"KMK" (space) message & send to 7575

جو اہل حق تھے‘وہ سولیوں پر چڑھے ہوئے تھے‘ پر ہم کھڑے تھے

قلم ہاتھ میں ہو تو لکھنے والے کو یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ اسے دنیا بھر کی ہر بات کے بارے میں مکمل علم ہے۔ سو ‘ہوتا یہ ہے کہ سیاسیات‘ اردو اور فارسی اختیاری کے مضامین کے ساتھ تھرڈ ڈویژن میں بی اے کرنے والا عالمی معیشت پر‘ بین الاقوامی ادب پر اور تاریخ پر اس روانی سے لکھتا ہے کہ بندہ پریشان ہو جاتا ہے اور جب یہ پتا چلتا ہے کہ موصوف نے ان موضوعات پر لکھنے سے پہلے بھی ان پر نظر دوڑانے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی اور موصوف کا کل علم صرف سنی سنائی پر مشتمل تھا تو اس پریشانی میں حیرانی کا بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ کوئی 37سال ہوتے ہیں‘ جب اس عاجز نے ایم بی اے کے دوران GATT کے بارے میں پڑھا تھا۔ یہ اقوام عالم کے درمیان ایک تجارتی معاہدہ تھا۔ یہ ''جنرل ایگزیمنٹ آن ٹیرف اینڈ ٹریڈ‘‘ کا مخفف ہے۔ اس معاہدے کے تحت بہت سی باتوں کو عالمی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرتے ہوئے پابندی کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اب 37سال بعد مجھے اس معاہدے کی تفصیلات تو ایک طرف رہیں‘ بنیادی باتیں بھی یاد نہیں ہیں‘ لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ اس معاہدے کے تحت آپ دوسرے ممالک کی درآمد شدہ اشیاء پر ایک خاص حد سے زیادہ ڈیوٹیاں نہیں لگا سکتے۔ مخصوص اشیاء کے علاوہ عام اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد نہیں کر سکتے۔ کسی ملک میں ڈمپنگ وغیرہ نہیں کر سکتے اور اسی قسم کی دیگر شقیں ہیں ‘جن کے تحت عالمی تجارت کو بعض پابندیوں کے ساتھ ممکنہ حد تک آزاد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا ‘لیکن گمان ہے کہ اس پر دستخط کرنے کے بعد ہم قانونی طور پر بہت سی بھارتی اشیاء کی درآمد پر پابندی نہیں لگا سکتے‘ لیکن یہ صرف حکومتی سطح والی پابندیوں کی بابت ہے۔ اگر کوئی درآمد کنندہ از خود کسی ملک سے کوئی چیز درآمد نہ کرنا چاہیے‘ تو GATTچھوڑ اس کا باپ بھی آپ کو کسی ملک سے کسی چیز کی درآمد پر مجبور نہیں کر سکتا۔ ہم حکومت کے معاہدوں میں بندھے ہوئے ہاتھوں سے ہٹ کر از خود بھارتی اشیاء کی درآمد کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میرے ایک دوست نے درجنوں بھارتی اشیاء کی تصاویر بھیجیں ‘جو ہمارے سٹورز پر فروخت ہو رہی ہیں۔ ان میں سے بیشتر اشیاء متحدہ عرب امارات کے ذریعے یا سری لنکا وغیرہ سے گھوم کر پاکستان آ رہی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں‘ جس کے بغیر ہمارا گزارا نہ ہو سکتا ہو یا ایسی کوئی چیز ہو جس کا کوئی متبادل نہ ہو۔ ان تمام چیزوں کے ان سے کہیں بہتر متبادل بھی موجود ہیں اور ان میں کوئی چیز ایسی بھی نہیں کہ اس کے بغیر گزارا کرنا ممکن نہ ہو۔ کیا ہم بحیثیت ِپاکستانی اپنے امپورٹرز کو‘ اپنے کاروباری اداروں اور تاجروں کو ان بھارتی اشیاء کے بائیکاٹ پر مجبور کر سکتے ہیں؟ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے اس میں شک ہے‘ بلکہ شک کا لفظ بھی میں نے رعایت لیتے ہوئے لکھا ہے۔ ہم بحیثیت ِمجموعی صرف سوشل میڈیا پر احتجاج کر سکتے ہیں۔ پوسٹ کو لائیک کر سکتے ہیں۔ دوسروں کو غیرت دلا سکتے ہیں۔ طعنے مار سکتے ہیں۔ عزت اور غیرت کے نعرے مار سکتے ہیں ‘مگر عملی طور پر بازار سے چیزیں خریدتے ہوئے خود کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ہمارے تاجر چار پیسے کے نفع کی خاطر قومی عزت و آبرو جیسی ''فرسودہ‘‘ چیزوں بارے سوچنے کی حمایت سمجھتا ہے اور بھارتی اشیا کا بائیکاٹ تو ایک طرف رہا بھارتی فلموں‘ ڈراموں اور گانوں پر حکومتی پابندی کو اس وقت جوتے کی نوک پر اڑاد یتا ہے‘ جہاں اسے ایسا کرنے کی تھوڑی سی بھی آزادی مل جائے۔
اس سلسلے میں بھارتی ہم سے کہیں زیادہ قوم پرست ہیں۔ میکاسنگھ پاکستان میں ایک پروگرام کر کے واپس ہندوستان گیا توو ہاں کی ساری شہری تنظیموں اور فلمی حلقوں نے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ کراچی کے ایک پروگرام میں ڈیڑھ لاکھ ڈالر‘ یعنی دو کروڑ چالیس لاکھ روپے کا زر مبادلہ بھارت لے جانے والے میکا سنگھ کو اس بائیکاٹ سے نانی یاد آ گئی اور اس نے سب سے معافی بھی مانگی اور آئندہ پاکستان میں پرفارم کرنے سے توبہ بھی کرلی۔ ابھی عالم یہ ہے کہ بھارت غاصب ہے اور اس نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور اس کے گلوکار کے پاکستان آنے پر بھارتیوں نے اس کی طبیعت صاف کر دی ہے۔ ادھر ہماری طرف یہ عالم ہے کہ کسی نے اس بھارتی کو پاکستان بلانے پر ‘کشمیر میں جاری انسانی تاریخ کے سب سے بڑے کریک ڈاؤن کے دوران بھارتی گانے سننے پر‘ پرفارمنس پر ڈیڑھ لاکھ ادا کرنے پر‘ کشمیر میں کرفیوکے دوران کراچی میں موج میلا منانے پر‘ پندرہ بھارتیوں کو خصوصی طور پر ایک ماہ کا کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کا ویزہ جاری کرنے والوں کے بارے میں کسی پاکستانی تنظیم نے رتی برابر احتجاج نہیں کیا۔ کسی کو شرم نہیں دلائی۔ کسی کو غیرت نہیں دلائی اور کسی کے بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا۔
گزشتہ ہفتے ملک خالد بتا رہا تھا کہ وہ لندن میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ ایک چینل پر ٹاک شو ہو رہا تھا اور اس میں حصہ لینے والے ایشین تھے۔ وہ اس چینل پر رک گیا۔ یہ برطانیہ میں چلنے والا ND TV تھا۔ یہ چینل بھارتی ہے‘ یعنی اس کے مالکان بھارتی ہیں۔ اس وقت وہاں کشمیر کے حوالے سے کوئی گفتگو ہو رہی تھی اور گفتگو کے چار شریک افراد میں سے ایک پاکستان سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ٹی وی پر بیٹھا ہوا سرعام کہہ رہا تھا کہ میں کسی ایسے ریسٹورنٹ یا ٹیک اوے سے کھانا نہیں منگواتا ‘جس کا رائیڈر (کھانا گھر پہنچانے والا ریسٹورنٹ کا ورکر) کوئی پاکستانی ہو۔
ایک اور پاکستانی بتا رہا تھا کہ وہ ایک انڈین گروسری سٹور پر گیا اور وہاں اس نے شان کے مصالحے بارے پوچھا تو کاؤنٹر پر کھڑے ہوئے اس کے انڈین مالک نے مروت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنے کی بجائے کہ ہمارے پاس یہ مصالحہ نہیں ہے یا ختم ہو گیا ہے۔ سیدھے سبھاؤ یہ کہا کہ ''ہم کوئی پاکستانی پراڈکٹ اپنے سٹور پر نہیں رکھتے‘‘۔ میرا وہ پاکستانی دوست کہنے لگا: میں نے اسی روز تہیہ کیا کہ آئندہ اس سٹور پر نہیں آنا۔ اس کے بقول‘ اس نے اور کئی پاکستانیوں کو یہ بات بتا کر اس سٹور کے بائیکاٹ کا مشورہ دیا۔ آگے سے اکثر نے یہ جواب دیا کہ اس کی کمینگی اپنی جگہ ‘لیکن کیا کریں؟ ہمیں یہی سٹور نزدیک پڑتا ہے۔ وہی دوست بتانے لگا کہ ایک بار وہ ایک ٹی وی پروگرام دیکھ رہا تھا۔ اس پر ایک بھارتی یہ کہہ رہا تھا کہ وہ بیس میل دور جا کر بھارتی سے خریداری کرے گا ‘ لیکن دو میل دور پاکستانی کی ملکیت کسی سٹور سے کوئی چیز نہیں خریدے گا۔
ہم نعرے مار سکتے ہیں‘جلوس نکال سکتے ہیں‘ سڑک پر باہر آدھ گھنٹہ کھڑے ہو سکتے ہیں ‘لیکن بھارتی اشیاء کا بائیکاٹ نہیں کر سکتے۔ بھارتی گانے سننے سے باز نہیں آ سکتے۔ بھارتی گلوکاروں کو بلانے سے نہیں رک سکتے اور بھارتی گلوکاروں کو بلانے و الوں کی زبانی مذمت تک نہیں کر سکتے۔ اور ہاں! سڑک پر کھڑے رہنے سے یاد آیا۔ ایک غزل ہاتھ لگی ہے۔ خدا جانے کس کی ہے ‘مگر اس سے کیا غرض کہ کس کی ہے؟ ایسی چیزیں بھلا کسی کی ملکیت کب ہوتی ہیں؟ صدقہ جاری ہوتی ہے۔ سو‘ پیش خدمت ہے۔
غزل
دلوں میں نیزے‘ جگر میں خنجر‘ چبھے ہوئے تھے‘ پر ہم کھڑے تھے
ہماری نظروں کے سامنے تن‘ کٹے ہوئے تھے‘ پر ہم کھڑے تھے
یہ حال غیرت‘ یہ سوزِ ایماں‘ یہ کیف ہستی‘ کہ فربہ ہو کر
عدو کے ہاتھوں‘ گلے ہمارے‘ دبے ہوئے تھے‘ پر ہم کھڑے تھے
ہمارے نیزوں‘ ہماری ڈھالوں‘ پہ تھا بھروسہ‘ جنہیں ازل سے
ہمارے آگے‘ وہ سربریدہ‘ پڑے ہوئے تھے‘ پر ہم کھڑے تھے
جنہیں دلاسہ‘ دہائیوں سے‘ وفا کا ہم نے‘ دیا ہوا تھا
وہ خواب آزادیوں کا لے کر مرے ہوئے تھے‘ پر ہم کھڑے تھے
لکھو مورخ! یہ المیہ کہ جہان بھر کے‘ ستم کدوں میں
ہماری بہنوں کے جسم سارے‘ چھلے ہوئے تھے‘ پر ہم کھڑے تھے
پاکستان سے ایک دوست کا فون آیا۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ اس جمعہ آدھ گھنٹہ کھڑے ہونے سے کام ہو جائے گا یا اگلے جمعے پھر کھڑا ہونا پڑے گا؟ میں نے کہا: یہ گھر سے نکل کر کھڑے ہونے سے تو کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے لیے واقعتاً کھڑے ہونا پڑے گا‘ لیکن ہمت کا کام ہے اور ادھر یہ عالم ہے کہ ہمت ہی تو پڑ نہیں رہی۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں