"KMK" (space) message & send to 7575

انگکورواٹ سے قلعہ روہتاس تک

امجد علی شیر یوں سمجھیں کہ بطور دوست مجھے جہیز میں ملا ہے۔ ایمرسن کالج ملتان میں پڑھتا تھا تو میری دوستی ملک شوکت علی خان سے ہو گئی۔ آج تک حیرانی ہے کہ آخر یہ دوستی ہو کیسے گئی؟ مجھے جو چند لڑکے کلاس میں پہلی ہی نظر میں برے لگے‘ ملک شوکت ان میں سب سے زیادہ برا لگنے والا تھا۔ وہ کتابیں پڑھنے کا شوقین تھا اور یہی وہ واحد چیز تھی جو ناصرف مجھے اس کے قریب لے آئی بلکہ دوستی میں بدل گئی اور دوستی بھی ایسی کہ سمجھیں لنگوٹیا یار بن گیا۔ مجھے بعد میں ایک دو بار تھوڑی شرمندگی بھی محسوس ہوئی کہ خواہ مخواہ اس شریف آدمی کو شروع میں شدید ناپسند کرتا رہا‘ لیکن ایک دن میری یہ شرمندگی بالکل ختم ہو گئی جب اس نے یہ بتایا کہ اسے کلاس میں جو لڑکا سب سے برا لگتا تھا وہ ''میں‘‘ تھا۔ گویا ''دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی‘‘ والا معاملہ تھا۔ دونوں اپنی اپنی اولین ناپسندیدگی ایک دوسرے سے بیان کرکے بڑے ہلکے سے ہو گئے۔
کتابوں سے محبت کے حوالے سے ہم ایک دوسرے سے تھوڑے مختلف تھے۔ میں تب کتاب لے کر ہضم کر جانے کو قطعاً برا نہیں سمجھتا تھا اور اس مقولے پر سو فیصد یقین رکھتا تھا کہ جو آپ کو کتاب دے وہ احمق ہے‘ اور اگر آپ یہ کتاب پڑھ کر اسے واپس کر دیتے ہیں تو آپ احمق ترین ہیں۔ لیکن ملک شوکت کتاب چوری کو ناصرف جائز سمجھتا بلکہ اسے باقاعدہ ادب دوستی تصور کرتا تھا۔ اس نے ایک دو بار مجھے بھی ادب دوستی سکھانے کی کوشش کی‘ مگر اسے ناکامی ہوئی۔ کتاب واپس نہ کرنا تو اس کی باقاعدہ خصلت کا حصہ تھا۔ اس نے ایک دو بار میری کتاب ہضم کرنے کی کوشش کی تو میں نے زبانی برا بھلا کہنے کے بجائے بازو مروڑ کر اسے مجبور کیا کہ وہ میری کتابیں واپس کر دے۔ بعد ازاں ہمارے درمیان باہمی معاہدہ طے پایا کہ ایک دوسرے کو کتاب دیں گے اور واپس بھی کریں گے۔ دونوں معاہدہ بھلے طریقے سے نبھاتے رہے۔
ملک شوکت چک 229 ای بی گگومنڈی کا رہائشی تھا۔ میں اس کے پاس دوسرے چوتھے مہینے گاؤں چلا جاتا تھا۔ ملتان سے وہاڑی بورے والا والی بس پکڑی جاتی۔ میں چک 227 ای بی کے سٹاپ پر اتر جاتا تھا جہاں ملک شوکت میرا منتظر ہوتا تھا۔ پھر ہم پیدل وہاں سے چک 229 ای بی روانہ ہو جاتے جو تین چار کلومیٹر دور تھا۔ بعد میں ملک شوکت نے پیلے رنگ کا ہنڈا ''110بنلے‘‘ خرید لیا۔ وہ موٹر سائیکل پر مجھے لینے آ جاتا۔گاؤں جاتے ہوئے موٹر سائیکل میں چلاتا تھا۔ ملک شوکت نے اپنی اس تاریخی موٹر سائیکل سے اپنے ہر جاننے والے کو گرایا ہوا تھا۔ اپنے آدھے گاؤں کو، اپنی ساری فیملی کو اور اپنے سارے دوستوں کو۔ اس کی واحد وجہ گاؤں کے وہ محقق کتے تھے جو موٹر سائیکل کو قریب سے دیکھنے کی کوشش میں اس کے پیچھے بھاگ پڑتے تھے۔ شوکت کو کتوں سے بے پناہ ڈر لگتا تھا۔ وہ ان کی اس حرکت پر گھبرا جاتا اور گھبراہٹ میں کبھی موٹر سائیکل کا ہینڈل چھوڑ دیتا اور کبھی آس پاس والے کھالے میں اتار لیتا۔ نتیجتاً موٹر سائیکل الٹ جاتی اور ملک شوکت اپنی سواری سمیت زمین بوس ہو جاتا۔ میں شاید روئے ارض کا واحد شخص تھا جو اس کی موٹر سائیکل پر بارہا بلکہ سینکڑوں مرتبہ بیٹھا اور ایک بار بھی نہیں گرا۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ میں کبھی اس کے پیچھے موٹر سائیکل پر نہیں بیٹھا تھا۔ وہ جب بھی میرے پاس آتا میں اسے پیچھے بیٹھنے کا اشارہ کرتا۔ وہ نہایت تابعداری سے ڈرائیونگ سیٹ میرے لیے چھوڑ دیتا۔
بی اے کے بعد اس نے گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی میں داخلہ لے لیا جبکہ میں اورینٹل کالج میں چلا گیا۔ وہاں ہماری روزانہ ملاقات ہوتی۔ کبھی وہ میرے پاس آ جاتا اور کبھی میں اس کے کالج چلا جاتا۔ امجد علی شیر اس کا گورنمنٹ کالج کا کلاس فیلو اور ''بیسٹ فرینڈ‘‘ تھا۔ سو امجد علی شیر کی دوستی مجھے ملک شوکت علی سے جہیز میں ملی۔ دو چار ماہ کے بعد میں اورینٹل کالج چھوڑ کر ملتان آ گیا اور ایم بی اے میں داخلہ لے لیا‘ مگر شوکت علی خان اور امجد علی شیر خان کے ساتھ دوستی اسی طرح قائم رہی۔ اب یہ ہوتا تھا کہ دو چار ماہ بعد علی الصبح گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا۔ باہر شوکت اور امجد کی جوڑی ہوتی۔ وہ رات کو لاہور سے مرحوم جی ٹی ایس کی بس پر سٹوڈنٹ کارڈ دکھا کر آدھے کرائے پر ملتان کے لیے روانہ ہوتے‘ اور منہ اندھیرے ملتان آن پہنچتے۔ پہلے میں ان کو بے وقت اٹھانے پر گالیاں نکالتا، پھر گلے ملتا اور پھر اندر لے آتا۔ اگلا ایک آدھ روز گپ شپ میں گزر جاتا۔
ملک شوکت امتحان پاس کرکے سول جج لگ گیا۔ امجد علی شیر پہلے پروفیسر لگا اور اسلام آباد فیڈرل کالج اور بعد ازاں ایبٹ آباد میں بچوں کو انگریزی پڑھاتا رہا‘ لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے فارن سروس میں چلا گیا۔ آج کل وہ کمبوڈیا میں سفیر ہے۔ میں نے اپنی ازلی آوارہ گردی کے حوالے سے جن جگہوں کو جانے کے لیے ''نشان زد‘‘ کیا ہوا ہے کمبوڈیا ان میں شامل تھا۔ کمبوڈیا میں میرے لیے واحد کشش Angkor Wat تھا۔ یہ قریب ہزار سال پُرانا شاید دنیا کا سب سے بڑا Temple Complex ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک ہندو ٹیمپل کمپلیکس ہے۔ 402 ایکڑ میں پھیلا ہوا یہ کمپلیکس بعد میں بتدریج بدھ مت کے ٹیمپلز میں تبدیل ہو گیا۔ اس کی تعمیر کا آغاز کھمیر راجہ سوریا ورمان کے عہد میں ہوا اور جیا ورمان کے زمانے میں مکمل ہوا۔ یہ جگہ جواب ''سی اَم رِپ‘‘ کہلاتی ہے تب کھمیر سلطنت کا دارالحکومت تھی۔ اس چار سو دو ایکڑ میں سب سے مشہور ٹیمپل کمپلیکس ''انگکور واٹ‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ ''انگکور تھوم‘‘ جس میں ''بایون ٹیمپل‘‘ بہت مشہور ہے۔ اس پورے علاقے میں بلامبالغہ درجنوں ٹیمپلز پھیلے ہوئے ہیں جن میں سے کئی بے نام ہیں اور کئی عالمی شہرت یافتہ۔ انگکور واٹ اور انگکور تھوم کے گرد چاردیواری ہے‘ اور اس چاردیواری کے باہر گہرے پانی کی پختہ خندق ہے اور اندر جانے کے لیے اس آبی خندق پر صرف ایک پل ہے۔ صرف انگکور تھوم کی خندق کا اندرونی رقبہ 9مربع کلومیٹر ہے۔
سی ام رپ کا سارا شہر ان ٹیمپلز کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ اس دورافتادہ اور چھوٹے سے شہرمیں ایک عدد بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔ چھ سات فائیوسٹار ہوٹل ہیں۔ روزانہ ہزاروں سیاح صرف انگکور واٹ آتے ہیں۔ انگکور واٹ کا تین برجیوں والا ٹیمپل کمبوڈیا کا سب سے زیادہ پہچانا جانے والا نشان ہے۔ کمبوڈیا کے اوپر نیچے نیلی پٹیوں والے سرخ جھنڈے پر سفید رنگ میں یہی تین برجیوں والا ٹیمپل ہے۔ پرانے زمانے کے ''سات عجائبات‘‘ کے بعد چند سال قبل ''ماڈرن سیون ونڈرز آف دی ورلڈ‘‘ کا انتخاب ہوا۔ یہ انتخاب کسی میرٹ کے بجائے ووٹوں کے ذریعے ہوا۔ یہ ووٹنگ ''آن لائن‘‘ تھی۔ اس آن لائن ووٹنگ میں جن سات جدید عجائبات عالم کا انتخاب ہوا ان میں دیوار چین، تاج محل آگرہ، پتھر میں بنا ہوا اردن کا قدیم شہر ''پیٹرا‘‘۔ روم کا مشہور ''کولوزیم‘‘۔ میکسیکو کا اہرام ''چیچن اٹزا‘‘۔ پیرو میں ''انکا‘‘ تہذیب کا پہاڑ کے اوپر بنا ہوا شہر ''ماچوپیچو‘‘ اور برازیل کے شہر ریو ڈی جینرو کی پہاڑی پر بنا ہوا حضرت عیسیٰ کا مجسمہ۔ ایمانداری کی بات ہے کہ انگکور واٹ ان میں سے بیشتر عجائبات، خصوصاً حضرت عیسیٰ کے مجسمے، چیچن اٹزا‘ کولوزیم اور ماچوپیچو سے کئی گناہ زیادہ حیران کن اور متاثر کن ہے مگر آن لائن ووٹوں کے باعث کمبوڈیا میں موجود انسانی تعمیر کردہ یہ محیرالعقول عمارات کا مجموعہ سات عجائبات میں اپنی جگہ نہ بنا سکا؛ تاہم اس کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی حیران کن تعداد کمبوڈیا کے لیے اربوں ڈالر 
(باقی صفحہ 11 پر)
زرمبادلہ فراہم کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کمبوڈیا میں سالانہ پچاس لاکھ سے زائد سیاح آتے ہیں‘ اور گزشتہ سال صرف انگکور واٹ آنے والے سیاحوں کی تعداد بائیس لاکھ سے زیادہ تھی۔ اس کی ٹکٹ فی سیاح سینتیس ڈالر ہے۔ یعنی صرف اس ایک جگہ سے کمبوڈیا کو آٹھ کروڑ ڈالر سے زائد آمدنی ہوتی ہے۔ اس کمپلیکس کو یونیسیف اور عالمی ورثوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے کروڑوں ڈالر کی امداد اس کے علاوہ ملتی ہے۔ ادھر ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ اگر صرف قلعوں کی بات کی جائے تو خپلو کا قلعہ، آللتت، بلتت فورٹ، لاہور کا قلعہ، سندھ میں خیرپور کے ساتھ پہاڑی پر بنا ہوا اپنی نوعیت کا حیران کن کوٹ ڈیجی کا قلعہ، دنیا کا سب سے وسیع و عریض بتیس کلومیٹر طویل حفاظتی دیوار پر مشتمل رانی کوٹ کا قلعہ اور سب سے بڑھ کر برباد ہوتا ہوا شیر شاہ سوری کا تعمیر کردہ روہتاس کا قلعہ۔ اس قلعے میں ہزاروں ناجائز قابضین رہائش پذیر ہیں اور قلعے کی اینٹیں اکھاڑ کر سب نے اپنے گھر تعمیر کر لیے ہیں اور سرکار سو رہی ہے۔
بات کہاں کی کہاں چلی گئی۔ کمبوڈیا دیکھنے کی ایک وجہ تو وہی انگکور واٹ دیکھنے کی دیرینہ خواہش تھی اور اوپر سے امجد علی شیر سے ملاقات کا چسکا۔ معاملہ دوآتشہ تھا۔ سو میں آج کل کمبوڈیا میں ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں