"KMK" (space) message & send to 7575

پنڈورا بکس

ہر ملنے والا جج ارشد ملک سے متعلقہ سوالات کی بوچھاڑ کرنا اپنا فرضِ اولین سمجھتا ہے۔ میں نے ہر سوال کرنے والے سے کہا کہ میں گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصہ سے پاکستان سے باہر ہوں اور مریم نواز شریف کی جانب سے دکھائی جانے والی وڈیو کے بارے میں آگاہی آپ لوگوں کے ساتھ ہی ہوئی ہے اور اس کے بارے میں اتنا ہی جانتا ہوں جتنا آپ لوگوں کو پتا ہے‘ لیکن اس ساری وضاحت کے باوجود یار دوست سوال کو دوسری طرح سے گھما پھرا کر دوبارہ داغ دیتے ہیں۔ کسی کا پوچھنا ہے کہ جب جج صاحب ملتان میں تعینات تھے تو تب ان کی شہرت کیسی تھی؟ میں کہتا ہوں کہ بھائی مجھ سے قسم لے لیں اگر میں نے ان جج صاحب کا نام احتساب عدالت کے حوالے کے علاوہ کبھی سنا ہو۔ ان جیسے درجنوں جج ملتان آتے اور جاتے رہتے ہیں بھلا میں ان کے بارے میں کیا جان سکتا ہوں؟ایک دوست نے پوچھا کہ وہ جو وڈیو ابھی تک منصہ شہود پر نہیں آئی اس میں کیا ہے؟ میں نے کہا: بھائی! جس وڈیو کی آپ بات کرر ہے ہیں مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تاہم گمان یہی ہے کہ وہ یقینا ایسی ہوگی کہ اسے نہ دیکھنا ہی بہتر ہوگا۔ اسی دوست نے پھر سوال کر دیاکہ وہ وڈیو ملتان میں بنی اور پندرہ بیس سال پرانی ہے تو وہ اب تک کیسے غائب رہی ہے؟ میں نے کہا: بھائی! یہ سوال تو آپ اس سے کریں جس نے وڈیو بنائی ہے کہ اس نے اسے اب تک کس مقصد کے لیے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ ہم نے تو ایسی کسی وڈیو کی موجودگی کے بارے میں بھی آپ ہی کی طرح خبروں میں سنا ہے اور جج ارشد ملک کے بیانِ حلفی میں پڑھا ہے۔ اب بھلا اس عاجز کو کیا معلوم کہ اسے تیار کرنے والے نے کس دن کے لیے سنبھال کر رکھا تھا۔
میرا خیال تھا کہ اس جواب کے بعد سوالات کا سلسلہ ختم ہو جائے گا مگر کہاں؟ اب نیا سوال ہوا کہ وڈیو بنانے والے کا تعلق ملتان سے ہے‘ اسے آپ جانتے ہیں۔ میں نے کہا‘ جانتا ہوں مگر یہ جاننا ویسا ہی ہے جیسے آپ ایک شہر میں رہتے ہوں اور کسی شخص کے بارے میں ادھر ادھر سے سنی سنائی کے حوالے اسے غائبانہ جانتے ہوں‘ تاہم یہ غائبانہ جاننا بھی نہیں ہے۔ شاید ایک دو بار ملاقات بھی ہوئی ہے‘ لیکن یہ برسوں پرانی بات ہے جب اس کا بڑا بھائی میاں ادریس کئی من منشیات کی سمگلنگ کے کیس میں اندر نہیں ہوا تھا۔ تب وہ میرے ایک دوست کے پاس آیا کرتا تھا اور اس سے اسی دوست کے دفتر میں ملاقات ہو جاتی تھی۔ تب یہ لوگ ملتان میں سیکنڈ ہینڈ ٹیلی ویژنز کی خریدوفروخت کیا کرتے تھے ۔ملتان کے گھنٹہ گھر کے پاس ان کی دو‘ تین دکانیں تھیں اور مختلف ناموں سے یہ بھائی بظاہر علیحدہ علیحدہ کاروبار کرتے تھے مگر دراصل اندر سے ایک ہی تھے اس لیے شہر میں ہر فروخت ہونے والا سیکنڈ ہینڈ ٹیلی ویژن یہ اپنی مرضی کی قیمت پر خرید لیتے تھے کہ ان کا مارکیٹ میں مقابلہ گھر کے اندر ہی ہونے والا کاروبار تھا ۔فروخت کرنے والا انہی تینوں دکانوں پر گھوم پھر کر اپنا ٹی وی اونے پونے بیچ کر چلا جاتا تھا۔ تب ان کی کل شہرت یہی تھی۔ اس کے علاوہ ان کی اور کوئی پہچان نہیں تھی۔ تب میاں ادریس نے کراچی سے وی سی آر وغیرہ خرید کر ملتان میں فروخت کرنے شروع کئے تھے۔ میں نے اپنا پہلا وی سی آر بھی اپنے اسی دوست کے ذریعے میاں ادریس سے خریدا تھا۔ پھر ایک دن اخبار میں پڑھا کہ میاں ادریس اور بلیک پرنس نامی کسی سمگلر کو ہالینڈ منشیات سمگل کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اس کیس میں میاں ادریس کو موت کی سزا ہو گئی۔ کیس بڑا کلیئر تھا اور اس میں کوئی گنجائش نہیں تھی تاہم ان کے وکیل‘ جو پیپلز پارٹی کے اہم لیڈر ہیں‘ نے میاں ادریس کے چھوٹے بھائی میاں طارق سے مل کر جج کو گھیر گھار کر ا پنی مرضی کے ''مقام‘‘ پر لے ا ٓئے اور اس کی وڈیو بنالی۔ اس وڈیو کے ذریعے جج کو بلیک میل کیا اور اپنے بھائی کا کیس اس کے سامنے رکھا۔ اس وقت جج نے کہا کہ معاملہ اتنا صاف ہے کہ اس میں رعایت دینا اس کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ تب جج کو اس کی وڈیو دکھا کر بلیک میل کیا اور بھائی کی سزائے موت ختم کروا کر عمر قید میں تبدیل کروائی اور پھر ضمانت پرر ہا کروایا۔ رہائی کے کافی عرصہ بعد شہر میں ایک بار میاں ادریس سے ملاتواسے پہچان ہی نہ سکا۔ اس نے لمبی داڑھی رکھ لی تھی اور بظاہر گفتگو سے لگتا تھا کہ اب وہ اپنے ماضی کو بھولنا چاہتا ہے اور سیدھے راستے پر چلنے کا آرزو مند ہے۔ یہ میری میاں ادریس سے رہائی کے بعد پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ پھر برس ہا برس ہو گئے ہیں دوبارہ کبھی ملاقات نہ ہوئی حالانکہ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے ملاقات کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا مگر کبھی ایسا اتفاق دوبارہ نہ ہوا۔
لیکن اس دوران یہ ضرور سننے میں آتا رہا کہ اس وڈیو اور اس کے نتیجے میں جج کو بلیک کر کے مرضی کا فیصلہ لینے کے بعد میاں طارق اور اس کے وکیل نے اس پہلے تجربے کو اپنا پیشہ ہی بنا لیا اور اس مقصد کے لیے اسلام آباد کے ایف سیکٹرمیں ایک فلیٹ لے کر وہاں یہ دھندہ شروع کر دیا۔ وہاں ان گنت لوگوں کو اپنے چکر میں پھنسایا گیا۔ نظامِ عدل سے متعلق ایک قد آور شخصیت کے ذریعے سمگلنگ کے درجنوں سزائے موت اور عمر قید کے مجرموں کو عدالتی ریلیف دلوایا گیا۔ اللہ جانے یہ ریلیف بھی کسی بلیک میلنگ کا نتیجہ تھا یا باہمی گٹھ جوڑ کی برکت تھی۔ راوی اس بارے خاموش ہے۔ لیکن اس انجمنِ امدادِ باہمی کے طفیل میاں طارق، اس وکیل اور تیسرے فریق نے بڑا لمبا مال بنایا ۔ ارشد ملک کی سر پر گلاس رکھ کر ڈانس والی وڈیو، ناصر بٹ کے ساتھ نواز شریف کے مقدمے سے متعلق گفتگو والی وڈیو بھی میاں طارق نے بنائی تھی اور اس کی ایڈیٹنگ وغیرہ اس کے بیٹے نے کی تھی۔ اسلام آباد میں فلیٹ والی سٹوری کافی مشہور تھی اور اس کے بارے میں کہانیاں زبان زدِ عام تھیں۔
میرے دوست نے پوچھا کہ اگر یہ کہانیاں اتنی ہی مشہور تھیں تو ذمہ دار ادارے کیا کر رہے تھے؟ میں نے کہا: مجھے کیا معلوم؟ کیا خبر وہ لاعلم تھے یا جان بوجھ کر آنکھیں بند کیے ہوئے تھے میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ اللہ جانے یہ نالائقی تھی کہ رعایت۔ تاہم ہر دو صورت میں قابلِ گرفت ہے۔ پھر یہ وڈیو کا معاملہ آن پڑا اور اس وڈیو نے صرف جج ارشد ملک نہیں بلکہ سارے نظامِ عدل کی چولیں ڈھیلی کر کے رکھ دی ہیں۔ بات ختم ہو گئی۔ لیکن مجھے تھوڑی کرید ضرور ہوئی کہ بات کیا ہے۔ میں نے ملتان میں اپنے ایک باخبر دوست صحافی کو فون کیا اور پوچھا کہ معاملہ کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ پندرہ سولہ دن قبل (یہ بات چھبیس ستائیس جون کی ہے) اس کے پاس میاں طارق آیا اور ایک ناقابلِ بیان وڈیو دکھا کر پوچھنے لگا کہ سنا ہے یہ وڈیو آپ کے پاس کسی طریقے سے پہنچ گئی ہے۔ میرے اس دوست نے کہا کہ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس وڈیو میں نظر آنے والا شخص ہے کون‘ کجا کہ اس کے پاس اس وڈیو کی کاپی ہو۔ میاں طارق نے کافی کریدا مگر میرے دوست نے بتایا کہ اس کے پاس یہ وڈیو تھی ہی نہیں تو وہ کیا بتاتا۔ دو دن بعد اسے میاں طارق نے کہا کہ جج ارشد ملک اس سے ملنا چاہتا ہے وہ اس کے ساتھ اسلام آباد چلے۔ میرے دوست صحافی نے کہا کہ اسے اسلام آباد جانے کی کیا پڑی ہے؟ کام ارشد ملک کو ہے تو وہ یہاں ملتان آ جائے۔ دو دن بعد ارشد ملک میاں طارق کے ہمراہ اس کے دفتر ملتان آ گیا اور اس سے اسی وڈیو کے بارے میں کریدا۔ پھر کافی ادھر ادھر کی باتیں کیں۔ میاں نواز شریف کی جائیدادوں کے بارے میں اور والیم دس کے بارے میں کہا کہ اگر یہ سامنے آ گیا تو بھونچال آ جائے گا وغیرہ وغیرہ اور یہ تسلی کر کے کہ ''وہ والی‘‘ وڈیو اس کے پاس نہیں‘ واپس چلا گیا۔ (باقی صفحہ 11 پر)
اگلے روز میاں طارق دوبارہ اس کے پاس آیا اور میاں نواز شریف کے ایک عزیز سے ملاقات کے لیے رابطہ کار بننے کا کہا مگر میرے دوست نے انکار کر دیا۔ میرے دوست نے کہا کہ آگے میرا اندازہ ہے کہ ارشد ملک کی گفتگو والی ویڈیو میاں طارق نے اسی ساجھے دار وکیل کے ذریعے میاں نواز شریف کے گھر پہنچائی اور اس کی تسلی بخش قسم کی قیمت وصول کی۔ آگے کی بات سب کو معلوم ہے۔
جس وڈیو کی بنیاد پر جج ارشد ملک کو بلیک میل کیا گیا وہ اور دوسری چند وڈیوز میاں طارق کے ''خزانے‘‘ سے کسی نے ادھر ادھر کر دی تھیں۔ جس کا پتا میاں طارق کو بھی چل گیا تھا اور وہ دائیں بائیں پتا بھی کرتا رہا لیکن تیر کمان سے نکل جائے تو بھلا پھر واپس کب آتا ہے تاہم ان سب باتوں سے قطع نظرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہائی پروفائل مقدمے پر متعین جج کی وڈیوز بن رہی ہیں‘ ادھر ادھر ہو رہی ہیں‘ باتیں پھیل رہی ہیں۔ وہ سعودیہ جا کر ملزم کے بیٹے سے ملاقات کر رہا ہے۔ ماڈل ٹاؤن جا کر خود ملزم سے مذاکرات کر رہا ہے تو ذمہ داران کیا کرر ہے تھے؟ سوال جج کے کردار سے زیادہ اداروں کی ذمہ داری پر اٹھتا ہے؟ میاں طارق ایف آئی اے کی تحویل میں ہے۔ ممکنہ طور پر وڈیوز کا ایک انبار برآمدگی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اگر حسب معمول یہ خزانہ سوشل میڈیا کے ہتھے لگ گیا جو ناممکن نہیں تو خدا جانے کون کون اس حمام میں کھڑا ہوگا۔ لاہور میں ایک گیسٹ ہاؤس پر پولیس کے چھاپے کی خاصی ناگفتہ وڈیو جو ظاہر ہے پولیس نے بنائی ہوگی سوشل میڈیا پر چل رہی ہے۔ باقی سب چھوڑیں۔ کم از کم اس ''آفیشل سیکرٹ ایکٹ‘‘ کی ہی کوئی لاج رکھ لی جائے۔ باقی تو ہر طرف ہاہا کار مچی ہوئی ہے ایسے میں کہیں اور پنڈورا بکس نہ کھل جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں