"KMK" (space) message & send to 7575

بھینس کے آگے بین بجانا

غلطی کو خواہ کتنے ہی نئے انداز میں کیوں نہ کیا جائے‘ جو اب وہی نکلے گا جو پہلے نکلتا رہا ہے۔ غلطی کو دُہرانے میں کتنا ہی نیا پن یا تخلیقی جوہر ہی کیوں استعمال نہ کیا جائے‘ جو اب پرانا ملتا ہے‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر غلطی کرنے والے کو گمان نہیں،‘بلکہ یقین ہوتا ہے کہ اس کی غلطی کا جواب کم از کم وہ تو ہرگز نہیں نکلے گا‘ جو اس سے پہلے والوں کا نکلا تھا۔ یہی حال عمران خان اینڈ کمپنی کا ہے۔
سب سے پہلے جونیجو صاحب سے شروع کرتے ہیں۔ جونیجو صاحب نے بھی بچت کے زور پر ملک کی معیشت اٹھانے کی کوشش کی۔ اربوں کھربوں والے خسارے کے بجٹ کو سرکاری افسروں کی گاڑیاں تبدیل کر کے پورا کرنے کی کوشش کی۔ سو انہوں نے ساری بڑی گاڑیاں فروخت کر کے چھوٹی گاڑیاں خریدنے کا حکم جاری فرما دیا۔ وہ عمران خان سے کہیں زیادہ بہادر ثابت ہوئے اور انہوں نے اس حکم نامے کو صرف سول افسران پر ہی نہیں ‘بلکہ فوجی افسروں پر بھی لاگو فرما دیا اور بریگیڈیئر صاحبان تک کو سوزوکی پر چڑھا دیا۔
اب اس سارے قصے کو آغاز سے اختتام تک دیکھ لیں۔ حاصل وصول کیا ہوا؟ پرانی بڑی گاڑیاں اونے پونے بیچ دی گئیں۔ خریدار بھی اپنے تھے اور بیچنے والے بھی۔ سات لاکھ والی گاڑی (یہ تب کی بات ہے‘ جب بڑی گاڑی کی قیمت اتنی ہی ہوتی تھی) اگر کوئی شخص بازار میں جا کر بیچتا تو شاید پانچ لاکھ کی بک جاتی‘ مگر ایک پنجابی کہاوت ہے کہ ''چوری دے کپڑے‘ تے ڈانگاں دے گز‘‘ یعنی کپڑے چوری کے ہوں‘ تو گز بھی بانس برابر ہو جاتے ہیں۔ سو ایسی گاڑی اڑھائی تین لاکھ میں فروخت ہوئی اور تقریباً اتنے ہی پیسوں میں سوزوکی کلٹس ٹائپ گاڑی خرید لی گئی۔ اس پر بھی ایک پنجابی محاورہ یاد آیا ہے کہ ''کھوہ دی مٹی کھوہ نوں لگ گئی‘‘ یعنی کنواں کھودتے ہوئے جو مٹی نکلی تھی‘ وہ کنویں کی تعمیر میں ہی صرف ہوگئی۔
جتنے کی گاڑیاں بکیں‘ اتنے کی ہی نئی گاڑیاں آگئیں‘ یعنی بچا بچایا ٹکہ بھی نہیں اور بڑی گاڑیوں نے اگر چھ سات سال مارکھانی تھی‘ تو ان چھوٹی گاڑیوں نے پاکستان کی سڑکوں پر تین چار سال ہی میں جواب دے دیا اور کھٹارا بن کر کباڑیوں کے ہاں پہنچ گئیں‘ تاہم اصل مزے کی بات یہ ہے کہ جونیجو صاحب کے جاتے ہی یہ چھوٹی گاڑیاں پچاس ساٹھ ہزار روپے فی گاڑی کے حساب سے فروخت ہوگئیں اور سرکاری افسروں نے بارہ پندرہ لاکھ فی گاڑی کے حساب کے نئی گاڑیاں پھر سے خرید لیں۔ ایسی صورتحال کے لئے حالانکہ پنجابی میں محاورہ موجود ہے‘ لیکن فی الحال ایک انگریزی محاورہ یاد آرہا ہے‘ وہ ہے :Panny wise` Pound foolish ‘یعنی پیسے یک بچت کے تو ہوشیاری دکھائی جائے اور روپے کو برباد کرنے کے لئے بے وقوفی سے کام لیا جائے۔ مختصراً یہ ہوا کہ پہلے بڑی گاڑی ٹکے ٹوکری کر کے بیچی گئیں۔ اس رقم سے دھیلے کی بچت نہ ہوئی اور اس رقم سے (بلکہ شاید تھوڑی اوپر پلے سے ڈال کر) چھوٹی گاڑیاں خرید لی گئیں۔ حکومت کے جاتے ہی پالیسی بھی رخصت ہوگئی اور وہ چھوٹی گاڑیاں پھر سے کوڑیوں کے مول بیچ دی گئیں اور پھر وہی بڑی گاڑیاں خریدلی گئیں اور اس بار پہلے سے دگنی رقم پر خریدی گئیں۔ اس ساری الٹ پھیر میں کروڑوں نہیں اربوں کا ٹیکہ لگ گیا۔ اب ہم دوبارہ وہی کرنے جا رہے ہیں ‘تاہم اس بار اس ''بچت پروگرام‘‘ کا اطلاق صرف سول سرکاری ملازموں پر ہوگا۔
دوسری ایسی ہی کہانی نواز شریف نے بنوائی۔ اس نے سرکاری دفتروں کے لئے گریڈ کا پھٹہ لگایا اور سترہ اٹھارہ گریڈ کے افسروں کے کمروں سے بچت کے نام پر ایئر کنڈیشنڈ اتروا دیئے۔ سارے ایئر کنڈیشنڈ دو دو ہزار میں افسر خود اپنے گھر لے گئے۔ دو چار روز بعد شکایات آنی شروع ہوگئیں کہ گرمی کے باعث کمپیوٹر جل رہے ہیں۔ اب کمپیوٹر کے نام پر افسروں نے دوبارہ دفتروں میں ایئرکنڈیشنڈ لگوانے شروع کر دیئے۔ پہلے والے اے سی خاصے سخت جان تھے ان سے جان چھڑوالی گئی اور پھر ونڈو کی بجائے مہنگے سپلٹ اے سی لگوا لئے‘ یعنی کھایا پیا کچھ نہیں‘ شیشے کا گلاس توڑا‘ دس روپے خرچہ‘‘۔
تیسرا ایسا ہی اعلان اپنے خادم اعلیٰ نے فرمایا اور کہا کہ وہ چودھری پرویز الٰہی والے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ‘ یعنی المعروف آٹھ کلب روڈ پر نہیں بیٹھیں گے اور اس میں یونیورسٹی بنا دیں گے۔ چمچوں نے تالیاں پیٹیں۔ طبلچیوں نے طبلہ کھڑکایا۔ سکیورٹی والوں نے فرمایا کہ جی او آر کے اندر واقع اس عمارت میں نہ تو یونیورسٹی بنانا ممکن ہے اور نہ ہی کوئی اور پبلک ادارہ۔ ہائی سکیورٹی والے اس زون میں چھ سات ہزار طلبہ کا روزانہ آنا جانا موجودہ حالات میں ممکن نہیں۔ سکیورٹی چیک پوسٹ پر اتنے افراد کی چیکنگ روزانہ کی بنیاد پر ممکن نہیں‘ پھر طلبہ کی پڑتالیںوغیرہ‘ اگر ہوئیں تو سارا سرکاری کام ٹھپ ہو جائے گا‘ لہٰذا یہ منصوبہ ڈراپ ہوگیا ‘تاہم خادم اعلیٰ اپنی بات کے پکے نکلے اور اس عمارت میں اپنا دفتر بنانے سے انکار کردیا۔ بچت کے دعویدار خادم اعلیٰ نے اس کی جگہ 90 شاہراہ قائداعظم‘ پرو بھی دفتر بنایا اور ماڈل ٹائون میں H-180 کو بھی اپنا دفتر قرار دے دیا اور سات کلب روڈ پر بھی قبضہ کر لیا۔ اپنے سٹاف کو البتہ انہوں نے آٹھ کلب روڈ پر بٹھا دیا‘ یعنی عملی طور پر وزیراعلیٰ کے لئے چار دفاتر بنا دیئے۔ سات کلب روڈ‘ آٹھ کلب روڈ‘ 90 شاہراہ قائداعظم اور H-180 ماڈل ٹائون۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ آٹھ کلب روڈ کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان اس لئے نہیں کیا گیا تھا کہ خادم اعلیٰ درویش ہوگئے تھے‘ بلکہ اس کی واحد اور اکلوتی وجہ یہ تھی کہ یہ عمارت چودھری پرویز الٰہی نے بنوائی تھی‘ لہٰذا وہ اس میں آنے سے انکاری ہوگئے۔
اب عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے۔ ان کے گورنر بھی ان کی تقلید میں گورنر ہائوس میں نہیں رہیں گے۔ وزیراعلیٰ بھی وزیر اعلیٰ ہائوس میں قیام نہیں کریں گے۔ اب بھلا بندہ پوچھے اس سے کتنی بچت ہوگی؟ بلٹ پروف گاڑیاں بیچ کر کتنے پیسے ملیں گے؟ سوال یہ ہے کہ اب وزیراعظم کا ملٹری سیکرٹری کہاں رہے گا؟ صدر کا بھی سن رہے ہیں کہ وہ ایوانِ صدر میں نہیں رہے گا۔ اب صدر ایوان صدر میں نہیں رہے گا تو کہاں رہے گا؟ کیا کسی کرائے کی کوٹھی رہے گا؟ وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر کس کام آئیں گے؟ ریڈ زون میں نہ یونیورسٹی بن سکتی ہے اور نہ ہوٹل بنانا ممکن ہے۔ ویسے بھی یہ عمارتیں Purpose Built ہیں۔ نہ ان میں یونیورسٹی بن سکتی ہے اور نہ ہی پبلک استعمال کی کوئی اور چیز۔ اب صرف ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ انہیں تالا لگا دیا جائے۔
چیزیں استعمال سے اتنی خراب نہیں ہوتیں‘ جتنا کہ استعمال نہ ہونے سے خراب ہوتی ہیں۔ پانچ سال میں یہ ساری عمارتیں‘ یعنی وزیراعظم ہائوس، ایوان صدر‘ گورنر ہائوسز وغیرہ برباد ہو جائیں گے۔ چند سال بعد کوئی اور مغلیہ حکمران آئے گا اور اربوں روپے سے پھر اپنی مرضی کا نئے سرے سے گھر بنوائے گا اور بلٹ پروف گاڑیاں خریدے گا۔ ویسے ایک سوال ہے کہ جب کوئی غیر ملکی حکمران یا ہائی پروفائل مہمان آئے گا تو وہ ''چنگ چی‘‘ پر بیٹھے گا؟
اگر صدر کے پاس رہنے کی معقول جگہ بھی نہ ہو تو اس نے اسلام آباد میں فالودہ کھانا ہے؟ اگر چودھری سرور کے پاس اس بار گورنر ہائوس بھی نہ ہوا تو بھلا ساڑھے تین سال بعد ایسا گورنر بننے کا فائدہ‘ جس کے پاس اچھی رہائش بھی نہ ہو۔ اختیارات تو اللہ ماشاء اللہ ہیں نہیں‘ اب رہائش بھی گئی۔
جذباتی نعرے اور ماضی کی غلطیاں۔ ان سے نہ کبھی مثبت نتائج مل سکتے ہیں اور نہ ہی درست جوابات۔ آزمائش شرط ہے‘ لیکن اس میں وقت اور پیسے کا جو ضیاع ہوگا‘ اس کا کون ذمہ دار ہے؟ ویسے عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کرنا ابھی تک تو بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہی رہا ہے‘ لیکن ہم صرف اپنے کام کے لئے اللہ کے ہاں جوابدہ ہیں اور وہ کرتے رہیں گے۔ نتائج سے قطع نظر۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں