"KMK" (space) message & send to 7575

ایران پر ممکنہ امریکی حملہ اور اگلے انتخابات

امریکی وزیر دفاع نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ میں نے یہ خبر لاس اینجلس میں شفیق کے گھر میں صبح ناشتہ کرتے ہوئے سنی۔ ڈائننگ روم اور لاؤنج‘ جس میں ٹی وی لگا ہوا ہے‘ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور اگر آپ ڈائننگ ٹیبل پر اس طرح بیٹھیں کہ کچن آپ کی پشت پر ہو تو آپ کا منہ ٹی وی کی طرف ہوتا ہے۔ ہم دونوں کی پشتیں کچن اور منہ ٹیلی ویژن کی طرف تھے۔ شفیق جب تک گھر کی نچلی منزل میں ہوتا ہے‘ لاؤنج کا یا سٹڈی کا ٹی وی، دونوں میں سے کم از کم ایک ضرور آن رہتا ہے۔ سی این این چل رہا تھا اور خبر آئی کہ ٹرمپ کے وزیر دفاع پیٹرک شاناہان نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ قائم مقام وزیر دفاع کے طور پر کام کر رہا تھا۔ بظاہر تو اس استعفے کی وجہ اس کے خلاف ایف بی آئی کی جانب سے ہونے والی انکوائری ہے‘ جس میں اس کے خلاف 2010ء میں اس کی سابق بیوی نے بدسلوکی اور تشدد کی شکایت درج کروائی تھی‘ مگر واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ یہ صرف بہانہ ہے ورنہ نو سال بعد اس باسی کڑھی میں ابال آنے کی کوئی منطقی وجہ نہیں‘ سوائے اس کے کہ ٹرمپ کی ایران کے بارے میں سخت پالیسی سے اختلاف ہی دراصل اس استعفے کی بنیادی وجہ ہے۔
ٹرمپ نے غالباً گزشتہ ایک ہفتے سے وائٹ ہاؤس کا کوئی ملازم فارغ نہیں کیا تھا اور اس طویل ''خشک سالی‘‘ کے بعد کسی بڑے عہدیدار کی چھٹی ہونا ضروری ہو گیا تھا تاکہ اس لیٹ کی کسر نکالی جائے۔ سو قرعہ فال سیکرٹری ڈیفنس یعنی وزیر دفاع کے نام کا نکلا اور اس سے استعفیٰ طلب کر لیا گیا۔ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں کہا ''شاناہان کو وزیر دفاع کی خالی جگہ پر نامزد نہیں کیا جا رہا تاکہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکیں‘‘۔ قائم مقام وزیر دفاع کو مستقل وزیر دفاع نامزد نہ کرنے کی کیا محیرالعقول دلیل دی گئی ہے۔ کیا صرف شاناہان ہی کی فیملی ہے؟ دیگر سرکاری عہدیدار اس ذمہ داری سے آزاد ہیں؟ اس کی جگہ جس شخص کا بطور قائم مقام وزیر دفاع تقرر ہوا ہے‘ وہ ڈاکٹر مارک ٹی ایسپر ہے‘ جو اب تک امریکی سیکرٹری آف دی آرمی کے طور پر کام کر رہا تھا۔ ٹرمپ نے اس نئی تقرری پر بھی حسب معمول ٹویٹ کیا اور کہا ''میں مارک کو اچھی طرح جانتا ہوں اور مجھے کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری شاندار طریقے سے سرانجام دے گا‘‘۔ اب خدا جانے اس سے کیا کام لینا مقصود ہے جس کے بارے میں ٹرمپ کو پہلے سے ہی اندازہ ہے کہ وہ یہ کام نہایت شاندار طریقے سے سرانجام دے گا۔
وائٹ ہاؤس سے باورچیوں کو، پروٹوکول کے سٹاف کو، میڈیا ٹیم کے لوگوں میں سے کسی شخص کو فارغ کرنا اور بات ہے لیکن قائم مقام وزیر دفاع کو فارغ کرنا بہرحال ٹرمپ کا سو فیصد ذاتی فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ اسے ایسا فیصلہ کرنے کے لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی منظوری نہیں بلکہ ہدایت پر عمل کرنا ضر وری ہو گیا ہو گا کہ ٹرمپ دراصل امریکی اسٹیبلشمنٹ کا ہی مہرہ ہے اور اسے اس امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اس عہدے پر لایا گیا ہے جس کی تکمیل اس جیسے شخص کے علاوہ اور کسی سے کروانا شاید ممکن نہیں تھا۔
امریکی معیشت اب تنزلی کی طرف رواں ہے۔ اس میں زیادہ خوش ہونے کی بات نہیں۔ یہ صرف امریکہ کے ساتھ ہی نہیں ہو رہا بلکہ پوری عالمی معیشت تنزلی کا شکار ہے اور امریکی معیشت بھی اس عالمی تنزلی کا حصہ ہے۔ گزشتہ دو تین سال امریکی معیشت کے لیے اچھے تھے اور سمجھدار لوگوں کے خیال میں یہ اوبامہ کی پالیسیوں کا تسلسل تھا‘ جس کا پھل ٹرمپ کے دور حکومت میں آنا شروع ہوا اور عام امریکی یہ سمجھ رہا ہے کہ امریکی معیشت میں بہتری ٹرمپ کے ان وعدوں کا نتیجہ ہے جو اس نے عام امریکی سے کیے اور اس سلسلے میں اقدامات کے طفیل ایسا ممکن ہوا۔ لیکن معاشی پالیسیوں کا نتیجہ‘ خواہ بہتری کی صورت میں یا خرابی کی صورت میں، بالکل ہی فوراً نہیں نکلتا۔ کسی بھی پالیسی کا نتیجہ عموماً ایک دو سال کے بعد نکلنا شروع ہوتا ہے۔ سو ان کے خیال میں ٹرمپ کے دور میں نظر آنے والی بہتری اوبامہ کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور اب شروع ہونے والی معاشی خرابی دراصل ٹرمپ کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو اب تین چار سال بعد نظر آنا شروع ہو رہا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ امریکہ میں تیل کی قیمتیں گر رہی ہیں۔ وہاں تیل کی پیداوار بڑھ رہی ہے اور تیل کے مزید کنویں بھی کھودے جا رہے ہیں۔ ماہرین گمان کرتے ہیں کہ امریکہ اب صرف اپنے حاصل کردہ تیل سے ہی اپنا کام چلائے گا اور اسے تیل درآمد کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی؛ چنانچہ ممکن ہے تیل کی قیمت چالیس ڈالر فی بیرل تک گر جائے‘ لیکن امریکہ کے اندر تیل کی خوردہ قیمت فروخت میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کی مانند عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کا اثر عوام کے لیے الٹا ہے۔ امریکہ میں فی الوقت ریگولر پٹرول کی قیمت 3.30 ڈالر فی امریکی گیلن ہے۔ ایک امریکی گیلن تین اعشاریہ اٹھہتر لٹر کا ہوتا ہے۔ اس حساب سے امریکہ میں بقول شخصے تیل مہنگا ہوا ہے؛ تاہم یہ اب بھی تقریباً چھیاسی ستاسی سینٹ فی لٹر ہے۔
2016ء میں امریکہ میں تیل کی اوسط قیمت فروخت 2.14 ڈالر فی گیلن تھی۔ 2016ء میں یہ قیمت بڑھ کر 2.72 ڈالر فی گیلن ہو گئی اور اب 2019ء میں یہ 3.30 ڈالر فی گیلن ہے۔ صرف 2019ء کے چھ ماہ میں تیل کی قیمت میں تقریباً سڑسٹھ سینٹ فی گیلن اضافہ ہوا‘ جو ستائیس فیصد ہے۔ دوسری طرف خام تیل کی قیمت مارچ 2019ء میں چونسٹھ ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر مئی میں پچھتر ڈالر تک جانے کے بعد اب جون میں دوبارہ چونسٹھ ڈالر پر آ چکی ہے اور امید ہے مزید کم ہوگی‘ مگر ہو سکتا ہے کہ یہ سارے اندازے غلط ثابت ہوں اور امریکہ کی ایران کے خلاف کارروائی کے ساتھ ہی خلیج فارس کا راستہ بند ہو جائے اور دنیا کیلئے تیل کی قیمت میں ہوشربا اضافے کے ساتھ ساتھ سپلائی کے بھی لالے پڑ جائیں۔ امریکہ کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا کہ اس کے پاس اپنی ضرورت کے لیے تیل موجود ہے اور وہ تیل میں خود کفیل ہے‘ لیکن ہم جیسے ممالک کا کونڈا ہو جائے گا‘ جن کے پاس تیل کا چند ہفتوں سے زیادہ کا نہ تو ذخیرہ ہے اور نہ ہی تیل کی ملکی پیداوار اتنی ہے کہ اس سے گزارہ ہو سکے۔ اوپر سے تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ کمر توڑ دے گا۔ یہ ساری باتیں اس لیے نظر آ رہی ہیں کہ ٹرمپ کچھ نہ کچھ کرنے پر کمربستہ ہیں اور امریکی وزیر دفاع کی حالیہ تبدیلی اسی کا پیش خیمہ نظر آ رہی ہے۔
خلیج کے تقریباً سارے ممالک امریکہ کے ساتھ ہیں یا پھر امریکہ کے ہی ساتھ ہیں۔ لے دے کے شاید صرف قطر ہے جو امریکہ کے ساتھ نہ ہو‘ مگر قطر بہرحال امریکہ کے خلاف نہیں ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ غیر جانبدار رہے گا۔ خلیج میں مختلف ملکوں کے تیل بردار جہازوں پر حملے دراصل ایران کے خلاف ایک فضا بنانے کی کوشش ہے۔ سب کو حقیقت کا علم ہے مگر سب نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں‘ لیکن کبوتر کے آنکھیں بند کر لینے سے خطرہ ٹل تو نہیں جاتا۔ لہٰذا جنگ کی صورت میں خلیج کے سب ممالک خمیازہ بھگتیں گے۔ کچھ براہ راست متاثرہ ہونے کی صورت میں اور کچھ اس جنگ کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصان کی صورت میں۔ معاشی نقصان ناکہ بندی بھی ہو سکتی ہے اور جنگ کا خرچہ بھی‘ جو امریکہ خلیج کے ایران مخالف ممالک پر ڈالے گا۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ پاکستان کو اس جنگ سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا تو یہ اس کی محض خام خیالی ہے۔ ہم شاید ایران کے بعد معاشی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ دعا ہے کہ جنگ نہ ہو۔ ٹرمپ جیسے شخص کی موجودگی کی صورت میں مجھ عاجز کی دعا کی قبولیت کے امکانات گو زیادہ روشن نہیں مگر وہ رحیم و کریم ہر چیز پر غالب ہے۔ ٹرمپ کو ایران پر حملے میں شاید ایک لمحے کا تامل بھی نہ ہو مگر اسے ابھی تک یہ پتا نہیں چل رہا کہ یہ حملہ اسے اگلے انتخابات میں فائدہ دے گا یا نقصان۔ بس یہی ایک کنفیوژن ہے جو اسے روکے ہوئے ہے اور وہ اگلا الیکشن ہارنا نہیں چاہتا اور فی الوقت اس کے ہارنے کے امکانات اس کی جیت کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں