"KMK" (space) message & send to 7575

دو ٹکے کے لوگ

چیزیں وقت کے ساتھ کیسے بدل جاتی ہیں ؟ اس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب نئی نسل اس چیز سے لاعلمی کا اظہار کرتی ہے۔ میں نے ایک کالج میں مشاعرے کے دوران یہ شعر پڑھا ؎
سالم تانگہ کرکے بندہ اس کے گھر جب پہنچے 
اگیوں بوہے پر ہو تالا‘ بھیڑا لگتا ہے 
(بندہ سالم تانگہ کرکے اس گھر پہنچے اور آگے سے دروازے پر تالا ہو تو پھربرا تو لگتا ہے) مشاعرے کے بعد ایک طالب علم نے پوچھا :سر جی ! یہ سالم تانگہ کیا ہوتا ہے ؟ پہلے تو مجھے حیرانی سی ہوئی۔ میری حیرانی اپنی جگہ پر تو بجا تھی‘ مگر اس طالب علم کی عمر کو سامنے رکھ کر سوچا تو حیرانی فی الفور کا فور ہوگئی۔ سالم تانگے کا پورا تصور اس کی پیدائش سے پہلے یا اسی دور کے لگ بھگ ناپید ہوگیا تھا۔ اسے کیا خبر کہ سالم تانگہ اس دور میں کتنی بڑی عیاشی اور سٹیٹس کا حامل تھا۔ سواری تو سواری اس تانگے کا کوچوان تک اس فخر کے احساس سے شرابور ہوتا تھا ‘جو سالم تانگے کی صورت میں جارہا ہوتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے‘ جب میں ابا جی کے ہمراہ لاہور کے ریلوے سٹیشن سے تایا جی نواز کے گھر شادباغ جاتا تھا تو ہم دو لوگ سٹیشن سے شاد باغ تک کا سالم تانگہ لیا کرتے تھے۔ چھ سواریوں والے تانگے پر دو سواریاں دیکھ کر راستے میں کوئی شخص تانگے کو رکنے کا اشارہ کرتا تو تانگے والا نہایت تکبر سے اپنے چابک کو ہوا میں لہراتا اور کہتا بائو جی! ایہہ سالم تانگہ اے! پھر آہستہ آہستہ تانگہ منظر سے پس منظر میں جاتا رہا اور بالآخر کئی شہروں میں تو باقاعدہ ناپید ہوگیا۔
میں نے اس طالب علم سے پوچھا کہ کیا اس نے کبھی '' چنگ چی ‘‘ دیکھی ہے۔ طالب علم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس پر سواری کرنے کا کیا رواج ہے ؟ وہ کہنے لگا؛ رواج کیا ہونا ہے‘ کسی جگہ کھڑی ہوتی ہے اور سواریاں اس پر بیٹھتی ہیں۔ میں نے کہا؛ یہ سواریاں فی سواری کے حساب سے بیٹھتی ہیں اور ایک چنگ چی پر کم از کم دس سواریاں لوڈ کر لی جاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص اس ساری چنگ چی کا کرایہ دے اور اس پر وہ اکیلا یا دو تین لوگ بیٹھ جائیں اور باقی ساری چنگ چی خالی ہونے کے باوجود اور کسی سواری کو نہ بٹھائے تو یوں سمجھ یہ '' سالم چنگ چی ‘‘ ہوگی۔ اسی طرح سالم تانگہ ہوتا تھا۔
دراصل یہ ساری باتیں مجھے آج اپنے بیٹے کے سوال سے یاد آئی ہیں۔ وہ بھی آج کل کے بچوں کے طرح اخبار نہیں پڑھتا‘ لیکن میرے کمرے میں بیٹھے ہوئے اس نے میرے پلنگ پر بکھرے ہوئے اخبارات پر ایسے ہی نظر مارنی شروع کر دی۔ پھر اخبار رکھ کر مجھ سے پوچھنے لگا: بابا جان ! یہ ٹکا کیا ہوتا ہے۔ میں نے کہا: یہ دو پیسے کے برابر ہوتا تھا۔ یہ سکہ تھا اور اب بند ہو چکا ہے۔ وہ کہنے لگا: یہ پیسہ کس کے برابر ہوتا تھا ؟ میں نے کہا: پہلے ایک روپے میں چونسٹھ پیسے ہوتے تھے بعد میں ایک روپے میں سو پیسے ہوگئے تھے۔ وہ مزید حیران ہو کر پوچھنے لگا: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پہلے روپے میں چونسٹھ پیسے ہوں اور پھر سو پیسے ہو جائیں۔ میں نے کہا: برخوردار ! پہلے والا روپیہ غیر اعشاری نظام والا روپیہ تھا اور بعد والا اعشاری نظام والا تھا۔ پہلے روپے میں سولہ آنے ہوتے تھے اور ہرآنے میں چار پیسے ہوتے تھے‘ پھر ایوب خان کے زمانے میں یہ آنوں اور پیسوں والا روپیہ ختم کرکے100 پیسوں والا روپیہ جاری کیا گیا۔ اور چار آنے اور آٹھ آنے والا سکہ ختم کرکے پچیس پیسے اور پچاس پیسے والا سکہ رائج کیا گیا۔ ان دنوں عجب قسم کا حساب بازار میں چلتا تھا۔ پچاس اور پچیس پیسے والے سکوں کے علاوہ ایک ‘ دو ‘ پانچ اور دس پیسے کا بھی سکہ رائج ہوا۔ یہ نیا پیسہ سائز اور مالیت میں پہلے پیسے سے چھوٹا تھا‘ لہٰذا اسے '' ٹیڈی‘‘ پیسے کا نام دیا گیا۔ ہم لوگ آنوں ٹکوں میں حساب کیا کرتے تھے ‘لہٰذا ایک عجیب قسم کا لین دین ہونا شروع ہوگیا۔ ہم لوگ بازار سے چیز خریدتے وقت پانچ پیسے کے ساتھ ایک پیسہ ملا کر دوکاندار کو دیتے اور کہتے ایک آنے کی فلاں شے دے دو۔ چار پیسوں کی بجائے آنہ چھ پیسے کا ہوگیا۔ پچیس پیسے ایک عرصے تک چار آنے اور پچاس پیسے‘ یعنی آدھا روپیہ آٹھ آنے کہلاتا رہا۔ چار آنے کی اکٹھی ادائیگی کرتے تو پچیس پیسے خرچ ہو جاتے تھے۔ الگ الگ ایک آنے کی خریداری کرتے تو چار آنے کی چیز پچیس کی بجائے چوبیس پیسوں میں پڑتی۔ تو ہم یہ ایک پیسہ بچا کر بہت خوشی محسوس کرتے تھے ۔ 
اسد کہنے لگا :اور یہ دو دو ٹکے کے لوگ کون ہوتے ہیں ؟ میں نے کہا: یہ محاورہ ہے ۔ وہ کہنے لگا: یہ کیسا محاورہ ہے ؟ جس میں آئوٹ آف ڈ یٹ کرنسی کا ذکر ہے۔ میرا دل کیا میں اپنا سر پیٹ لوں۔ میں نے کہا :محاورہ Proverb ہوتا ہے۔‘یعنی کہاوت‘ ضرب المثل اور مقولہ ۔ اسے تم کسی شے سے منسوب مشہور بات بھی سمجھ سکتے ہو۔ یہ دو ٹکے کے لوگ ‘ دو ٹکے کی نوکری ‘ دو ٹکے کی بات وغیرہ کسی بے حیثیت اور اور کم قیمت یا گھٹیا شے سے مثال دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ دو ٹکے کے لوگ سے مراد گھٹیا ‘ فضول ‘ تھرڈ کلاس ‘ بے حیثیت اور ناکارہ لوگ ہیں۔ میں نے کہا: اس سے کہیں بہتر تھا کہ تم آج اخبار پڑھنے کا عظیم کارنامہ سرانجام ہی نہ دیتے تو بہت بہتر تھا۔ وہ کہنے لگا: اچھا یہ بتائیں کہ جبکہ اب ٹکا چلتا ہی نہیں اس کا محاورہ کیوں چل رہا ہے ؟ یہ اسے اپ ڈیٹ کیوں نہیں کر دیتے ؟ میں نے کہا: یہ محاورہ ہے تمہارا آئی فون نہیں‘ جس کا ہر سال نیا ماڈل اور ہر ماڈل میں دو چار ماہ بعد نیا ورژن آ جاتا ہے اور آپ اپنے فون کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کر لیتے ہو۔
اسد پوچھنے لگا کہ یہ فردوس عاشق اعوان کون ہیں ؟ میں نے کہا: خیر ہے ؟ اللہ تمہارا حافظ و ناصر ہو‘ یہ ایکدم سے تم نے فردوس عاشق اعوان کا کیوں پوچھ لیا ؟ وہ کہنے لگا: دراصل یہ فردوس عاشق اعوان کا بیان تھا کہ دو دو ٹکے کے لوگ ٹی وی پر بیٹھ کر حکومت کو ناکام کہہ رہے ہیں‘ پھر پوچھنے لگا :یہ فردوس عاشق اعوان کون ہیں ؟ میں نے کہا: یہ مشیر اطلاعات ہیں۔ اسد کہنے لگا :بابا جان ! یہ دو دو ٹکے والے کون لوگ ہوتے ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے‘ میں اسد کے اس سوال پر ایک بار تو پریشان ہوگیا ۔ مجھے بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں اس کے سوال کا کیا جواب دوں ؟ میں نے کہا: یہ دو دوٹکے والے لوگ میرے جیسے ہوتے ہیں‘ جن کے پاس دولت نہ ہو‘ اقتدار نہ ہو اورطاقت نہ ہو ‘ وہ اس ملک میں دو دو ٹکے کے لوگ ہیں۔
اسد ایکدم سنجیدہ ہوگیا اور کہنے لگا: بابا جان ! کیا انسان دو ٹکے کا ہوسکتا ہے ؟ جسے اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا ہو‘ وہ بھلا دو ٹکے کا ہوسکتا ہے ؟ کسی انسان کو یہ حق ہے کہ وہ کسی انسان کو دو ٹکے کا کہے ؟ کیا پتا اس شخص کا اپنے اللہ کے ہاں کیا مقام ہے ؟ اور جو شخص اللہ کے ہاں قیمتی ہے‘ اسے آپ دو ٹکے کا کیسے کہہ سکتے ہیں۔ جو شخص اس حکومت کو ناکام کہتا ہے ‘تو کیا وہ صرف اس جرم میںدو ٹکے کا ہو جائیگا؟ میں نے کہا: اس بیان کا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ جو بندہ بھی موجودہ حکومت کو ناکام کہتا ہے‘ وہ دو ٹکے کا ہے۔ تبھی تو میں کہہ رہا تھا کہ یہ دو دو ٹکے والے میرے جیسے ہوتے ہیں‘ جن کی کوئی بات ناپسند ہو ‘ان کو دوٹکے کا قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسد مطمئن نہیں ہو رہا تھا ‘کہنے لگا: کیا پڑھے لکھے لوگوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ سیاسی مخالفت کی بنیاد پر کسی شخص کو دو ٹکے کا قرار دیں ؟ بقول آپ کے‘ یہ دو ٹکے والا محاور دراصل گھٹیا ‘ فضول ‘ تھرڈ کلاس ‘ بے حیثیت اور ناکارہ لوگوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ آپ تو کہتے ہیں کوئی انسان گھٹیا فضول نہیں ہوتا‘ تو پھر اس بیان کا کیا مطلب ہے ؟ میں نے کہا: برخوردار ! دراصل ہم میں بحیثیت ِقوم برداشت کی قوت بتدریج کم ہو رہی ہے۔ حوصلہ ختم ہو رہا ہے۔ مخالفت کو برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہو رہی ہے۔ دوسروں کی بات سننے کی قوت کم ہو رہی ہے۔ دلیل سے بات کرنے کا کلچر انہدام پذیر ہے۔ ہم لوگ بے حوصلہ اور کم ہمت ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارا مخالف خواہ سیاسی ہو یا ذاتی‘ ہم اسے راندۂ درگاہ قرار دیتے ہیں۔ ہم اپنے مخالف کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کرتے جارہے ہیں۔ ہم اس نبی ؐ کے امتی ہیں‘ جو جان کے دشمنوں کیلئے بھی باعث رحمت تھا‘ جو رحمت اللعالمین تھا۔ خدا جانے ہم کہاں جارہے ہیں ؟ اور کدھر جا کر دم لیں گے۔ ہم کہاں پہنچ گئے جہاں؛ تحمل‘ برداشت‘ اخلاق‘ مروت‘ رواداری‘ عفو‘ چشم پوشی اور درگزر جیسی اعلیٰ صفات ہماری زندگی سے رخصت ہو گئی ہیں۔ اسد شاید میری گفتگو سے بور ہو گیا تھا۔ اس نے اخبار سمیٹ کر ایک طرف رکھا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں