"KMK" (space) message & send to 7575

کپاس کی صورتحال اور سوملین ڈالر کی کفایت شعاری

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ایک ٹی وی ٹاک شو میں مَیں نے بحث کے دوران اپنے ایک دوست اخبار نویس کو کہا کہ آپ وسطی پنجاب والوں کا زراعت بنیادی مسئلہ نہیں۔ یہ ہم جنوبی پنجاب والوں کا بنیادی مسئلہ ہے۔ میرے وہ دوست مجھ سے باقاعدہ ناراض ہو گئے اور کہنے لگے: آپ یہ بات کس طرح کہہ رہے ہیں کہ زراعت ہم وسطی پنجاب والوں کا مسئلہ نہیں؟ کیا ہم پاکستانی نہیں ہیں؟ میں نے کہا برادرم آپ کے شاید میرے جملے پر پوری طرح غور نہیں کیا۔ میں نے کہا ہے کہ زراعت آپ وسطی پنجاب والوں کا بنیادی مسئلہ نہیں ہے اور میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں۔ آپ کے ہاں صنعت و حرفت ہے‘ کاروبار ہے اور اسی حوالے سے بے پناہ ملازمتیں ہیں۔ ہمارا تو بنیادی معاشی ڈھانچہ ہی زراعت پر کھڑا ہوا ہے۔ بچوں کی شادی کٹائی پر ہوتی ہے۔ موٹر سائیکل تو خیر اب سو روپے روزانہ کی قسط پر مل جاتا ہے‘ سوزوکی مہران سے لے کر لینڈ کروزر تک اب فصل کے کیلنڈر کے ساتھ خریدی اور بیچی جاتی ہے۔ ساری کی ساری معاشی حرکت پذیری کسی نہ کسی فصل کی کٹائی یا چنائی سے وابستہ ہے۔ ایک زمانے میں سارے سال کی پچاس فیصد سے زائد گاڑیاں کپاس کی چنائی کے فوراً بعد خریدی جاتی تھیں اور ان دنوں ہر قسم کی گاڑی مارکیٹ میں چار چھ ہزار سے لیکر پچاس ہزار روپے تک مہنگی بک جاتی تھی۔ مارکیٹوں میںچہل پہل بھی بڑھ جاتی تھی اور پلاٹوں کی خرید و فروخت میں تیزی آ جاتی تھی۔ بازار سے منڈی اور بینک سے لیکر مارکیٹ تک۔ ہر چیز میں تیزی آ جاتی تھی۔ پھر اس میں گنا بھی شامل ہو گیا۔ لیکن اب صورتحال مندے کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ کپاس سے لیکر گنے تک اور گندم سے لیکر چاول تک۔ کاشتکار کو مشکل کا سامنا ہے۔
کپاس کی فصل اچھی ہو جائے تو ریٹ گر جاتا ہے اور ریٹ اُس سال اچھا ملتا ہے جب فصل برباد ہو جاتی ہے۔ گنے کا حال یہ ہے کہ فصل اچھی ہو جائے تو کٹائی سے لیکر لوڈنگ تک اور مل پہنچانے سے لیکر مل میں اترنے تک ہر جگہ پر کاشتکار کے کپڑے قسط در قسط اتارے جاتے ہیں اور مل والے بھی رقم کی ادائیگی کی بجائے سی پی آر Cane Purchase Receipt ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں۔ کبھی چینی اٹھوا دیتے ہیں‘ کاشتکار اونے پونے خریدے گئے سستے گنے کے عوض مہنگی چینی اٹھاتا ہے‘ جسے مل کے دروازے پر مل والوں کے ایجنٹ دوبارہ سستے داموں واپس خرید کر کٹوتی در کٹوتی کی ماری ہوئی گنے کی خریداری کی رقم ہاتھ پکڑا دیتا ہے۔ یہاں کی معیشت کا بنیادی ستون زراعت ہے اور یہ پاکستان کی واحد Business Activity ہے جس کی نہ کوئی انشورنس ہے اور نہ ہی کوئی ضمانت ہے۔ سب کچھ اللہ توکل چل رہا ہے۔ کپاس میں جنرز اور آڑھتی لوٹ لیتے ہیں۔ گنے میں مل مالکان اور ان کے ایجنٹ جیب کاٹ لیتے ہیں۔ گندم میں محکمہ خوراک اور آڑھتی باری باری ڈکیتی کرتے ہیں۔
گندم کا تو حال ہی نہ پوچھیں۔ گندم خریداری کے ٹارگٹ سے کم پیدا ہو تو بذریعہ مجسٹریٹ اور تحصیلدار ڈنڈے کے زور پر اٹھا لی جاتی تھی‘ حتیٰ کہ بعض اوقات تو کاشتکار کے گھر اس کی ذاتی ضرورت کی سال بھر کی گندم بھی زور زبردستی سے محکمہ خوراک والے اٹھا کر لے جاتے تھے اور زیادہ پیداوار ہو جائے تو اس کا والی وارث کوئی نہیں بنتا۔ آج کل یہی صورتحال ہے۔ چھوٹا زمیندار اور کسان بار دانے کے لیے ذلیل و خوار ہو کر آڑھتی کو گندم کوڑیوں کے مول فروخت کر دیتا ہے۔ سفارشی اور زور آور زمیندار تو گندم کی امدادی قیمت وصول کر لیتا ہے‘ لیکن چھوٹا زمیندار اور کاشتکار ہر سال تیرہ سو روپے من والی گندم ہزار گیارہ سو روپے فی من بیچ کر گھر کی راہ لیتا ہے کہ اسے اگلی فصل کی کاشت کے لیے بیج‘ کھاد اور ڈیزل خریدنا ہوتا ہے اور پچھلی فصل کے ادھار پر خریدی گئی انہی چیزوں کا بقایا ادا کرنا ہوتا ہے‘ لہٰذا وہ نہ اپنی فصل کو سٹور کر سکتا ہے اور نہ ہی کھیت میں کھلا چھوڑ سکتا ہے۔ مجبوراً بیچ باچ کر فارغ ہو جاتا ہے۔ بعد میں ہر چیز کا ریٹ دوبارہ مستحکم ہو جاتا ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی نقد آور فصل کپاس ہے۔ ملکی زراعت سے لیکر ملکی صنعت اور برآمدات میں سب سے بڑا حصہ کپاس سے جڑا ہوا ہے۔ ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری اور دھاگے و کپڑے کی برآمد تک۔ سب کچھ کپاس سے منسلک ہے۔ ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری سے وابستہ بالواسطہ اور بلاواسطہ کروڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ کاشت اور اس سے جڑی ہوئی بیج‘ کھاد اور زرعی ادویات کی مارکیٹ ‘ پینسٹھ لاکھ ایکڑ (اس سال کا اندازہ) سے وابستہ کاشتکار‘ مزارعے اور کھیت مزدور۔ کپاس کی فصل مارکیٹ میں آنے کے بعد جننگ‘ سپننگ‘ ویونگ‘ ڈائینگ‘ فنشنگ اور پھر گارمنٹس انڈسٹری۔ ان سب کا دارو مدار کپاس پر ہے۔ اور آخر میں ملکی زر مبادلہ۔ تیرہ ارب ڈالر کا زر مبادلہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کما کر دیتی ہے۔ یہ زر مبادلہ بلامبالغہ دوگنا ہو سکتا ہے ‘لیکن فی الوقت اس کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔
پاکستان میں اس سال کپاس کی متوقع پیداوار ایک کروڑ چار پانچ لاکھ گانٹھ ہے۔ گزشتہ سال یہ پیداوار ایک کروڑ سترہ لاکھ گانٹھ کے لگ بھگ تھی۔ غالباً 1992-93ء میں یہ پیداوار ایک کروڑ ستائیس لاکھ گانٹھ تھی اور 2011-12ء میں تو پاکستان میں ایک کروڑ چالیس لاکھ گانٹھ کپاس پیدا ہوئی۔ گزشتہ کئی برس سے یہ نقد آور فصل مسلسل تنزلی کی طرف جا رہی ہے۔ ہماری ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ضرورت ڈیڑھ کروڑ گانٹھ ہے‘ لیکن اس سال کم از کم چالیس لاکھ گانٹھ درآمد کرنا پڑے گی‘ جس پر دو ارب ڈالرکا زرمبادلہ خرچ ہوگا۔ زرمبادلہ کا جو حال ہے اس کو سامنے رکھیں تو یہ دو ارب ڈالر گرتی ہوئی معاشی صورتحال کی کمر پر مزید ایک ناقابل برداشت تازیانہ ہے۔
ہمارے پڑوس میں بھارت کی کپاس کی پیداوار مسلسل بہتری کی طرف جا رہی ہے۔ گزشتہ پندرہ سال کے دوران بھارت کی کپاس کی پیداوار ڈیڑھ کروڑ گانٹھ سے پونے چار کروڑ گانٹھ تک پہنچ چکی ہے اور بھارت اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ دوسرے نمبر پر چین‘ تیسرے پر امریکہ اور چوتھے نمبر پر پاکستان تھا مگر لگتا ہے کہ اب برازیل ہماری جگہ لے لے گا۔ پاکستان میں کپاس کا زیر کاشت رقبہ اسی لاکھ ایکڑ سے تقریباً پینسٹھ لاکھ ایکڑ ہو چکا ہے یعنی پندرہ لاکھ ایکڑ کی کمی ہوئی ہے اس کی وجہ ایک تو وہی گنے کی زوننگ ختم ہونا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے وائرس نے کپاس کی فصل کا بیڑہ غرق کر دیا ہے اور کپاس کی فی ایکڑ پیداوار کم ہوتے ہوتے بیس من فی ایکڑ رہ گئی ہے جبکہ بھارت کی فی ایکڑ پیداوار اس دوران پندرہ من فی ایکڑ سے دوگنی ہو کر تیس من فی ایکڑ تک پہنچ گئی ہے۔ اگر پاکستان میں کپاس کے بہتر بیج اور وائرس پر ریسرچ کر کے بہتری لائی جائے تو پاکستان میں اڑھائی کروڑ گانٹھ پیدا کرنے کی امکانی صورتحال موجود ہے۔بھارت نے پندرہ سال پہلے بین الاقوامی کمپنی مونسینٹو کے ساتھ بی ٹی کاٹن سیڈ کی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کا معاہدہ کیا۔ یہ کپاس پر حملہ آور نقصان دہ کیڑوں سے نجات کا جدید طریقہ ہے جس میں کپاس کے بیج کو جی ایم او ٹیکنالوجی یعنی Genetically Modified Organism کے ذریعے کیڑوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنا ہے۔ مونسینٹو نے صرف سوملین ڈالر کے عوض یہ ٹیکنالوجی ہمیں دینے کی آفر کی مگر آفرین ہے ہم پر۔ ہم نے ملتان میٹرو پر انتیس ارب روپے‘ لاہور میٹرو پر تیس ارب اور اسلام آباد میٹرو پر چوالیس ارب روپے لگا دیئے اور لاہور اورنج لائن پر تو حد ہی مکا دی اور ا س پر ایک سو پینسٹھ ارب روپے اڑا دیے (یہ رقم 104روپے فی ڈالر کے حساب سے ہے۔ جبکہ اس وقت مونسینٹو کو صرف دس ارب روپے دیکر یہ ٹیکنالوجی حاصل کی جا سکتی تھی اور ملکی کپاس کی پیداوار بڑھ کر یہ قیمت صرف ایک سال میں وصول کی جا سکتی تھی۔ صرف اس سال چالیس لاکھ کی درآمد پر دو سو اسی ارب روپے کا زرمبادلہ خرچ کرنا پڑیگا۔
حکومت کپاس پر ٹیکسٹائل انڈسٹری فی من پچاس روپے Cotton cess وصول کرتی تھی۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے کہا کہ وہ پچاس کی جگہ سو روپے فی من دیں گے بشرطیکہ انہیں ریسرچ کے سارے عمل میں شریک کر لیا جائے۔ حکومت نے یہ مطالبہ مان لیا اور محض ایک سال بعد ہی شریفوں نے سارا معاملہ حکومت کے ہاتھ میں لے لیا اب صورتحال یہ ہے کہ Cotton cessکا ستانوے فیصد تنخواہوں پر اور تین فیصد ریسرچ پر خرچ ہو رہا ہے۔ سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ برباد ہو گیا ہے۔ اب شنید ہے وہاں جنوبی پنجاب کا سب سیکرٹریٹ بنانے کی سکیم زیر غور ہے۔ کپاس کا اچھا بیج ایک عرصے سے خواب بن چکا ہے۔ وائرس نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ زیر کاشت رقبہ اور فی ایکڑ پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے۔ کھاد ہر روز مہنگی ہو رہی ہے۔ بے شمار کاشتکار کپاس کی کاشت ترک کر چکے ہیں۔ آئندہ سال اس سے برا حال ہوگا۔ حکومت نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور ریسرچ کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ہم نے بی ٹی ٹیکنالوجی سے انکار کر کے سو ملین ڈالر بچا لیے ہیں۔ شاباش ہے ایسی کفایت شعاری پر۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں