"KMK" (space) message & send to 7575

پرانا ملتان، ڈولی روٹی اور دال مونگ

دو دن سے ناشتہ بڑا مزیدار ہو رہا ہے۔ آج صبح اور کل۔ قارئین! اس آج سے مراد آپ کے لیے کل (گزشتہ والا) اور کل سے مراد پرسوں ہے‘ یعنی دو دن قبل۔ میں لکھتے ہوئے اپنی تاریخ کے حساب سے لکھتا ہوں‘ لیکن کالم چھپتے ہوئے ایک دن اور گزر جاتا ہے اور سارا حساب کتاب ایک دن پیچھے چلا جاتا ہے۔
اتوار کو صبح ہی صبح شاہ جی کا فون آ گیا۔ رات قریب تین بجے کمرے کی لائٹ بند کی۔ سونے میں مزید آدھ پون گھنٹہ لگ گیا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد پھر الارم نے اٹھا دیا۔ دوبارہ سوئے ابھی بمشکل ایک گھنٹہ گزرا ہوگا کہ فون بجنے لگا۔ دوسری طرف شاہ جی تھے۔ خدا خیر کرے۔ اتنی صبح فون آ گیا۔ بسم اللہ پڑھ کر فون اٹھایا‘ شاہ جی کہنے لگے: میں ناشتہ کرنے جا رہا ہوں‘ صابن والی گلی میں‘ کیا لاؤں؟ میں نے کہا: شاہ جی آپ کو تو علم ہے کہ میں وہاں کیا کھاتا ہوں۔ کہنے لگے: اسد ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ وہ اسلام آباد ہی ہے۔ اچھا ٹھیک ہے یہ کہہ کر شاہ جی نے دھڑ سے فون بند کر دیا۔ شاہ جی ہمیشہ اسی طرح اچانک ہی فون بند کر دیتے ہیں۔ نہ کوئی الوداعی جملہ نہ اطلاع۔ گھنٹہ ہی گزرا ہو گا کہ دوبارہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف شاہ جی تھے۔ پوچھنے لگے: بابا شفیع گھر پر ہے؟ میں نے کہا: بالکل موجود ہے‘ خیر ہے؟ جواب آیا: بس ٹھیک ہے۔ رہنے دو۔ بابا شفیع آ گیا ہے اور فون ٹھک سے پھر بند کر دیا۔ دراصل شاہ جی میرے گھر کے دروازے پر تھے۔ میں اٹھ کر باہر بھاگا ‘مگر تب تک شاہ جی گلی کا موڑ بھی مڑ چکے تھے۔ شفیع کے ہاتھ میں ایک شاپر تھا۔ میں نے شاپر کھولا۔ اندر پلاسٹک کے ایک ڈبے میں پایوں کا شوربا اور مغز تھا‘ ساتھ نان تھے۔ میں نے سب چیزیں اوون میں رکھیں اور اخبار اٹھا لئے۔
نہا کر تیار ہوا اور حسب ِمعمول ریفریجریٹر میں جا کر دہی تلاش کیا مگر دہی ندارد۔ یاد آیا کہ کل ختم ہو گیا تھا‘ پھر یاد آیا کہ آج تو شاہ جی نے عیاشی کروائی ہے۔ اوون میں مغز اور نان گرم کیے اور ناشتہ کر کے شاہ جی کے رزق میں فراوانی کی دعا کی۔ شاہ جی بہت بامروت آدمی ہیں۔ یہ ناشتہ گزشتہ کئی برسوں سے ہماری عیاشی ہے۔ سردیوں میں مہینے ڈیڑھ مہینے بعد اتوار کی صبح۔ پہلے صرف میں اور شاہ جی ہوتے تھے‘ پھر اس میں اسد بھی شامل ہو گیا۔ کبھی کبھار ابو زر یا زین علی بھی ساتھ آ جاتے تھے‘ مگر پھر انہوں نے اس ناشتے کو خیر باد کہہ دیا‘ پھر اس ناشتہ کمپنی میں میرا چھوٹا داماد احمد عذیر شامل ہو گیا۔ صابن والی گلی میں درجن بھر ناشتے والے بیٹھے ہیں ‘مگر ہم نے بعد از تحقیق ایک ہوٹل کا انتخاب کیا ہے اور اب سیدھے وہیں جاتے ہیں۔ باہر تھڑے پر ایک بڑے سے دیگچے کے سامنے بیٹھا ہوا مالک‘ منیجراور تقسیم کنندہ جو ایک ہی شخص ہے ‘ہمیں مسکرا کر دیکھتا ہے اور کہتا ہے: باؤ جی! بڑے دن بعد آئے او؟ ہم مسکرا کر کہتے ہیں: ہاںجی! پچھلی سردیوں کے بعد آج آئے ہیں۔ اب ذرا جلدی آتے رہیں گے‘ پھر بینچ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ بڑا سا ہال نما کمرہ ہے۔ سیدھے ہاتھ پر تنور ہے‘ جس میں تازہ تازہ نان کلچے لگ رہے ہوتے ہیں۔ پرانے بینچ‘ جس کے دونوں طرف ٹانگیں لٹکا کر آمنے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ''چھابے‘‘ میں کلچے اور سٹیل کے پیالے میں پائے اور مغز آ جاتا ہے۔ کھانے کے بعد باہر میونسپل کی ٹوٹی پر ہاتھ دھوتے ہیں۔ اخبار کو بطور ٹشو پیپر استعمال کرتے ہیں اور خیر سے گھر آ جاتے ہیں۔ کل شاہ جی اتوار کو گھر میں عیاشی کروا دی۔ یہ ناشتہ محض اتفاق تھا۔ کل صبح ناشتے کی آفر کرنے اور ناشتہ سپلائی کرنے تک شاہ جی نے میرا کالم نہیں پڑھا تھا۔
ناشتہ کرنے کے بعد میں گھر سے نکلا اور شاہ جہاں مارکی چلا گیا۔ یہاں ایک دواساز کمپنی نے ایک کتاب میلے کا اہتمام کیا تھا اور ایک چھوٹی سی کتاب کی تقریب رونمائی تھی۔ کتاب کا نام بڑا مختصر تھا ''سانس‘‘ یہ لفظ سانس کے حامل اشعار کا مجموعہ تھا۔ اڑھائی سو اشعار۔ اُردو ادب سے ایسے اشعار کا انتخاب جس میں لفظ ''سانس‘‘ استعمال ہوا ہو؟ سانس سے متعلق اشعار کا یہ مجموعہ ان کی سانس کی تکلیف ‘یعنی دمے کے لیے بنائی گئی دوا Aireez کے تعارف کے سلسلے میں چھاپا گیا تھا۔ یہ دوا ساز کمپنی ایک عرصے سے شعر و ادب اور کتاب کی پذیرائی میں مصروف ہیں۔ ادبی کیلنڈر‘ مختلف ادیبوں کی تحریروں کا انتخاب اور ان چھاپے گئے کتابچوں کی مفت تقسیم‘مشاعرے اور کتاب میلے۔یہ تقریب بھی اسی سلسلے میں تھی۔ میں اندر داخل ہوا تو سامنے کیمروں کی جھپاک جھپاک میں کھڑے جاوید ہاشمی اخبار نویسوں کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے اور حسب معمول بڑے جوش و جذبے میں تھے‘ اسی اثنا میں اُس ہنگامے سے تھوڑا پیچھے میری نظر خواجہ رضی حیدر صاحب پر پڑی(کراچی سے آئے ہوئے صاحب طرز شاعر ادیب اور نقاد) میں ان کی طرف بڑھا۔ انہوں نے جونہی مجھے دیکھا محبت سے میری طرف جانب بڑھے۔ وہ بڑی گرمجوشی سے ملے۔ میں نے ساتھ کھڑے زبیر صدیقی کو کہا کہ آپ نے یہ بڑا کام کیا کہ اس کتاب میلے میں کراچی سے اتنے بڑے ادیب‘ شاعر اور نقاد کو ملتان لے آئے۔ زبیر صدیقی ہنس کر کہنے لگا: آپ کی ملاقات مقدر سے ہو گئی؛ اگر تھوڑی دیر سے آتے تو یہ ایئرپورٹ جا چکے ہوتے‘ اسی دوران جاوید ہاشمی فارغ ہو گئے۔ ہم ایک کونے میں بنے ہوئے کیفے کے ساتھ والے کمرے میں بیٹھ گئے۔ وہاں ایک پرایک پرانے دوست سلمان بھی آ گئے اور کافی کا دور چل پڑا۔ ساتھ ہی جاوید ہاشمی کی باتیں۔ پرانے قصے۔ مجیب الرحمان شامی صاحب کا ذکر۔ اسی گپ شپ میں ڈولی روٹی کا ذکر آ گیا۔
ڈولی روٹی ملتان کی سوغات سمجھیں‘ مگر شومئی قسمت سے اب اچھی ڈولی روٹی ملنا محال ہوتا جا رہا ہے۔ ملتان سے باہرکے دوست پوچھتے ہیں یہ ڈولی روٹی کیا ہے؟ اب کیا سمجھائیں؟ یہ سمجھانے کی نہیں‘ کھانے کی چیز ہے۔ بھئی سرسوں کے تیل میں تلی جاتی تھی‘ اب آئل میں تلی جاتی ہے۔ آدھا پونا انچ موٹی‘نرم اور پھولی ہوئی۔ قریب چار ساڑھے چار چوڑی‘ ہلکی میٹھی‘ بادامی رنگ اور اس پر ایک سمت لگی ہوئی خشخاش۔ یہ قدیم ملتان کی سوغات اور صبح کا ناشتہ تھی۔ دال مونگ کے ساتھ۔ دال مونگ بھی بس ملتان میں ملتی تھی۔ چنے کی دال اور ثابت مونگ۔ بغیر مرچ اور گھی کے۔ نمکین جس پر مسالحہ چھڑک کر دیا جاتا تھا۔ اب دونوں چیزیں‘ میرا مطلب ہے ‘روائتی ذائقے والی ڈولی روٹی اور دال مونگ ملنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ دولت گیٹ کا کریم بخش ملتانی ذائقے والے دال مونگ بنانے والا آخری شخص تھا‘ پھر بڑا تلاش کیا گیا۔ ٹینوں والی کھوئی‘ کوٹلہ تولے خان‘ پاک گیٹ کے اندر‘اور دولت گیٹ۔ غرض جہاں جہاں کسی نے بتایا‘ وہاں وہاں گیا‘ مگر مزہ نہ آیا۔برسوں پہلے جاوید ہاشمی کے گھر ناشتہ تھا۔ الطاف حسین کے علاوہ تقریباً ساری ایم کیو ایم وہاں آئی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر فاروق ستار‘ بابر غوری‘ وسیم اختر‘ حیدر رضوی اور کئی دوسرے۔ وہاں ڈولی روٹی کھائی اور عرصے بعد مزہ آیا۔ کئی بار پوچھا کہ کہاں سے ملتی ہے ؟جاوید ہاشمی صاحب نے جواب دیا کہ اس بات کو چھوڑو‘ کہاں سے ملتی ہے‘ جب کھانی ہو ‘گھر آ جانا‘ لیکن ایک دن پہلے بتا دینا۔ میں نے ایک دن مذاق میں کہہ دیا کہ جاوید بھائی دراصل آپ کو بھی پتا نہیں کہ یہ ڈولی روٹیاں کہاں سے آتی ہیں۔ آپ بھی کسی سے منگوا کر مجھے کھلا دیتے ہیں۔ آپ اپنے ''سپلائر‘‘ سے پوچھ لیں کہ وہ کہاں سے لاتا ہے۔ جاوید ہاشمی ہنسے اور کہنے لگے: میں صرف اس لیے پتا نہیں بتایا کہ یہ تمہارے آنے کا ایک بہانہ ہے‘ کہیں یہ بہانہ ہی ختم نہ ہو جائے۔ تم کبھی کبھار اس معاہدے کے تحت آ جاتے ہو کہ ڈولی روٹی کا اہتمام ہوگا۔
کل کہنے لگے :میں ڈولی روٹیاں تمہارے گھر بھجواؤنگا۔ تم خود تو آتے نہیں۔ آج صبح اجمل کا فون آیا کہ آپ گھر ہیں؟ میں نے کہا :ہاں گھر ہوں۔ کہنے لگا :بندہ ڈولی روٹیاں لے کر آپ کی طرف روانہ ہو چکا ہے۔ ڈولی روٹیاں ابھی گرم تھیں۔ آدھی کومل کے گھر بھجوا دی ہیں کہ دو دن پہلے ہی کہہ رہی تھی کہ ڈولی روٹی کھانے کو دل چاہ رہا ہے۔ دو روٹیاں میں نے کھائی ہیں اور دو فرج میں رکھ کر اوپر انعم کیلئے چٹ لگا دی ہے کہ ''تمہاری ڈولی روٹیاں اندر پڑی ہیں‘‘۔ملتان بھی آہستہ آہستہ ''ماڈرن‘‘ ہو رہا ہے۔ گولی والی بوتل‘ ربڑی‘ ڈبے والا قلفہ‘ کھوئے والی رنگدار مٹھائی‘ دال مونگ اور ڈولی روٹی عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ سو تری والوں کے طفیل ملتان کے روائتی چنے ابھی ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ اچھے دال مونگ آخری بار کریم بخش لے کر آیا تھا۔ تب میری اہلیہ میرے ساتھ تھی۔ پرانا ملتان تو لگتا ہے‘ اس کیساتھ ہی رخصت ہو گیا تھا۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں