"KMK" (space) message & send to 7575

پی ٹی آئی کا نیا بیانیہ

پی ٹی آئی کے جیتنے کا صرف ایک ہی امکان ہوسکتا ہے کہ اس کا ووٹر گھر سے نکلے‘ لیکن فی الحال تو اس کا ورکر لوٹوں کو ٹکٹیں ملنے کے باعث سڑک پر نکلا ہوا ہے۔ سرگودھا میں یہ حال ہے کہ قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں میں سے ایک کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا (کالم لکھنے تک) چار میں سے چار ہی نئے پنچھی ہیں‘ یعنی عرف ِعام میں لوٹے ہیں۔ صوبائی کی دس نشستوں میں سے ایک پر فیصلہ نہیں ہوا اور نو میں سے آٹھ پر وہی حال ہے‘ جو قومی اسمبلی کی چار نشستوں پر ہے۔ صرف ایک صوبائی نشست پر پرانا کارکن امیدوار ہے۔ یہ اکلوتا امیدوار عنصر مجید خان ہے‘ باقی سب لوٹے ہیں۔ یہ صرف اور صرف سرگودھا کا حال ہے‘ باقی سب جگہ بھی ‘اس سے ملتا جلتا حال ہے۔
ملتان کا حال اس حوالے سے خاصا بہتر ہے‘ چھ قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے چار پر بہرحال کسی حد تک پرانے لوگ ہیں۔ شاہ محمود، زین قریشی اور ابراہیم خان کو آپ پرانے‘ یعنی 2011 والے ساتھی کہہ سکتے ہیں۔ عامر ڈوگر بھی اب تقریباً پرانا ہوگیا ہے۔ 2014ء میں ہی وہ پی ٹی آئی میں آگیا تھا۔ باقی دو سیٹوں پر ایک لوٹا براجمان ہوچکا ہے اور دوسرے پر یہ عالم ہے کہ محض سکندر بوسن کے انتظار میں ابھی تک این اے 154 کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔ کیا زمانہ ہے۔ پرانے لوگ موجود ہیں اور ٹکٹ کے امیدوار بھی ہیں‘ لیکن ایک ایسے شخص کے انتظار میں ابھی ٹکٹ کا فیصلہ نہیں کیا جا رہا‘ جس نے آج کے دن تک (کالم لکھنے کے دن تک) پی ٹی آئی جوائن ہی نہیں کی۔
ابھی کارکن صرف اس لئے نکل رہے ہیں کہ پرانے کارکنوں کو ٹشو پیپر کی طرح ڈسٹ بن میں پھینک دیا گیا ہے‘ ابھی ناکام امیدواروں نے جو ''ات‘‘ مچانا ہے‘ وہ دیدنی ہوگا۔ جس صوبائی نشست پر گزشتہ الیکشن میں رانا جبار ‘شاہ محمود کے ساتھ پینل میں تھا اب اس صوبائی نشست‘ یعنی پی پی 217 پر خود شاہ محمود قریشی امیدوار ہے۔ اسی نشست پر میاں جمیل بھی امیدوار تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پی پی 217پر شاہ محمود قریشی کے صوبائی امیدوار ہونے کے باعث نہ صرف یہ کہ رانا جبار کی چھٹی ہوگئی ہے ‘بلکہ میاں جمیل بھی فارغ ہوگیا ۔اب یہ دونوں حضرات بھی مخالفت میں پرتولے کھڑے ہیں۔ ادھر پی پی 216 پر بھی عجیب صورتحال ہے۔ پی ٹی آئی ملتان شہر کا صدر اعجاز جنجوعہ جو گزشتہ بارہ تیرہ سال سے پی ٹی آئی کے لئے تن من دھن قربان کرتا آرہا ہے‘ اس نشست پر امیدوار ہے‘ لیکن دو ملائوں میں مرغی حرام ہوئی جا رہی ہے۔ این اے 155 پر خالد خان خاکوانی امیدوار تھا۔ اس قومی نشست پر جیتا ہوا امیدوار عامر ڈوگر موجود تھا۔ اس کی موجودگی میں کسی دوسرے کو ٹکٹ دینے کا کوئی تُک بھی نہیں تھا۔ ویسے بھی اس حلقے میں عامر ڈوگر سے بہتر امیدوار کوئی اور تھا بھی نہیں۔ شہر میں تھانے کچہری کی سیاست تو ہوتی نہیں۔ غمی خوشی پرآنا جانا ہی سب سے اہم چیز ہوتی ہے اور وہ عامر ڈوگر سے بڑھ کر شاید ہی کسی نے کی ہو۔ عامر ڈوگر بارے میرے کئی تحفظات کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ اس نشست پر پی ٹی آئی اس سے بہتر فیصلہ نہیں کرسکتی تھی۔
عامر ڈوگر کو ٹکٹ ملنے کے باعث خالد خان خاکوانی‘ اس قومی نشست سے فارغ ہوگیا۔ اب اسے کہیں تو اکاموڈیٹ کرنا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خالد خان خاکوانی پٹھان ہے اور اس وجہ سے پی ٹی آئی کے ''پٹھان گروپ‘‘ میں اس کے لئے بہت زیادہ ہمدردی تھی۔ اس کے لئے پی پی 214 ملتان IV کے بارے میں بھی سوچا گیا کہ یہ ملتان میں شاید پی ٹی آئی کا سب سے محفوظ صوبائی حلقہ ہے‘ لیکن وہاں ایک اور مسئلہ تھا۔ وہاں سے بھی پی ٹی آئی کا جیتا ہوا رکن صوبائی اسمبلی ظہیر الدین خان علیزئی امیدوار تھا۔ اب جیتے ہوئے امیدوار کی موجودگی میں کسی اور کو ٹکٹ دینا مشکل تھا‘ لیکن اگر ظہیر الدین علیزئی پٹھان نہ ہوتا‘ تو شاید اس کی چھٹی کروا کر خالد خان خاکوانی کو ٹکٹ دے دی جاتی‘ مگر دوسری طرف بھی پٹھان تھا۔ سو ظہیر الدین خان پٹھان ہونے کے باعث ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگیا‘ لیکن خالد خان خاکوانی کو اکاموڈیٹ کرنے کے چکر میں اسے پی پی 216 پر فٹ کرنے کی کوشش شروع ہوگئی۔ اسحاق خان خاکوانی اور جہانگیر ترین دونوں اب خالد خاکوانی کو پی پی 214 پر‘ جس سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں‘ ٹکٹ دلوانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ اس پٹھانوں کی محبت نے اعجاز جنجوعہ کی تیرہ سالہ محنت کا کباڑہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
پورے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں زرتاج گل اور خواجہ شیراز کے علاوہ نئے پنچھی ٹکٹ مار گئے ہیں۔ محمد خان لغاری‘ ذوالفقار کھوسہ‘ محمد خان لغاری‘ نصر اللہ دریشک اور جعفر لغاری۔ غرض سب کے سب پیرا شوٹ کے ذریعے پی ٹی آئی میں اترے اور ٹکٹ اڑا کر لے گئے۔ اب جعفر خان لغاری کی ہی سنیں؛ وہ پیپلزپارٹی کی طرف سے بھی یہیں امیدوار تھا‘ پھر مسلم لیگ (ق) کی طرف سے بھی۔ مسلم لیگ (ن) کا امیدوار بھی جعفر خان لغاری تھا اور اب پی ٹی آئی کی طرف سے بھی جعفر خان لغاری امیدوار ہے۔
ہر شہر میں ایسی ہی کہانیاں ہیں اور ایسے ہی بے شمار پرانے اور مخلص کارکن جن کی حق تلفی ہوئی ہے‘ لیکن ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ 2008ء کے الیکشن میں عمران خان اپنے نوجوانوں کو آزما چکا ہے۔ جوش و جذبہ اور اخلاص اپنی جگہ ‘لیکن مسلم لیگ (ن) کے پرانے پاپیوں سے الیکشن میں نمٹنا ایک مشکل کام تھا۔ الیکشن ایک باقاعدہ مضمون ہے اور مضمون بھی سائنس کا۔ اس سائنس میں مسلم لیگیوں سے نمٹنا نہ تو کسی نئے بندے کا کام ہے اور نہ ہی ناتجربہ کار لوگوں کا۔ زمانے بھر کے ''ہنڈے‘‘ ہوئے مسلم لیگیوں سے اس میدان میں کھلاڑیوں کا مقابلہ کرنا سمجھو‘ ناممکنات میں سے تھا۔ 2008ء میں جوش وجذبہ بھی تھا اور لوگ گھروں سے نکلے بھی‘ لیکن پولنگ سٹیشنوں کو اور پھر نتائج کو ڈالے گئے ووٹوں کے مطابق قابو میں رکھنا ایک علیحدہ جھنجھٹ تھا ‘جسے کنٹرول کرنے میں ناکامی نے سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔
اب عمران خان کے سامنے دو راستے تھے؛ ایک دوبارہ نوجوانوں اور نئے کھلاڑیوں کو میدان میں اتارتا اور حسب ِسابق والے نتائج بھگتتا۔ دوسرا یہ کہ لوہے کو لوہے سے کاٹتا اور گھاگ مسلم لیگیوں کو انہی کے تربیت یافتہ یا انہی جیسے پرانے پاپیوں سے لڑائے اور بہتر نتائج لے۔ مزید پانچ سال کی انتظار کی اب قطعاً گنجائش نہیں کہ اب ملک مزید خرابے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اب ایک طرف حقائق ہیں اور دوسری طرف آئیڈیلزم۔ ایک طرف تلخ سچ ہے اور دوسری طرف خواب۔ جب تک اس ملک میں الیکشن کا نظام شفاف نہیں ہو جاتا اور غیر جانبدار اور مضبوط الیکشن کمیشن وجود میں نہیں آجاتا‘ تب تک ڈپٹی کمشنروں اور انتظامیہ کے ذریعے ہونے والے الیکشنوں میں ایماندانہ نتائج حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ اس ملک کے انتخابی نظام کو ایک عدد ٹی این سیشن کی ضرورت ہے‘ جس نے بھارت کے انتخابی نظام کو اتنا مضبوط‘ پختہ اور خرابیوں سے پاک کر دیا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے الیکشن کے لئے نہ کسی نگران حکومت کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی الیکشن میں دھاندلی کا شور مچتا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سارا انتخابی نظام نئے سرے سے ترتیب دیا جائے۔
لیکن فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ عمران کی پارٹی کے سارے بھونپو ریحام خان کی کتاب میں پھنسے ہوئے ہیں ‘جبکہ پی ٹی آئی کو اس وقت ایک ایسے بیانیے کی ضرورت ہے‘ جو ناراض کارکنوں کو راضی کرسکے۔ الیکشن کے لئے اپنے لوگوں کو تیار کرسکے۔ الیکشن والے دن ووٹروں کو باہر نکال سکے اور ان میں نئے سرے سے جوش و جذبہ پھونک سکے۔ اگلے پونے دو ماہ کے لئے پرانے بیانیے کو طاق پر رکھ دیا جائے۔ یہ کام صرف عمران خان خودکرسکتا ہے ؛بشرطیکہ اسے اس کا خیال آجائے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں