"KMK" (space) message & send to 7575

موٹروے کا تیسرا افتتاح اور جگاڑ

ملتان سے کراچی‘ کراچی سے ملتان براستہ لاہور اور پھر ملتان سے دوحا‘ اٹلانٹا‘ سیکرامنٹو اور ٹولیڈو۔ لگاتار سفر تھا‘ لیکن معاملہ سفر نے نہیں‘ سفر کے دوران فلو نے خراب کر دیا تھا۔ اور فلو کے بارے میں‘ میں ہی کہتا ہوں کہ یہ بیماری نہیں'اوازاری‘ ہے۔ بس سادہ لفظوں میں یوں کہیں کہ دوران سفر اوازاری تھی۔ سفر تو بہرحال سفر ہی ہوتا ہے۔ کسی نے مجھ سے پوچھا: سفر کیسا گزرا؟ میں نے کہا :سفر خواہ کتنا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو‘ بہرحال سفر ہی ہوتا ہے اور یہ جو اُردو والا سفر ہے‘ یہ دراصل انگریزی والا Suffer ہے۔
کراچی سے ملتان آتے ہوئے قومی ائیر لائن کی اکلوتی فلائٹ منسوخ ہو گئی۔ رات ہوٹل میں تھا کہ فون آ گیا۔ بتایا کل آپ کی ملتان جانے والی پرواز منسوخ ہو گئی ہے‘ آپ بتائیں کیا کرنا ہے؟ میں نے کہا: بھائی میں نے کیا کرنا ہے؟ جو کرنا ہے ‘اب آپ نے ہی کرنا ہے۔ پہلے کون سا آپ نے مجھ سے پوچھ کر کیا ہے‘ جو اب کریں گے۔ آپ بتائیں کیا کرنا ہے؟ جوب ملا: ہمارے پاس آپ کے لیے کوئی متبادل آپشن موجود نہیں ہے۔ ایک پرواز پرسوں ہے‘ جس میں کوئی سیٹ خالی نہیں۔ میں نے کہا: بھائی ‘اگر اس جہاز میں کوئی سیٹ ہوتی بھی تو میرے لیے بیکار تھی۔ میں نے تو پرسوں امریکہ چلے جانا ہے۔ اس کے بعد ہماری گفتگو ختم ہو گئی‘ لیکن صرف گفتگو ختم ہوئی‘ پریشانی شروع ہو گئی۔ میں نے فوراً ملتان جانے کے لیے متبادل تلاش کرنے شروع کر دیے۔ بہاولپور کا ہوائی اڈہ ویسے ہی بند تھا‘لہٰذا یہ والی آپشن بھی ختم تھی۔ ڈیرہ غازیخان بھی یہی حال تھا اور رحیم یار خان بھی۔ اب لے دے کر لاہور رہ جاتا تھا‘ لہٰذا اگلے روز لاہور کی پرواز کے لیے کوششیں شروع کر دی۔ صبح آٹھ بجے پی آئی اے کی پرواز تھی‘ لیکن اس کا بھی وہی حال تھا۔ اُس میں سیٹ نہیں تھی۔ آٹھ بجکر دس منٹ پر ایک نجی کمپنی کی پرواز میں جگہ مل گئی ‘میں نے لمحہ ضائع کیے بغیر سیٹ پکڑ لی‘ کیا پتا بعد میں یہ بھی نہ ملے۔
تھوڑی دیر بعد زاہد فخری بھی پریشان حال ملا۔ پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ کہنے لگا :میری لاہور کی کل شام کی فلاٹ کینسل ہو گئی ہے‘ اب کیا کروں؟ میں نے کہا: وہی کرو جو میں نے کیا ہے۔ کل صبح والی پرواز میں سیٹ بک کروا لو۔ پوچھنے لگا: یہ ہماری فلائٹ کیوں کینسل ہوئی ہے؟ میں نے کہا :بھائی! مجھے تو اپنی پرواز کے منسوخ ہونے کی وجہ کا علم نہیں‘ بھلا آپ کی پرواز بارے کیا عرض کر سکتا ہوں؟ فخری کہاں ماننے والا تھا۔ پوچھنے لگا: تو بتا دو کہ تمہاری پرواز کیوں کینسل ہوئی ہے؟ میں نے کہا :مجھے کیا پتا؟ کہنے لگا: جس نے پرواز منسوخ ہونے کی اطلاعی فون کیا تھا‘ اس سے پوچھنا تھا۔ میں نے کہا :تم نے پوچھا ہے؟ ہنس کر کہنے لگا: پوچھا تھا‘ لیکن فون کرنے والے کو وجہ معلوم نہیں تھی۔
میں نے ہنس کر کہا: مجھے بھی غالباً اسی نے فون کیا تھا‘ جس نے تمہیں کیا تھا۔ میں نے بھی وجہ پوچھی تھی‘ مگر اسے بھی معلوم نہ تھی۔ ویسے‘ اگر وہ بتا بھی دیتا تو کیا فرق پڑتا؟ پرواز تو بہرحال منسوخ ہو چکی تھی‘ اب وجہ معلوم بھی ہو جاتی تو کیا فائدہ ہوتا؟ فخری کہنے لگا :بس ذرا دل کو تسلی ہو جاتی۔ میں نے کہا :اگر یہ بات ہے تو پھر سنو! تمہارے اور میرے جہاز نے آپس میں لڈو کھیلنی تھی۔ میں نے کہا: وجہ کیا ہوتی ہے؟ جہاز کم ہیں اور جو رہ گئے ہیں ‘ان کا بھاگ بھاگ کر حال خراب ہے۔ کل بتیس جہاز ہیں۔ ان میں سے بھی چھ خراب ہیں۔ باقی چھبیس جہاز ہمہ وقت آ رہے اور جا رہے ہیں۔ سانس لینے کی فرصت نہیں۔ ایک خراب ہو جائے تو سارا شیڈول درہم برہم ہو جاتا ہے۔ سو‘ وہی ہوا ہوگا۔
اگلے روز علی الصبح لاہور کی فلائٹ پکڑی اور لاہور سے بذریعہ سڑک ملتان روانہ ہو گیا۔ ایک جگاڑ لڑایا اور لاہور تا ملتان والی نئی موٹروے پر چڑھ گیا۔ ابھی موٹر وے چلی نہیں اور فیض پور انٹر چینج پر پائپ سے بیریئر لگا کر بند کی ہوئی ہے ‘مگر ''جگاڑ‘‘ بڑی کارآمد شے ہے۔ پاکستان میں اس سے کافی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ سو‘ اسی جگاڑ سے کام چلایا۔ پانچ سوا پانچ گھنٹے والا راستہ ساڑھے تین گھنٹے میں طے ہو گیا۔ لاہور تا عبدالحکیم موٹروے تقریباً مکمل ہے‘ بلکہ صرف مکمل ہی نہیں ‘کئی مقامات پر تو تکمیل کے بعد ہونے والی حرکتوں سے بھی مکمل فیض یاب ہو چکی ہے۔ جہاں جہاں موٹروے کے ساتھ گاؤں ہیں‘ وہاں وہاں لوگوں نے موٹروے کے ساتھ لگا ہوا حفاظتی جنگلہ کاٹ لیا ہے۔ کئی جگہ سے تو کاٹا ہے اور کئی جگہ سے باقاعدہ اتار لیا ہے۔ بچے موٹروے پر پکنک منانے کے لیے آئے بیٹھے تھے اور ایک جگہ باقاعدہ کرکٹ میچ ہو رہا تھا۔ کئی جگہ پر گاؤں کے نوجوان اپنی گھر والی کے ساتھ اپنے ہنڈا 125 پر ''لانگ ڈرائیو‘‘ انجوائے کر رہے تھے۔ درجن بھر مقامات پر تو یہ عالم تھا کہ موٹروے پر دو طرفہ ٹریفک جاری تھی۔ جانے والے راستے پر لوگ آ بھی رہے تھے۔ ان سارے مقامات ''آہ و فغاں‘‘ سے احتیاط سے گزرنے کے باوجود شام کوٹ پر موٹروے سے اترے تو تین گھنٹے لگے تھے۔ آگے آدھ گھنٹہ ملتان تک لگا‘ یعنی کل ساڑھے تین گھنٹے؛ اگر اس موٹروے پر سے کرکٹ کا ٹورنامنٹ‘ موٹر سائیکلوں پر لانگ ڈرائیو اور ساتھ والے دیہاتوں سے پکنک پر آنے والے بچے نہ ہوتے تو ممکن ہے یہ سفر آدھ گھنٹہ مزید کم ہو جاتا‘ لیکن سرکار کو شاید یہ موٹروے کھولنے کی کوئی خاص جلدی نہیں۔ ہاں! افتتاح کرنے کی بڑی جلدی ہے۔
پہلے اپنے شاہد خاقان عباسی صاحب نے مدت ِ وزارت عظمیٰ ختم ہونے سے ہفتہ قبل ملتان تا شجاع آباد اور گوجرہ تا شورکوٹ والے سیکشن کا افتتاح فرما دیا۔ اس افتتاح کے مہینہ بعد اس عاجز نے اس افتتاح شدہ سیکشن پر سفر کرنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ نہ تو ابھی ٹال پلازے ہی بنے ہیں اور نہ ہی کوئی انٹرچینج مکمل ہوا تھا۔ نہ موٹروے پولیس میسر تھی اور نہ ہی سائڈ والا جنگلہ لگا تھا‘ مگر جانے سے پہلے افراتفری میں افتتاح فرما کر رخصت ہو گئے۔ اس کے بعد نئی حکومت آ گئی۔ اس حکومت کو موٹروے مکمل کرنے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ان کا پراجیکٹ نہیںہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے شہباز شریف صاحب کو پرویز الٰہی حکومت کے تعمیر کردہ وزیر آباد والے کارڈیالوجی سنٹر کو شروع کرنے اور چلانے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔
لیکن تبدیلی آنے کے باوجود عالم یہ ہے کہ حکمرانوں کی عادتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پہلے اس نامکمل موٹروے کا افتتاح شاہد خاقان عباسی نے فرما دیا‘ پھر اس نامکمل اور غیر چالو موٹروے کا افتتاح مراد سعید نے کر دیا۔ میں ایک بار پھر احمق بن گیا اور مراد سعید کے افتتاح کے بعد ایک بار پھر موٹروے پر جا پہنچا۔ نہ ٹال پلازہ کام کر رہا تھا اور نہ ہی انٹرچینج کھلا ہوا تھا۔ تب جگاڑ کا فریضہ سو روپے کے نوٹ نے سرانجام دیا۔ رسی پکڑ کر کھڑے اہلکار نے سو روپے لے کر رسی ویسے ہی نیچے کردی جیسے کارڈ لینے کے بعد ٹال پلازے والا اپنا ''مشینی ڈنڈا‘‘ اوپر کردیتا ہے۔ میں عبدالحکیم سے موٹروے پر چڑھا تو فرق صرف اتنا تھا کہ باقاعدہ چالو موٹروے پر آپ ٹال ٹیکس کی ادائیگی سفر کے اختتام پر کرتے ہیں اور مراد سعید کی افتتاح کردہ موٹروے پر آپ ٹال ٹیکس کی ادائیگی سفر کے ا ختتام کی بجائے سفر کے آغاز پر ہی کر دیتے تھے۔ عبدالحکیم سے چڑھ کر جب پنڈی بھٹیاں اترنے لگا تو ٹال پلازے والے نے موٹروے کا انٹری کارڈ مانگا۔ میں نے کہا: وہ تو نہیں ہے۔ پوچھا :کہاں گیا؟ میں نے کہا :ملا ہی نہیں۔ اس نے کہا: یہ ممکن نہیں۔ میں نے کہا: عبدالحکیم پر لگے بیریئر کا محافظ ٹال ٹیکس تو لیتا ہے‘ مگر کارڈ نہیں دیتا۔ ٹال والے نے گوجرہ تا پنڈی بھٹیاں کا ٹال ٹیکس وصول کیا اور کہنے لگا: ابھی سسٹم آپ سے صرف یہی ٹال وصول کر سکتا ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔
میں اس وقت امریکہ میں ہوں اور سنا ہے کہ لاہور عبدالحکیم موٹروے کا افتتاح ایک بار پھر تیس مارچ کو ہونے جا رہا ہے۔ اللہ جانے اس افتتاح کے بعد بھی باقاعدہ طور پر چل پائے گی یا جگاڑ سے ہی کام چلانا پڑے گا۔ واپس آ کر دیکھتے ہیں۔ تب تک تیسرا افتتاح ہو چکا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں