"KMK" (space) message & send to 7575

پانچ چوہے گھر سے نکلے کرنے چلے شکار

اللہ جانے سیاح اور آوارہ گرد میں کیا فرق ہوتا ہے۔ کم از کم مجھے تو فرق معلوم نہیں‘ تاہم یہ بات بھی طے ہے کہ ان دونوں میں فرق ضرور ہوتا ہوگا۔ مجھے نا صرف یہ کہ یہ فرق معلوم نہیں ‘بلکہ یہ بھی پتا نہیں کہ میں سیاح ہوں کہ آوارہ گرد۔ مجھے اپنے بارے میں کیونکہ کوئی خوش فہمی نہیں‘ اس لیے میں احتیاطاً خود کو سیاح کی بجائے آوارہ گرد شمار کرتا ہوں۔ بندے کو اپنے بارے میں کبھی بھی over estimate نہیں کرنا چاہئے۔
کوئی دو مہینے ہوتے ہیں ایسے ہی بیٹھے بیٹھے ارادہ کیا کہ اس سردیوں میں بنجوسہ جایا جائے۔ سو‘ ارادہ کرتے ہی شوکت سے اس کا ذکر کیا‘ شوکت فوراً تیار ہو گیا۔ اب حوصلہ بڑھا اور دیگر دوستوں سے بھی پوچھنا شروع کر دیا۔ دوستوں کا رسپانس امید سے بڑھ کر نکلا۔ پہلے رانا شفیق تیار ہوا‘ پھر شوکت اسلام نے پرزور حامی بھری اور آخر میں فہیم آصف بھی اس ٹولے میں شامل ہو گیا۔ گویا پانچ لوگ تو پکے تھے۔ چھٹا کامران بھی اس سفر میں شمولیت کا خواہشمند نکلا۔ ابھی ممکن ہے چند اور دوست بھی تیار ہو جاتے‘ مگر حسب معمول شوکت نے پھڈا ڈال دیا۔ یہ شوکت علی انجم تھا۔ دراصل وضاحت کی ضرورت یوں پیش آئی ہے کہ دو شوکت ہیں۔ شوکت علی انجم اور شوکت اسلام۔ پہلے شوکت علی انجم کو شوکت گجر کہا جاتا تھا ‘لیکن مسئلہ یہ آن پڑا کہ شوکت اسلام بھی گجر ہے اور شوکت علی انجم اس کو شوکت گجر کہتا ہے‘ یعنی ہم شوکت علی انجم کو شوکت گجر کہتے تھے اور شوکت علی انجم آگے سے شوکت اسلام کو شوکت گجر کہتا تھا۔ اس ساری گڑ بڑ سے نجات حاصل کرنے کے لیے طے پایا کہ خالی شوکت سے مراد شوکت علی انجم ہے اور شوکت اسلام کو پورے نام سے پکارا جائے گا۔ سفر کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہو جانے کے بعد تاریخ طے کی گئی اور سفر کے انتظامات میرے ذمے لگا دیے گئے۔ انتظامات کیا تھے؟ فقط بنجوسہ میں ریسٹ ہاؤس کی بکنگ تھی اور وہ کروا لی گئی۔
بنجوسہ آزاد کشمیر میں ایک سیاحتی مقام ہے۔ ایک چھوٹی سی جھیل ہے۔ یہ جھیل قدرتی نہیں‘ بلکہ مصنوعی طور پر بنائی گئی ہے۔ چاروں طرف پہاڑ ہیں‘ درمیان میں پیالہ نما جگہ ہے۔ تین اطراف سے پانی کی ندیاں آتی ہیں اور ایک بڑی ندی بن کر آگے چلی جاتی ہیں۔ اس درمیان میں واقع پیالہ نما جگہ کی اس جانب جہاں تینوں چھوٹی چھوٹی ندیوں کا پانی یکجا ہو کر آگے چلا جاتا تھا‘ ایک بیس پچیس فٹ بلند کنکریٹ کی مضبوط اور موٹی دیوار بنا کر پانی جمع کر لیا گیا ہے‘ یہی بنجوسہ جھیل ہے۔ میں اس سے پہلے دو بار بنجوسہ آ چکا ہوں۔ ایک بار گرمیوں میں ایک بار سردیوں میں۔ اسلام آباد سے بمشکل چار گھنٹے کا سفر ہے۔ لوگ ارد گرد کے شہروں کے علاوہ اسلام آباد سے بھی آئیں تو دو چار گھنٹے گزار کر اسی دن واپس جا سکتے ہیں۔ سردیوں میں دن کے وقت فیملیز یہاں آ جاتی ہیں‘ لیکن رات کو ہو کا عالم ہو جاتا ہے۔ میں گزشتہ بار مارچ کے آغاز میں بنجوسہ گیا تھا ‘مجھے یہاں سردیوں میں آنا اچھا لگا۔ جھیل کسی حد تک جمی ہوئی تھی۔ ریسٹ ہاؤس کے چوکیدار نے بتایا کہ آپ مہینہ پہلے آتے تو جھیل کے اوپر بے شک کرکٹ یا فٹ بال کھیل لیتے۔
آزاد کشمیر میں درجنوں مقامات ایسے ہیں کہ گرمیوں میں وہاں لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ بنجوسہ‘ تولی پیر‘ چکار‘ سندھن گلی‘ پیر چناسی‘ ہٹیاں بالا‘ نون بگلہ‘ کیل‘ شاردا‘ رتی گلی جھیل‘ اڑنگ کیل اور تاؤ بٹ کے علاوہ بھی بہت سی جگہیں ہیں‘ جہاں آپ فیملی کے ساتھ دو چار دن اچھے گزار سکتے ہیں۔ تقریباً ہر جگہ آزاد جموںو کشمیر کے محکمہ سیاحت نے اپنے ریسٹ ہاؤس بنا رکھے ہیں۔ کرایہ بھی مناسب ہے۔ ماحول بہت اچھا اور سب سے بڑھ کر امن و امان بہت ہی مثالی۔ بقول شخصے؛آزاد کشمیر میں پولیس فارغ بیٹھی رہتی ہے۔ بڑے بڑے جرائم نہ ہونے کے برابر۔ ڈکیتی وغیرہ ناپید۔ گاڑی چھیننے کے واقعات کا نام و نشان نہیں اور سیاحوں کو تھوڑی مہنگی اشیاء کے علاوہ لوٹنے کا کوئی اور طریقہ استعمال نہیں کیا جاتا۔ مری جیسی غنڈہ گردی کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔
ملک احسان الرحمان کو بنجوسہ چلنے کی دعوت دی۔ اس نے پوچھا :سردی کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا: آج کا کم از کم درجہ حرارت منفی چار تھا اور جھیل مکمل طورپر جم چکی ہے۔ ملک احسان کو سردی کی تفصیل سن کر کھانسی لگ گئی۔ ملک احسان کا گلا تقریباً سارا سال خراب رہتا ہے ‘لیکن اس میں بہتری (خرابی میں مزید بہتری) سردیوں میں آ جاتی ہے۔ گھر میں چلتے پھرتے اپنی کھانسی سے اعلان کرتا رہتا ہے کہ میں اس وقت کہاں ہوں۔ اس کے بارے میں مَیں نے خاندان بھر میں مشہور کر رکھا ہے کہ احسان کے ٹو سگریٹ کی ڈبیا پر بنے ہوئے برف پوش پہاڑ (کے ٹو) کی تصویر بھی دیکھ لے تو اس کا گلا خراب ہو جاتا ہے۔
دوچار دن بعد کامران نے بتایا کہ اس کی بینک کی ایک دو ضروری میٹنگز آ گئی ہیں‘ لہٰذا وہ بنجوسہ ہمارے ساتھ نہ جا سکے گا۔ یہ ابتدا تھی۔ مزید چار دن بعد رانا شفیق نے بتایا کہ اسے ڈاکٹر نے سفر سے اور خصوصاً بلندی پر جانے سے منع کر دیا ہے۔ رانا شفیق کی بات معقول تھی۔ زندہ دل اور یاروں کے یار کو دل کا معاملہ آن پڑا ہے۔ وسیع القلب اور ہمہ وقت دوستوں کے لیے سینہ کشادہ کیے رکھنے والے رانا شفیق کو تھوڑے دن پہلے ہی اس نامراد ہماری کا پتا چلا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ ہم سب دوست اسے ساتھ لیجاتے ہوئے تھوڑے نہیں‘ کافی فکرمند تھے کہ اگر خدانخواستہ راستے میں یا بنجوسہ جا کر کوئی ایمرجنسی پڑ گئی تو کیا ہوگا؟ میں اپنی فیملی کے ساتھ بنجوسہ تھا۔ وہاں جھیل کے کنارے چھوٹا سا پارک ہے ‘جہاں جھولے لگے ہوئے ہیں۔ جھولے جھولتے ہوئے اسد گر گیا۔ نیچے پڑی ہوئی زیرو سائز کی بجری سے اس کے گھٹنے اور کہنیاں چھل گئیں اور خون نکل آیا۔ زخم بالکل معمولی تھے اور پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی ‘مگر یہ جگہ گھوڑوں کے گزرگاہ بھی تھی۔ یہ گھوڑے مقامی لوگوں کے تھے اور وہ بچوں وغیرہ کو ان پر بٹھا کر جھیل کا چکر لگواتے تھے۔ اردگرد گھوڑوں کی لید بھی نظر آ رہی تھی۔ گھوڑوں کی لید میں موجود جراثیم سے ایک نہایت ہی خطرناک بیماری Tetanus یعنی تشنج ہو جاتی ہے۔ میں اسد کو لے کر قریبی قصبے کھائی گلہ گیا‘ لیکن ٹیٹنس کی ویکسین میسر نہ تھی‘ پھر وہاں سے راولا کوٹ گیا اور اسے ٹیکہ لگوایا۔ ایسی صورت میں رانا شفیق کو بنجوسہ لیکر جانا رسک تھا‘ مگر کسی دوست میں ہمت نہ تھی کہ وہ رانا شفیق جیسے پیارے دوست کو ساتھ لیجانے سے انکار کرتا یا اسے خود منع کرتا۔ اب ڈاکٹر نے روک دیا تو سب نے سکون کا سانس لیا۔ سب کی مشکل ڈاکٹر کی ہدایت نے حل کر دی تھی۔
عین روانگی سے تین دن قبل فہیم آصف نے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔ اسے کمپنی کی سالانہ سیلز میٹنگ پر نا صرف خود بھوربن جانا تھا‘ بلکہ اس میٹنگ کے سلسلے میں کمپنی کے سینکڑوں لوگوں کے لیے کیے جانے والے انتظامات کی نگرانی کرنی تھی۔ یہ بہانہ نہیں تھا۔ معقول وجہ تھی۔ سو ‘اسے بھی رخصت مل گئی۔ اب ہم تین لوگ آن بچے تھے۔ میں‘ شوکت اور شوکت اسلام۔ کمرے میں بیٹھے مجھے صوفی تبسم کی لکھی نظم یاد آ گئی‘ جو ہم بچپن میں باآواز بلند سکول میں یاد کیا کرتے تھے۔ عشروں بعد نظم یاد آئی اور ایسے لگا کہ میں میونسپل مڈل گرلز سکول چوک شہیداں کی کلاس میں نظم باآواز بلند پڑھ رہا ہوں۔ نظم تھی: ''پانچ چوہے‘‘۔
پانچ چوہے گھر سے نکلے‘ کرنے چلے شکار
ایک چوہا رہ گیا پیچھے‘ باقی رہ گئے چار
چار چوہے جوش میں آ کر‘ لگے بجانے بین
ایک چوہے کو آ گئی کھانسی‘ باقی رہ گئے تین
تین چوہے ڈر کر بولے‘ گھر کو بھاگ چلو
ایک چوہے نے بات نہ مانی‘ باقی رہ گئے دو
دو چوہے پھر مل کر بیٹھے‘ دونوں ہی تھے نیک
ایک چوہے کو کھا گئی بلی‘ باقی رہ گیا ایک
ایک چوہا جو باقی رہ گیا‘ کر لی اس نے شادی
بیوی اس کو ملی لڑاکا‘ یوں ہوئی بربادی

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں