرز کی پیشین گوئیوں اور ہمہ وقت ''لمبی لمبی چھوڑنے‘‘ والوں کے سینے پر مونگ دلتے ہوئے یہ الیکشن اپنے اختتام کو پہنچے۔ اب مسئلہ چیئرمین کا آن پڑا ہے۔ بلوچستان میں (ن) لیگ کی حکومت کو اڑنگی مار کر گراتے ہوئے وہاں سے چھ آزاد امیدواروں کی کامیابی اور سندھ میں ایم کیو ایم کی باہمی لڑائی کے درمیان نوٹوں کا دائو لگاتے ہوئے زرداری صاحب نے سندھ میں میدان مار لیا ہے لیکن فی الوقت ان کے پاس بھی چیئرمین کے لیے مطلوبہ ووٹ موجود نہیں وہ سینیٹ میں عددی اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہیں، پہلے نمبر پر مسلم لیگ (ن) ہے لیکن اس کا بھی صرف پہلا نمبر ہے‘ اکثریتی پارٹی وہ بھی نہیں ہے۔ اس الیکشن سے قبل ایک سو چار کے ایوان میں پیپلز پارٹی کے پاس 27 اور مسلم لیگ (ن) کے پاس 26 ووٹ تھے۔ اب صورتحال بدل گئی ہے، مسلم لیگ (ن) کے پاس اس وقت 33 اور پیپلز پارٹی کے پاس 22 ارکان ہیں؛ تاہم 33 ارکان کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو 53 ووٹ بنانے کے لئے مزید بیس ارکان کی ضرورت ہے۔ اتنے ووٹوں کا بندوبست زرداری صاحب تو کر سکتے تھے مگر مسلم لیگ (ن) اس معاملے میں خاصی پھسڈی ہے۔ حالیہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی سینیٹ میں عددی تعداد میں سات ارکان کا اضافہ ہوا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے پانچ ارکان کم ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی مجموعی طور پر بارہ ارکان کے ساتھ سینیٹ میں تیسری بڑی پارٹی ہے۔
سینیٹ میں چیئرمین بننے کیلئے 53 ووٹ درکار ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کی پارٹی خود اپنا چیئرمین تو بنوا نہیں سکتی‘ اب وہ ووٹ کسے دیں گے؟ مسلم لیگ (ن) کو یا پیپلز پارٹی کو؟ گمانِ غالب ہے کہ وہ دو میں سے ایک کام کریں گے۔ پہلا امکان جس کی توقع زیادہ ہے کہ وہ پنجابی لفظ ''کھچوڑی‘‘ کے مطابق اپنے بارہ ارکان کے ساتھ چیئرمینی کا لچ تلیں گے اور یہ بارہ ووٹ ان ایک سو چار میں سے نکل جائیں گے۔ دوسرا امکان یہ کہ وہ سینیٹ الیکشن کا بائیکاٹ کر دیں، عمران خان سے کچھ بھی بعید نہیں وہ ''کچھ‘‘ بھی کر سکتا ہے۔ اس ''کچھ ‘‘ کے بجائے اور بھی زیادہ مناسب لفظ میرے پاس موجود تھا مگر اللہ جانے میں کیسے لکھتے لکھتے رہ گیا ہوں؛ تاہم یہ بات طے ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹ کسی اور پارٹی کے امیدوار کو نہیں پڑیں گے۔ اسحاق ڈار مفرور ہیں اس لئے حلف اٹھانے کے لئے پاکستان نہیں آئیں گے۔ باقی اکانوے لوگ بچتے ہیں یعنی چیئرمین بننے کیلئے حقیقی طور پر کسی بھی شخص کو چھیالیس ووٹ درکار ہیں۔
لاس اینجلس سے شفیق نے ایس ایم ایس کیا ہے‘ اس کا کہنا ہے کہ سینیٹ کا اگلا چیئرمین بزنجو اور وائس چیئرمین آفریدی یا صابر ہو گا۔ اب اس نے یہ نہیں بتایا کہ آفریدی کونسا؟ شمیم خان آفریدی یا مرزا محمد خان آفریدی؟ اسی طرح اس نے یہ بھی نہیں بتایا کہ بزنجو کون سا؟ نیشنل پارٹی والا محمد طاہر بزنجو یا میر حاصل بزنجو؟ بہرحال ''نام میں کیا رکھا ہے‘‘ یہاں نہیں چل سکتا۔ یہ بات درست ہے کہ ان حالات میں بلوچستان والے چھ آزاد ارکان کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ محض انہی چھ ارکان کی بنیاد پر چیئرمین کا الیکشن لڑا جائے اور جیت بھی لیا جائے؛ تاہم سیاست میں ہر بات ممکن ہے‘ خاص طور پر جب تک پاکستان کی سیاست میں آصف علی زرداری موجود ہیں۔
اگر آصف علی زرداری کے پھینکے گئے پانسے درست چل گئے تو اور انہیں اپنے امیدوار کے جیتنے کا یقین ہوگیا تو وہ شیری رحمن یا سلیم مانڈوی والا جیسے امیدوار کو میدان میں اتاریں گے اور اگر انہیں یہ یقین ہو گیا کہ ان کے امیدوار کا جیتنا مشکل ہے تو وہ اس صورت میں رضا ربانی کو ایک بار پھر سینیٹ کی چیئرمینی کے لئے میدان میں اتاریں گے کہ رضا ربانی بہرحال بہت سے ایسے ووٹ سمیٹ لینے پر قادر ہیں جو پیپلز پارٹی کے کسی اور امیدوار کو نہیں مل سکتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر میاں نواز شریف اپنے امیدوار کی جیت بارے سو فیصد پُریقین نہ ہوئے تو رضا ربانی کے گزشتہ سارے عرصے میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ کردار کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بار پھر انہیں بلا مقابلہ چیئرمین بنوانے کیلئے اپنا امیدوار نہ کھڑا کریں۔ رضا ربانی میاں نواز شریف کی اگلی متوقع لڑائی میں پیپلز پارٹی کی طرف سے ان کے لئے واحد چوائس ہوں گے۔
لیکن کیا زرداری صاحب رضا ربانی کو آسانی سے سینیٹ کا چیئرمین نامزد کریں گے؟ ہرگز نہیں‘ اس بار انہیں ''پاکٹ یونین‘‘ ٹائپ چیئرمین درکار ہو گا جو رضا ربانی بہرحال نہیں ہیں۔ گو کہ رضا ربانی بھی اعتزاز احسن کی طرح بلاول کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہونے والے بن چکے ہیں لیکن وہ آصف علی زرداری کی پہلی ترجیح ہرگز نہیں ہوں گے وہاں وہ بلاول کی پہلی ترجیح ہو سکتے ہیں۔
اس سارے معاملے میں چوہدری سرور کی جیت میرے ذہن سے نکل گئی۔ چند روز ہوتے ہیں‘ میں نے محض چھیڑنے کے لئے ایک مسلم لیگی کھڑپینچ کو کہا کہ لگتا ہے آپ پنجاب سے ایک سیٹ ہار جائیں گے، اس نے تپ کر کہا یہ کیسے ممکن ہے؟ پھر اس نے پوری پنجاب اسمبلی کے سینیٹ کے ایک ممبر کیلئے درکار ووٹوں کی گنتی بتائی‘ پھر پنجاب اسمبلی میں ساری اپوزیشن کا جائزہ پیش کیا، اس کے بعد اس نے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے کسی صورت بھی اتحاد نہ ہونے کی پیشین گوئی کرتے ہوئے پنجاب سے پی ٹی آئی یا پیپلز پارٹی کے کسی امیدوار کی کامیابی کے امکان کو یکسر رد کر دیا اور کہنے لگا: آپ یہ صفحہ ہی پھاڑ دیں۔ ایسا ہونا کسی طور ممکن نہیں۔ مجھے بھی چھیڑنے میں مزہ آنے لگ گیا، میں نے کہا: مجھے لگتا ہے کہ چودھری سرور جیت جائے گا (میں یہ بات اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کا یقین دلانے کیلئے نہیں کر رہا، یقین مجھے بھی نہیں تھا بلکہ یقین چھوڑیں کوئی خاص امید بھی نہیں تھی مگر شغل میں چھیڑنے کی خاطر کہنے میں کوئی ہرج نہیں تھا) جب میں نے زیادہ زچ کیا تو وہ کہنے لگا: تم شرط لگا لو، ایمانداری کی بات ہے کہ اگر مجھے پچاس فیصد بھی یقین ہوتا تو اسے مزید زچ کرنے کیلئے شرط بھی لگا لیتا مگر مجھے تو خود امید نہ تھی‘ لہٰذا میں نے شرط تو نہ لگائی مگر ہوائی دلائل خوب دیئے۔ اسے بتایا کہ چودھری سرور بڑی شد و مد کے ساتھ ''آرائیں فیکٹر‘‘ پر کام کر رہے ہیں اور وہ جوڑ توڑ کے بھی بڑے ماہر ہیں۔ میں انہیں گلاسگو سے جانتا ہوں اور اس وقت سے جانتا ہوں جب آپ مسلم لیگیوں نے شاید ان کا نام بھی نہیں سنا ہو گا۔ انہیں میاں نواز شریف تو بہت بعد میں گورنر پنجاب بنا کر پاکستان لائے تھے... میرا وہ مسلم لیگی دوست میری باتوں پر بڑا تلملاتا رہا اور آخر میں پریشان بھی ہونے لگ گیا لیکن میں جو باتیں ہوا میں تیر کی مانند چھوڑ رہا تھا وہ سچ ثابت ہوئیں اور چوہدری سرور بالکل غیر متوقع طور پر پنجاب سے مسلم لیگ کی ایک سینٹری لے اڑے۔
اس ایک سیٹ نے مسلم لیگ (ن) کی گیارہ سیٹوں پر کامیابی کو جو داغ لگایا اور جو دھچکا پہنچایا ہے اس کا اندازہ میں اور آپ نہیں لگا سکتے صرف طبلچی گروپ لگا سکتا ہے۔ سینیٹ میں اس وقت جو صورتحال ہے (اس کے پیش نظر یقین سے کچھ کہنا تو نہایت مشکل ہے لیکن گزشتہ مرتبہ پیپلز پارٹی ستائیں ارکان کے ساتھ اپنا چیئرمین بنوا سکتی ہے تو بائیس کے ساتھ کیا مشکل ہے۔ بلوچستان کے آزاد نومنتخب ارکان کو سمیٹنا زرداری صاحب کے لئے کونسا ناممکن ہو گا؟ ایم کیو ایم کی یقینی سیٹیں ہتھیا کر اور بغیر الگ ممبر کے‘ بلوچستان اسمبلی کو تلپٹ کر کے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کئے انہیں زیادہ دن نہیں گزرے۔ ویسے بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ سینیٹ کے چیئرمین کے الیکشن تک میاں نواز شریف ملک کے سیاسی منظر نامے پر اسی طرح آزاد پھر رہے ہوں گے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں