"KMK" (space) message & send to 7575

عید کے چاند سے شیخ عبدالباقی کے خطبے تک

خیر سے عید گزری۔ پہلے مملکت ِخدادادِ پاکستان کو عید کا چاند دکھانے کی ذمہ داری مفتی منیب الرحمان اور مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے کاندھوں پر تھی‘ لیکن اس بار ان دونوں بزرگوں کے کندھوں پر پڑے ‘اس بار کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے اپنے فواد چودھری صاحب میدان میں آن کودے۔ پہلے دونوں حضرات تو چاند دکھاتے تھے‘ مگر اپنے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے چاند دکھانے کے بجائے چاند چڑھانے کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے خود کو پیش کر دیا۔ ان کو بزعم خود یقین تھا کہ وہ ایک عرصے سے مسجد قاسم اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے درمیان چاند دیکھنے کے مقابلے کو اپنے قمری کیلنڈر کی بنیاد پر چاروں شانے چت فرما دیں گے‘ مگر صورتحال بالکل الٹ نکلی اور دوطرفہ کشمکش سہ طرفہ ہو کر رہ گئی۔ 
مفتی شہاب الدین پوپلزئی اور مفتی منیب الرحمان تو ابھی چاند کو دیکھنے کی تیاریاں بھی شروع نہ کر پائے تھے کہ فواد چودھری صاحب نے اپنی قمری کیلنڈر کی نا صرف تیاریاں شروع کر دیں اور عیدالفطر کے لیے باقاعدہ پانچ جون بروز بدھ کا اعلان بھی فرما دیا۔ یہ اعلان خیر سے مفتی شہاب الدین کے لیے تو کوئی مسئلہ کھڑا نہ کر سکا کہ مفتی صاحب چاند بارے اس قسم کے اعلانات کو کسی نہایت دور دراز اور گمنام قسم کے علاقے سے ملنے والی اپنی شہادتوں کی بنیاد پر رد کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے۔ مفتی شہاب الدین صاحب کو تو ایک لحاظ سے فواد چودھری کے میدان میں آنے سے خاصی تقویت حاصل ہوئی کہ اب ان کے مقابل مفتی منیب الرحمان کو یکطرفہ نہیں دوطرفہ محاذوں پر نبرد آزما ہونے پڑے گا اور وہی ہوا‘ جس کی توقع تھی۔ فواد چودھری کے میدان کار زارمیںکود پڑنے سے سب سے زیادہ مشکل مفتی منیب الرحمان کو پیش آئی ہے۔ مفتی صاحب تو چاند کا اعلان اپنے علاوہ کسی اور کے منہ سے سننا بھی پسند نہیں کرتے اور خاص طور پر سرکاری سائیڈ سے تو کسی قسم کا اعلان ان کی سرکاری حیثیت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں اور فواد چودھری سے بڑھ کر ان کے لیے باعث اذیت اور کون ہو سکتا تھا کہ حاضر سروس حکومت کا کوئی حاضر سروس وفاقی وزیر خم ٹھونک کر مفتی منیب الرحمان کے مقابل آ جائے اور ان کی بلاشرکت غیرے سرکاری حیثیت کو چیلنج کرے۔ رہ گئے مفتی پوپلزئی‘ تو انہوں نے ننانوے فیصد امکانی صحت میں تو مفتی منیب الرحمان صاحب سے ایک روز پہلے ہی عید کرنا ہوتی ہے۔ سو ‘اس بار انہوں نے اپنی اس ''اعلیٰ‘‘ روایت کو زندہ رکھا اور اپنے عقیدت مندوں کو مبلغ ایک روزے کی رعایت عطا فرمائی اور ان کو اٹھائیس روزوں کے بعد عید کی نوید سنا دی۔
نئے پاکستان میں نئی نئی چیزیں دیکھنے کومل رہی ہیں۔ پہلے پانچ سال یوں ہوا کہ کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت تھی اور مرکز میں مسلم لیگ ن برسراقتدار تھی‘ لیکن خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت سرکاری سطح پر پورے پانچ سال مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کردہ شہادت اور اعلان کے مطابق عید مناتی رہی اور اس سال یہ پہلی عید تھی جب مرکز اور صوبہ میں تحریک انصاف کی حکومت تھی اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کردہ فیصلے کے مطابق عید منانے کی بجائے مسجد قاسم سے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے اعلان کردہ رویت ہلال کے مطابق عید منانے کا اعلان کر دیا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دو تین سال پہلے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس کے دوران کہیں سے چاند نظر آنے کی شہادت کی اطلاع سن کر وہاں کھڑے ہوئے کسی صحافی نے اس شہادت کی اطلاع بذریعہ موبائل فون اپنے چینل کو کر دی تو اپنے اعلان سے قبل چاند کی اطلاع کسی چینل کو ملنے پر مفتی منیب الرحمان شدید غصے میں آ گئے اور انہوں نے غصے میں اپنے سامنے پڑا ہوا فون زمین پر پٹخ دیا اور ایسے گرم ہوئے کہ خدا کی پناہ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان کے چاند نظر آنے کے اعلان سے قبل سائنس کے گھوڑے کے نوآموز سوار (جنہوں نے آخری بار شاید سائنس میٹرک کے دوران پڑھی تھی) فواد چودھری نے نا صرف عید الفطر کا پیشگی اعلان فرما دیا‘ بلکہ اب انہوں نے محرم الحرام اور عید الاضحی کی تاریخوں کا اعلان فرما کر مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے غبارے سے ساری کی ساری ہوا نکالنے کی خاصی کامیاب کوشش کی ہے۔
نئے پاکستان میں عجیب صورتحال ہے۔خیبر پختونخواکی صوبائی حکومت مسجد قاسم والی غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے ساتھ ہے اور گورنر اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے اٹھائیس روزوں کے بعد عید الفطر کے اعلان کے مطابق نماز عید ادا کر کے مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر کھلم کھلا عدم اعتمادکر دیا ہے۔ ادھر فی الحال تو خیر گزری کہ فواد چودھری کے قمری کیلنڈر اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کردہ شوال کے چاند کی تاریخ ایک ہی تھی‘ اگر کل کلاں اس میں ایک دن کا فرق آ گیا تو خیر سے خیرپختونخوامیں اٹھائیس‘ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے مطابق انتیس اور فواد چودھری کے قمری کیلنڈر کے مطابق تیس روزے ہوا کریں گے اور اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کی عوام تین تین عیدین سے مستفید ہوا کریں گے۔کل شفیق سے لاس اینجلس بات ہو رہی تھی تو وہ کہنے لگا کہ اگر مقابلہ بازی اسی طرح جاری رہی اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے ایک روز قبل خیبرپختونخوا میں عید منانے کی روایت قائم رکھی گئی‘ تو یہ نہ ہو کہ خدانخواستہ معاملہ بڑھتے بڑھتے ستائیس اور چھبیس روزوں تک آن پہنچے۔ ویسے ایمانداری کی بات ہے کہ قمری مہینوں کے چاند کا معاملہ ایک لحاظ سے خاصا مذہبی ہے کہ بہت سے اسلامی تہوار انہی تاریخوں سے جڑے ہوئے ہیں‘ لیکن سارا مسئلہ صرف اور صرف شوال اور ذی الحج کے چاند سے ہی کیوں جڑا ہوا ہے؟ کبھی شعبان کے چاند پر تو مفتی پوپلزئی اور مفتی منیب الرحمان میں کسی اختلاف کی خبر سننے میں نہیں آئی اورنہ ہی کبھی جمادی الاول یاجمادی الآخر کے چاند پر دو مختلف آرا سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ آخر سارا اختلاف صرف عیدین کے چاند پر ہی کیوں ہوتا ہے؟ اور کیا چاند دیکھنے کی شہادت صرف کوئی مولوی ہی وصول کر سکتا ہے؟ چاند دیکھنے کی شہادت تک تو خیر یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ شہادت دینے والا کوئی ایماندار‘ نیک‘ متقی اور پرہیزگار آدمی ہو‘ لیکن یہ کہاں ضروری ہے کہ مردان‘ چترال‘ حیدر آباد‘ڈیرہ غازی خان‘ زیارت‘ خضدار‘ میرپور خاص‘ پنجگور یا بنوں سے چاند نظر آنے کی شہادت صرف مولوی سن سکتا ہے اور اس کا اعلان صرف اور صرف کوئی مفتی کر سکتا ہے؟ صرف شہادت اکٹھی کرنے اور چاند نظر آنے کا اعلان کرنے کے لیے کسی کا صرف عالم دین ہونا ضروری تو نہیں‘ تاہم چاند کے بارے میں اسے آنکھ سے دیکھنے کی شہادت اور قمری کیلنڈر کے بارے میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ اب قمری کیلنڈر کا بنانا کوئی ناممکنات میں شامل نہیں رہا۔
میں نے ایک بار کسی پاکستانی امریکن کا خط پڑھا تھا جس میں اس نے آفر کی تھی کہ اگر کسی اسلامی ملک کی حکومت چاہے تو ''ناسا‘‘ (امریکی خلائی تحقیقاتی ادارہ) یہ کام باآسانی کر سکتا ہے۔ وہ صاحب بذات خود ناسا میں ملازم تھے اور ان کے بقول ناسا یہ کام چند دنوں میں کر سکتا ہے اور مختلف ممالک کے جغرافیائی محل وقوع کے مطابق اگلے ایک سو سال کا قمری کیلنڈر بنا کر دے سکتا ہے ‘لیکن کیونکہ بہت سارے علما کرام کا اس سے ''شان و شوکت‘‘ وابستہ ہے اس لیے وہ اس سے دستبردار ہونے کے لیے قطعاً تیار نہیں ؛ حالانکہ قمری کیلنڈر کا معاملہ ہو یا چاند کو دیکھنے کا‘ہر دو صورتوں میں یہ موسمیات اور فلکیات کے ماہرین کا کام ہے ۔ اور بہت سے کام ایسے ہیں جو علما کرام کی نظر کرم کے محتاج و منتظر ہیں کہ ان پر غور کیا جائے‘ مثلاً وہ لوگوں کو حقوق العباد بارے بتائیں جن کے بارے میں قرآن کریم میں جگہ جگہ تاکید کی گئی ہے مگر ہمارے علما ہمیں صرف اور صرف حقوق اللہ بارے ہی بتاتے ہیں۔ یہ کام بلاشبہ بہت ضروری ہے‘ لیکن دین اسلام نظام زندگی ہے اور نظام زندگی حقوق العباد سے آگاہی اور اسے ادا کیے بغیر چلایا ہی نہیں جا سکتا۔سوڈان کے شیخ عبدالباقی المکاشفی نے جمعۃ المبارک کا مختصر ترین خطبہ دیتے ہوئے کہا ''ایک بھوکے کو ایک لقمہ کھانا کھلانا ہماری بہت سی تصوراتی نیکیوں سے زیادہ افضل کام ہے‘‘۔ حضرات اپنی اپنی صفیں درست فرما لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں