"KMK" (space) message & send to 7575

پرانا ملتان اور نازو بگھیلا

ملتان کیسا ہے؟ برادر بزرگ نے ایئر پورٹ پر پہلا سوال یہی کیا۔ ہم چھوٹے شہر والوں کا یہ مسئلہ بڑا مشترکہ ہے۔ ہم کہیں بھی چلے جائیں‘ ہمارا شہر ہمارے اندر ہی بسا رہتا ہے۔ ہم ملتان والے اگر ملتان سے دنیا کے کسی اور کونے میں بھی چلے جائیں ‘ ملتان ہمارے اندر سے نہیں نکلتا۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ ملتان ایک نشے کا نام ہے۔ یہ ایک طرح سے Addiction ہے۔ لگ جائے ‘تو چھوڑنا مشکل ہو جاتی ہے۔ جو دوست بھی نوکری یا کاروبار کے سلسلے میں ملتان آیا ‘اسے آتے وقت بڑا روتے دیکھا کہ کس جگہ آ گیا ہوں۔ دو چار سال گزرنے کے بعد جب جانے کا وقت آیا ‘تب پہلے سے بھی زیادہ روتے دیکھا کہ ملتان چھوڑ کر جانا بھی بڑا مشکل کام ہے۔ اب برادر بزرگ کو ہی دیکھیں۔ تقریباً ہر سال ملتان آتے ہیں۔ سب عزیزوں‘ رشتہ داروں اور دوستوں سے ملتے ہیں۔ سارا ملتان گھومتے ہیں‘ مگر ملتے ہی سب سے پہلا سوال ملتان کے بارے میں کیا کہ ''ملتان کیسا ہے؟‘‘۔
برادرِ بزرگ اعجاز احمد سے دوستی بھی بڑے عجیب طریقے سے ہوئی۔ ان کا بھائی مسعود احمد میرے بچپن کا دوست ہے۔ مسعود میرے ایک دوست مظفر محمود کا ہم جماعت تھا۔ اب یہ لفظ ہم جماعت بھی قریب قریب متروک ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ ''کلاس فیلو‘‘ نے لے لی ہے۔ مظفر کی والدہ میری والدہ کی بڑی پرانی دوست تھیں۔ مظفر کا گھر شاہ رسال روڈ پر نواب صادق قریشی کی پرانی کوٹھی ''وائٹ ہائوس‘‘ کے پاس تھا۔ یہ ہمارے گھر سے سمجھیں آدھا کلو میٹر دُور تھا۔ بھلا تب آدھا کلو میٹر ہوتا ہی کتنا تھا؟ اٹھے اور چلے گئے۔ مسعود احمد ہمیں مظفر محمود کی دوستی کے جہیز میں ملا تھا۔ برسوں گزرے ایک روز مسعود احمد کا فون آیا کہ ان کے ماموں امریکہ سے آئے ہیں اور وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا ''ست بسم اللہ‘‘ آپ کے ماموں ایک لحاظ سے ہمارے ماموں لگے۔ مسعود ہنسا اور کہنے لگا : ہیں تو میرے ماموں! لیکن بس چار چھ سال ہی بڑے ہیں۔ میں نے کہا: رشتے سن و سال سے نہیں‘ اپنے درجے کے محتاج ہوتے ہیں۔ میں اب اس جنریشن سے تعلق رکھتا ہوں ‘جہاں دوستی‘ رشتوں کی طرف جاتے ہوئے رشتوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اب میرے مرحوم بڑے بھائی کا کوئی بھی دوست ہو‘ وہ میرا بڑا بھائی ہے اور میرے ہر دوست کا بڑا بھائی میرا بڑا بھائی ہے۔ اس کی بہترین مثال جاوید ہاشمی ہے ‘جس کا چھوٹا بھائی مختار ہاشمی مرحوم میرا دوست تھا اور اس ناتے جاوید ہاشمی میرے بڑے بھائیوں جیسا ہے۔ کچھ لوگوں کو گمان ہے کہ جاوید ہاشمی میرے دوست ہیں‘ لیکن یہ ممکن نہیں ہے‘ کیونکہ وہ By Default میرے دوست بننے کی حدود سے باہر نکل چکے ہیں۔
مسعود کہنے لگا '' لیکن ماموں‘ دراصل میرے دوست بھی ہیں‘‘۔ میں نے کہا: تو یہ تعارف پہلے کیوں نہیںکروایا؟ وہ ہنسا اور کہنے لگا '' تم پہلے تعارف کو بھول جائو اور یہ یاد رکھو کہ اعجاز احمد میرا دوست بھی ہے اور بڑے بھائیوں جیسا بھی‘‘۔ میں نے کہا: نو بجے میرے دفتر آ جائو۔ صبح عجب ہوا‘ میں نو بجے تک تو سوتا ہی رہ جاتا‘ اچانک پونے نو بجے مسعود کا فون آیا کہ دفتر پہنچ گئے ہو؟ میں نے کہا: میں تو تمہارے فون کی گھنٹی سے اٹھا ہوں‘ ایسا کرو تم دس بجے آ جائو۔ یہ کہہ کر میں نے فون بند کیا‘ چھلانگ لگا کر بستر سے نکلا اور باتھ روم میں گھس گیا۔ایسا کم ہی ہوا ہے کہ میں کسی کو وقت دوں اور پھر اس کا پابند نہ رہا ہوں۔ میں دو چار منٹ میں نہا کر باہر نکلا اور ناشتہ کیے بغیر دفتر دوڑ لگا دی۔ راستے میں ‘میں نے مسعود کو فون کیا کہ آپ دفتر آ جائیں میں بھی ساڑھے نو بجے سے پہلے وہاں پہنچ جائوں گا۔ میں دفتر پہنچا ہی تھا کہ پانچ چھ منٹ بعد مسعود اپنے ماموں نما دوست کے ساتھ میرے دفتر آن پہنچا۔ یہ اعجاز احمد سے میری پہلی ملاقات تھی۔
ملاقات مزیدار رہی۔ گمان تھا کہ یہ ملاقات ایک آدھ گھنٹہ جاری رہے گی‘ مگر دو تین گھنٹے گزر گئے اور وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ اٹھنے سے پہلے اعجاز احمد نے کہا کہ صبح آپ کے سوئے رہنے کا سن کر از حد غصہ آیا اور طے کیا کہ جس شخص کو وقت کا احساس نہیں‘ اس سے مل کر کیا کرنا ہے؟ لیکن جیسے ہی آپ نے کہا کہ آپ فوراً دفتر آ رہے ہیں اور جس طرح بیس پچیس منٹ کے اندر اندر نہا کر اور تیار ہو کر بھاگم بھاگ آپ دفتر پہنچے‘ اسی وقت یہ احساس ہوا کہ آپ کے بارے میں پہلا فیصلہ درست نہ تھا۔ سو‘ اس فیصلے سے فوری رجوع کیا ‘لوح دل پر یہ درج کیا کہ بندہ ٹھیک ہے۔ ادھر اعجاز احمد نے اپنے دل پر لکھا کہ بندہ ٹھیک ہے ‘ادھر میں نے بھی پہلی ہی ملاقات میں اپنے دل پر لکھا کہ بندہ ٹھیک ہے۔
چھوٹتے ہی پوچھنے لگے: ملتان کیسا ہے؟ میں نے کہا: ابھی گزشتہ سال ہی آپ ملتان سے ہو کر آئے ہیں۔ بھلا اس دوران ملتان نے کیا تبدیل ہونا تھا؟ چھوٹے شہروں میں تبدیلی تھوڑی آہستہ آہستہ آتی ہے۔ ملتان تو ویسے بھی روایتی شہر ہے۔ با مروت‘ رکھ رکھائو اور تعلقات کو نبھانے والوں کا شہر۔ یہاں تو لوگ جلد تبدیل نہیں ہوتے بھلا شہر نے کیا تبدیل ہونا ہے؟ کہنے لگے: بس عادتاً پوچھ لیتا ہوں۔ ملتان اب اس طرح جانا نہیں ہوتا کہ اس ملتان سے گلے مل سکوں‘ جس کو چھوڑ کر گیا تھا۔ اندرون پاک گیٹ والا گھر جب سے نہیں رہا‘ تب سے میرے لیے تو سارا ملتان ہی بدل گیا ہے۔ گزشتہ بار ڈیرہ اڈہ چوک سے گزرا تو گولی والی بوتلوں کی ایک چھوڑ کر ساری دُکانیں بند ہو چکی تھیں۔ خدا معلوم اب وہ اکلوتی دُکان بھی چل رہی ہے یا بند ہو گئی ہے؟ حرم گیٹ کے باہر الحرم ہوٹل اور اس کے نیچے دو بھائیوں کی مشہور تیل دھنیا والی دُکان نظر نہیں آئی۔ خدا جانے دُکانیں کہاں چلی گئی ہیں؟ میں نے کہا: اب ایک کی بجائے دو دُکانیں ہو گئی ہیں ؛ایک حرم گیٹ تھانے کے سامنے اور دوسری حرم دروازے کے اندر۔ پوچھنے لگے: ماموں چنے والا موجود ہے یا نہیں؟ میں نے کہا: موجود ہے‘ لیکن خدا جانے کیا بات ہے‘ پہلے والی بات نہیں۔ کہنے لگے: سچ کہا۔ اب پہلے والی بات نہیں رہی۔ دو چار سال پہلے میں نے نازو ربڑی والے سے ربڑی لے کر کھائی تھی۔ پہلے والی بات ہی نہیں تھی۔ نہ وہ مزہ اور نہ وہ سواد تھا۔ دوبارہ کھانے کو دل ہی نہیں کیا۔ کیا زمانہ تھا پیالہ بھر کر ربڑی کھا لیتے تھے اور دل کرتا تھا کہ اور ایک پیالہ کھا لیں۔ میں ہنسا اور کہا: برادر عزیز ! تب آپ کو نہ دل کی طرف سے کوئی خوف ہوتا تھا اور نہ ہی کولیسٹرول بڑھنے کا مسئلہ تھا۔ نہ شوگر کا خوف تھا اور نہ ہی کیلوریز کو گننے کا جھنجھٹ تھا۔ مزہ تو آنا ہی تھا۔ برادر بزرگ ہنسے اور کہنے لگے : کہتے تو ٹھیک ہو۔ پھر کہنے لگے :ایک اور نازو ہوتا تھا تمہیں یاد ہے؟ میں نے کہا بھلا نازو بگھیلا کسے یاد نہیں ہوگا؟ وہ آج سے پچیس تیس سال پہلے والے ملتان کا ایک عجیب کریکٹر تھا۔ پہلے پہلوان تھا اور پھر پہلوانی سے ریٹائر ہو کر فقیر بن گیا۔ ہاتھ میں سبز جھنڈا اور سارے شہر میں پیدل گشت۔ نہ بیوی نہ بچے۔ گول مٹول‘ بچوں جیسی معصومیت اور ہمہ وقت مسکراہٹ۔ برادر بزرگ کہنے لگے ‘یہ ''بگھیلا‘‘ کا کیا مطلب ہے۔ میں نے کہا: اگر میں غلط نہیں تو بگھیلا سرائیکی میں شیر کے بچے کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ بگھیلا دراصل ہندی لفظ ''باگھ‘‘ سے نکلا ہے۔ یہ شیر کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ نازو بگھیلا جوانی میں بڑا دلیر اور بے خوف ہوا کرتا تھا‘ اوپر سے پہلوان۔ اس کا نام ''بگھیلا‘‘ اسی وجہ سے پڑا تھا۔ اب نہ نازو بگھیلا ہے اور نہ بگھیلے جیسا کوئی اور شخص!
اسی دوران ملتان سے ایک کالم نگار دوست کا فون آیا۔ کہنے لگا: یار کیا کروں؟ میں نے پوچھا خیر ہے؟ کیا بات ہے؟ کہنے لگا: میں سیاست پر لکھنے والا آدمی ہوں اور میرا اخبار چاہتا ہے کہ میں صرف حکومت کی پکڑ میں آئے ہوئے لوگوں از قسم میاں نواز شریف‘ حمزہ شہباز‘ آصف زرداری‘ فریال تالپور اور شاہد خاقان عباسی وغیرہ کو مزید تازیانے ماروں ۔ آپ سینئر ہو‘ تجربہ کار ہو‘ کوئی مشورہ دو۔ کیا لکھوں؟ میں نے کہا: فی الحال تم یوں کرو کہ نازو بگھیلے کے بارے میں پرانے لوگوں سے معلومات لو اور اس کے بارے میں لکھو۔نازو بگھیلا ان لوگوں سے کم بڑا نہیں تھا‘ جن کے بارے میں تم لکھنا چاہتے ہو اور بوجوہ لکھ نہیں پا رہے۔ دوست نے سمجھا میں مذاق کر رہا ہوں اور اس نے فون بند کر دیا۔ ایمانداری کی بات ہے میں نے اسے پر خلوص اور صحیح مشورہ دیا تھا۔ اللہ جانے ہم لوگ مٹی سے جڑے ہوئے لوگوں کے بارے میں لکھنے سے کیوں جھجکتے ہیں ‘ جیسے نازو بگھیلا ہو گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں