"KMK" (space) message & send to 7575

اقوام متحدہ میں عمران خان کی تقریر

اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں زور دار تقریر نے مسئلہ کشمیر پر سابقہ حکومتی نا اہلی کے سارے ''دھونے دھو دیئے‘‘ ہیں۔ میں کالج اور یونیورسٹی کے زمانے میں اپنے تعلیمی اداروں کا بہترین مقرر تھا اور ایمرسن کالج ملتان سے اسی سلسلے میں دو عدد ''رول آف آنر‘‘ لینے والا تب پہلا طالبعلم تھا۔ بحیثیت ِایک مقرر اور اس سے بڑھ کر ایک پاکستانی سامع کے طور پر میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک بھرپور ‘ مکمل اور انتہائی زور دار تقریر تھی۔ اس موضوع پر اس سے بہتر تقریر کا صرف وہ لوگ تصور کر سکتے ہیں‘ جنہیں اپنے مخالفین کی کوئی بھی بات کبھی بھی پسند نہیں آتی۔ اور وہ بزعم خود اس سے بہتر تقریر کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ بلاول بھٹو نے کہا کہ عمران خان نے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا۔
میںنے بلاول بھٹو کا بیان پڑھنے کے بعد ماضی میں جھانکا اور پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خطاب کا مسودہ تلاش کرنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں سرکار نے کشمیر کو اتنی اہمیت ہی نہ دی تھی کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے چار سال سے زائد عرصہ وزارت ِعظمیٰ کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کی زحمت فرماتے۔ لے دے کر ایک حنا ربانی کھر تھی‘ جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ میں نے ازراہ تجسس محترمہ کی تقریر کا متن حاصل کیا۔ اس تقریر کو پڑھ کر‘ عمران خان کی تقریر سننے کے بعد بلاول بھٹو کے بیان پر غور کیا تو بلاول بھٹوکے بیان پر باقاعدہ شرم سی آئی۔ خدا جانے بلاول بھٹو نے یہ بیان دیتے ہوئے ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس کیا یا نہیں؟ دوسرے میرے محترم جاوید ہاشمی تھے‘ جنہوں نے اس تقریر پر اپنے دل کا پھپھولا جلاتے ہوئے فرمایا کہ عمران خان صرف کمنٹری اچھی کر سکتے ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے اگر جاوید ہاشمی کے طنز کو تھوڑا سا مثبت انداز میں لیں تو ان کا یہ بیان بھی عمران خان کی مدح سرائی اور ستائش بن جاتا ہے۔ عمران خان نے اقوام متحدہ میں جو تقریر کی‘ وہ کشمیر کی صورتحال پر ایک کمنٹری تھی اور عمران خان نے یہ کمنٹری خوب کی اور اس کا حق ادا کر دیا۔
میرے چاروں بچوں میں سے میری منجھلی بیٹی کو سیاست سے دلچسپی ہے‘ بلکہ دلچسپی بھی کیا؟ وہ پورے خاندان میں اپنی جنریشن کے حوالے سے سب سے زیادہ پرُجوش اور سرگرم سیاسی کارکن ہے۔ جب پاکستان میں تھی‘ تب خاندان کے سب بچوں کی سیاسی لیڈر تھی اور اپنی قیادت میں بچوںکو سیاسی جلسوں میں لے کر جایا کرتی تھی۔ جب سے پاکستان سے گئی ہے‘ بچوں کی سیاسی جلسوں میں شرکت کا باب ہی بند ہو گیا ہے۔ آج کل وہ کشمیر کے معاملے میں بڑی جذباتی ہے اور اس کی وجہ اس کے بھارتی ہم جماعت لڑکے اور لڑکیاں ہیں‘ جو اسے مسلسل تائو دلائے رکھتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے رتی برابر اونچ نیچ ہو جائے ‘اس کا برا حال ہو جاتا ہے اور غصے سے لال بھبھولا ہو جاتی ہے۔ جب سے کشمیر کی خصوصی اہمیت والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی اور مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا ہے‘ وہ روزانہ صرف ایک بات پوچھتی تھی کہ پاکستان کیا کر رہا ہے؟ کشمیر کی آزادی کے لیے پاکستان بھارت پر حملہ کیوں نہیں کر دیتا؟ میں نے اسے سمجھایا کہہ معاملات اتنے آسان اور سادہ نہیں‘ جتنے وہ سمجھ رہی ہے۔ جنگ کہنے کو صرف تین حرفی لفظ ہے ‘لیکن اس کی ہولناکی کا اسے اندازہ نہیں۔ پاکستان کی معاشی بدحالی اوپر سے سونے پر سہاگہ ہے۔روایتی جنگ میں بہادری‘ بے خوفی اور جذبہ یقینا بہت اہم چیز ہے‘ لیکن طاقت کا توازن اگر بہت خراب ہو تو بہادری‘ بے خوفی اور جذبہ بھی انفرادی کہانیوں سے زیادہ آگے نہیں جاتا اور سب سے بڑھ کر آج کے دور میں عالمی طاقتوں کی منافقت اور عالمی اداروں کی جانبداری نے حالات ہمارے لیے اس سے کہیں زیادہ خراب کر رکھے ہیں‘ جس کا ہم تصور کر سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی میں ہمیں ہمارے دوست مسلم ممالک نے ووٹ نہیں دیئے۔ صرف ووٹ! باقی حمایت تو ایک طرف رہی خفیہ رائے شماری میں بھی انہوں نے بھارت کی مخالف کرنا گوارہ نہیں کیا۔ ان کے دو تیل کے کنوئوں کو آگ لگ جائے تو ہمارا دل جل اٹھتا ہے اور ادھر ہماری شہ رگ ہندو بنئے نے دبوچ رکھی ہو تو وہ دامے‘ درمے‘ سخنے بھارت کی غیر مشروط حمایت میں لگے ہوتے ہیں۔ میری بیٹی کہنے لگی: تو یہ ایٹم بم ہم نے شادی پر ہونے والی آتش بازی کے لیے سنبھال کر رکھا ہوا ہے؟ میں نے کہا: دُور بیٹھ کر ایٹم بم بارے ایسی باتیں کرنا آسان ہے‘ بم کے اثرات آسٹریلیا تک جو نہیں جائیں گے۔ وہ زور سے ہنسی اور کہنے لگی: آپ لوگ تیار ہو جائیں ‘تو میں کل کی فلائٹ پر پاکستان واپسی کی ٹکٹ بک کروا لوں گی۔
کل اس کا فون آیا۔ فون کیا آیا؟ ہم سب لوگ یعنی میں‘ امریکہ والی بیٹی مع اپنے شوہر کے‘ اسلام آباد سے اسد‘ ملتان سے چھوٹی بیٹی اور آسٹریلیا سے سارہ۔ ہم سب ''میسنجر‘‘ میں بنائے گئے گروپ میں ویڈیو کال کر رہے تھے۔ وہ خوشی سے بے حال تھی۔ چھوٹتے ہی مجھ سے پوچھنے لگی: عمران خان کی تقریر کیسی تھی؟ میں نے کہا: میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اس سے بہترتو ایک طرف رہی‘ میں اگر خود بھی تقریر کرتا تو ایسی تقریر نہ کر سکتا۔ ہر شخص کو وہ بات اچھی لگتی ہے‘ جو وہ خود کہنا چاہتا ہو اور کوئی وہی بات کہہ دے۔ ایمانداری کی بات ہے‘ عمران خان نے اپنی تقریر میں وہ کچھ بھی کہہ دیا ہے ‘جو میرے خیال سے بھی آگے اور بہتر تھا اور جس زوردار انداز میں اس نے کہا ہے‘ وہ جرأت کا کام ہے۔ ماضی قریب میں ہمارا کون سا حکمران ایسا گزرا ہے‘ جو یہ بات کہہ سکے کہ اسی لاکھ کشمیریوں کو جس طرح محصور کرنے پر عالمی رائے عامہ خاموش ہے ‘اس طرح وہ آٹھ یہودیوں یا امریکیوں کو محصورکرنے پر خاموش رہ سکتی ہے؟ ہمارے کسی لیڈر کو یہ توفیق ہوئی ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی اہانت کو یہودیوں کی ہولو کاسٹ سے تشبیہ دے کر بات کرتا؟ اس نے میری بات سن کر خوشی بھرے لہجے میں کہا: کل سے میری کلاس کے بھارتی لڑکے اور لڑکیاں رونے والے ہوئے ہوئے ہیں اور ایسی ایسی جاہلانہ اور متعصبانہ گفتگو کر رہے ہیں کہ ان کی فرسٹریشن پر غصہ نہیں ہنسی آ رہی ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ عمران خان نے بے ایمانی کی اور Cheatingکرتے ہوئے زیادہ وقت لے لیا۔ مودی نے مدبرانہ گفتگو کی‘ جبکہ عمران خان نے جنگجویانہ لہجہ اختیار کیا۔ ان کی بے چینی اور رونا پیٹنا بتاتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی کشمیر پر مدلل تقریر نے ان کے سر میں جو ہتھوڑا مارا ہے‘ اس کی شدت سے وہ تلملا رہے ہیں۔
میری بڑی والی بیٹی کو نہ تو سیاست سے ہی کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی اس کے پاس شاید وقت ہوتا ہے کہ وہ ان چیزوں میں سر کھپاتی پھرے‘ لیکن کل وہ بھی بڑی جذباتی ہو رہی تھی ۔ امریکی میڈیا میں اس تقریر کے اثرات کے حوالے سے وہ اور اس سے کہیں بڑھ کر اس کا شوہر عہد آفرین خوش تھے اور اس تقریر کی امریکہ میں کوریج کے حوالے سے بڑے پرُ جوش تھے۔ سارہ کہنے لگی: بابا جان! آپ نے پوری تقریر سنی؟ میں نے کہا : بالکل سنی ہے۔ یوٹیوب ہوتا کس لیے ہے؟ وہ کہنے لگی‘ میں نے دوبار سنی ہے۔ یہ پچاس منٹ پر محیط تقریر تھی ‘جس میں آدھے سے زیادہ وقت صرف وہ کشمیر پر بولتے رہے ہیں۔ بقیہ چوبیس پچیس منٹ میں سے آدھے سے زیادہ وقت اس نے اسلامو فوبیا پر بات کی ہے۔ کون سا ایسا پاکستانی حکمران تھا‘ جس نے کشمیر پر کھل کر اس طرح بات کی‘ عالمی ضمیر کو اس طرح اسلامو فوبیا اور انتہا پسندی پر جھنجھوڑا ہو؟ 
کون ہے جس نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر کہا ہو کہ سرنڈر یا جنگ میں ایک آپشن کے طور پر قبول کرنے کا وقت آیا تو وہ جنگ کرے گا اور یہ جنگ اپنے سے سات گنا بڑے دشمن کے ساتھ آخری فتح تک جاری رہے گی اور بڑے واضح طور پر ایٹم بم کے استعمال کی آپشن استعمال کرتے ہوئے کہا کہ وہ اگر ایٹمی جنگ ہوئی تو پھر دنیا بھگتے گی۔یہ کہنا آسان نہیں کہ جو کچھ کشمیریوں کے ساتھ ہو رہا ہے اگر میرے ساتھ ہوتا تو میں بھی بندوق اٹھا لیتا۔ جس طرح انہوں نے ناموس رسالت ؐ پر بات کی ہے‘ کوئی ڈر کے مارے اتنے بڑے عالمی فورم پر یہ بات اتنے زور و شور اور شد و مد کے ساتھ کرتا؟ اپنے دوست مسلم ممالک کی بزدلی کی کیا بات کروں؟ ان کا تو اس تقریر پر جو حال ہوا ہوگا سو ہوا ہوگا ان کا تو جہاز بھی ڈر کے مارے جواب دے گیا۔ پھر پوچھنے لگی یہ گلالئی اسماعیل کون ہے جو عین اس دن جب ہمیں بطور پاکستانی وحدت کی ضرورت تھی وہ اقوام متحدہ کے باہر پاکستان کے خلاف بینر اٹھائے پہنچ گئی۔ اوپر سے اس کو پاکستان کی نہیں‘ پاکستان میں اپنے کتے کی بڑی فکر تھی۔ میں نے کہا :یہ وہ لوگ ہیں جو الطاف حسین کی طرح بالآخر پوری طرح ذلیل و رسوا ہو کر اس دنیا سے جائیں گے۔ رہ گئی بات پاکستان میں رہ گئے اس کے کتے کی۔ وہ بہر حال نمک حلال اور وفادار جانور ہے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے کبھی بھی پاکستان کے خلاف نہیں بھونکے گا اور جب پاکستان کے خلاف نہیں بھونکے تو بھلا اسے کسی قسم کا خوف کھانے اور دم دبا کر بھاگنے کی کیا ضرورت پیش آئے گی؟ سارہ کہنے لگی: عمران خان کی تقریر نے مودی کے ہیوسٹن والے جلسے کی ہوا نکال کر دل میں ٹھنڈ ڈال دی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں